Search

نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں – ایک سنت مظلومہ

تحریر :غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

نماز مغرب سے پہلے دو رکعت نفل ادا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی، فعلی اور تقریری سنت ہے، اس کے ثبوت پر احادیث صحیحہ ملاحظہ ہوں:

قولی احادیث

دلیل نمبر (۱)

سیدنا ابوسعید عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
صلّوا قبل صلاۃ المغرب، قال فی الثّالثۃ : لمن شاء، کراھیۃ أن یتّخذھا النّاس سنّۃ
”نماز مغرب سے پہلے (دو رکعتیں) پڑھو، (ایسا دو بار فرمایا ) ، تیسری بار فرمایا، جو چاہے (پڑھے) ، اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے کہ کہیں لوگ اس (نماز ) کو (لازمی) سنت نہ بنا لیں۔“ (صحيح بخاري:۱۱۸۳، سنن ابي داو،د:۱۲۸۱)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (۷۷۳۔۸۵۲ھ) لکھتے ہیں :
لم یرد نفی استحبابھا لأن لا یمکن أن یأمر بما لا یستحبّ، بل ھذا الحدیث من أقوی الأدلّۃ علی استحبابھا
” (اس حدیث سے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد مغرب سے پہلے دو رکعتوں کے استحباب کی نفی نہیں، اس لیے کہ یہ ناممکن بات ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک چیز کے بارے میں حکم فرمائیں اور وہ (کم از کم) مستحب (بھی) نہ ہو، بلکہ یہ حدیث تو مغرب سے پہلے دو رکعتوں کے استحباب پر قوی ترین دلیلوں میں سے ایک ہے۔“ (فتح الباری فی شرح صحیح البخاری : ۳/۶۰)

دلیل نمبر (۲)

سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے ہی سنن ابی داؤد میں حسن سند سے یہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
صلّوا قبل المغرب رکعتین ….
”نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھو۔“ (سنن ابی داؤد ۱/۱۸۲، ح : ۱۲۸۱، وسندہ، حسن)
 

دلیل نمبر (۳)

سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بین کلّ أذانین صلاۃ، ثلاثاً، لمن شاء
” (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا ) ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے، تیسری بار فرمایا، اس کے لیے جو پڑھنا چاہے۔“ (صحیح بخاری : ۶۲۴، صحیح مسلم : ۱/۲۸۷، ح : ۸۳۸، سنن ابی داو،د : ۱/۱۸۲، ح : ۱۲۸۳، سنن ترمذی : ۱/۴۵، ح : ۱۸۵، سنن ابن ماجہ : ۱/۸۲، ح : ۱۱۶۲، سنن نسائی : ۲/۲۸، ح : ۶۸۲، مسند الامام احمد : ۴/۸۶)

پہلی اذان سے مراد اذان اور دوسری اذان سے مراد اقامت ہے۔
مغرب سے پہلے دو رکعت نفل کے جواز پر یہ تیسری قولی حدیث ہے، کیونکہ اس میں بلا استثنا پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے، محدثین کرام نے اس حدیث سے یہی مسئلہ ثابت کیا ہے۔

دلیل نمبر (۴)  

سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ما من صلاۃ مفروضۃ الّا وبین یدیھا رکعتان
”کوئی فرضی نماز ایسی نہیں ہے، جس سے پہلے دو رکعتیں نہ ہوں۔“ (سنن الدارقطنی : ۱/۲۶۷، ح : ۱٠۳۴، وسندہ، حسن)

اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ”صحیح“ کہا ہے۔
اس حدیث میں بھی بلااستثنا ہر فرض نماز سے پہلے دو رکعتوں کا جواز ثابت ہوتا ہے۔

 

فعلی  حدیث

دلیل نمبر (۵)

سیدنا عبداللہ مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
انّ رسول الله صلى الله عليه وسلم صلّٰی قبل المغرب رکعتین
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (خود) مغرب سے پہلے دو رکعتیں ادا فرمائیں۔“ (صحیح ابن حبان : ۱۵۸۸، قیام اللیل للمروزی : ۶۴، وسندہ، صحیح)

اس روایت کے بارے میں علامہ مقریزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ھذا اسناد صحیح علی شرط مسلم
”یہ سند امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔“ (اختصار قیام اللیل للمقریزی : ۶۴)

اس کے باوجود بعض جاہلوں کا کہنا ہے :
”مغرب سے پہلے غالباً آپ نے خود توکوئی نماز نہیں پڑھی۔“

 

تقریری احادیث

دلیل نمبر (۶) 

قال:‏‏‏‏ سمعت مرثد بن عبد الله اليزني،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ أتيت عقبة بن عامر الجهني،‏‏‏‏ فقلت:‏‏‏‏ ألا أعجبك من أبي تميم يركع ركعتين قبل صلاة المغرب ! فقال عقبة:‏‏‏‏ إنا كنا نفعله على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم قلت:‏‏‏‏ فما يمنعك الآن،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ الشغل
”مرثد بن عبداللہ یزنی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں (صحابی رسول) سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی، کیا میں آپ کو ابوتمیم رحمہ اللہ (تابعی) کی وجہ سے تعجب میں نہ ڈالوں ؟ وہ مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے ہیں، اس پر سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یہ (مغرب سے پہلے دو رکعتوں کا اہتمام) کرتے تھے، میں نے عرض کی، اب آپ کو کس چیز نے روک دیا ہے ؟ فرمایا، مصروفیت نے۔“ (صحیح بخاری : ۱/۱۵۸، ح : ۱۱۸۴)

علامہ سندھی حنفی (م ۱۱۳۹ھ) لکھتے ہیں :
والظّاھر أنّ الرّکعتین قبل صلاۃ المغرب جائزتان، بل مندوبتان، ولم أر للمانعین جواباً شافیاً
”ظاہر ہے کہ مغرب سے پہلے دو رکعتیں جائز، بلکہ مستحب ہیں، میں منع کرنے والوں کے پاس کوئی شافی جواب نہیں پا سکا۔“ (حاشية السندي علي النسائي : ۱/۲۸۳، ۲/۲۸)

علامہ محمد طاہر پٹنی حنفی (م۹۸۶ھ) فرماتے ہیں :
الأصحّ أنّہ یستحبّ الرّکعتان قبلہ وعلیہ السّلف
”صحیح ترین بات یہ ہے کہ مغرب سے پہلے دو رکعتیں مستحب ہیں اور ان پر سلف صالحین کا عمل رہا ہے۔“ (تكملة مجمع بحار الانوار : ۴/۱۰۶)

حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وفیہ رد علی قول القاضی أبی بکر بن العربیّ : لم یفعلھما أحد بعد الصّحابۃ، لأنّ أبا تمیم تابعیّ، وقد فعلھما …
”اس حدیث میں قاضی ابوبکر بن العربی کے اس قول کا رد ہوتا ہے کہ یہ دو رکعتیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد کسی نے نہیں پڑھیں، کیونکہ ابوتمیم رحمہ اللہ تابعی ہیں اور انہوں نے یہ دو رکعتیں ادا کی ہیں۔“ (فتح الباري : ۲/۶۰)
 

دلیل نمبر (۷)  

قال أنس بن مالك: كنا نصلى علي عھد رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين بعد غروب الشمس قبل صلاة المغرب، فقلت له: أكان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاھما؟ قال: كان يرانا نصليھما، فلم يأمرنا ولم ينھنا.
”سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک میں غروب آفتاب کے بعد اور نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے، (راوی مختار بن فلفل تابعی رحمہ اللہ کہتے ہیں) میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے عرض کی، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دو رکعتیں پڑھتے تھے ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ دو رکعتیں پڑھتے دیکھتے تھے، لیکن نہ ہمیں (واجبی) حکم دیتے تھے، نہ ہی منع کرتے تھے۔“ (صحيح مسلم : ۱/۲۷۸، ح : ۸۳۶)
 

دلیل نمبر (۸)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
صليت الركعتين قبل المغرب على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھیں۔“ (سنن ابی داو،د : ۱/۱۸۹، ح : ۱۲۸۲، وسندہ، صحیح)

دلیل نمبر (۹)

عن أنس بن مالك قال:‏‏‏‏ كان المؤذن إذا أذن قام ناس من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يبتدرون السواري حتى يخرج النبي صلى الله عليه وسلم وهم كذلك يصلون الركعتين قبل المغرب ولم يكن بين الأذان والإقامة شيء.
”سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب مؤذن اذان (مغرب) کہتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے (کبار) صحابہ کرام ستونوں کی طرف ایک دوسرے سے سبقت کرتے، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے، وہ (صحابہ) اسی حالت میں مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے، اذان اور اقامت کے درمیان کثیر وقت نہیں ہوتا تھا۔“ (صحیح بخاری : ۱/۸۷، ح : ۶۲۵، صحیح مسلم : ۱/۲۸۷، ح : ۸۳۷)

صحیح مسلم میں یہ الفاظ زائد بیان ہوئے ہیں :
حتّٰی انّ الرّجل الغریب لیدخل المسجد، فیحسب أنّ الصّلاۃ قد صلّیت، من کثرۃ من یصلّیھا.
”یہاں تک کہ کوئی اجنبی (مسافر) مسجد میں داخل ہوتا تو وہ مغرب سے پہلے دو نفل پڑھتے والوں کی کثرت کو دیکھ کر یہ خیال کرتا کہ نماز مغرب پڑھی جا چکی ہے۔“

دلیل نمبر (۱۰)

زر بن حبیش کہتے ہیں :
انّ أبیّ بن کعب وعبد الرّحمٰن ابن عوف کانا یصلّیان قبل المغرب رکعتین رکعتین.
”سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما دونوں مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعتیں ادا فرماتے تھے۔“ (شرح مشكل الآثار للطحاوي : ۱۴/۱۲۱، وسنده، حسن)
 

دلیل نمبر (۱۱)

عبداللہ بن ابی الہذیل کہتے ہیں :

دعوت رجلاً من أصحاب النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم الی منزلی، فلمّا أذّن المؤذّن المغرب، فصلّٰی، فسألت عن ذلک، فقال : کان أبیّ بن کعب یصلّیھما
”میں نے ایک صحابی رسول کو اپنے گھر میں دعوت دی، جب مؤذن نے مغرب کی اذان کہی تو انہوں نے دو رکعتیں پڑھیں، میں نے ان سے اس بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا، سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ یہ دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔“

 (مسند المسدد بحواله المطالب العالية لابن حجر : ۶۲۱، وسنده، صحيح) 

دلیل نمبر (۱۲)

امام حسن بصری رحمہ اللہ سے مغرب سے پہلے دو رکعتوں کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا :
حسنتان جمیلتان لمن أراد الله بھما.
”جو آدمی ان دو رکعتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ادا کرے، اس کے لیے بہت بہترین اور اچھی ہیں۔“ (مصنف ابن ابي شيبة : ۲/۳۵۶، وسنده، صحيح)

دلیل نمبر (۱۳)

حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
رأیت ابن أبی لیلٰی صلّٰی رکعتین قبل المغرب.
”میں نے ابن ابی لیلیٰ کو دیکھا کہ انہوں نے مغرب سے پہلے دو رکعتیں ادا کیں۔“ (مصنف ابن ابي شيبة ۲/۳۵۵، وسنده، صحيح)

دلیل نمبر (۱۴)

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقال أحمد واسحاق: ان صلّاھما فحسن، وھذا عندھما علی الاستحباب.
”امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہما اللہ نے کہا ہے، اگر آدمی یہ دو رکعتیں ادا کر لے تو اچھا ہے، یہ دو رکعتیں ان کے نزدیک مستحب ہیں۔“ (جامع ترمذی، تحت حدیث : ۱۸۵)

قارئین کرام ! ان صحیح احادیث اور آثار صحیحہ سے نماز مغرب سے پہلے دو رکعتوں کا استحباب ثابت ہوتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں ان پر عمل ہونا چاہیے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿وما آتاکم الرّسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا﴾ (الحشر : ۷)
”جو تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دے دیں، اسے پکڑ لو، اور جس سے وہ منع فرما دیں، اس سے رک جاؤ۔“

جو لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیاری سنت سے منع کرتے ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے اور آج سے ہی اس سنت پر عمل کرنا چاہیے، سنت کی پیروی ہی محبت رسول کی حقیقی علامت ہے۔

اب ہم (دوسرے حصہ میں) انتہائی اختصار کے ساتھ ان لوگوں کے دلائل کا علمی اور تحقیقی جائزہ پیش کرتے ہیں، جو ان دو رکعتوں کے استحباب کے قائل نہیں ہیں اور محض اپنے امام کے ”بے سند“ اور ”ضعیف“ قول کے مقابلہ میں ان احادیث صحیحہ و آثار کی تاویل یا رد کرتے ہیں۔ (جاری ہے۔۔۔) 

اس تحریر کا دوسرا حصہ یہاں ملاحظہ کیجیے

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں