بسم الله الرحمنٰ الرحیم
#فتنہ #انکار #حدیث
رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے قول ، فعل، اور تقریر کو حدیث کہتے ہیں-
حدیث کے حجت شریعہ ہونے پر نہ صرف تواتر ہے بلکہ علمائے اسلام کا اجماع بھی رہا ہے ،ابتدائے اسلام سے اب تک حدیث کو شریعت الہیہ کا ایک ماخذ سمجھا گیا اور بلا کسی شک و شبہہ کے حدیث کو منزل من الله یعنی حدیث بھی وحی ہی ہے کہ تسلیم کیا گیا اسی لئے علمائے اسلام نے محافظت احادیث میں انتھک کوشش کی اور اس سلسلہ میں کوئی دقیقه فروگزاشت نہیں کیا – فن حدیث مرتب کیا ، ہر حدیث کو پرکھا اور مختلف قسم کی باریکیوں سے جانچا،
محدثین کی یہ وہ محنت ہے جس نے قرآن مجید کو نہ صرف بازیچہ اطفال بنے سے محفوظ رکھا بلکہ ان ہی محدثین کی مساعی جمیلہ اور محنت شاقہ کے نتیجہ میں آج امت مسلمہ کو صحیح احادیث کا ایک بیش بہا ذخیرہ میسر ہے جس کی روشنی میں امت مسلمہ کا ہر فرد صراط مستقیم پر گامزن ہوسکتا ہے اور قرآن مجید پر الله تبارک و تعالیٰ کی منشاء کے مطابق عمل کرسکتا ہے –
افسوس ماضی قریب اور دور حاضر میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے حدیث کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا اور پھر کلی طور پر مختلف خود ساختہ جہالت کے ارتکاب سے احادیث کے حجت شریعہ کا نہ صرف انکار کیا بلکہ اطاعت رسول صلی الله علیہ وسلم پے بھی ضرب لگائی اور خودساختہ قرانی تراجم کر کے حدیث کے وحی ہونے سے انکار کردیا اور کہا کہ وحی صرف قرآن مجید ہی ہے اس کے علاوہ کوئی وحی نہیں آتی تھی یہ لوگ منکرین حدیث کہلاتے ہیں –
علمائے اسلام نے اس فتنے کا تعاقب کیا ،منکرین حدیث کے رد میں مختلف کتابیں لکھی گئیں ،اور منکرین حدیث کے تمام اعتراضات کا دندان شکن جواب دیا لیکن وہ اپنے اعتراضات دہراتے رہے ، آج حال یہ ہے کہ اس فتنے نے ایک نئی شکل اختیار کرلی اور اعتراضات کو بھی ذرا جدت سے بدل دیا ،یعنی حدیث کا کلی انکار نہیں کیا مگر مختلف اعتراضات کرکے حدیث کی اہمیت میں شبہات پیدا کرنے کرنے کی کوشش کی
غرض مختلف قسم کی غلط بیانیاں کر کہ نہ صرف منکرین حدیث بلکہ مذہب پرست نیم منکر اور بزعم خود مصلحان امت، غافل اور علم نا آشناء لوگوں کو گمراہی کی طرف لیجاتے ہیں ، یہ وباء اتنی پھل چکی ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد میں انکار حدیث یا کم از کم اہمیت حدیث کی کمی کے جراثیم سرایت کرتے جارہے ہیں،
یہ تحریر ایک چھوٹی سی کوشش ہے جس میں "حدیث بھی وحی ہے” کو مختصرا آسان الفاظ میں قرانی دلائل سے پیش کیا جائیگا اس عامی طبقہ کہ لئے جو آج کتب اور مطالعہ سے دورہے اور یہاں(فیس بک) سے استفادہ حاصل کرتا ہے کہ اس کو پڑھ کر اتنا علم ضرور آجائے کہ ان کے ذہن کم از کم احادیث کے حوالے سے صاف ہوجائیں کہ حدیث بھی حجت شریعہ ،منزل من الله ہے ،تاکہ وہ آسانی سے ایسے فتنوں کی کی جعلسازی سمجھ سکیں اور خود ان سے بچاؤ کا سدباب بھی کرسکیں یا کم از کم ایسے لوگوں کا پردہ دوسرے عامی پر فاش کرسکیں-
"حدیث کے وحی ہونے کے چند قرانی دلائل”
دلیل # ١
الله تعالیٰ فرماتا ہے:
” کسی انسان کے لئے یہ ممکن نہیں کہ الله سے بات کرے سوائے (١) وحی کے زریعے (٢) پردے کے پیچھے سے( ٣ ) یا اللہ کسی فرشتے کو بھیجے اور وہ الله کے حکم سے سی چیز کی جو الله چاہے وحی کردے بیشک الله بلند و بالا ، حکمت والا ہے "( الشوریٰ – ٥١ )
اس آیت میں کسی رسول یا نبی تک احکام الہیٰ پوھنچنے کے تین طریقے بیان کئے گئے ہیں
١)براہ راست وحی کے ذریعہ
٢) پردے کے پیچھے سے براہ راست کلام
٣) اللہ تعالیٰ کے حکم سے وحی کا فرشتہ کے ذریعہ آنا
قرآن مجید ان میں سے کون سی وحی ہے ، ملاحظہ ہو :
"آپ کہہ دیجئے جبرائیل کا دشمن کون ہوسکتا ہے وہی ہے جس نے الله کے حکم سے اس قرآن کو آپ کے قلب پر اتارا ہے جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور مومنین کہ لئے ہدایت اور رحمت ہے "( البقرہ – ٩٧ )
” یہ قرآن رب العالمین نے نازل فرمایا ہے ، اس کو امانت دار فرشتہ لے کر نازل ہوا ہے – آپ کے قلب پر اس کو واضح عربی میں نازل کیا گیا ہے تاکہ آپ ڈرانے والوں میں سے ہوں "(شعرا ١٩٢ ا ١٩٥ )
آیات بالا سے سے ثابت ہوا قرآن مجید وحی کی تیسری قسم ہے ،اب وحی کی دو قسمیں باقی ہیں – ظاہر ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے حق میں بھی ان کا استعمال ہوا ہوگا اور حدیث کے نزول میں ہی ہوسکتا ہے –
دلیل # ٢
"اے رسول جب آپ مومنین سے یہ کہہ رہے تھے کہ کیا تمھارے لئے یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تین ہزار فرشتے نازل فرما کر تمہاری مدد فرمائے” ( آل عمران -١٢٤)
انداز آیت سے لگرہا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے ہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بطور تسلی صحابہ کرام کو تین ہزار فرشتوں کی امداد کی خبر دی تھی اور یہ خبر قرآن میں کہیں نہیں ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ قرآن کہ علاوہ کوئی وحی آئی تھی جس کی بنیاد پر آپ نے یہ خوشخبری دی –
دلیل # ٣
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
” نمازوں کی حفاظت کرو اور خاص کر بیچ والی نماز کی اور الله تعالیٰ کے سامنے ادب سے کھڑے رہو – اگر تمہیں دشمن کا خوف ہو تو پیدل بھی اور سواری پر بھی نماز ادا کرسکتے ہو – لیکن جب امن ہو جائے تو پھر الله کو اسی طرح یاد کرو جس طرح تمہیں الله نے سکھایا ہے – جس کو تم نہیں جانتے تھے "(بقرہ – ٢٣٨ ،٢٣٩ )
حالت امن میں نماز کا کوئی خاص طریقه ہے جس طریقے سے نماز ادا کی جاتی ہے اور یہ ہی وہ طریقہ ہے جس کہ متعلق ارشاد ہے "الله نے تمہیں سکھایا "،پورا قرآن پڑھ لیجئے نماز کا طریقه نہیں ملیگا –لہٰذا الله نے کسی اورذریعہ سے یہ طریقہ سکھایا اور یہ ہی وہ ذریعہ وحی ہے جس کو حدیث کہا جاتا ہے – لہٰذا حدیث منزل من الله ہے –
دلیل # ٤
"الله ارشاد فرماتا ہے :
” جو درخت تم نے کاٹے یا جو درخت اپنی جڑوں پے کھڑے چھوڑ دئیے ، یہ الله کہ حکم سے تھا "( حشر -٥ )
پورے قرآن مجید میں یہ حکم کہ فلاں درخت کاٹے جائیں اور فلاں چھوڑ دئیے جائیں کہیں نہیں ہے یقینا یہ حکم کسی اور ذریعہ سے تھا ،یعنی قرآن مجید کے علاوہ بھی وحی آتی تھی –
دلیل # ٥
” اور ان تین آدمیوں کی طرف بھی الله تعالیٰ نے توجہ فرمائی جن کا معامله ملتوی کیا گیا تھا یہاں تک کہ جب زمین باوجود کشادگی کہ ان پر تنگ ہوگئی اور ان کی جانیں ان پروبال بن گئیں اور انہوں نے یقین کرلیا کہ الله کے غضب سے بچنے کا سوائے اللہ کے کوئی ٹھکانہ نہیں ، تو الله ان پر متوجہ ہوا تاکہ وہ توبہ کرلیں ، بیشک الله توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے –”( توبہ -١١٨ )
یہ تین آدمی کون تھے ؟ ان کا کیا قصور تھا ؟کس آیت میں الله نے ان پر غصہ کا اظہار کیا ؟ قرآن مجید ان تمام باتوں سے خاموش ہے ، ظاہر ہے توبہ سے پہلے الله نے غیظ و غضب کا اظہار بھی کیا ہوگا ، تاریخ بتاتی ہے کہ ٥٠ دن کا مکمل مقاطعہ (بائیکاٹ)کیا گیا – سلام کلام بند ،بیویوں کو علیحدہ ہونے کا حکم ملا ، یہ سب کچھ کس کے حکم سے تھا ؟ ظاہر ہے کہ جس کے حکم سے معافی دی جارہی ہے اسی کے حکم سے مقاطعہ بھی کیا گیا ہوگا ، لیکن وہ حکم کہیں بھی قرآن مجید میں نہیں ہے –لہٰذا ثابت ہوا کے قرآن مجید کے علاوہ بھی وحی آیا کرتی تھی –
دلیل # ٦
” کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو سرگوشی سے منع کیا گیا تھا (لیکن باز نہیں آئے) پھر وہ ہی کام کرہے ہیں جس سے ان کو منع کیا گیا تھا "(مجادلہ- ٨ )
آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس حکم سے سے پہلے سرگوشی کی ممانعت کی گئی تھی ، لیکن ممانعت کا وہ حکم قرآن مجید میں کہیں نہیں ہے ،یعنی قرآن مجید کے علاوہ بھی وحی آتی تھی (ایک شبہ :اگلی آیت یعنی نمبر ٩ میں جو ممانعت ہے یہ آیت سورہ مجادلہ میں بعد میں واقع ہوئی ہے پہلے وہ آیت آئی ہے یعنی حدیث کے ذریعہ ممانعت کی اور پھر اسی تنبیہ کو حکم کے طور دہرا دیا اگلی آیات میں )
دلیل # ٧
"اور جب نبی نے اپنی کسی بیوی سے راز کی بات کہی پھر جب اس بیوی نے راز کو ظاہر کردیا اور اللہ نے نبی کو مطلع کردیا تو نبی نے بعض باتوں کو جتا دیا اور بعض باتوں کی چشم پوشی کی –
پھر جب نبی نے اس بیوی کو یہ بات بتائی تو اس نے پوچھا آپ کو کس نے بتایا نبی نے جواب دیا مجھے علیم و خبیر نے بتایا "( تحریم ٣ )
وہ راز کیا تھا ؟کونسی بیوی تھی ؟ قرآن مجید خاموش ہے ،قرآن مجید سے صرف اتنا پتا چلتا ہے کہ کسی بیوی کو آپ نے راز نہ ظاہر کرنے کا کہا تھا لیکن انہوں نے ظاہر کردیا ، الله نے افشائے راز کی اطلاع دی ،کس طرح دی یہ قرآن مجید میں نہیں ہے ، ظاہر ہے قرآن مجید کے علاوہ وحی کے زریعے ،پس ثابت ہوا کہ قران مجید کے علاوہ بھی وحی کا سلسلہ تھا ،پھر بیوی کا ازراہ تعجب پوچھنا کہ آپ کو کسنے بتایا ،تو الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا "العلیم الخبیر ” نے ، ان الفاظ سے بلبداہت ثابت ہوا کہ الله تعالیٰ نے آپ کو خبر دی ، اب بھی اگر کوئی کہے کہ کسی انسان نے خبر دی تو پھر اللہ سے ہدایت کی دعا ہی کی جاسکتی ہے –
دلیل # ٨
الله تعالیٰ فرماتا ہے:
” رسول اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے ،مگر وحی جو ان کی طرف بھیجی جاتی ہے” ( نجم ٣ ،٤ )
یہ آیات اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ہر بات وحی ہوتی تھی –
ایک شبہ : اگر رسول کی ہر بات وحی ہوتی تھی تو رسول نے جو بات کی وہ وحی ہی حالانکہ گفتگو میں ہر قسم کی باتیں ہوا کرتی ہیں اور ہر بات کا وحی ہونا قرین قیاس نہیں ہے ،اس شبہہ کا جواب آپ صلی الله علیہ وسلم نے خود فرمادیا ،
آپ نے فرمایا :
” تم اپنے دنیا کے معاملات کو خود ہی بهتر جانتے ہو(اس معاملے میں )میں بھی ایک انسان ہوں لیکن جب میں دین کے متعلق کوئی حکم دوں تو اسکی تعمیل کرلیا کرو” ( صحیح مسلم )
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دینی معاملات میں آپکی حیثیت بشر کی سی نہیں ہے – آپ رسول کی حیثیت سے امت کو خطاب کرتے ہیں اور جوبھی دینی حکم آپ دیتے ہیں وہ وحی ہوتا ہے –
دلیل # ٩
” اے رسول : جس قبلہ کی طرف آپ پہلے منہ کرتے تھے اس کو ہم نے کسی اور مقصد کہ لئے مقرر نہیں کیا کیا تھا سوائے اس کہ کہ ہم یہ دیکھ لیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں واپس ہوجاتا ہے "( بقرہ – ١٤٣ )
یہ آیت اس بات پے دلالت کرتی ہے کہ بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم الله تعالیٰ نے دیا تھا لیکن وہ حکم قرآن مجید میں نہیں ہے – لہٰذا ثابت ہوا کہ قران کہ علاوہ کوئی وحی تھی جس کے ذریعہ یہ حکم دیا گیا تھا –
دلیل # ١٠
"اے ایمان والوں ، جب جمعہ کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے تو جلدی سے الله کے ذکر کی طرف آؤ اور خرید و فروخت چھوڑ دو ، یہ ہی تمھارے لئے بہتر ہے اگر تم سمجھو "( جمعہ – ٩ )
یہ آیات کب نازل ہوئی ،قرآن مجید میں اس کا بھی ذکر ہے :
” اور جب ان لوگوں نے تجارت یا تماشہ دیکھا تو اس طرف چلے گئے اور آپ کو کھڑا چھوڑ گئے ،آپ کہہ دیجئے کہ جو کچھ الله کے پاس ہے وہ لہو اور تجارت سے بہتر ہے اور الله بہتر رزق دینے والا ہے "(جمعہ ١١ )
یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب جمعہ کی نماز کے وقت بعض لوگ تجارت کے لئے چلے گئے اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں کھڑا ہوا چھوڑ گئے ،
آیت زیر بحث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز جمعہ کے لئے اذان دی جاتی تھی ،نماز جمعہ کے لئے کوئی خاص طریقہ نماز تھا جس پے لوگ جمع ہوتے تھے ، ان دونو باتوں کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے ،لہٰذا یہ دونو کام کسی ایسے حکم کی تعمیل میں ہورہے تھے جو قرآن مجید میں نازل نہیں ہوا تھا بلکہ قرآن مجید کے علاوہ تھا اور جب اس حکم کی خلف ورزی ہوئی تو الله نے اس کی تنبیہہ کردی –پس ثابت ہوا وہ حکم بذریعہ وحی ملا تھا ،لہٰذا حدیث وحی ہے –
یہ چند قرانی آیات بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں جس میں قرآن مجید کے علاوہ بھی وحی کا آنا صریح ثابت ہے اور وحی یقیناّ حدیث کے سواء کیا ہوسکتی ہے ،یعنی حدیث بھی منزل من الله ہے ،اس قسم کی بےشمار آیات دلالت کرتی ہیں حدیث کے وحی ہونے کا اب ان بےشمار دلائل کی موجودگی میں بھی کیا حدیث کے وحی ہونے کا انکار کیا جاسکتا ہے ؟ دلیل تو ایک ہی کافی ہوتی ہے ،جب دلائل کا اتنا انبار ہو تو پھر قطعی یقین ہی نہیں بلکہ اطمینان قلبی بھی حاصل ہوجاتا ہے اور یہ ہی وجہ ہے کے حدیث کے وحی ہونے کا عقیدہ متواتر ہے حدیث کے وحی ہونے کا انکار کرنا گویا تواتر کا انکار کرنا ہے پھر سونے پے سہاگہ یہ ہے کہ حدیث کے وحی ہونے کا ثبوت قرآن مجید کی متعدد آیات سے ملتا ہے اور قرآن مجید کی ہر آیت متواتر ہے ،لہٰذا حدیث کے وحی ہونے کا ثبوت متواترات سے بتواتر ثابت ہے -الحمدللہ
(اگلی تحریر میں حدیث کےوحی ہونے پر دلائل احادیث نبوی، صحابہ کرام رضوان الله علیہ اجمعین سے پیش کئے جائینگے ان شاء الله)