[quote arrow=”yes”]
1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر305:
الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
305 ـ حدثنا ابو نعیم، قال حدثنا عبد العزیز بن ابی سلمۃ، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن القاسم بن محمد، عن عایشۃ، قالت خرجنا مع النبی صلى اللہ علیہ وسلم لا نذکر الا الحج، فلما جینا سرف طمثت، فدخل على النبی صلى اللہ علیہ وسلم وانا ابکی فقال {ما یبکیک}. قلت لوددت واللہ انی لم احج العام. قال {لعلک نفست}. قلت نعم. قال ” فان ذلک شىء کتبہ اللہ على بنات ادم، فافعلی ما یفعل الحاج، غیر ان لا تطوفی بالبیت حتى تطہری ”.
ا اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
حدیث کی اردو تشریح: ⇪ [sta_anchor id=”urdtashree”]
تشریح : سیدالمحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ حائضہ اور جنبی کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کی اجازت ہے۔ جیسا کہ حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں: اعلم ان البخاری عقد بابا فی صحیحہ یدل علی انہ قائل بجواز قراءۃ القرآن للجنب والحائض۔ ( تحفۃ الاحوذی،جلد1،ص: 124 )
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں کوئی صحیح روایت ایسی نہیں ہے جس میں جنبی اور حائضہ کو قرات سے روکا گیا ہوگو اس سلسلے میں متعدد روایات ہیں اور بعض کی متعدد محدثین نے تصحیح کی ہے لیکن صحیح یہی ہے کہ کوئی صحیح روایت اس سلسلہ میں نہیں ہے جیسا کہ صاحب ایضاح البخاری نے جزء11،ص: 94 پر تحریر فرمایا ہے۔ درجہ حسن تک کی روایات توموجود ہیں، البتہ ان تمام روایات کا قدر مشترک یہی ہے کہ جنبی کو قرات قرآن کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن چونکہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں کوئی روایت درجہ صحت تک پہنچی ہوئی نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے جنبی اور حائضہ کے لیے قرات قرآن کو جائز رکھا ہے۔ ائمہ فقہاءمیں سے حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے دوروایتیں ہیں۔ ایک میں جنبی اور حائضہ ہردو کوقرات کی اجازت ہے اور طبری،ابن منذر اور بعض حضرات سے بھی یہ اجازت منقول ہے۔ حضرت مولانا مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں۔ تمسک البخاری ومن قال بالجواز غیرہ کالطبری وابن المنذر وداود بعموم حدیث کان یذکر اللہ علی کل احیانہ لان الذکر اعم ان یکون بالقرآن اوبغیرہ الخ ( تحفۃ الاحوذی،ج1،ص: 124 )
یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے علاوہ دیگر مجوزین نے حدیث یذکراللہ علی کل احیانہ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہرحال میں اللہ کا ذکر فرماتے تھے ) سے استدلال کیا ہے۔ اس لیے کہ ذکرمیں تلاوت قرآن بھی داخل ہے۔ مگرجمہور کا مذہب مختار یہی ہے کہ جنبی اور حائضہ کوقرات قرآن جائز نہیں۔ تفصیل کے لیے تحفۃ الاحوذی کا مقام مذکورہ مطالعہ کیاجائے۔
صاحب ایضاح البخاری فرماتے ہیں کہ “ درحقیقت ان اختلافات کا بنیادی منشاءاسلام کا وہ توسع ہے جس کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات میں بھی فرمایا تھا اور ایسے ہی اختلافات کے متعلق آپ نے خوش ہوکر پیشین گوئی کی تھی کہ میری امت کا اختلاف باعث رحمت ہوگا۔ ( ایضاح البخاری،ج2،ص: 32 ) ( امت کا اختلاف باعث رحمت ہونے کی حدیث صحیح نہیں۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪