الشیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ کی کتاب ”شرح حدیث جبریل“ سے انتخاب
ہدایت کا راستہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع پر ہی منحصر ہے۔ اللہ کی عبادت صرف اسی طریقے پر ہو گی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لے آئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو دین لے کر آئے ہیں، اس کی اتباع کے بغیر کوئی ایسا رستہ نہیں ہے جو (بندوں کو) اللہ کے ساتھ ملا دے۔ (یعنی جو جنت میں داخلے کا صرف ایک ہی راستہ ہے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و اطاعت ہے۔ )
کھانے پینے کی ضرورتوں سے زیادہ، مسلمان کی یہ ضرورت ہے کہ صراطِ مستقیم کی طرف اس کی راہنمائی ہو جائے۔ کھانا پینا تو دنیا کی زندگی کی ضرورت و زادِراہ ہے اور صراط مستقیم آخرت کی ضرورت و زادراہ ہے۔
اس لئے صراط مستقیم پر چلنے کی دعا کا ذکر آیا ہے۔ نماز کی رکعتیں، فرض ہوں یا نفل، ہر رکعت میں سورہ فاتحہ واجب (یعنی فرض ) ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ [1-الفاتحة:6]
”ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا، ان لوگوں کا نہیں جن پر تیرا غضب ہوا اور نہ ان لوگوں کا جو گمراہ ہیں۔“ [الفاتحه : 6، 7 ]
مسلمان مسلسل (اللہ سے ) یہ دعا کرتا رہتا ہے تاکہ اسے نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کے راستے کی طرف راہنمائی کرے، جن پر انعام ہوا ہے اور ان لوگوں کے راستے سے بچائے جن پر غضب ہوا اور جو گمراہ ہیں۔ یہودیوں، عیسائیوں اور دوسرے دشمنانِ دین کے راستے سے بچائے۔
آیت کریمہ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ سے اجماع کا حجت ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اجماع کی حجیت کے دیگر دلائل کے لئے دیکھئے امام شافعی رحمہ الله کی کتاب الرسالہ اور المستدرک للحاکم النیسابوری رحمہ الله [116/1] والحمدللہ / مترجم
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنوں اور انسانوں کو صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت (و راہنمائی) کرنا وہ نُور ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے :
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ﴿٤٥﴾ وَدَاعِيًا إِلَى اللَّـهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا (33-الأحزاب:45)
”بے شک ہم نے آپ کو شاہد (گواہ) مبشر (خوشخبری دینے والا) اور نذیر (ڈرانے والا )بنا کر بھیجا، اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف دعوت دینے والا اور سراج منیر (روشن چراغ) بنا کر بھیجا “ [الاحزاب 45، 46 ]
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سراج منیر (روشن چراغ) قرار دیا ہے۔ جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ (اپنے ) بندوں کے لئے روشنی کرتا ہے (تاکہ وہ صراطِ مستقیم پر گامزن رہیں) یہی معنی ”النور“ کا ہے جس کا ذکر قرآط کریم میں آیا ہے کہ فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنْزَلْنَا [64-التغابن:8] ” پس : اللہ، اس کے رسول اور جو نور ہم نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لے آؤ۔ “
یعنی نوش قرآن اس ہدایت پر مشتمل ہے، جو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔