میزبان : حدیث کے اندر یہ بات بیان ہوئی ہے کہ دریائے نیل اور فرات جنت کی نہریں ہیں اس کی حقیقت کیا ہے ؟کیا یہ بات سچ ہے ؟ کیونکہ منکرینِ حدیث اس بات پر شک کرتے ہیں ۔ حدیث کے اندر کن دریاؤں اور نہروں کا ذکر ہے، اور یہ اس وقت کہاں واقع ہیں؟
مہمان : اس مسئلے کا تعلق حدیث سے ہے نبیﷺ کی ہر بات وحی ہے اور وحی حق ہے اور حق اللہ کی طرف سے ہے اور کبھی نہیں ہو سکتا کہ حق اللہ کی طرف سے ہو، اور اس میں کوئی ایسی بات ہو ،جو عقل کے خلاف ہو۔جس طرح نیل اور فرات کے بارے میں آتا ہے کہ یہ جنت کی نہروں میں سے ہیں ۔ اس حوالے سے بہت سی احادیث ہیں ۔سب سے پہلی حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ہے۔ جو کہ واقع معراج میں ذکر کی گئی ہے۔ اس میں اللہ کے نبی ﷺنے جب واقع معرج بیان کیاکہ جب آپﷺ سدرة المنتهى پہ پہنچے ،اور وہاں پر جو چیزیں دیکھیں، آپﷺ فرماتے ہیں کہ جب مجھے سدرة المنتهى تک لایا گیا۔ معراج کی رات تو میں نے چار نہریں دیکھیں، دو نہریں ظاہری ہیں اور دو باطنی،(صحیح البخاری 5610)
نیل اور فرات ظاہری نہریں تھی، باطنی نہریں جنت کی دو نہریں تھی۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دریا یا نہریں جنت میں سے ہیں۔ایک دوسری حدیث ہے، اسکے راوی ابو ہریرہ ہیں ۔نبیﷺنے فرمایا سیحان اور جیحان، نیل اور فرات جنت کی نہروں میں سے ہیں ۔(صحیح مسلم2839)یہ چاروں نہریں اس وقت کہاں واقع ہیں ؟
دریائے نیل مصر میں اور دریائے فرات عراق میں ہے اور ان نہروں کے بارے میں علماء کی دو رائےہیں ۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ ارمن کا جو علاقہ تھا۔ یعنی” اناتولیہ” ترکی اور شام کے درمیان واقع ہے۔ یہ نہریں وہاں واقع ہیں بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ نہریں،تجستان ایک ریاست ہے۔اس میں یہ موجود ہیں ،ان کے نام اور ہیں ۔ سیخان اور جیحان نہیں بلکہ سیحوں اور جیحوں ہے جو راجعی قول ہے ۔وہ یہ ہے کہ یہ ترکی اور شام کا درمیانی علاقہ ہےاسے اناتولیہ کہا جاتا ہے اور یہ نہریں وہاں واقع ہیں ۔
میزبان : منکرین حدیث کہتے ہیں کہ اگر یہ جنت کی نہریں ہیں تو ہم ان سے پانی پیتے ہیں ,پھر کیوں پیاس لگتی ہے ،یہ عقل کے خلاف ہے ۔دوسرا ان کا اعتراض یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ابو ہریرہ نے یہ روایات بنی اسرائیل سے لی تھی، اس بارے میں کیا بیان ہے۔
مہمان : یہ حدیث بخاری اور مسلم میں موجود ہے ۔ صحیح سند کے ساتھ ،جسطرح ہمارا قرآن کی حجیت پر ایمان ہے ،اسی طرح حدیث کی حجیت پر بھی ایمان ہے۔جن شروط کے ساتھ محدثین نے احادیث ہم تک پہنچائی ہیں۔ ان شروط پر مشترقین نے بھی اعتراف کیا ہےکہ مسلمانوں کے پاس حدیث کو محفوظ کرنے اور تاریخی واقعات کو محفوظ کرنے کے جو طریقے اور شروط ہیں ۔ کسی دوسری امت کے پاس نہیں ہیں ۔نبی ﷺکے قول، افعال ،اور اعمال ان شروط کے ساتھ ہمارے پاس محفوظ ہیں۔ اور ہمارا ان پر ایمان اور یقین ہے ۔ جب ہم نبی ﷺکی احادیث کو سنتے ہیں ۔ تو اس کو اسی طرح سے سنتے اورعمل کرتے ہیں ،جیسے نبی ﷺکو سن رہے ہیں ۔اگر ہم شک میں رہیں گے توہم عمل کیسے کریں گے،جیسا ہمارا ایمان قرآن پر ہے۔ ایسا ہی ہمارا ایمان بخاری و مسلم کی احادث پر بھی ہےاور جو باقی کتب کی احادیث ہیں، وہ بھی اگر صحیح شروط کے ساتھ ہیں، تو ان پہ بھی ہمارا ایمان پختہ ہے۔دوسری بات یہ کہنا کہ یہ خلاف واقع ہیں،تو جو تفسیر اس کی محدثین اور آئمہ نے کی ہےاس کے بعد ہمارے اندر کوئی اشکال نہیں رہے گا۔سب سے پہلی بات کہ کہا گیا کہ جنت کی نہروں میں سے ہیں ۔اس کا پہلا معنی کہ جنت کی نہروں سے ملتی جلتی ہیں کہ جیسے جنت کے پانی کے اندر میٹھاس ہو گی ، وہی میٹھاس ہے ان کے پانی میں ،مصر کے ایک آدمی سے بات ہوئی کہ نیل اور فرات کا پانی کیسا ہے ۔اس نے بتایا کہ اس پانی کے اندر جو تاثیر دیکھی ہے۔ فصلوں انسانوں اور جانوروں کے لے ،وہ واقع میں ہے۔وہ تاثیر اور میٹھاس کسی اوردریا میں نہیں ہے۔جو نیل کا پانی استعمال کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جو برکات نیل کے پانی کے اندر دیکھی وہ کسی اور پانی میں نہیں، اسی طرح فرات کا پانی بھی ہے۔ وہاں کے لوگوں کی عملی گواہی ہے۔ نبیﷺنے اس پانی کو تشبیع دی جنت کی نہروں کے ساتھ کہ اس میں خیر و برکت زیادہ ہے۔ یہ خلاف واقع بات نہیں ہے۔ دوسرا یہ حقیقت پر معمول ہے کہ جب ان نہروں کو دریا میں چلایا تو ان میں جنت کا پانی ڈالا گیا۔ یعنی یہ جنت کی نہریں تھی، اور جب ان کو دنیا میں لایا گیا تو ان کا بہاؤ اور ذائقہ دنیا جیسا ہو گیا۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ حجر اسود جنت کے پتھروں میں سے ایک پتھر ہے۔ مگر لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے کالا ہوتا جا رہا ہے۔ (سنن الترمزی877)
حدیث میں آتا ہے جنت تلواروں کے سائےکےنیچے ہے۔ (صحیح البخاری 2818)
جو عربی زبان کی فصاحت و بلاغت سے ناواقف ہیں ۔ وہ یہ بات کرتا ہے عربی زبان بہت واسع ہے ۔اور اس کے ایک معنی میں بہت سے معنی چھپے ہوتے ہیں۔دریائےنیل و فرات کو تشبیع دی گئی ہے جنت کی نہروں سے اور دوسرا اس کا میٹریل جنت کے پانی سے ہے۔دریائے نیل اور فرات جنت کی نہروں میں سے ہے۔ یہ حدیث صحیح سند کے ساتھ ہمارے پاس موجود ہے۔ لہذا اس میں ہمیں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں کرنا چاہیے۔