وعنه رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ليس الشديد بالصرعة وإنما الشديد الذى يملك نفسه عند الغضب [متفق عليه]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”بہت زیادہ طاقتور وہ نہیں جو (مقابل کو) بہت زیادہ پچھاڑنے والا ہے، بہت زیادہ طاقتور صرف وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابورکھے۔ “ [متفق عليه ]
تخریج : [بخاري 1612] ، [مسلم البر والصلة 107]
وغيرهما اور دیکھئے تحفة الاشراف [332/9] ، [14/10]
مفردات : الصرعة – صاد کے ضمہ اور راء اور عین کے فتحہ کے ساتھ بروزن ” هُمَزَة “ جو اپنی قوت سے دوسروں کو پچھاڑ دے۔ اگر راء کے سکون کے ساتھ ہو الصُّرْعَةُ تو اس کا معنی ہو گا وہ شخص جسے دوسرے پچھاڑ دیں۔ اسی طرح ” ضُحْكَةٌ، خُدْعَةُ وغيرہ جس پر دوسرے ہنسیں، جسے دوسرے دھو کہ دیں۔ ”تا “ صفت مثبہ میں مبالغہ کے لئے ہے تانیث کے لئے نہیں۔
فوائد :
➊ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے غصے پر قابو پانے والوں کی تعریف فرمائی ہے۔
وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ [42-الشورى:37]
”وہ لوگ جو بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں اور جب غصے میں آتے ہیں تو معاف کر ریتے ہیں۔“
اور فرمایا :
الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ [3-آل عمران:134]
”وہ لوگ جو خوشی اور تکلیف میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جانے والے ہیں۔“
➋ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جو کشتی کر رہے تھے فرمایا : کیا ہو رہا ہے ؟ انہوں نے کہا: فلاں آدمی جس سے بھی کشتی کرتا ہے اسے پچھاڑ (گرا) دیتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں تمہیں اس سے زیادہ طاقت والا آدمی نہ بتاؤں؟ وہ آدمی جس سے کسی آدمی نے (غصہ دلانے والی ) بات کی تو وہ اپنے غصے کو پی گیا پس اس پر غالب آ گیا اپنے شیطان پر غالب آ گیا اور اپنے ساتھی کے شیطان پر غالب آ گیا۔ [رواه البزار بسند حسن فتح الباري 10 كتاب الادب باب 76 ]
صحیح مسلم میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم اپنے آپ سے الصُّرَعَةُ پچھاڑنے والا کسے شمار کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: جسے آدمی پچھاڑ نہ سکیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”پچھاڑنے والا صرف وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔“
➌ غصے پر قابو پانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی طریقے سکھائے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ غصے کو بھڑکانا اصل میں شیطان کی طرف سے ہوتا ہے اس لئے اس کا علاج بھی یہی ہے کہ شیطان سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کی جائے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ [7-الأعراف:200]
”اگر تمہیں شیطان کی طرف سے چوکا لگے (یعنی شیطان غصے کو مشتعل کر دے ) تو اللہ کی پناہ مانگ یقیناً وہی سننے والا جانے والا ہے۔“
سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا دو آدمی آپس میں گالی گلوچ کر رہے تھے ان میں سے ایک کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اور گلے کی رگیں پھول گئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے کہ اگر یہ وہ کلمہ کہہ لے تو اس کی یہ حالت ختم ہو جائے اگر یہ کہہ لے أعُوذُ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ تو جو کچھ اس پر گزر رہی ہے ختم ہو جائے۔“ [بخاري 3282]
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إذا غضب أحدكم فليسكت ”جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو خاموش ہو جائے۔ “ [احمد- صحيح الجامع 693 ]
”ابوذر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اگر غصہ ختم ہو جائے تو بہتر ورنہ لیٹ جائے۔ “ [احمد، ابوداؤد، ابن حبان، صحيح الجامع 694 ]
➍ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی قوت جسمانی قوت نہیں بلکہ معنوی قوت ہے۔ تو جس طرح اجنبی دشمنوں سے جو اللہ کے دین کی مخالفت کریں مقابلہ ضروری ہے اور اس کے لئے قوت کی ضرورت ہے اسی طرح نفس جب اللہ کے احکام کی مخالفت پر اتر آئے خصوصاً جب وہ غصے میں مشتعل ہو چکا ہو اور شیطان اس کو برابر بھڑکا رہا ہو زبان سے گالی گلوچ ہاتھ سے مارنے اور قتل کرنے پر آمادہ ہو، چہرہ سرخ بلکہ سیاہ ہو چکا ہو جسم پر کپکپی طاری ہو رگیں پھول چکی ہوں، دل بغض اور کینے سے بھر چکا ہو۔ اس وقت اس کا
مقابلہ اور اس پر قابو پانا بھی دشمن پر قابو پانے سے بھی مشکل ہے اس لئے جو اس پر قابو پائے اس نے گویا کئی حریفوں کو زیر کیا اس لئے اصل بہادر اور پہلوان وہ ہے۔
➎ غصہ ایک طبعی خصلت ہے اسے روکنے اور اس پر قابو پانے کا حکم اس وقت ہے جب اس کی وجہ سے اللہ کے احکام کی مخالفت لازم آرہی ہو۔ ہاں اللہ کے احکام کی حفاظت کے لئے اللہ کی نافرمانی کو روکنے اور اللہ کے دشمنوں سے لڑنے کے لئے غصہ آئے تو قابل تعریف ہے اور اللہ کی عطا کی ہوئی بہت بڑی نعمت ہے۔ اللہ کے احکام کی پامالی کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سخت غصے میں آ جاتے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ رحمہ الله نے صحیح میں اس سلسلے میں پانچ احادیث بیان کی ہیں۔ دیکھئے : کتاب الادب باب ما يجوز من الغضب والشدۃ لامر اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ [9-التوبة:73]
”اے نبی ! کفار اور منافقین سے جہاد کر اور ان پر سخت کر۔“