Search

پتھر کا موسیٰ علیہ السلام کے کپڑے لے کر بھاگ جانا

اعتراض 1:
پتھر موسی علیہ السلام کے کپڑے لے کر بھاگ گیا
(جلد دوم صفحہ نمبر 292 روایت نمبر 628)
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موسی علیہ السلام بڑے باحیا اور سترپوش آدمی تھے،ان کے حیا کی وجہ سے ان کے جسم کا ذرا سا حصہ بھی ظاہر نہ ہوتا تھا بنی اسرائیل نے ان کو اذیت دی اورکہا یہ جو اپنے جسم کی اتنی پردہ پوشی کرتے ہیں تو صرف اس لیے کہ ان کا جسم عیب دار ہے یا تو انہیں برص ہے، یا فتق ہے یا کوئی اور بیماری ہے اللہ تعالی نے ان کو ان تمام بہتانوں سے پاک کرنا چاہا سو ایک دن موسی علیہ السلام نے تنہائی میں جا کر کپڑے اتار کر پتھر پر رکھ دیئے پھر غسل کیا جب غسل سے فارغ ہوئے تو اپنے کپڑے پہننے چلے مگر وہ پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگ پڑا موسی علیہ السلام اپنا عصا لے کر پتھر کے پیچھے چلے اور کہنے لگے اے پتھر! میرے کپڑے دے، اےپتھر میرے کپڑے دے.
حتی کہ پتھر بنی اسرائیل کی ایک جماعت کے پاس پہنچ گیا انہوں نے برہنہ حالت میں موسی کو دیکھا تو اللہ تعالی کی مخلوقات میں سب سے اچھا اور ان تمام عیوب سے جو وہ آپ کی طرف منسوب کرتے تھے انہوں نے بری پایا وہ پتھر ٹھہر گیا اور موسی علیہ السلام نے اپنے کپڑے لے کر پہن لیے پھر موسی نے اپنا عصا لے کر پتھر کو مارنا شروع کیا. پس باخدا موسی کے مارنے کی وجہ سے اس پتھر پر تین یا چار نشانات ہوگئے.
اس آیت کریمہ کا یہی مطلب ہے کہ : ” اےایمان والوں ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے موسی کو تکلیف پہنچائی تو اللہ تعالی نے انہیں اس بات سے (جو وہ موسی کے بارے میں کہتے تھے) بری کردیا اور وہ اللہ کے نزدیک باعزت تھے.”
تبصرہ
1. يا ايها الذين امنوا لا تكونوا كالذين آذوا موسى فبراه الله… (الاحزاب:٦٩) کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے بذریعہ وحی سکھلائی جبکہ قرآن میں اور تورات میں بنی اسرائیل کی بیسوں ایذاؤں کا ذکر تھا ایسی حیاسوز ایذا کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ بھی اللہ کی طرف منسوب!
2. اگر یہ حدیث وحی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی اس وقوعے کی اطلاع دی گئی تو *تین یا چار* نشان کہنے کا کیا مطلب؟ کیا اللہ کو بھی نعوذباللہ علم نہیں تھا کہ نشان تین ہیں یا چار؟
الجواب:
یہ روایت صحیح بخاری میں تین مقامات پر ہے. (ح4799٫3404٫278)
امام بخاری رحمہ اللہ کے علاوہ درج ذیل محدثین نے بھی اسے روایت کیا ہے:
مسلم النیسابوری (صحیح مسلم ح٣٣٩ وترقیم دار السلام:٧٧٠وبعدح٢٣٧١ ترقيم دار السلام:٦١٤٦,٦١٤٧) ترمذی(السنن:٣٢٢١وقال:”هذا حديث حسن صحيح” الخ) النسائی فی التفسیر (٤٤٤,٤٤٥) الطحاوي في مشكل الآثار(١١/١) والطبري في تفسيره ( تفسير ابن جرير٣٧/٢٢)
یہ روایت درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
مسند ابی عوانہ ( ٢٨١/١) صحيح ابن حبان (الاحسان ٦١٧٨ح٩٤/١٤,دوسرا نسخه:٦٢١١) الاوسط لابن المنذر (٦٤٩ح١٢٠/٢) السنن الكبرى للبيهقي (١٩٨/١) معالم التنزيل للبغوي (٥٤٥/٣)
یہ روایت امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے درج ذیل محدثین نے بھی بیان کی ہے:
احمد بن حنبل(المسند535، 514،392،315/2)
عبدالرزاق (المصنف:20531)
ہمام بن منبہ (الصحیفة:61)
سیدنا ابوہریرہ سے یہ روایت درج ذیل جلیل القدر تابعین کی سند سے ثابت ہے:
1. ہمام بن منبہ (الصحيفة :61، صحیح البخاری :278، صحیح مسلم 339)
2. محمد بن سیرین (صحیح البخاری: 4799، 3404)
3. خلاس بن عمرو (صحیح البخاری: 4799، 3404)
4. الحسن البصری (صحیح البخاری: 4799، 3404)
5. عبداللہ بن شقیق (صحیح مسلم: 339 بعد ح 2371 ترقیم دارالسلام 6147)
اس روایت کی دوسری سندیں، آثارِ صحابہ اور آثارِ تابعین بھی مروی ہیں.
دیکھئے مصنف ابن ابی شیبه(535،533/11) وتفسیر الطبری (37، 36 /22) کشف الاستار (مسند البزار 2252) وغیرہ.
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صحیح بخاری کی یہ روایت بالکل صحیح ہے.
اس حدیث کی تشریح میں حافظ ابن حزم الاندلسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "أنه ليس في الحديث أنهم رأوا من موسى _الذكر الذي هو عورة_ وإن رأوا منه هيئة تبينو بها أنه مبرأ مما قالوا من الادرة وهذا يتبين لكل ناظر بلا شك بغير أن يرى شيئا من الذكر لكن بأن يرى مابين الفخذين خاليًا ”
حدیث میں یہ نہیں ہے کہ انہوں(بنی اسرائیل) نے موسی علیہ السلام کا ذَکر یعنی شرمگاہ دیکھی تھی. انہوں نے ایسی حالت دیکھی جس سے واضح ہو گیا کہ وہ( موسی علیہ السلام) ان لوگوں کے الزامات کہ وہ آدر ہیں (یعنی ان کے خصیے بہت موٹے ہیں) سے بری ہیں.
ہر دیکھنے والے کو (ایسی حالت میں) بغیر کسی شک کے ذَکر (شرمگاہ) دیکھے بغیر ہی یہ معلوم ہوجاتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ رانوں کے درمیان جگہ خالی ہے. (المحلى 213/3 مسئلہ349)
اس تشریح سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل سیدنا موسی علیہ السلام پر جسمانی نقص والے الزامات لگاتے تھے، ان تمام الزامات سے آپ بری تھے.
دوسرا یہ کہ اس روایت میں یہ بھی نہیں ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام بالکل ننگے نہا رہے تھے. امام ابن حزم کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے لنگوٹی وغیرہ سے اپنی شرمگاہ کو چھپا رکھا تھا اور باقی جسم ننگا تھا.
بنی اسرائیل نے آپ کی شرمگاہ کو دیکھا ہی نہیں لہذا منکرین حدیث کا اس حدیث کا مذاق اڑانا مردودہے.
بعض الناس نے کہا کہ ” تو تین یا چار” نشان کہنے کا کیا مطلب؟؟
عرض ہے کہ ارشاد باری تعالی ہے کہ (وارسلناه الى مائة الف او يزيدون) اور بھیجا اس کو لاکھ آدمیوں پر یا زیادہ. (الصافات 147/ترجمہ شاہ عبدالقادر ص543)
اس آیت کریمہ کا ترجمہ شاہ ولی اللہ الدہلوی کی تحریر سے پڑھ لیں: "وفرستادیم اُور بسوئے صد ہزار یا بیشترازان باشند( 543ص)
منکرین حدیث اس آیت کریمہ میں لفظ” او”کی جو تشریح کریں گے وہی تشریح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول٫٫ ثلاثةاو أربعة٫٫ میں” او "کی ہے.
والحمدللہ
حواله: صحيح بخاری پر اعتراضات کا علمی جائزہ(ص:28-31)
مصنف: حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں