Search

خطبہ جمعہ کے دوران آنے والا دو رکعتیں پڑھےگا

تحریر : حافظ ابویحییٰ نورپوری

دلیل نمبر 
عن جابربن عبدالله قال : جاء سليك الغطفاني يوم الجمعة و رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب، فجلس، فقال له، يا سليك ! قم فاركع ركعتين، وتجوزفيهما، ثم قال : اذا جاء أحدكم، يوم الجمعة، والامام يخطب، فليركع ركعتين، وليتجوز فيهما .
” سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، سلیک غطفانی رضی اللہ عنہ آئے اور بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے سلیک ! کھڑے ہو کر دو مختصر رکعتیں ادا کرو، پھر (لوگوں سے مخاطب ہو کر ) فرمایا، جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن امام کے خطبے کے دوران آئے تو دو مختصر سی رکعتیں پڑھے پھر بیٹھے۔ “ [ صحيح البخاري : 1166، صحيح مسلم : 875، واللفظ له ]

دلیل نمبر 
عن عياض أن ابا سعيد الخدري دخل يوم الجمعة و مروان يخطب فقام يصلي، فجاء الحرس ليجلسوه فابيٰ حتي صلى، فلما انصرف أتيناه فقلنا : رحمك الله ان كادوا ليقعوا بك، فقال : ماكنت لاتركهما بعد شئ رأيته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم ذكر أن رجلا جاء يوم الجمعة فى هيئة بذة و النبى صلى الله عليه وسلم يخطب يوم الجمعة فأمره فصلي ركعتين والنبي صلى الله عليه وسلم يخطب .
”عیاض رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ جمعہ والے دن مروان کے خطبہ کے دوران مسجد میں داخل ہوئے، آپ نے کھڑے ہو کر نماز شروع کر دی، سپاہی آپ کو بٹھانے کے لیے آئے، لیکن آپ نے انکار کر دیا اور نماز پڑھی، جب آپ فارغ ہو گئے تو ہم آپ کے پاس آئے اور عرض کی، اللہ آپ پر رحم فرمائے ! یقیناً وہ سپاہی ( آپ کے انکار کے باعث ) آپ پر حملہ کر دیتے، آپ نے فرمایا، میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذیل میں آنے والے واقعہ کو دیکھنے کے بعد کسی صورت میں بھی ان دو رکعتوں کو نہیں چھوڑ سکتا، پھر آپ نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ کے دوران ایک آدمی پراگندہ حالت میں داخل ہوا، آپ نے اسے دو رکعتیں پڑھنے کا حکم دیا، اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ کے دوران دو رکعتیں ادا کیں۔ “ [ جامع ترمذي 511، مسند حميدي : 326/2- 327، سنن كبري بيهقي : 194/3، الاوسط لابن المنذر : 96/4 ح : 1843، مسند دارمي : 1593 و سنده صحيح ]
↰ اس روایت کو امام ابن خزیمہ [1830] اور امام ابن حبان [2505] رحمہما اللہ نے ”صحیح“ اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن صحیح “کہا ہے۔
◈ امام عبداللہ بن عون رحمہ اللہ کہتے ہیں :
كان الحسن يجي والامام يخطب فيصلي ركعتين .
”امام حسن بصری رحمہ اللہ دوران خطبہ تشریف لاتے تو دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ “ [ مصنف ابن ابي شيبه : 111/2، ح 5165، وسنده صحيح ]
◈ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
انما فعل الحسن اتباعا للحديث، وهو روي عن جابر عن النبى صلى الله عليه وسلم هذا الحديث .
”بلاشبہ امام حسن بصری رحمہ اللہ نے حدیث کی اتباع میں یہ کام کیا ہے، انہوں نے ہی جابر رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی ہے۔ “ [ جامع ترمذي تحت حديث : 511 ]
◈ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ (م198ھ ) جو کہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث کے راوی ہیں، خطبہ جمعہ کے دوران آنے پر دو رکعت ادا کر کے بیٹھتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کا حکم دیتے تھے۔
◈ امام ترمذی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں :
قال ابن أبى عمر : كان سفيان بن عيينه يصلي ركعتين اذا جاء والامام يخطب وكان يامر به .
”محمد بن یحییٰ بن ابی عمر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ جب امام کے خطبہ جمعہ کے دوران آتے تو دو رکعت ادا فرماتے تھے، نیز اس کا حکم بھی دیتے تھے۔ “ [ جامع ترمذي ح 511 ]
◈ امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ امام ابوعبدالرحمن عبداللہ بن یزید المقری رحمہ اللہ (م213ھ ) کا بھی یہی خیال تھا۔ [ جامع ترمذي تحت حديث 511 ]
◈ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والقول الاول أصح .
”پہلا قول ( خطبہ کے دوران دو رکعت ادا کرنا ) راجح ہے۔ “ [ جامع ترمذي تحت حديث 511 ]
◈ امام شافعی رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل تھے۔ [ جامع ترمذي تحت حديث 511، وسنده صحيح ]
◈ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔ [ جامع ترمذي تحت حديث 511، مسائل احمد لابنه عبدالله : 122 ]
◈ امام اسحٰق بن راہویہ رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں۔ [ جامع ترمذي تحت حديث 511 ]
عن أبى مجلز قال : اذا جئت والامام يخطب يوم الجمعة فان شئت ركعت ركعتين وان شئت جلست .
”امام ابومجلز کی بات کا دوسرا جز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے موافق نہیں، لہٰذا ان کی یہ بات قابل قبول نہیں۔“
فائدہ :
◈ امام ترمذی رحمہ اللہ ایک روایت کے تحت فرماتے ہیں :
لأن ابن عمر هو روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو أعلم بمعنيٰ ما رويٰ .
” سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت بیان کی ہے اور وہی اپنی روایت کے مفہوم کو بخوبی جانتے ہیں۔ “ [جامع ترمذي تحت حديث : 1245 ]
◈ علامہ عینی حنفی لکھتے ہیں :
الصحابي الراوي أعلم بالمقصود .
” حدیث کو روایت کرنے والے صحابی اپنی روایت کے مقصود کو سب سے بڑھ کر جاننے والے ہوتے ہیں۔ “ [ عمدة القاري : 16/4 ]
◈ مشہور غیر اہلحدیث جناب محمد سرفراز خاں صفدر دیوبندی حیاتی صاحب لکھتے ہیں :
” اور یہ بات باقرارمبارکپوری صاحب اپنے مقام پر آئے گی کہ راوی حدیث خصوصا جبکہ صحابی ہو، اپنی مروی حدیث کو مراد کو دوسروں سے بہتر جانتا ہے۔ “ [احسن الكلام : 268/1 ]
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطبہ کے دوران دو رکعت نماز کے حکم کو بیان کرنے والے صحابی سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے آپ کی وفات کے بعد مروان کے دور حکومت میں خطبہ کے دوران دو رکعت پڑھنا، ہم پیچھے ثابت کر آئے ہیں۔
محدثین تو مانتے ہی ہیں، اب دیوبندی اصول کے مطابق بھی ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کا عمل خصوصا اور امام حسن بصری و سفیان بن عینیہ رحمہما اللہ کا عمل عموماٍ اس حدیث سے سلیک رضی اللہ عنہ کے علاوہ بھی ہر آدمی سے جو خطبہ جمعہ کے دوران آتا ہے، دو رکعات نماز ادا کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔

یہ حدیث محدثین کی نظر میں :
اب ہم محدثین کرام کے ارشادات کی روشنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا جائزہ لیتے ہیں کیونکہ محدثین اپنی روایات کو مقلدین سے بہتر جانتے ہیں اور بقول جناب سرفراز خاں صفدر صاحب اس روایت کو بیان کرنے والے محدثین خصوصا نہ سہی عموما تو اپنی روایات کو دوسرے لوگوں سے بہتر جانتے ہیں۔
◈ امام الائمہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ( 223- 311ھ) اس حدیث پر یوں باب قائم فرماتے ہیں :
باب الأمر بتطوع ركعتين عند دخول المسجد وان كان الامام يخطب خطبة الجمعة، ضد قول من زعم انه غير جائز أن يصلي داخل المسجد والامام يخطب .
” امام جمعہ کا خطبہ بھی دے رہا ہو تو مسجد میں داخل ہونے والے کو دو نفل پڑھنے کا حکم کا بیان، بخلاف اس شخص کے جو امام کے خطبہ کے دوران مسجد میں داخل ہونے والے کے لئے اس کو ناجائز قرار دیتا ہے۔ “ [صحيح ابن خزيمه باب 91، ح : 1830 ]
◈ امام ابن المنذر رحمہ اللہ( م 318 ھ ) فرماتے ہیں :
يصلي اذا دخل والامام يخطب ركعتين خفيفتين صلى فى منزله او لم يصل، لأن النبى صلى الله عليه وسلم أمر بذالك الداخل فى المسجد وأمره على العموم .
”امام کے خطبہ کے دوران کوئی مسجد میں داخل ہو تو وہ دو رکعت نماز ادا کرے گا، خواہ اس نے گھر میں نماز پڑھی ہو یا نہ پڑھی ہو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں داخل ہونے والے کو بالعموم یہ حکم دیا ہے۔ “ [ الاوسط لابن المنذز 94/4 تحت حديث 535 ]
◈ امام ابومحمد عبداللہ بن عبدالرحمن الدارمی رحمہ اللہ ( 181- 255ھ) جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اور امام حسن بصری رحمہ اللہ کا اس پر عمل ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
أقول به . ”میرا بھی یہی فتوی ہے۔ “ [ سنن دارمي : 971/2، تحت حديث : 1594 ]
◈ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ (م456ھ )کا فتوی بھی ملاحظہ فرمائیں :
ومن دخل يوم الجمعة والامام يخطب فليصل ركعتين قبل أن يجلس .
”جو جمعہ کے دن خطبہ کے دوران آئے اسے چاہیے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعات ادا کر لے۔ “ [ المحلي لابن حزم 68/5، مسئله 531 ]
◈ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
نقول و نأمر من دخل المسجد والامام يخطب، والمؤذن يؤذن، ولم يصل ركعتين، أن يصليهما ونأمر أن يخففهما، فانه روي فى الحديث أن النبى أمر بتخفيهما .
”ہم یہی کہتے ہیں اور حکم بھی دیتے ہیں کہ جو شخص خطبہ جمعہ یا اذان کے دوران مسجد میں داخل ہو، اس نے دو رکعتیں نہ پڑھی ہوں تو وہ دو رکعتیں پڑھ لے، نیز ہم اسے مختصر پڑھنے کا حکم دیں گے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے ان کو مختصر کرنے کا حکم فرمایا تھا۔ “ [ الام 227/1 ]
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
هذه الأحاديث كلها صريحة فى الدلالة لمذهب الشافعي و أحمد و اسحاق و فقهاء المحدثين أنه اذا دخل الجامع يوم الجمعة و الامام يخطب استحب أن يتجوز فيهما ليسمع بعدهما الخطبة وحكي هذا المذهب أيضا عن الحسن البصري وغيره من المتقدمين .
”یہ ساری کی ساری احادیث امام شافعی، احمد، اسحٰق رحمہم اللہ اور فقہاء محدثین کے مذہب پر صریح دلالت کرتی ہیں، جو شخص دوران خطبہ مسجد میں داخل ہو، اس کے لئے دو رکعت بطور تحیۃ المسجد مستحب ہیں، ان کو ادا کئے بغیر بیٹھنا مکروہ ہے، ان دو رکعتوں میں اختصار سے کام لینا بھی مستحب ہے، تاکہ ان کے بعد خطبہ سنا جا سکے، یہی مذہب امام حسن بصری رحمہ اللہ وغیرہ متقدمین ائمہ سے منقول ہے۔ “ [ شرح مسلم للنووي 287/1 ]
تنبیہ :

جناب محمد سرفراز خاں صفدر دیوبندی حیاتی صاحب کہتے ہیں :
امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم ص 782 ج 1 میں لکھتے ہیں :
وقال الملك والليث و ابوحنيفة والثوري و جمهور السلف من من الصحابة والتابعين لايصليها وهو مروي عن عمر و عثمان و على رضي الله عنهم اجمعين و حجتهم الامر بالانصات للامام…… [ خزائن السنن : 419- 420 ]

↰ جناب دیوبندی صاحب کی دیانت علمی کا اندازہ لگائیں، دلائل و براہین سے تہی دست ہو کر تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے قاضی عیاض کی یہ عبارت حافظ نووی رحمہ اللہ کے ذمہ تھوپ دی جبکہ حافظ نووی رحمہ اللہ کا واضح موقف ہم ذکر کر چکے ہیں۔
جہاں تک قاضی عیاض کی عبارت کا تعلق ہے تو یہ سراسر باطل اور مردود ہے، جمہور تو درکنار کسی ایک صحابی سے بھی یہ بات قطعاً ثابت نہیں ہے کہ دوران خطبہ آنے والا دو رکعت نہ پڑھے، بلکہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی رسول مر مٹنے کے لئے تیار ہو گئے، مگر دوران خطبہ دو رکعتیں نہیں چھوڑیں۔
◈ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
ويقضي العجب من الشيخ النووي كل العجب حيث حكي عن القاضي عياض أنه هو مذهب الجمهور من الصحابة و الخلفاء و الراشدين .
”یہ بہت ہی تعجب کی بات ہے کہ امام نووی نے قاضی عیاض سے نقل کر دیا ہے کہ یہی جمہور صحابہ کرام اور خلفائے راشدین کا مذہب ہے۔ “ [ فيض الباري از انور شاه كشميري : 338/2 ]
↰ مقلدین کو چاہیے کہ وہ اپنے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے باسند صحیح دوران خطبہ ان دو رکعتوں کی ممانعت ثابت کریں، ورنہ ماننا پڑے گا کہ وہ اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ کے مقلد نہیں ہیں۔
ہمارا دعوی ہے کہ تقلید پرستوں کے پاس اس مسئلہ میں کوئی ضعیف روایت بھی نہیں ہے۔

مانعین کے دلائل :
دلیل نمبر 

جناب محمد سرفراز خاں صفدر دیوبندی حیاتی صاحب کہتے ہیں :
”بخاری ص 121 ج 1، مسلم ص 283 ج 1اور موارد الظمان ص 148 میں ہے، واللفظ للبخاري يصلي ما كتب له ثم ينصت اذا تكلم الامام . الحديث، اور موارد الظمان ميں يه لفظ هيں : ثم ركع ماشاء الله ان يركع ثم انصت اذا خرج امامه . اس صحیح روایت سے پتا چلا کہ امام کے خطبہ سے پہلے تو نماز پڑھ سکتا ہے لیکن اذا تكلم الامام کے بعد گنجائش نہیں ہے۔ “ [خزائن السنن : 170/2 ]

اولاً : سرفراز صاحب کے مشارالیہ روایت کے مکمل الفاظ ملاحظہ ہوں :
عن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال : من اغتسل ثم أتي الجمعة فصلي ماقدرله ثم انصت حتي يفرغ من خطبته ثم يصلي معه غفرله مابينه و بين الجمعة الأخري و فضل ثلثة ايام .
” سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص غسل کرتا ہے، پھر جمعہ میں حاضر ہوتا ہے، جتنی اللہ توفیق دے نماز ادا کرتا ہے، پھر (امام کے ) خطبہ سے فارغ ہونے تک خاموش رہتا ہے، پھر اس کے ساتھ (جمعہ کی) نماز ادا کرتا ہے، اس کے پچھلے جمعہ سے اب تک کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ساتھ ساتھ تین دنوں کے گناہ مزید معاف کر دیے جاتے ہیں۔ “
غور فرمائیں کہ سرفراز صفدر صاحب نے کج فہمی یا محض تعصب کی وجہ سے اس روایت سے استدلال کیا ہے حالانکہ ہمارا نزاع دوران خطبہ آنے والے شخص کے بارے میں ہے، نہ کہ امام کے آنے سے پہلے ہی مسجد میں پہنچ جانے والے آدمی کے بارے میں۔
جو آدمی امام سے پہلے ہی مسجد میں پہنچ کر نوافل ادا کر رہا ہے، اس کے بارے میں تو ہمارا بھی یہی موقف ہے کہ وہ نوافل پڑھنا بند کر کے امام کا خطبہ سنے گا، اس روایت کو پیش کر کے صفدر صاحب نے کوئی علمی پہاڑ سر نہیں کیا بلکہ اس سے تو صرف اس مسئلہ میں ان کی بے بسی ظاہر ہوئی ہے۔
ثانیاً : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح فرمان اذا جاء احدكم يوم الجمعة والامام يخطب فليركع ركعتين کے بعد ان دو رکعتوں سے روکنے والے پر لازم ہے کہ وہ دوران خطبہ خاص ان دو رکعتوں کی ممانعت میں کوئی صریح دلیل پیش کرے۔
ثالثاً : ثم ينصت اذا تكلم الامام سے دوران خطبہ دو رکعتوں کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ یہ دو رکعتیں انصات کے خلاف نہیں، آپ کے اقوال آپس میں متعارض نہیں ہو سکتے۔
خود احناف بھی تو اسے انصات کے خلاف نہیں سمجھتے، جب کوئی آدمی قرآن سنے تو اسے انصات کا حکم ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ احناف کے ہاں صبح کی نماز کے دوران قرآت آنے والا بھی جلدی سے دورکعت نفل ادا کر سکتا ہے، کیا صفدر صاحب کو یہاں انصات کا خیال نہیں رہا ؟
——————
دلیل نمبر 

جناب محمد سرفراز خاں صفدر دیوبندی حیاتی صاحب لکھتے ہیں :
” مجمع الزوائد ص 171ج 2میں روایت ہے : عن نیشۃ الہذلی کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فان لم يجد الامام خرج صلى ما بداله وان وجد الامام قد خرج جلس فاستمع وانصت، الحديث، علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح خلا شيخ أحمد وهو ثقه . “ [ خزائن السنن : 170/2 ]

جواب :
اولاً : صفدر صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ صرف علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کا قول رجاله رجال الصحيح نقل کرنے سے روایت صحیح نہیں ہو جائے گی، کیونکہ اصول حدیث میں کسی روایت کی صحت کے لئے صرف راویوں کا ثقہ ہونا کافی نہیں، بلکہ اتصال سند بھی ضروری ہے، جس سے آپ بہت گریزاں ہیں، ذرا عطاء الخراسانی جو کہ ”حسن الحدیث“ راوی ہیں، ان کا نبیشہ الہذلی رضی اللہ عنہ سے سماع تو ثابت کریں، اس روایت میں دو علتیں ہیں :
① عطاء الخراسانی رحمہ اللہ مدلس اور کثیر الارسال راوی ہیں، یہاں سماع کی صراحت نہیں مل سکی۔
② ان کا نبیشہ الہذلی رضی اللہ عنہ سے تو کجا کسی بھی صحابی سے سماع سرے سے ہی ثابت نہیں۔ [تقريب التهذيب ]
ثانیاً : صفدر صاحب نے علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کا رجاله رجال الصحيح کہنا بلا نکیر نقل کر دیا ہے، یہ بھی ان کی خطاء یا تغافل ہے، کیونکہ عطاء الخراسانی رحمہ اللہ صحیح بخاری کے راوی نہیں ہیں، جیسا کہ فضیلۃ الشیخ ارشا الحق اثری حفظہ اللہ تعالیٰ نے توضیح الکلام ص 172 ج 2 میں محقق و مدلل بحث سے ثابت کر دیا ہے، شائقین مراجعت فرما کر مستفید ہوں۔
③ جناب محمد سرفراز خاں صفدر دیوبندی حیاتی صاحب لکھتے ہیں :

”جمہور یہ جواب دیتے ہیں کہ آنے والے کا نام سلیک عطفانی تھا، یہ شخص بڑ ا فقیر اور خستہ حال تھا، آپ لوگوں سے اس کے لئے چندہ مانگنا چاہتے تھے، آپ نے اس کو حکم دیا کہ اٹھ کر دو رکعت پڑھ، مطلب یہ تھا کہ لوگ اس کی خستہ حالی کو دیکھ لیں اور اس پر صدقہ کریں، چنانچہ نسائی ص 158 ج 1 میں روایت ہے : جاء رجل… . . “ [خزائن السنن : 170/2 – 171 ]

جواب :
اولاً : ہم صفدر صاحب سے یہ پوچھنے کی جسارت کریں گے کہ جمہور کون ہیں ؟ کیا سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ، سفیان بن عینیہ، حسن بصری، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام اسحٰق راہویہ، امام ترمذی، امام بخاری، امام مسلم، شیخ بخاری عبداللہ بن یزید المقری، امام ابن خزیمہ، امام ابن المنذر، امام دارمی، علامہ ابن حزم اور امام ابن حبان رحمہم اللہ کے مقابلے میں امام ابن سیرین، امام سفیان ثوری اور عروہ رحمہم اللہ جمہور کہلائیں گے ؟ ہم پچھلے صفات میں ثابت کر چکے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ سے بسند صحیح ان دو رکعتوں کی ممانعت ثابت نہیں، نیز جمہور صحابہ تو درکنار کسی ایک صحابی سے بھی یہ بات پایہ ثبوت کو نہیں پہنچ سکی۔
◈ حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كل من نقل عنه يعني من الصحابه منع الصلاة و الامام يخطب محمول على من كان داخل المسجد لأنه لم يقع عن أحدمنهم التصريح بمنع التحية وقد ورد فيها حديث يخصها فلا يترك بالاحتمال .
”جن صحابہ سے حالت خطبہ میں نماز سے روکنا منقول ہے وہ مسجد میں پہلے سے موجود لوگوں کے بارے میں ہے، کیونکہ کسی ایک صحابی سے بھی ان دو رکعتوں کا بطور تحیۃ المسجد صراحتاً ممنوع ہونا ثابت نہیں، اس بارے میں خصوصا ایک حدیث بھی آ گئی ہے، لہٰذا اسے احتمالاً ترک کرنا درست نہیں۔ “ [فتح الباري : 114/2، تحفة الاحوذي : 364/1 ]
لہٰذا صفدر صاحب کی اس کاوش کو تحقیق کا نتیجہ تو نہیں کہا جا سکتا، البتہ تقلید کا شاخسانہ ضرور قرار دیا جائے گا۔
ثانیاً : اپنی تاویل کی دلیل میں انہوں نے جو روایت بحوالہ نسائی پیش کی ہے، اس کے راوی سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ہیں، اور جناب ہی کے بقول صحابی راوی خصوصا اپنی روایت کو دوسروں سے بہتر جانتا ہے، لہٰذا جب ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اس روایت کا حکم ہر شخص کے لئے عام سمجھتے ہیں، تو ایک مقلد کو کیا حق پہنچا ہے کہ وہ ان کی مخالفت کرکے اس کو خاص کر دے ؟
سنن نسائی کی اس روایت کا فہم کم از کم امام نسائی رحمہ اللہ سے ہی لے لیتے تو صفدر صاحب کی کچھ تسلی ہو جاتی، امام نسائی رحمہ اللہ نے اس روایت سے دوران خطبہ دو رکعت سے ممانعت ثابت نہیں کی بلکہ خطبہ جمعہ کے دوران صدقہ کے لئے لوگوں کو آمادہ کرنے کا جواز ثابت کیا ہے اور اس سے آٹھ روایات پیچھے آئیں تو معلوم ہو گا کہ امام موصوف نے خطبہ جمعہ کے دوران نماز پڑھنا جابر بن عبداللہ کی حدیث سے ثابت کیا ہے، حدیث کے فہم میں محدثین کی بات معتبر ہے یا مقلدین کی ؟
موارد الظمان کے حوالہ سے جو روایت صفدر صاحب نے پیش کی ہے کہ اركع ركعتين ولاتعودن لمثل هذا، اس کی سند میں وہی محمد بن اسحٰق بن یسار ہے، جس کے بارے میں صفدر صاحب نے [احسن الكلام] میں لکھا ہے کہ اسے 90 فیصد محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے اور کذاب تک جرح نقل کی ہے، ہمارا سوال ہے کہ ایسے راوی کی روایت بطور تائید پیش کرتے ہوئے شرم نہ آئی ؟
دوسری بات یہ ہے ولا تعودن لمثل هذا سے مراد کون سا کام ہے ؟ کاش کہ صفدر صاحب آگے بھی پڑھ لیتے ! اس کے بارے میں امام ابن حبان رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں :
قوله : لا تعودن لمثل هذا أراد الابطاء فى المجيئ الي الجمعة، لا الركعتين اللتين أمر بهما، والدليل على صحة هذا خبر ابن عجلان الذى تقدم ذكرنا له أنه أمره فى الجمعة الثانية أن يركع ركعتين مثلهما .
” نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے آپ کی مراد جمعہ میں دیر سے آنا ہے، نہ کہ و ہ دو رکعتیں جن کا اسے حکم دیا گیا تھا، اس بات کی تائید ابن عجلان کی حدیث سے بھی ہوتی ہے، جو ہم پیچھے ذکر کر چکے ہیں، کہ آپ نے اسے دوسرے جمعہ میں بھی اسی طرح دو رکعتیں ادا کرنے کا حکم فرمایا تھا۔ “ [ صحيح ابن حبان : 350/6، تحت حديث : 2504 ]
◈ شارح بخاری جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
بل هو نهي عن الابطاء عن الجمعة و حضوره فى وقت الخطبة حتي لزمه امساكها .
” (احناف نے اسے دو رکعت سے ممانعت پر محمول کیا ہے، ایسا نہیں ہے ) بلکہ یہ تو جمعہ میں لیٹ آنے سے منع کیا گیا ہے، صحابی مذکور نے خطبہ میں لیٹ آنا مستقل معمول بنا لیاتھا۔ “ [ فيض الباري : 341/2 ]
تیسری بات یہ ہے کہ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل مبارک کے پیش نظر آپ بھی دوران خطبہ ایسے آدمی کو دو رکعت ادا کرنے کا حکم دیں گے ؟ اگر جواب اثبات میں ہے، تو آپ کا مذہب باطل، کیونکہ دوران خطبہ دو رکعت کا جواز خود بخود ثابت ہو جائے گا، لیکن اگر جواب نفی میں ہے، تو اس حدیث میں آپ کا کیا حصہ ؟ اگر آپ اس پر عمل نہیں کر سکتے تو واضح ہے کہ آپ نے اپنی تقلید ناسدید کو بچانے کے احادیث کو تروڑنے مروڑنے کا کاروبار شروع کر رکھا ہے اور کسی طرح سے بھی حدیث کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔

صفدر صاحب کی بداعتقادی :

جناب محمد سرفراز خاں صفدر دیوبندی حیاتی صاحب کہتے ہیں :
”ان روایات سے پتا چلا کہ یہ ایک مخصوص واقعہ تھا، ضابطہ اور قاعدہ نہ تھا، بعض راویوں نے اس کو ضابطہ کی شکل میں پیش کر دیا ہے۔ “ [خزائن السنن : 171/2 ]

كبرت كلمة تخرج من أفواههم ان يقولون الا كذبا .
”ان روایات“ کی وضاحت ہم کر چکے ہیں، ان سے ان کا مدعا ثابت نہیں ہوا، تقلید اتنی مہلک بیماری ہے کہ اس کا مریض انکار حدیث تک جا پہنچتا ہے، صفدر صاحب کی اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ ذخیرہ حدیث کی ان کے ہاں کیا وقعت ہے ؟ یہ تو ایک روایت ہے، جس پر طبع آزمائی کرنے صفدر صاحب کی عقل نارسا اس باطل نتیجے پر پہنچی ہے، نامعلوم اور کتنی احادیث ہوں گی جن کو نبی سے سننے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور دوسرے روایوں نے اپنی مرضی سے ضابطہ کی شکل میں پیش کر دیا ہو گا ؟ اعاذناالله من هذه الهفوات .
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے فروعی مسائل بیان کرنے والے کذاب اور خبیث راویوں کی روایات پر اندھا اعتماد اور دین کا انحصار ہے، لیکن افسوس کہ بالاتفاق ثقہ راویوں کی روایت کردہ حدیث نبوی پر اتنی بداعتمادی اور بداعتقادی ! تلك اذا قسمة ضيزي .
دراصل یہ انکار حدیث کی ایک غیر مرئی شکل ہے، صفدر صاحب کو چاہیے کہ وہ علی الاعلان حدیث نبوی سے برائت کا اظہار کر دیں، یوں حیلے بہانوں سے اس کے چہرے کو کیوں مخدوش کرتے ہیں ؟
؎ خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہو
صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں
قارئین ! خود اندازہ فرمائیں کہ حدیث نبوی کے بارے میں ایسے خیالات کے حامل ہوگ دین کے کتنے خیر خواہ ہو سکتے ہیں ؟ نیز یہ حدیث کی موافقت ہے یا مخالفت ؟ ؟ ؟ ؟

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں