(Book:Night Prayer (19
أبوابالتهجد
Chapter No: 36
باب صَلاَةِ النَّوَافِلِ جَمَاعَةً
To offer Nawafil in congregation.
باب: نفل نمازیں جماعت سے پڑھنا
[quote arrow=”yes” "]
1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر:1186
فَزَعَمَ مَحْمُودٌ أَنَّهُ سَمِعَ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ الأَنْصَارِيّ َ ـ رضى الله عنه ـ وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ كُنْتُ أُصَلِّي لِقَوْمِي بِبَنِي سَالِمٍ، وَكَانَ يَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ وَادٍ إِذَا جَاءَتِ الأَمْطَارُ فَيَشُقُّ عَلَىَّ اجْتِيَازُهُ قِبَلَ مَسْجِدِهِمْ، فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقُلْتُ لَهُ إِنِّي أَنْكَرْتُ بَصَرِي، وَإِنَّ الْوَادِيَ الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَ قَوْمِي يَسِيلُ إِذَا جَاءَتِ الأَمْطَارُ فَيَشُقُّ عَلَىَّ اجْتِيَازُهُ، فَوَدِدْتُ أَنَّكَ تَأْتِي فَتُصَلِّي مِنْ بَيْتِي مَكَانًا أَتَّخِذُهُ مُصَلًّى. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ” سَأَفْعَلُ ”. فَغَدَا عَلَىَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَبُو بَكْرٍ ـ رضى الله عنه ـ بَعْدَ مَا اشْتَدَّ النَّهَارُ فَاسْتَأْذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَذِنْتُ لَهُ فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى قَالَ ” أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ ”. فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي أُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ فِيهِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَكَبَّرَ وَصَفَفْنَا وَرَاءَهُ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ وَسَلَّمْنَا حِينَ سَلَّمَ، فَحَبَسْتُهُ عَلَى خَزِيرٍ يُصْنَعُ لَهُ فَسَمِعَ أَهْلُ الدَّارِ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي بَيْتِي فَثَابَ رِجَالٌ مِنْهُمْ حَتَّى كَثُرَ الرِّجَالُ فِي الْبَيْتِ. فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ مَا فَعَلَ مَالِكٌ لاَ أَرَاهُ. فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ ذَاكَ مُنَافِقٌ لاَ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ” لاَ تَقُلْ ذَاكَ أَلاَ تَرَاهُ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ. يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ ”. فَقَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. أَمَّا نَحْنُ فَوَاللَّهِ لاَ نَرَى وُدَّهُ وَلاَ حَدِيثَهُ إِلاَّ إِلَى الْمُنَافِقِينَ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ” فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ. يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ ”. قَالَ مَحْمُودٌ فَحَدَّثْتُهَا قَوْمًا فِيهِمْ أَبُو أَيُّوبَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي غَزْوَتِهِ الَّتِي تُوُفِّيَ فِيهَا وَيَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَلَيْهِمْ بِأَرْضِ الرُّومِ، فَأَنْكَرَهَا عَلَىَّ أَبُو أَيُّوبَ قَالَ وَاللَّهِ مَا أَظُنُّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ مَا قُلْتَ قَطُّ. فَكَبُرَ ذَلِكَ عَلَىَّ فَجَعَلْتُ لِلَّهِ عَلَىَّ إِنْ سَلَّمَنِي حَتَّى أَقْفُلَ مِنْ غَزْوَتِي أَنْ أَسْأَلَ عَنْهَا عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ إِنْ وَجَدْتُهُ حَيًّا فِي مَسْجِدِ قَوْمِهِ، فَقَفَلْتُ فَأَهْلَلْتُ بِحَجَّةٍ أَوْ بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ سِرْتُ حَتَّى قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَأَتَيْتُ بَنِي سَالِمٍ، فَإِذَا عِتْبَانُ شَيْخٌ أَعْمَى يُصَلِّي لِقَوْمِهِ فَلَمَّا سَلَّمَ مِنَ الصَّلاَةِ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَأَخْبَرْتُهُ مَنْ أَنَا، ثُمَّ سَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ الْحَدِيثِ فَحَدَّثَنِيهِ كَمَا حَدَّثَنِيهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ.
.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
حدیث کی اردو تشریح: ⇪ [sta_anchor id=”urdtashree”]
حضرت امیر المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ اگر چہ اس طویل حدیث کو یہاں اپنے مقصد باب کے تحت لائے ہیں کہ نفل نماز ایسی حالت میں باجماعت پڑھی جا سکتی ہے۔ مگر اس کے علاوہ بھی اور بہت سے مسائل اور اس سے ثابت ہوتے ہیں مثلاًمعذور لوگ اگر جماعت میں آنے کی سکت نہ رکھتے ہوں تو وہ اپنے گھر ہی میں ایک جگہ مقرر کر کے وہاں نماز پڑھ سکتے ہیںاور یہ بھی ثابت ہوا کہ مہمانان خصوصی کو عمدہ سے عمدہ کھانا کھلانا مناسب ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بغیر سوچے سمجھے کسی پر نفاق یا کفر کا فتویٰ لگا دینا جائز نہیں۔ لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس شخص مالک نامی کا ذکر برے لفظوں میں کیا جو آپ کو ناگوار گزرا اورآپ نے فرمایا کہ وہ کلمہ پڑھنے والا ہے اسے تم لوگ منافق کیسے کہہ سکتے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی معلوم تھا کہ وہ محض رسمی رواجی کلمہ گو نہیں ہے بلکہ کلمہ پڑھنے سے اللہ کی خوشنودی اس کے مد نظر ہے۔ پھر اسے کیسے منافق کہا جا سکتا ہے۔اس سے یہ بھی نکلا کہ جو لوگ اہلحدیث حضرات پر طعن کرتے ہیں اور ان کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں وہ سخت خطاکار ہیں۔ جبکہ اہلحدیث حضرات نہ صرف کلمہ توحید پڑھتے ہیں بلکہ اسلام کے سچے عامل اورقرآن وحدیث کے صحیح تابعدار ہیں۔
اس پر حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم فرماتے ہیں کہ مجھے اس وقت وہ حکایت یاد آئی کہ شیخ محی الدین ابن عربی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں خفگی ہوئی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ ان کے پیر شیخ ابو مدین مغربی کو ایک شخص بر ابھلا کہاکرتا تھا۔ شیخ ابن عربی اس سے دشمنی رکھتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم خواب میں ان پر اپنی خفگی ظاہر کی۔ انہوں نے وجہ پوچھی۔ ارشاد ہوا تو فلاں شخص سے کیوں دشمنی رکھتا ہے۔ شیخ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ میرے پیر کوبرا کہتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تو نے اپنے پیر کو برا کہنے کی وجہ سے تواس سے دشمنی رکھی اور اللہ اور اس کے رسول سے جو وہ محبت رکھتا ہے اس کا خیال کر کے تونے اس سے محبت کیوں نہ رکھی۔ شیخ نے توبہ کی اور صبح کو معذرت کے لیے اس کے پاس گئے۔ مومنین کو لازم ہے کہ اہلحدیث سے محبت رکھیں کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتے ہیں اور گو مجتہدوں کی رائے اور قیاس کو نہیں مانتے مگر وہ بھی اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی وجہ سے پیغمبر صاحب صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف وہ کسی کی رائے اور قیاس کو کیوں مانیں سچ ہے
مابلبلیم نالاں گلزار مامحمد صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے انکار کی وجہ یہ بھی تھی کہ محض کلمہ پڑھ لینا اور عمل اس کے مطابق نہ ہونا نجات کے لیے کافی نہیں ہے۔ اسی خیال کی بنا پر انہوں نے اپنا خیال ظاہر کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیونکر فرماسکتے ہیں۔ مگر واقعتا محمود بن الربیع سچے تھے اور انہوں نے اپنی مزید تقویت کے لیے دوبارہ عتبان بن مالک کے ہاں حاضری دی اور مکرر اس حدیث کی تصدیق کی۔ حدیث مذکور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجمل ایک ایسا لفظ بھی فرما دیا تھا جو اس چیز کا مظہر ہے کہ محض کلمہ پڑھ لینا کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ ابتغاءلوجہ اللہ ( اللہ کی رضا مندی کی طلب وتلاش ) بھی ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ یہ چیز کلمہ پڑھنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس لحاظ سے یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اجمالی ذکر فرمایا۔ آپ کا یہ مقصد نہ تھا کہ محض کلمہ پڑھنے سے وہ شخص جنتی ہو سکتا ہے۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جامع تھا کہ کلمہ پڑھنا اور اس کے مطابق عمل درآمد کرنا اوریہ چیزیں آپ کو شخص متنازعہ کے بارے میں معلوم تھیں۔ اس لیے آپ نے اس کے ایمان کی توثیق فرمائی اور لوگوں کو اس کے بارے میں بد گمانی سے منع فرمایا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪