ایک نظر مصطلح اہل حدیث پر
………………………………
✍ عبيد الله الباقي أسلم
……………………………..
أولا: حديث کی تعریف:
أ- حدیث کی لغوی تعریف: لغت کے اعتبار سے "حدیث” قدیم کا ضد ہے(القاموس المحيط للفيروز آبادي ص: 214).
ب- حديث کی اصطلاحی تعریف:
• ہر وہ قول ، یا فعل، یا تقریر، یا صفت جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے وہ "حدیث” ہے (الحديث النبوي للدكتور محمد الصباغ ص: 140).
لفظ "حدیث” کا اطلاق قرآن و سنت دونوں پر ہوتا ہے، اور اس پر {فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِّثْلِهِ إِن كَانُوا صَادِقِينَ}) سورة الطور:34)، اور {أَفَمِنْ هَٰذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ}(سورة النجم:59)، اور {فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ}(سورة المرسلات:50) جیسی آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں.
اور نبی کریم – صلی اللہ علیہ وسلم- کی زبانِ مبارک سے نکلی ہوئی ہر بات در اصل اللہ کی طرف سے ہوا کرتی تھیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:{ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ}(سورة النجم:3-4)، اور فرمایا:{هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ}(سورة الجمعة:2).
لہذا جس طرح قرآن کریم کے احکامات ایک مسلمان پر فرض ہیں، ویسے ہی احادیث نبویہ کے مطابق عمل کرنا ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے، امام شوکانی – رحمہ اللہ – فرماتے ہیں:” سنت مطہرہ یا حدیث نبوی کا تشریعِ احکام ہونا دین کا ضروری مسئلہ ہے، اس کا انکار وہی شخص کر سکتا ہے جس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں”( ارشاد الفحول، ص: 29).
اسی لئے صحابہ کرام – رضي الله عنهم- خود کو اہل حدیث کہا کرتے تھے، اور یہ حضرت ابو هریرہ، اور ابن عباس – رضی اللہ عنہما- سے صراحت کے ساتھ ثابت ہے(دیکھیں: الإصابة:4/204، تذكرة الحفاظ، 1/29، تاريخ بغداد،ص: 227).
امام شعبی – رحمہ اللہ – نے تقریبا پانچ سو سے زائد صحابہ کرام سے ملاقات کی، اور سب کو لفظ ” *اہل حدیث* ” سے یاد کیا ہے( تذكرة الحفاظ:1/72).
امام شافعی – رحمہ اللہ – نے کہا کہ :” مجھے عام لوگ بھی ملتے تھے، اور اصحاب حدیث بھی، جن میں سے بعض یہ ہیں: *امام احمد بن حنبل، سفیان بن عیینہ، اور اوزاعی* "(رحلة الشافعي،ص:14).
ثانيا: أهل الحديث سے مراد کون ہیں؟
• أهل الحديث سے مراد وہ لوگ ہیں جو اتباع حدیث کی وجہ سے اس کی طرف منسوب ہیں، لہذا اس ضمن میں وہ تمام لوگ شامل ہیں، جو کلام رسول -صلی اللہ علیہ وسلم- کو مصادر تلقی میں سے ایک مصدر قرار دیتے ہیں، اس سے اسلام کے صیحح عقائد استفادہ کرتے ہیں، اس پر احکام کی بنا کر تے ہیں، چاہے وہ علماء حدیث ہوں ، یا علماء فقہ ، یا علماء اصول فقہ ، یا ان کے علاوہ کوئی اور ہوں( سب اس میں داخل ہیں)۔
• امام صابونی(ت 449ھ) – رحمہ اللہ – فرما تے ہیں :”دراصل "أصحاب الحديث” ہی متمسک بالکتاب والسنہ ہیں، ان میں سے جو باحیات ہیں اللہ ان کی حفاظت کرے ، اور ان میں سے جو گزر گئے ہیں ان پر رحم فرمائے( عقيدة السلف أصحاب الحديث للصابوني ص: 3-4).
• شیخ الاسلام ابن تیمیہ – رحمہ اللہ- فرماتے ہیں کہ:”اور اہل حدیث اہل السنہ والجماعہ اصول و فروع میں صرف کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کرتے ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام کے منہج کی پیروی کرتے ہیں”(منہاج السنہ:2/103).
شیخ الاسلام کے اس قول سے واضح ہوتا ہے کہ مصطلح اہل حدیث کا اطلاق دو گروہ پر ہوتا ہے:
أ- محدثین کرام
ب- حدیث نبوی پر عمل کرنے والے عام طبقہ کے لوگ
اسی ضمن میں ایک جگہ اور فرماتے ہیں:”أهل الحديث سے ہماری مراد: وہ لوگ نہیں ہیں جو صرف حدیث کے سماع، یا اس کی کتابت، یا اس کی روایت پر اکتفا کرتے ہیں، بلکہ ان سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جنہوں نے حفظ حدیث اور اسکی معرفت حاصل کرنے کا اہتمام کیا، اسے ظاہری و باطنی طور پر سمجھا، اور باطنی و ظاہری طور پر اس کی اتباع( بھی ) کی…(مجموع فتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية : 4/95).
☆ بنا بریں "أهل الحديث” سے مراد: وہ لوگ ہیں جنہوں نے منہج صحابہ کرام- رضی اللہ عنہم- اور تابعین کی پیروی کی، اور احادیث رسول اللہ- صلی اللہ علیہ وسلم- کو جمع، حفظ، اور روایت کرنے میں خاص اہتمام کیا، اور ساتھ ہی ساتھ ظاہری و باطنی طور پر سمجھا اور عمل بھی کیا.
اہل حدیث کے بارے میں ائمہ کرام کے چند اقوال:
نبی علیہ الصلاۃ و السلام نے طائفہ منصورہ کے بارے میں فرمایا :”میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ غالب رہے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے، اور وہ( اس وقت بھی) غالب ہی رہیں گے(صحيح البخاري[6881 و 2667] ).
اس حدیث میں مذکورہ گروہ سے مراد اہل حدیث ہیں، جیسا کہ اس پر ائمہ سلف کے اقوال دلالت کرتے ہیں:
1- عبد اللہ بن مبارک – رحمہ اللہ – فرماتے ہیں: "میرے نزدیک وہ اہل حدیث ہیں”(شرف أصحاب الحدیث، ص:61).
2- یزید بن ہارون – رحمہ اللہ – فرماتے ہیں کہ:”اگر وہ اہل حدیث نہیں ہیں تو پھر مجھے نہیں معلوم کہ کون ہیں”(شرف اہل الحديث، ص:59).
3- علی بن مدینی – رحمہ اللہ – فرماتے ہیں:”حدیث میں مذکورہ گروہ؛ جو حق پر غالب رہے گا، وہ میرے نزدیک اہل حدیث ہیں”(فتح البخاری شرح صحیح البخاری:13/294).
4- امام بخاری – رحمہ اللہ – اس طائفہ منصورہ کے بارے میں فرماتے ہیں:” یعنی اہل حدیث ہیں”(الحجة في بيان المحجة:1/246).
5- امام أحمد بن حنبل – رحمہ اللہ – فرماتے ہیں:” اگر وہ اہل حدیث نہیں ہیں تو پھر مجھے معلوم نہیں کہ وہ کون ہیں”(شرف اہل الحدیث، ص:14).
6- شیخ الاسلام ابن تیمیہ – رحمہ اللہ – فرماتے ہیں:” اہل حدیث وہ لوگ ہیں: جو قرون ثلاثہ میں سے سلف ہیں، اور خلف میں سے جو ان کی راہ پر چلیں”(مجموع الفتاوی:6/355).
7- امام ابن القيم – رحمہ اللہ -فرماتے ہیں:”ائے اہل حدیث سے بغض رکھنے والے اور گالیاں دینے والے، تجھے شیطان سے دوستی قائم کرنے کی بشارت ہو”(الكافية الشفافية، ص:199).
8- امام ابن کثیر – رحمہ اللہ – فرماتے ہیں:” اصحاب حدیث کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ ان کے امام نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں”(تفسیر ابن کثیر:4/164).
مذکورہ آئمہ سلف کے تمام اقوال سے واضح ہے کہ جماعت حقہ، طائفہ منصورہ ہی اہل حدیث ہیں.
جماعت اہل حدیث کا منہج استدلال:
1- کسی بھی مسئلہ میں استدلال کرنے میں کتاب وسنت پر اعتماد کرتے ہیں؛ چنانچہ "وہ اللہ کے کلام کو دوسروں کے کلام پر ترجیح دیتے ہیں”اور "نبی – صلی اللہ علیہ وسلم-کی رہمنائی کو دیگر لوگوں کی رہمنائی پر مقدم رکھتے ہیں”(العقيدة الواسطية، ص:128)، کیونکہ اسی سے مکمل دین کی وضاحت ہوتی ہے، راہ راست کی رہمنائی ملتی ہے، اور یقیناً یہی متبعین کے لئے کافی ہے(دیکھیں: در تعارض العقل والنقل:10/304).
2- اجماع پر بھی اعتماد کرتے ہیں؛ کیونکہ وہ "اجماع کو علم و دین کی تیسری اصل شمار کرتے ہیں”(العقيدة الواسطية، ص:128)؛ کیونکہ "جس مسئلہ پر اجماع دلالت کرتا ہے، در اصل اس پر کتاب وسنت دلالت کرتی ہے(مجموع الفتاوى:19/195).
3- کتاب وسنت کے تمام نصوص پر ایمان رکھتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ متشابہ و محکم ، مجمل و مبین، اور وعد و وعید کے نصوص کے درمیان طریقہ جمع کا التزام کرتے ہیں(دیکھیں:اعلام الموقعين لابن القيم:2/209-210).
4- اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ نبی کریم – صلی اللہ علیہ وسلم – نے دین کے تمام اصول وفروع کو مکمل طور پر اپنی امت تک پہونچ دیا ہے، اور "یہی علم و ایمان کی اصل الأصول ہے؛ جسے جو بھی مضبوطی کے ساتھ تھامے گا؛ وہ اتنا ہی علم وعمل کا حقدار ہوگا”(دیکھیں:موافقة صحيح المنقول لصريح المعقول:1/13).
5- تفسیر قرآن کریم کے باب میں قرآن سے قرآن، پھر سنت سے قرآن، پھر اقوال صحابہ کرام -رضی اللہ عنہم- سے، پھر اجماع تابعین سے تفسیر پر اعتماد کرتے ہیں”(دیکھیں:مجموع الفتاوی:13/363-365).
6- نصوص شرعیہ کو سمجھنے میں صحابہ کرام -رضوان اللہ علیہم اجمعین- کی فہم، اعمال، اور اقوال پر اعتماد کرتے ہیں، کیونکہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد یہی سب سے افضل ہیں، اور ساتھ ہی انہوں نے نبی کریم – صلی اللہ علیہ وسلم- سے بنفس نفیس دین کی باتوں کو سیکھا، سمجھا، اور دوسروں تک پہنچایا(دیکھیں:الجرح والتعديل لابن أبي حاتم:1/7).
7- ان تمام باتوں پر ایمان رکھتے ہیں؛ جو اللہ اور اس کے رسول – صلی اللہ علیہ وسلم- سے ثابت ہیں؛ کیونکہ کتاب و سنت میں جو کچھ ثابت ہے، اس پر ایمان رکھنا ہر مومن کے لئے واجب ہے، گرچہ وہ اس کا معنی نہ سمجھے”(دیکھیں:التدمرية، ص:65-66).
8- حقائق ایمان کو بیان کرنے میں الفاظ شرعیہ کا استعمال کرتے ہیں؛ کیونکہ وہ منزّل من اللہ ہیں، اور ان ہی سے ایمان کے حقائق بہتر طریقے سے اجاگر ہو سکتے ہیں(دیکھیں:النبوت لابن تيمية:2/876).
9- کسی بھی مسئلہ میں اختلاف کی صورت میں کتاب وسنت کی طرف رجوع کرتے ہیں؛ کیونکہ اس بات پر سلف وخلف کا اتفاق رہا ہے کہ جب بھی دین سے متعلق کسی بھی مسئلہ میں ائمہ مجتہدین کے درمیان اختلاف ہو جائے تو ایسے میں کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنا واجب ہے(دیکھیں:شرح الصدور بتحريم رفع القبور، ص:3).
جماعت اہل حدیث کی چند خصوصیات:
1- کتاب و سنت اور اجماع سلف پر اعتماد کرتے ہیں.
2- کتاب وسنت سے ثابت اللہ، فرشتوں، کتابوں، رسولوں، یوم آخرت، اور بھلی بری تقدیر سے متعلق تمام باتوں پر ایمان رکھتے ہیں.
3- بغیر تقصیر و غلو کے امر بالمعروف و نہی عن المنكر کا فریضہ انجام دیتے ہیں.
4- جس طرح امت محمدیہ دیگر تمام امتوں کے درمیان وسطیت پر قائم ہے، اسی طرح اہل حدیث(اہل السنہ والجماعہ) تمام فرقوں کے مقابلے میں وسطیت و اعتدال پر گامزن ہے.
5- یہ پوری جماعت کے ساتھ چلنے، اور وحدت و الفت کو فروغ دینے کا اہمتام کرتے ہیں.
6- یہ تمام مخالف گروہ کے ساتھ عدل وانصاف کا برتاؤ رکھتے ہیں.
خلاصہ یہ ہے کہ:
جماعت اہل حدیث اصول و فروع، اور اخلاق ومعاملات میں وسطیت پر گامزن ہیں، یہ وجہ ہے کہ ان کے آئمہ متقدمین اور متاخرین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، چنانچہ جو چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اہل حدیث ہی حق پر ہیں؛ وہ یہ کہ ان کے اول تا آخر سب کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے، گرچہ زمانہ مختلف ہے، علاقہ مختلف ہے؛ مگر قلب ایک، قالب ایک، اور زبان بھی ایک ہی ہے، تو اس سے بڑھ کر حقانیت کی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے؟!(دیکھیں:كتاب الانتصار لأصحاب الحديث،ص:45).