عمر عائشہ رض 6 یا 16 سال؟ مولانا عطاء اللہ بندیالوی کو جواب

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

جمع و ترتیب: مریم انصاری(حیدر آباد)

نکاح کے وقت اُمّ المومنین عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا کی عمر 6 یا 16 سال؟ سید سبطین شاہ نقوی حفظہ اللہ کا  دیوبندی عالم مولانا عطاء اللہ بندیالوی کو جواب

اس پر فتن دور کے وقتا فوقتا امت مسلمہ کی مسلم شخصیات کے بارے غیر مسلموں کی طرف سے کوئی نہ کوئی گستاخی والا معاملہ سامنے آتا رہتا ہے۔ عمر عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے حالیہ ایام میں پڑوسی ملک کی ایک بدبخت عورت نوپر شرما نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کو بنیاد بناتے ہوئے پیارے پیغمبر خاتم النبیین جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی شان اقدس میں توہین کی اور میڈیا پر برملا طور پر اس کا ارتکاب کیا جس سے امت مسلمہ سخت غم و غصے میں مبتلا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس طرح کے لوگوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے  اور جواب دیا بھی گیا ہے۔

 لیکن سرگودھا شہر کے ایک دیوبندی عالم مولانا عطاء اللہ بندیالوی نے جب اس مسئلہ پر گفتگو کی تو جواب دینے کے بجائے امت کے متفقہ اور اجماعی مسئلہ کا انکار کرتے ہوئے صحیح ثابت احادیث مبارکہ کا انکار کردیا۔جس کا جواب انہیں کے شہر کے جید عالم دین اور مسلک اہلحدیث کا بھر پور دفاع کرنے والے علامہ سید سبطین شاہ نقوی حفظہ اللہ نے بڑے ہی مدلل انداز میں خطبہ جمعہ کی صورت میں جواب دیا اور ان کے اعتراض کو با دلیل رفع کیا۔ ذیل میں بندیالوی صاحب کا اعتراض من و عن نقل جاتا ہے۔ پھر اس کے بعد شاہ صاحب حفظہ اللہ کی طرف سے ویڈیو بیان  کی صورت میں دیا گیا جواب مختصر ذکر کیا جائے گا

( یاد رہے شاہ صاحب حفظہ اللہ کے الفاظ من و عن نقل نہیں کیے گئے بلکہ ان کا جو مقصود ہے وہ بیان کیا جائے گا ان شاء اللہ۔)۔

اعتراض بندیالوی:

نوپر شرما نے جو بات کہی وہ تمسخر کرنے کے لیے، اس نے مذاق اڑایا ہےکہ چھ سال کی بچی کے ساتھ تمہارا نبی شادی کرتا ہے ، چھ سال کی عمر میں، 9 سال کی عمر میں۔ ہمارے علماء اس پر کیوں اڑے ہوئے ہیں؟ کیوں اڑے ہوئے ہیں اس بات پر  ہمارے علماء کہ حضرت عائشہ کی عمر چھ سال تھی۔ جبکہ تحقیق یہ ہے کہ حضرت عائشہ کی عمر 16 سال تھی۔ تحقیق ہوچکی ہے۔ اگر کسی حدیث کی کتاب میں آگیا۔ پہلے زمانہ میں حدیثیں چھپتی تھی؟  قلمی لکھی جاتی تھی۔ ایک صاحب نے لکھی حدیث کی کتاب دوسرے نے کہا مجھے بھی دے میں بھی نقل کرلوں(پنجابی میں)۔

 میں نے خود جب دورہ حدیث پڑھا ہے۔ ترمذی کی جو تقریر حدیث ہے۔ حدیث کی کتاب ہے ترمذی ۔ اس کی جو تقریر ہے استادوں کی لکھی ہوئی کاپی ۔ اس وقت فوٹو اسٹیٹ نہیں ہوتے تھے۔ ہم نے لکھی تھی۔ میں نے اپنی لکھی دوسرے طالبعلم نے اپنی لکھی۔ اب استادوں کی تحریر لکھتے ہوئے کوئی لفظ رہ جائے۔ نہیں رہ سکتا؟ تو میری کتاب جو ہے بس وہ مستند ہے کہ بندیالوی کی کتاب ہے۔ بندیالوی کی کتاب میں غلطی نہیں ہوسکتی۔ کوئی لفظ رہ سکتا ہے۔ ستۃ عشر کی جگہ عشر نہ لکھا گیا۔ ستۃ لکھا گیا۔ ساڈے ہتھے چڑھ گیا( ہمارے ہاتھوں میں آگیا) ہم نے اسے چھ سال بنا لیا۔ تھا ستۃ عشر سولہ سال۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ ہماری کتاب میں آجائے تو ہم مستشرقین کے ہاتھ میں ہتھیار دے دیں۔

بندیالوی صاحب کی اس بات سے مندرجہ ذیل اعتراضات سامنے آتے ہیں:

1: نکاح کے وقت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر 16 سال تھی نہ کہ 6 سال۔

2: غیر مسلم عورت نوپر شرما نے جو گستاخی کی اس میں غلطی اس کی نہیں بلکہ اس کے اصل ذمہ دار خود مسلمان ہیں جو اس طرح کی باتیں اپنی کتب میں لکھتے ہیں۔

3: جن روایات میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی نکاح کے وقت عمر 6 سال اور رخصتی کے وقت 9 سال کا ذکر ہے وہ غلطی اور وہم ہے۔ اصل روایت 16 سال کی ہے۔

4: نعوذ اللہ تمام محدثین اور اسلاف نے نقل پر نقل ماری ہے کسی نے تحقیق نہیں کی۔ کسی لکھنے والے نے چھ سال لکھ دی باقی سب نے ایسے ہی نقل کردیا۔

5: کتب حدیث مستند ذخیرہ نہیں۔ اس لیے کہ لکھنے والےکو وہم ہوسکتا ہے۔

6: ان تمام باتوں کی دلیل  یہ دی ہے کہ اپنی آپ بیتی بیان کر دی کہ ہم سے بھی لکھتے ہوئے غلطی ہوگئی تھی۔

جواب:

مندرجہ بالا تمام اعتراضات کے شاہ صاحب رحمہ اللہ نے مختلف انداز میں جواب دیے ہیں جو کہ بالترتیب ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں:

ابتدا  عرض ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک کے حوالہ سے جو احادیث ہیں وہ صحیح بخاری ودیگر کتب احادیث  کی ہیں جو حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہے۔ یعنی متواتر ہے اور متواتر حدیث سند کی بھی محتاج نہیں ہوتی۔ جیسا کہ علامہ عینی حنفی (م :888 ھ ) لکھتے ہیں:

 حديث عائشة رضي الله تعالى عنها مشهور وقريب إلى التواتر . 

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث متواتر کی حد تک مشہور ہے ۔

(البناية في شرح الهداية : 90/5)

اسی طرح حافظ ابن کثیر اللہ (776 ھ) فرماتے ہیں:

قوله : تزوجها وهي ابنة ست سنين، وبنى بها وهي ابنة تسع،ما لا خلاف فيه بين الناس .

حدیث:” نبی کریم ﷺ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے چھ سال کی عمر میں نکاح کیا اور نو سال کی عمر میں ہم بستری کی ۔ اس بارے میں اہل علم کے مابین کوئی اختلاف نہیں۔“ (البداية والنهاية : 327/4)

اور شارح ہدایہ علامہ ابن ہمام حنفی رحمہ اللہ (821 ھ) فرماتے ہیں:

تزويج أبي بكر عائشة رضي الله عنهما وهي بنت ست نص قريب من المتواتر .

سید نا ابو بکر ﷺ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا چھ برس کی عمر میں نکاح کیا ، یہ حدیث نص ہے، جومتواتر کے قریب ہے ۔

(فتح القدير : 274/3)

 

  البتہ روایات میں الفاظ مختلف ہیں ۔ کسی میں چھ سال اور کسی میں سات سال تو چھ اور سات سال کی مختلف جو روایات ہیں ان کی محدثین نے بہت ہی عمدہ انداز میں وضاحت کر دی ہےکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی عمر چھ سال سے اوپر اور سات سال سے کم تھی۔ اور عرب کا یہ اسلوب تھا کہ  بسا اوقات عدد بیان کرتے ہوئے کبھی تو کسر توڑ دی جاتی ہے اور کبھی مکمل کردی جاتی ہے۔ یعنی سال سے اوپر والے مہینے کبھی بیان کردیے جاتے ہیں اور کبھی چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ تو جن رواۃ نے چھ سال بیان کی انہوں نے اوپر والے مہینے حذف کرکے بیان کردی اور جنہوں نے سات سال عمر بیان کی انہوں نے اوپر والے مہینے شمار کرتے ہوئے کسر کو مکمل کردیا۔

 لہذا چھ سال کہنا بھی حق ہے کہ سیدہ رضی اللہ عنہا کی عمر چھ سال سے کچھ زیادہ تھی اور سات سال بھی بیان کرنا حق ہے اس لیے کہ سات سال کے قریب قریب عمر تھی۔ جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے کہ: 

حافظ نووی رحمہ اللہ (676 ھ ) لکھتے ہیں:

 أما قولها في رواية تزوجني وأنا بنت سبع وفي أكثر الروايات بنت ست فالجمع بينهما أنه كان لها ست وكسر ففي رواية اقتصرت على السنين وفي رواية عدت السنة التي دخلت فيها والله أعلم .

  ایک روایت میں سیدہ عائشہ ﷺ کہتی ہیں کہ نکاح کے وقت ان کی عمر سات سال تھی ، جبکہ دوسری میں چھ کا ذکر ہے تطبیق یوں ہو گی کہ نکاح کے وقت آپ کی عمر چھ سال مکمل اور کچھ ماہ تھی ۔ ایک روایت میں صرف سالوں کے ذکر پر اکتفا کیا اور دوسری میں اسے بھی علیحدہ   سال تصور کر لیا ، جس میں داخل ہو چکی تھیں ۔ واللہ علم ! (شرح النووي : 207/9)

اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852 ھ) فرماتے ہیں:

 الصحيح أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم تزوجها وهي بنت ست، وقيل : سبع، ويجمع بأنها كانت أكملت السادسة ودخلت في السابعة، ودخل بها وهي بنت تسع .

 درست یہی ہے کہ نبی کریم ﷺ سے نکاح کے وقت سیدہ کی عمر چھ برس تھی ، دوسری روایت کے مطابق سات برس تھی تطبیق یہ ہے کہ نکاح کے وقت آپ کی عمر کا چھٹا سال گزار کر ساتویں میں داخل ہو چکی تھیں اور رخصتی کے وقت عمر کی نو بہار میں دیکھ چکی تھیں ۔ (الإصابة في تمييز الصحابة: 282/8)

دوسری بات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی نکاح کے وقت عمر مبارک پر سب سے پہلےروافض نے اعتراض کیا تھا ، وہ  کئی انداز میں مذاق اڑایا کرتے اور تضحیک کرتے  ، کتابوں میں ، تقریروں میں، تحریروں میں۔ لیکن حیرانگی کی بات یہ ہوئی کہ اہل السنہ میں سے اس مسئلہ کو پہلی مرتبہ شاہ صاحب حفظہ اللہ کے قریب مسجد سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خطیب حضرت عطاء اللہ بندیالوی صاحب نےان احادیث کا انکار کیا۔ 

اعتراض نمبر 1 کا جواب:

یہ دعوی صرف مولانا صاحب کا ہے ۔ آپ سے پہلے کسی نے یہ دعوی نہیں کیا۔ اسلاف امت امام ابوحنیفہ ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد، امام بخاری ، امام مسلم، امام ابوداؤد، امام نسائی وغیرہم رحمہم اللہ میں سے کسی نے یہ بات نہیں لکھی کہ  نکاح کے وقت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر 16 سال تھی ۔ یہاں تک کہ یہ بات علمائے دیوبند میں سے کسی ثقہ عالم مثلا: دیوبند مدرسہ کے شیخ الحدیث انور شاہ کشمیری ، اشرف علی تھانوی ، قاسم نانوتوی وغیرہم میں سے بھی کسی نے لکھی ہے جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے لکھا ہے اور حدیث بیان کی ہے جس کی راویہ خود امی عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں جو خود فرماتی ہیں کہ میں چھ سال کی تھی جب حضور کے ساتھ میرا نکاح ہوا۔ اور میں نو سال کی تھی جب حضور کے ساتھ میری رخصتی ہوئی۔ یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں۔

 اور مولانا صاحب کہتے ہیں کہ نقل پر نقل اور مکھی پر مکھی  ماری ہے اور دلیل کیا دی؟  کسی نے لکھ دیا  ہوگا ۔ مطلب مولانا صاحب کے نزدیک سارے ہی نقل پر نقل اور مکھی پر مکھی ہی مارتے رہے؟ مکھی صرف مولانا صاحب کو  ہی نظر آئی۔ صرف ایک انہیں ہی نظر آئی؟ امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے مصنف ابن ابی شیبہ میں امام ابن ابی شیبہ نے، امام عبدالرزاق نے مصنف عبدالرزاق میں یہ حدیث  لکھی؟  اور کون سی وہ  حدیث کی کتاب ہے جس میں یہ حدیث نہیں؟ سب ہی مکھی پر مکھی مارتے رہے صرف تم نے مکھی نہیں ماری۔ 

مزید دلائل ان شاء اللہ آگے آرہے ہیں۔

اعتراض نمبر 2 کا جواب:

مولانا صاحب عرض ہے کہ اس گستاخی کے ذمہ علماء و محدثین نہیں بلکہ آپ جیسی ذہنیت کے لوگ ہیں جو اس طرح کی باتیں عوام میں مشہور کرتے ہیں اور صحیح صریح احادیث کا انکار کرتےہیں۔ جب مسلمان پختہ عقیدہ اور کامل ایمان والے ہوجائیں اور احادیث کو صحیح مقام دیں تو کسی کو جرات نہیں اس طرح کے اعتراض کرنے کی۔ اور دوسری بات کہ اس طرح کے لوگوں کو منہ توڑ جواب دینا چاہیے نہ کہ رعب میں آکر صحیح صریح مسلمات کا ہی انکار کردیا جائے۔

اعتراض نمبر 3 کا جواب:

یہ وہم اور غلطی حدیث میں نہیں بلکہ مولانا صاحب کے دماغ میں ہوئی ہے ۔ جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کہ یہ دعوی صرف مولانا صاحب کا ہے ۔ ان سے پہلے کسی نے یہ دعوی نہیں کیا۔ اور پھر تعجب کی بات کہ اس وہم اور غلطی کو ثابت کرنے کے لیے دلیل بھی بڑی ہی عجیب دی ہے۔ مزہ تو تب تھا جب محدثین کے اقوال نقل کیے جاتے، کتب احادیث کے حوالے دیے جاتے، روایات کی روشنی میں اس وہم کا دعوی کیا جاتا ۔ لیکن کہاں مولانا صاحب اور کہاں دلیل!! یہ تو تک ہی نہیں بنتی۔ دلیل دی بھی تو اپنی ذات سے اور وہ بھی ایسی کو عقل سلیم تسلیم نہیں کرسکتی ۔ کہتے ہیں: جب ہم پڑھتے تھے تو استاد دورہ حدیث میں تقریر ترمذی پڑھاتے تھے تو ایک طالبعلم لکھ لیتا اس سے سب لکھ لیتے۔ جو غلطی اس سے ہوجاتی وہی سب کرتے۔ میں بھی وہی غلطی کرتا اور وہ بھی وہی۔

  تو حضرت عرض ہے کہ یہ بات تمہاری کاپی کی نہیں۔ تم تو غلطی کرتے ہو۔ یہ بات( حدیث ) تو صحیح بخاری کی ہے۔ کہاں تم اور کہاں امام بخاری؟ کہاں تمہاری نقل اور کہاں امام بخاری؟ کہاں تمہاری تقریر اور کہاں امام بخاری کی تحقیق۔  

کیا کر رہے ہو؟ کیا کہ رہے ہو؟ پہلے بھی چند سال قبل ایک بات ہوئی تھی۔ یہ ساری باتیں جو تم لکھتے رہے ہو؟ کیا ساری کاپیاں ایسے ہی لکھتے رہے ہو؟  جو بھی کاپی لکھی وہ غلط ہی لکھی۔ چند سال پہلے بھی تم نے فرمایا تھا ۔ جب تم نے حدیث پڑھی تھی کہ فاتحہ کے بغیر بھی نماز ہوجاتی ہے ۔ حدیث ہے : فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ اسی طرح حدیث ہے خطبہ کے بغیر جمعہ نہیں ۔ اب ہر بندہ تو خطبہ نہیں پڑھتا۔ ایسے ہی وہ حدیث ہے اور ایسے ہی یہ حدیث ہے۔ تو میں ( شاہ صاحب )نے پوچھا کہ خطبہ کے بغیر جمعہ  نہیں۔ یہ حدیث کہاں ہے؟ پھر ہم ڈٹ گئے اور تقاضہ کیا کہ دیں  یہ حدیث ۔ تو پھر جمعہ میں کہا کہ دورہ حدیث میں استاد جی نے کاپی میں لکھوائی تھی ۔ اب بعد میں پتہ چلا کہ یہ حدیث نہیں مجھ سے غلطی ہوگئی تھی۔ تو کیا ساری کاپیاں ایسے ہی غلطیوں سے بھری ہیں؟ 

نقل مارتے ہوئے بندہ ہوش سے کام لے لیتا ہے۔ 

یہ حدیث ہے۔ اور صحیح بخاری کی حدیث ہے جس پر امام بخاری رحمہ اللہ نے  باب باندھا ہے ۔

اعتراض نمبر 4 کا جواب:

 مولانا صاحب کہتے ہیں کہ عشر رہ گیا ہے۔ چھ لکھا سولہ نہیں لکھا۔ نو لکھا انیس نہیں۔مولانا صاحب عرض ہے کہ نقل پر نقل اور مکھی پر مکھی محدثین نےنہیں بلکہ آپ نے ماری ہے۔ بات کرنے سے پہلے تحقیق کرلیتے یا کوئی مستند دلیل ہی ذکر کردیتے تاکہ بات  میں وزن پیدا ہوتا۔ اپنے اس دعوی کی دلیل بھی دی تو کیا دلیل دی کہ :

” لکھا ہوگا”

 یعنی لکھنے والے نے سولہ لکھا ہوگا اور نقل کرنے والے نے چھ کردیا۔۔۔۔  سبحان اللہ ۔۔۔۔ 

عجیب بات ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہوگیا کہ کوئی کہے کہ 

 نمازیں تین ہیں۔ اس لیے کہ ہوسکتا ہے تین ہوں اورلکھنے والے نے پانچ لکھ دیا ہو۔

 طواف کے چکر پانچ ہوں اور خمسہ کی جگہ سبعہ لکھ دیا ہو۔

 ہوسکتا ہے نماز کے بعد سبحان اللہ بتیس دفعہ ہو کسی نے تینتس لکھ دیا ہو۔ 

قربانی کے تین دن ہیں غلطی سے کسی نے ایک لکھ دیا ہو۔

  نبی کریم ﷺ کی بیٹیاں چار ہیں کسی نے یہ غلطی سے لکھ دیا ہو۔ ہوسکتا ہے آٹھ ہوں۔ 

یہ  فرضیہ تو سازش ہے اورپورے اسلام کو مسخ اور ختم کرنے والا انداز ہے۔ ہوسکتا ہے قرآن پاک میں نعوذ باللہ یہ آیت نہ ہو، کسی نے غلطی سے لکھ دی ہو۔  یہ بھی کوئی انداز ہے؟ یہ کوئی بات ہے کہنے کی؟  

امام بخاری نے ویسے ہی لکھ دیا ہو۔ عشر ہ رہ گیا ہو۔ قلم آپ کا  ہے جو عشر ہ رہ گیا ہے؟ 

نیچے عشر چھوڑو  اوپر دیکھو  امام بخاری نے باب کیا باندھا ہے؟  پہلے باب پر غور کرتے ہیں۔ باب باندھ کر نیچے حدیث لائے ہیں۔ اگر عشرہ  رہ جاتا ہے تو اوپر باب کیوں باندھتے؟ باب کیا لکھا ہے:

 باب النکاح الرجل ولدہ الصغار ۔

 یعنی چھوٹے بچے اور بچیوں کا نکاح کرنا ۔ 

یہ باب باندھ کر امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث لائے ہیں۔ اگر عشرہ  رہ گیا ہوتا تو یہ باب کیوں باندھتے کہ والد یا سرپرست کا چھوٹے بچے بچیوں کا نکاح کرنا۔   پہلے باب باندھا پھر نیچے حدیث لائے ہیں۔ کہ صدیق نے چھ سال کی عمر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نکاح کیا۔ 

 

کیا جب ابن حجر رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی شرح لکھی تو انہیں لکھنا نہیں چاہیے تھا کہ ہوسکتا ہے کہ عشر ہ رہ گیا ہو۔ انہوں نے تو نہیں لکھا۔ بلکہ انہوں نے تو نیچے لکھا ہے کہ اس باب اور نیچے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث لا کر یہ ثابت کیا ہے کہ نابالغہ بچی کا نکاح ہوسکتا ہے۔ 

تمہیں سمجھ آگئی ہے۔ امام ابن حجر ، امام ابن ہمام ، ابن القیم کو سمجھ نہیں آئی جو اس حدیث کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ نابالغ بچی کا نکاح ہوسکتا ہے۔

اعتراض نمبر 5 کا جواب:

مولانا صاحب کچھ اللہ کا خوف کریں۔ من و عن یہی دعوی منکرین حدیث کا ہے جو برملا احادیث صحیحہ ثابتہ کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کیسے ان احادیث پر اعتماد اور یقین کریں یہ تو بعد میں لکھی گئی ہیں۔ آپ نے بھی انہی کی زبان استعمال کرتے ہوئے یہ بات کہہ دی۔ اس دین کی حفاظت کا ذمہ تو اللہ تعالی نے لیا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہےکہ دین میں کوئی بات داخل کردی جائے اور اسلاف امت میں سے کسی نے اس کی تردید نہ کی ہو۔ بلکہ سب کے سب اس پر متفق ہوجائیں۔

اعتراض نمبر 6 کا جواب:

مولانا صاحب دین کے معاملہ میں دلیل یا تو رب کا فرمان ہے یا پیارے پیغمبر ﷺ کی باتیں۔ آپ کی آپ بیتی یا آپ کی باتیں آپ یا آپ کے ماننے والوں کے لیے تو دلیل بن سکتی ہیں لیکن شریعت میں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ آپ نے جو اپنی تحریر اور کاپیاں لکھنے کی دلیل دی ہے وہ کسی طرح بھی حجت نہیں ہوسکتی۔

اب ہم وہ دلائل ذکر کرتے ہیں جو واضح طور پر اس بات کا ثبوت ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح چھ سال کی عمر میں، رخصتی نو سال کی عمر میں اور نبی کریم ﷺ کی وفات کے وقت آپ  کی عمر 18 سال تھی۔ اور یہ کہ نا بالغ بچی کا نکاح کرنا جائز اور درست ہے:

عمر عائشہ رضی اللہ عنہا قرآن سے دلائل:

 دلیل نمبر 1:

                                                           وہ عورتیں جنہیں طلاق ہوجائے قرآن مجید میں ایسی عورتوں کی تین اقسام بیان کی گئی ہیں:

1: وہ عورتیں جو جوان ہیں اور حیض آتا ہے ان کی عدت تین حیض ہے۔

2: وہ عورتیں جن کا حمل ظاہر ہوجائے ان کی عدت وضع حمل ( ڈیلیوری) ہے۔

3: وہ عورتیں جنہیں حیض آنا بند ہوگیا کسی بیماری کی وجہ سے یا شروع سے آتا ہی نہیں اور لڑکی جو ابھی تک بالغ نہیں ہوئی یعنی  حیض شروع نہیں ہوا تو ان کی عدت تین مہینے ہے جیسا کہ 28 پارہ سورۃ الطلاق آیت نمبر چار میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا

 

اور وہ عورتیں جو تمہاری عورتوں میں سے حیض سے ناامید ہوچکی ہیں، اگر تم شک کرو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی جنھیں حیض نہیں آیا اور جو حمل والی ہیں ان کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل وضع کردیں اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے اس کے کام میں آسانی پیدا کر دے گا۔

یہ آیت مبارکہ واضح دلیل ہے کہ چھوٹی عمر یعنی بلوغت سے پہلے بچی کا نکاح کرنا جائز ہے۔ اس لیے کہ طلاق نکاح کے بعد ہی ہوتی ہے۔ اگر چھوٹی بچی جسے ابھی حیض آنا شروع نہیں ہوا اس کا نکاح جائز نہیں ہوتا تو پھر طلاق کیسی؟ اتنی صراحت کےبعد بھی تم کہتے ہو نکاح جائز نہیں۔ قربان جائیں امام بخاری رحمہ اللہ پر جب کتاب التفسیر میں یہ آیت لائے   تو اس آیت پر یوں باب قائم کیا ہے:

 باب إنكاح الرجل ولده الصغار. 

”چھوٹے بچوں اور بچیوں کے نکاح کا بیان ۔“ (صحيح البخاري، قبل الحديث : 5133)

اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م :852 ھ ) لکھتے ہیں : 

” ترجمۃ الباب میں لفظ ولد جنس ہے، یہ لفظ مذکر ومؤنث دونوں کو شامل ہے۔ امام بخاری اللہ کہتے ہیں کہ آیت وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ۚ میں اللہ نے نابالغ لڑکی کی عدت تین ماہ بتائی ہے۔ امام صاحب نابالغ کے نکاح کو جائز قرار دے رہے ہیں ، ان کا یہ استدلال بہت عمدہ ہے۔“(فتح الباري : 190/9 ) 

اسی طرح علامہ ابن ہمام الحنفی(861 ھ ) لکھتے ہیں : 

ولی نابالغ بچے اور بچی کا نکاح کر سکتا ہے، اللہ نے سورت (الطلاق:4 ) میں نابالغ بچی کی عدت بیان کی ہے اور عدت نکاح کے بعد ہی ہوتی ہے(فتح القدیر 3/274)۔

دلیل نمبر 2:

                                                           قرآن  مجید سورۃ النساء میں اللہ تعالی نے یتیم بچیوں کے نکاح کے معاملہ میں ایک اور مسئلہ بیان کیا ہے جس بچی کا والد فوت ہوجاتا اور وہ کسی چاچا وغیرہ کی کفالت میں ہو تی۔ اگر حسین اور مالدار ہوتی تو اس کی کفالت کرنے والا چاہتا کہ اس سے نکاح کرلوں اور مال پر بھی قبضہ کرلیتا اور حق مہر نہیں دیتا۔ اس نیت سے کہ لڑکی نکاح میں بھی آجائے گی اور مال بھی میرے پاس ہی ہوگا تو اللہ تعالی نے اس سے منع کردیا کہ آزاد عورتوں سے نکاح کرلو ۔ یتیم بچیوں پر ظلم نہ کرو۔ اور اگر لڑکی حسین یا مالدار نہ ہوتی تو اس کا نکاح کسی اور سے کروادیا جاتا۔ جیسا کہ سورۃ النساء آیت نمبر 127 میں ہے کہ:

 وَيَسْتَفْتُوْنَكَ فِي النِّسَاۗءِ ۭ قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِيْهِنَّ ۙ وَمَا يُتْلٰي عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ فِيْ يَتٰمَي النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ لَا تُؤْتُوْنَھُنَّ مَا كُتِبَ لَھُنَّ وَتَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْكِحُوْھُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الْوِلْدَانِ ۙوَاَنْ تَقُوْمُوْا لِلْيَتٰمٰي بِالْقِسْطِ ۭ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِهٖ عَلِــيْمًا      

اور وہ تجھ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں، کہہ دے اللہ تمہیں ان کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے اور جو کچھ تم پر کتاب میں پڑھا جاتا ہے وہ ان یتیم عورتوں کے بارے میں ہے جنھیں تم وہ نہیں دیتے جو ان کے لیے فرض کیا گیا ہے اور رغبت رکھتے ہو کہ ان سے نکاح کرلو اور نہایت کمزور بچوں کے بارے میں ہے اور اس بارے میں ہے کہ یتیموں کے لیے انصاف پر قائم رہو اور تم جو بھی نیکی کرو سو بیشک اللہ ہمیشہ سے اسے خوب جاننے والا ہے۔

اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے جیسا کہ عروہ بن زبیر اللہ بیان کرتے ہیں :

 ” میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (سورۃ النساء:3 ) کے متعلق پوچھا،فرمانے لگی : بھانجے ! ایک بچی اپنے ولی کی سر پرستی میں ہوتی ہے، اس کے پاس مال بھی ہوتا ہے، ولی اس کے مال اور اس کے حسن کی طرف راغب ہو جاتا ہے اور پورا حق مہر ادا کئے بغیر اس سے نکاح کرنا چاہتا ہے ،اس آیت میں اس قبیل کے لوگوں کو ممانعت کی گئی ہے، انہیں حکم دیا گیا ہے کہ نکاح کرنا ہے، تو حق مہر معاشرے کے مطابق جتنا بنتا ہے ، پورا دو۔ یا پھر کسی اور سے شادی کر لیں۔ان سے نہ کریں۔ 

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : اس آیت کے بعد کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے فتوی مانگا، تو (سورۃ النساء : 127 ) نازل ہوگئی ۔ اس آیت میں وَمَا يُتْلٰي عَلَيْكُمْ سے مراد پہلے والی (النساء : 3 ) آیت مراد ہے ۔ دوسری (النساء : 127 ) میں اللہ تعالی کے فرمان : وَتَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْكِحُوْھُنَّ کی تفسیر کچھ یوں ہے کہ یتیم بچی جب کم مال اور کم جمال والی ہوتی ،تو اس سے نکاح کر نے میں بے رغبتی کرتے ،لہذا حکم ہوا کہ جیسے تم مال و جمال کی کمی کی وجہ سے نکاح نہیں کرتے ، ایسے ہی اگر انصاف نہیں کر سکتے ، تو جن یتیم بچیوں کے مال و جمال میں تمہیں رغبت ہو، ان سے بھی نکاح مت کرو۔

(صحيح البخاري : 2494)

اس مسئلہ میں اللہ تعالی نے لفظ یتیم استعمال فرمایا ہے۔ کہ یتیم بچیوں سے نکاح کرلو جب انصاف پورا کرلو۔ اور یتیمہ کی جمع یتامی ہے، یتیمہ اس بچی کو کہا جا تا ہے، جس کے بالغ ہونے سے پہلے اس کا باپ فوت ہو جاۓ ۔جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے سید نا حنظلہ بن حذیم بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا :

 لا يتم بعد احتلام، ولا يتم على جارية إذا هي حاضت .

 بچہ احتلام کے بعد اور بچی حیض کے بعد یتیم نہیں رہتے ۔“ (المعجم الكبير للطبراني : 14/4 ، ح : 3502، النفقة على العيال لابن أبي الدنيا :634 ، وسنده حسن)

لہذا معلوم ہوا کہ بلوغت سے پہلے لڑکی کا نکاح کرنا جائز ہے۔

دلیل نمبر 3:

قرآن کہتا ہے کہ یتیم بچیوں سے نکاح کرسکتے ہو۔ جیسا کہ سورۃ النساء آیت نمبر 3 میں ہے

: وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۚ 

اور اگر تم ڈرو کہ یتیموں کے حق میں انصاف نہیں کرو گے تو (اور) عورتوں میں سے جو تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کرلو، دو دو سے اور تین تین سے اور چار چار سے۔

اور یہ اسی وقت ہوگا جب بلوغت سے پہلے نکاح کیا جائے۔ اگر جوان لڑکی سے نکاح کر ذکر ہوتا تو اللہ تعالی یتیمی کا ذکر نہ کرتے۔ 

دلیل نمبر 4:

 بالغ عورت مراد لینے کے لئے لفظ ’نساء سے استدلال کیا جاتاہے، کیوں کہ نساء  کا لفظ بالغ عورت پر بولا جا تا ہے، لیکن یہ استدلال بھی درست نہیں ، کیوں کہ اس لفظ کا اطلاق نابالغ بچیوں پر بھی کیا گیا ہے ،جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے: 

يذبحون أبناء كم ويستحيون نساء كم﴾ (البقرة : 49)

”آل فرعون تمہارے بچوں کو ذبح کر دیتے تھے اور بچیوں کو زندہ چھوڑ دیتے تھے۔

“ لامحالہ یہاں نساء سے مراد بالغ عورتیں نہیں، دودھ پینے والی بچیاں ہیں، لہذا نابالغ بچیوں پر نساء کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے۔

جنس نساء میں بچیاں بھی داخل ہیں ،فرمان باری تعالی ہے:

وَلَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَاۗؤُكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ (النساء : 22)

ان خواتین سے شادی نہ کرو، جن سے آپ کے والد نے شادی کر رکھی ہو۔

نیز فرمان الہی ہے:

وَاُمَّھٰتُ نِسَاۗىِٕكُمْ (النساء : 23)

اپنی ساس سے نکاح نہ کرو۔

دونوں آیات میں نساء کا لفظ نا بالغ بچی کو بھی شامل ہے ،اگر کوئی شخص نا بالغ بچی سے شادی کرتا ہے، تو بلا اختلاف بچی کی ماں اس کے لیے محرمات ابدیہ سے ہوگی۔

عمر عائشہ رضی اللہ عنہا پر احادیث سے دلائل:

دلیل نمبر 5:

آیات مبارکہ کے ساتھ احادیث میں بھی دلیل ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح چھوٹی عمر یعنی چھ سال میں ہوا اور نا بالغ بچی کا بلوغت سے پہلے نکاح کرنا جائز ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ:

 أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ، وَأُدْخِلَتْ عَلَيْهِ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعٍ، وَمَكَثَتْ عِنْدَهُ تِسْعًا.( صحیح البخاری، حدیث نمبر 5133)

میری عمر چھ سال کی تھی جب نبی کریم ﷺ کے نکاح میں آئی اور رخصتی کے وقت نو سال تھی۔ اور میں نو سال نبی کریم ﷺ کے ساتھ رہی۔ (مفہومی ترجمہ)

اسی طرح صحیح مسلم میں امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہی حدیث ہے کہ: 

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِنْتُ سَبْعِ سِنِينَ، وَزُفَّتْ إِلَيْهِ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ، وَلُعَبُهَا مَعَهَا، وَمَاتَ عَنْهَا وَهِيَ بِنْتُ ثَمَانَ عَشْرَةَ.(صحیح مسلم ، حدیث نمبر 1422)

سیدہ عائشہ رضی عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا اس وقت میری عمر سات سال تھی اور رخصتی کی گئی تب نو سال تھی اور میری گڑیاں میرے ساتھ تھی اور آپ کی وفات کے وقت میری عمر اٹھارہ سال تھی۔

اتنی واضح حدیث کے بعد بھی مولانا صاحب ڈھٹائی کے ساتھ کہتے ہیں کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر نکاح کے وقت سولہ سال تھی۔ مولانا صاحب آپ نے پڑھا نہیں۔  صرف اونچا بولنے یا لمبی لمبی تقریریں کرنے سے کوئی عالم نہیں بنتا بلکہ عالم علم حاصل کرنے سے بنتا ہے۔ توجہ کرتے ہیں کہ قرآن کیا کہتا ہے۔ حدیث کیا کہتی ہے۔

اب بتائیں کیا عمر ہوگئی؟ صرف عشرہ نہیں رہ گیا بلکہ اس حدیث میں تو کھلونوں کا ذکر بھی آگیا ہے

(تو کیا کھلونوں سے 19 سال کی لڑکی کھیلے گی یا 9 سال کی بچی،؟؟ عائشہ رضی اللہ عنہا چونکہ 9 سال کی تھیں اس لیے کھلونوں سے کھیلنے کا ذکر کرکے بتا دیا کہ میری عمر 9 سال تھی نہ کہ 19 سال!!)

 لیکن مولانا صاحب کہتے ہیں نقل کرتے کرتے عشرہ رہ گیا۔ امی عائشہ نے عشرہ بیان کرکے اور امام مسلم نے نقل کرکے وضاحت کردی ہے کہ جو صحیح بخاری میں ہے وہ حق اور سچ ہے۔

دلیل نمبر 6:

اسی طرح بہت سی احادیث ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح بچپن میں ہی ہوگیا تھا جیسا کہ اوپر صحیح مسلم کی حدیث بیان ہوچکی ہے مذید یہ کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:

 قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ – أَوْ خَيْبَرَ – وَفِي سَهْوَتِهَا سِتْرٌ، فَهَبَّتْ رِيحٌ فَكَشَفَتْ نَاحِيَةَ السِّتْرِ عَنْ بَنَاتٍ لِعَائِشَةَ ؛ لُعَبٍ، فَقَالَ : ” مَا هَذَا يَا عَائِشَةُ ؟ ". قَالَتْ : بَنَاتِي. وَرَأَى بَيْنَهُنَّ فَرَسًا لَهُ جَنَاحَانِ مِنْ رِقَاعٍ ، فَقَالَ : ” مَا هَذَا الَّذِي أَرَى وَسْطَهُنَّ ؟ ". قَالَتْ : فَرَسٌ. قَالَ : ” وَمَا هَذَا الَّذِي عَلَيْهِ ؟ ". قَالَتْ : جَنَاحَانِ. قَالَ : ” فَرَسٌ لَهُ جَنَاحَانِ ؟ ". قَالَتْ : أَمَا سَمِعْتَ أَنَّ لِسُلَيْمَانَ خَيْلًا لَهَا أَجْنِحَةٌ ؟ قَالَتْ : فَضَحِكَ حَتَّى رَأَيْتُ نَوَاجِذَهُ .(سنن ابی داؤد حدیث نمبر 4932)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک یا خیبر سے آئے، اور ان کے گھر کے طاق پر پردہ پڑا تھا، اچانک ہوا چلی، تو پردے کا ایک کونا ہٹ گیا، اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی گڑیاں نظر آنے لگیں، آپ نے فرمایا:  عائشہ! یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: میری گڑیاں ہیں، آپ نے ان گڑیوں میں ایک گھوڑا دیکھا جس میں کپڑے کے دو پر لگے ہوئے تھے، پوچھا: یہ کیا ہے جسے میں ان کے بیچ میں دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولیں: گھوڑا، آپ نے فرمایا:  اور یہ کیا ہے جو اس پر ہے؟  وہ بولیں: دو پر، آپ نے فرمایا: گھوڑے کے بھی پر ہوتے ہیں؟ وہ بولیں: کیا آپ نے نہیں سنا کہ سلیمان علیہ السلام کا ایک گھوڑا تھا جس کے پر تھے، یہ سن کر آپ ہنس پڑے یہاں تک کہ میں نے آپ کی داڑھیں دیکھ لیں۔ 

یہ حدیث بھی بین دلیل ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح چھوٹی عمر میں ہوا تھا یہاں تک کہ اپنے کھلونے بھی ساتھ لے کر آئی تھیں۔

اجماع سے دلیل:

دلیل نمبر 7:

سارے علمائے امت نے اسے قبول کیا ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح چھوٹی عمر یعنی چھ سال میں ہوا جیسا کہ:

امام ابن منذر رحمہ اللہ (319 ھ ) فرماتے ہیں:

 أجمع كل من تحفظ عنه من أهل العلم، أن نكاح الأب ابنته البكر الصغيرة جائز .

تمام معتبر اہل علم کا اجماع ہے کہ باپ اپنی نابالغ بچی کا نکاح کر سکتا ہے ۔ (المغني لابن قدامة : 379/7)

 صرف مولانا صاحب کہتے ہیں کہ ہم نہیں مانتے ایسی حدیث کو جس سے مستشرقین کو ہتھیار دے دیا گیا ہے۔ عشرہ رہ گیا ہوگا۔

مولانا صاحب  عشرہ نہیں رہا بلکہ اجماع ہے اس پر پوری امت کا ۔ اتفاق ہے امت کا۔علمائے اہلسنت کا اتفاق ہے۔ امام بخاری، مسلم ، ابوداؤد کا اتفاق ہے۔ امام ابوحنیفہ، شافعی ، مالک اور احمد بن حنبل کا اتفاق ہے۔ کسی بھی مسلمان نے انکار نہیں کیا۔

اس مسئلہ سے رجوع کیا جائے اسی طرح جس طرح یہ کلپ چڑھایا ہے۔ اگر رجوع نہیں کیا تو ہم(آپ کے ) انکار حدیث کرنے کی صورت میں آگے بڑھیں گے۔ ہم پوچھے گےیہ تحقیق کہاں ہے۔ رافضیوں کی موافقت آپ نے کیوں کی ہے؟

 یا وضاحت کریں کہ اس کی دلیل کیا ہے؟ کون سی حدیث ہے؟ جب تک آپ دلیل نہیں دے گیں ہم پیچھے نہیں ہٹے گیں۔دلیل ہے تو لاؤ  وگرنہ مانو کہ مجھ سے غلطی ہوگی۔

تمام ائمہ امام بخاری، امام مسلم، امام عبدالرزاق ، امام ابن ابی شیبہ، امام احمد، حافظ ابن حجر ، حافظ ابن القیم، ابن ہمام ، علامہ عینی وغیرہم نے سچ لکھا۔ بڑے بڑے کبار علماء مان چکے ہیں اور لکھ چکے ہیں ۔ ایک ناصبی کی تحریر سے متاثر ہوکر بلا تحقیق وضاحت کردی ہے۔ تم نے بخاری کو پڑھا نہیں، مسلم کو دیکھا نہیں۔ہمارا سب کچھ، جان، مال ، ایمان حدیث کے لیے ہے۔ ہماری محبت، پیار حدیث کے لیے ہے۔ حدیث آجائے پھر بس عقل میں نہ آئے نہ آئے لیکن ہم ایمان رکھے گیں۔

جب اللہ تعالی نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بنایا ہی جناب محمد ﷺ کے لیے تو پھر چھوٹی عمر میں فہم، شعور، جسامت عطا کرسکتا ہے

صحیح بخاری کی حدیث ہے: ھی لک یا محمد، اے محمد ﷺ یہ بنائی ہی آپ کے لیے گئی ہیں۔ 

صحیح بخاری کی حدیث  ہے کہ جناب جبریل ریشمی کپڑے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی تصویر لائے آپ کو دکھایا ۔ آپ نے کہا یہ تو عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں تو جناب جبریل نے کہا: یہ دنیا میں بھی آپ کی بیوی ہیں اور جنت میں بھی۔

نبی کریم ﷺ نے کیسے پہچانا سیدہ عائشہ کو اس لیے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں کہ:

 لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَيَّ قَطُّ إِلَّا وَهُمَا يَدِينَانِ الدِّينَ، وَلَمْ يَمُرَّ عَلَيْنَا يَوْمٌ إِلَّا يَأْتِينَا فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَفَيِ النَّهَارِ بُكْرَةً وَعَشِيَّةً،

جب سے میں نے ہوش سنبھالا میں نے اپنے ماں باپ کو دین اسلام ہی پر پایا اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر صبح و شام دونوں وقت تشریف نہ لاتے ہوں۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3905)

اسی طرح ایک روایت میں نبی کریم ﷺ سے ایک زوجہ نے فرمایا جب آپ نے ان سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے پوچھا جب منافقین نے تہمت لگائی تھی، فرماتی ہیں کہ: بچی ہیں آٹا گوندتے گوندتے سو جاتی ہیں۔لیکن عائشہ میں میں نے کوئی برائی نہیں دیکھی۔

ان تمام دلائل سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح بچپن یعنی چھ سال کی عمر میں ہوا اور رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی جب آپ بالغ ہوچکی تھیں۔ اگر کوئی اعتراض کرنے والا اعتراض کرے کہ نو سال کی عمر میں بلوغت کیسے؟ 

تو عرض ہےکہ  امام شافعی رحمہ اللہ (204 ھ) فرماتے ہیں:

أعجل من سمعت به من النساء حضن نساء تهامة یحضن لتسع سنين . 

میرے علم کے مطابق سب سے جلدی تہامہ کی عورتوں کو حیض آ جا تا ہے، انہیں نو سال کی عمر میں حیض آ جا تا ہے ۔

(الأم : 229/5)

اسی طرح علامہ ابن قدامہ  (220 ھ) نقل کر تے ہیں:

 ذكر ابن عقيل أن نساء تهامة يحضن لتسع سنين . 

امام ابوالوفاء ابن عقیل اللہ نے ذکر کیا ہے کہ تہامہ کی عورتوں کو نو سال کی عمر میں حیض آ جا تا ہے ۔ (الشرح الكبير :318/1)

اور حنفی علماء میں سے علامہ کاسانی حنفی رحمہ اللہ ( 587 ھ) فرماتے ہیں :

 أما وقته فوقته حين تبلغ المرأة تسع سنين فصاعدا عليه أكثر المشايخ .

 ( بچی کو ) حیض آنے کی عمر نو سال یا اس سے کچھ زیادہ ہے، اکثر مشائخ (حنفیہ ) کا یہی مذہب ہے ۔“

(بدائع الصنائع : 41/1)اور ان کے علاوہ علامہ ابن ہمام حنفی رحمہ اللہ (861 ھ)

 علماۓ احناف کا اختلاف نقل کرنےکے بعد فرماتے ہیں: 

المختار تسع .مختار قول یہ ہے کہ (حیض کی کم سے کم عمر) نو سال ہے ۔(فتح القدير : 160/1 )۔ 

اسی طرح علامه طحطاوی حنفی رحمہ اللہ (1231 ھ) فرماتے ہیں:

تسع سنين هو ما عليه الفتوى .

 ( کم سے کم حیض آنے کی عمر) نو سال ہے، 

اسی پر (احناف) کا فتوی ہے ۔ (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، ص 138 ) اور آخری میں اس حوالہ سے  پانچ سو حنفی علماء کافتوی ہے :

 الوقت وهو من تسع سنين .( حیض کے لیے کم سے کم) عمر نو سال ہے۔ ( فتاوی عالمگیری:36/1 )

لہذا احناف کا بھی متفقہ فتوی ہے کہ بلوغت سے قبل لڑکی کا نکاح کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ مولانا صاحب نے بنا کسی تحقیق اور دلیل کے اتنے بڑے بڑے کبار علماء پر زبان طعن دراز کی کہ سب نے نقل پر نقل ماری ہے اور مکھی پر مکھی ماری ہے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی حق کو قبول کرنے اور اس کی تائید و نصرت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر قسم کے فتنہ و شر سے اپنی حفاظت میں رکھے۔

نوٹ: یہ تحریر سرزمین سرگودھا کی دو معزز شخصیات علامہ سید سبطین شاہ نقوی حفظہ ( کی ویڈیو تقریر) اور علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ( کی تحریر سے) استفادہ کرکے جمع کی گئی ہے۔

عمر عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے آپ اس لنک پر کلک کرکے ہماری سائٹ میں موجود دوسرا مضمون بھی پڑھ سکتے ہیں، 

 

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں