Search

صحیح بخاری جلد دؤم : کتاب الجنائز( جنازے کے احکام و مسائل) : حدیث:-1284

کتاب الجنائز
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل

Chapter No: 32

باب قَوْلِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ يُعَذَّبُ الْمَيِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ ‏”‏ إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ‏

The statement of the Prophet (s.a.w), "The deceased is punished because of the weeping (with wailing) of some of his relatives, if wailing was the custom of that dead person.”

باب: نبی ﷺ کا یہ فرماناکہ میّت پر اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے یعنی جب رونا پیٹنا میّت کے خاندان کی رسم ہو۔

لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ‏{‏قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا‏}‏‏.‏ وَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ‏”‏‏.‏ فَإِذَا لَمْ يَكُنْ مِنْ سُنَّتِهِ، فَهُوَ كَمَا قَالَتْ عَائِشَةُ ـ رضى الله عنها – ‏{‏لاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى‏}‏‏.‏ وَهُوَ كَقَوْلِهِ ‏{‏وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ‏}‏ ذُنُوبًا ‏{‏إِلَى حِمْلِهَا لاَ يُحْمَلْ مِنْهُ شَىْءٌ‏}‏ وَمَا يُرَخَّصُ مِنَ الْبُكَاءِ فِي غَيْرِ نَوْحٍ‏.‏ وَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏{‏لاَ تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا إِلاَّ كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْ دَمِهَا‏}‏‏.‏ وَذَلِكَ لأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ‏

This is in agreement with the Statement of Allah, "…Ward off yourself and your families against a Fire (Hell) whose fuel is men and stones …” (V.66:6). And the Prophet (s.a.w) said, "All of you are guardians and responsible for your wards”. If that (wailing) was not his custom, as ‘Aisha (quoting the Quran) said, "and no bearer of burdons shall bear the burden of another.” (V.6:164) "And if one heavily laden calls another to (bear) his load, nothing of it will be lifted …” (V.35:18). And what is said regarding the permission of weeping without wailing, and the Prophet (s.a.w) said, "Not a person is murdered unjustly but the first son of Adam (who did this crime first of all) will have a share of the crime of his murdering because he was the first to start the tradition of murdering.”

کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورت تحریم میں فرمایا اپنے تئیں اور اپنےگھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ (برے کام سے منع کرو) اور نبیﷺ نے فرمایا تم میں ہر کوئی نگہبان ہے، اس سے اپنی رعیت کی بابت پوچھا جائے گا اگر اس کے خاندان کی رسم نہ ہو (اور کوئی اس پر روئے) تو حضرت عائشہؓ کا اس پر دلیل لینا اس آیت سے صحیح ہے کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور اگر کوئی (بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کو بلائے (اپنا بوجھ اٹھانے کو) تو وہ نہیں اٹھائے گی۔ اور بغیر نوحہ (چلائے پیٹے) رونا درست ہے۔اور نبیﷺ نے فرمایا : دنیا میں جب کوئی خونِ ناحق ہوتا ہے تو آدم کے پہلے بیٹے (قابیل) پر اس خون کا کچھ وبال پڑتا ہے کیونکہ ناحق خون کی بنیا د اسی نے سب سے پہلے ڈالی۔


[quote arrow=”yes” "]

1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]

2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

4: حدیث کا اردو ترجمہ:

5: حدیث کی اردو تشریح:

English Translation :6 

[/quote]

حدیث اعراب کے ساتھ:  [sta_anchor id=”artash”]

حدیث نمبر:1284         

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، وَمُحَمَّدٌ، قَالاَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، قَالَ حَدَّثَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ أَرْسَلَتِ ابْنَةُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِلَيْهِ إِنَّ ابْنًا لِي قُبِضَ فَائْتِنَا‏.‏ فَأَرْسَلَ يُقْرِئُ السَّلاَمَ وَيَقُولُ ‏”‏ إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَى وَكُلٌّ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ ‏”‏‏.‏ فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ تُقْسِمُ عَلَيْهِ لَيَأْتِيَنَّهَا، فَقَامَ وَمَعَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَأُبَىُّ بْنُ كَعْبٍ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَرِجَالٌ، فَرُفِعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الصَّبِيُّ وَنَفْسُهُ تَتَقَعْقَعُ ـ قَالَ حَسِبْتُهُ أَنَّهُ قَالَ ـ كَأَنَّهَا شَنٌّ‏.‏ فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ‏.‏ فَقَالَ سَعْدٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذَا فَقَالَ ‏”‏ هَذِهِ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ، وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ ‏”‏‏‏‏‏‏.‏

.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:    [sta_anchor id=”arnotash”]

1284 ـ حدثنا عبدان، ومحمد، قالا أخبرنا عبد الله، أخبرنا عاصم بن سليمان، عن أبي عثمان، قال حدثني أسامة بن زيد ـ رضى الله عنهما ـ قال أرسلت ابنة النبي صلى الله عليه وسلم إليه إن ابنا لي قبض فائتنا‏.‏ فأرسل يقرئ السلام ويقول ‏”‏ إن لله ما أخذ وله ما أعطى وكل عنده بأجل مسمى، فلتصبر ولتحتسب ‏”‏‏.‏ فأرسلت إليه تقسم عليه ليأتينها، فقام ومعه سعد بن عبادة ومعاذ بن جبل وأبى بن كعب وزيد بن ثابت ورجال، فرفع إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبي ونفسه تتقعقع ـ قال حسبته أنه قال ـ كأنها شن‏.‏ ففاضت عيناه‏.‏ فقال سعد يا رسول الله ما هذا فقال ‏”‏ هذه رحمة جعلها الله في قلوب عباده، وإنما يرحم الله من عباده الرحماء ‏”‏‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
1284 ـ حدثنا عبدان، ومحمد، قالا اخبرنا عبد اللہ، اخبرنا عاصم بن سلیمان، عن ابی عثمان، قال حدثنی اسامۃ بن زید ـ رضى اللہ عنہما ـ قال ارسلت ابنۃ النبی صلى اللہ علیہ وسلم الیہ ان ابنا لی قبض فائتنا‏.‏ فارسل یقرئ السلام ویقول ‏”‏ ان للہ ما اخذ ولہ ما اعطى وکل عندہ باجل مسمى، فلتصبر ولتحتسب ‏”‏‏.‏ فارسلت الیہ تقسم علیہ لیاتینہا، فقام ومعہ سعد بن عبادۃ ومعاذ بن جبل وابى بن کعب وزید بن ثابت ورجال، فرفع الى رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم الصبی ونفسہ تتقعقع ـ قال حسبتہ انہ قال ـ کانہا شن‏.‏ ففاضت عیناہ‏.‏ فقال سعد یا رسول اللہ ما ہذا فقال ‏”‏ ہذہ رحمۃ جعلہا اللہ فی قلوب عبادہ، وانما یرحم اللہ من عبادہ الرحماء ‏”‏‏.‏
‏‏‏‏‏‏‏اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

حضرت ابوعثمان نہدی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: مجھ سے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبیﷺ کی ایک صاحبزادی (حضرت زینب رضی اللہ عنہا) نے آپﷺ کو پیغام بھیجا کہ میرا ایک بیٹا مرنے کے قریب ہےآپﷺتشریف لائیں۔آپﷺ نے انہیں سلام کہلوایا اور یہ کہلوایا کہ اللہ تعالیٰ ہی کا سارا مال ہے جو لے لے اور جو عنایت کرے اور ہر بات کا اس کے پاس ایک وقت مقرر ہے اس لیے صبر کرو اور ثواب کی امید رکھو۔ پھر حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے قسم دے کر پیغام بھیجا کہ آپﷺ ضرورتشریف لائیے۔اس وقت آپﷺاٹھے،آپﷺ ہمراہ سعد بن عبادہ اور معاذ بن جبل اور ابی ابن کعب اور زیدبن ثابت رضی اللہ عنہم اور کئی آدمی تھے۔اس بچّے کو رسول اللہ ﷺکے پاس اٹھا کر لائے اور وہ دم توڑ رہا تھا۔ حضرت ابو عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا میں سمجھتا ہوں اسامہ نے یہ کہا: جیسے پرانی مشک۔ یہ حال دیکھ کر آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ رونا کیسا؟ آپﷺ نے فرمایا یہ تو اللہ کی رحمت ہے جو اس نے اپنے (نیک) بندوں کے دلوں میں رکھی ہے، اوراللہ انہی بندوں پر رحم کرے گا جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔


حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : اس مسئلہ میں ابن عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہما کا ایک مشہور اختلاف تھا کہ میت پر اس کے گھر والوں کے نوحہ کی وجہ سے عذاب ہوگا یا نہیں؟ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس باب میں اسی اختلاف پر یہ طویل محاکمہ کیا ہے۔ اس سے متعلق مصنف رحمہ اللہ متعدد احادیث ذکر کریں گے اور ایک طویل حدیث میں جو اس باب میں آئے گی۔ دونوں کی اس سلسلے میں اختلاف کی تفصیل بھی موجود ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کا خیال یہ تھا کہ میت پر اس کے گھر والوں کے نوحہ سے عذاب نہیں ہوتا کیونکہ ہر شخص صرف اپنے عمل کا ذمہ دار ہے۔ قرآن میں خود ہے کہ کسی پر دوسرے کی کوئی ذمہ داری نہیں لاَ تَزِرُ وَازِرَۃ وِّزرَ اُخرٰی ( الانعام : 164 ) اس لیے نوحہ کی وجہ سے جس گناہ کے مرتکب مردہ کے گھروالے ہوتے ہیں اس کی ذمہ داری مردے پر کیسے ڈالی جاسکتی ہے؟
لیکن ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پیش نظریہ حدیث تھی “میت پر اس کے گھر والوں کے نوحہ سے عذاب ہوتا ہے”۔ حدیث صاف تھی اور خاص میت کے لیے لیکن قرآن میں ایک عام حکم بیان ہوا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہ کا جواب یہ تھا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے غلطی ہوئی‘ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ایک خاص واقعہ سے متعلق تھا۔ کسی یہودی عورت کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس پر اصل عذاب کفر کی وجہ سے ہورہا تھا لیکن مزید اضافہ گھر والوں کے نوحہ نے بھی کردیا تھا کہ وہ اس کے استحاق کے خلاف اس کا ماتم کررہے تھے اور خلاف واقعہ نیکیوں کو اس کی طرف منسوب کررہے تھے۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر جو کچھ فرمایا وہ مسلمانوں کے بارے میں نہیں تھا۔ لیکن علماءنے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے خلاف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس استدلال کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ دوسری طرف ابن عمررضی اللہ عنہما کی حدیث کو بھی ہر حال میں نافذ نہیں کیا بلکہ اس کی نوک پلک دوسرے شرعی اصول وشواہد کی روشنی میں درست کئے گئے ہیں اور پھر اسے ایک اصول کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے۔
علماءنے اس حدیث کی جو مختلف وجوہ و تفصیلات بیان کی ہیں انہیں حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ اس پر امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے محاکمہ کا حاصل یہ ہے کہ شریعت کا ایک اصول ہے۔ حدیث میں ہے کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ ہر شخص نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں سے متعلق اس سے سوال ہوگا۔ یہ حدیث متعدد اور مختلف روایتوں سے کتب احادیث اور خود بخاری میں موجود ہے۔ یہ ایک مفصل حدیث ہے اور اس میں تفصیل کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ بادشاہ سے لے کر ایک معمولی سے معمولی خادم تک راعی اور نگراں کی حیثیت رکھتا ہے اور ان سب سے ان کی رعیتوں کے متعلق سوال ہوگا۔ یہاں صاحب تفہیم البخاری نے ایک فاضلانہ بیان لکھا ہے جسے ہم شکریہ کے ساتھ “تشریح” میں نقل کرتے ہیں۔
قرآن مجید میں ہے کہ قوآ انفسکم واہليکم ناراً ( التحریم:6 ) خود کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس موقع پر واضح کیا ہے کہ جس طرح اپنی اصلاح کا حکم شریعت نے دیا ہے اسی طرح اپنی رعیت کی اصلاح کا بھی حکم ہے‘ اس لیے ان میں سے کسی ایک کی اصلاح سے غفلت تباہ کن ہے۔ اب اگر مردے کے گھر غیر شرعی نوحہ وماتم کا رواج تھا لیکن اپنی زندگی میں اس نے انہیں اس سے نہیں روکا اور اپنے گھر میں ہونے والے اس منکر پر واقفیت کے باوجود اس نے تساہل سے کام لیا‘ تو شریعت کی نظر میں وہ بھی مجرم ہے۔ شریعت نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک اصول بنادیا تھا۔ ضروری تھا کہ اس اصول کے تحت اپنی زندگی میں اپنے گھر والوں کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کرتا۔ لیکن اگر اس نے ایسا نہیں کیا‘ تو گویا وہ خود اس عمل کا سبب بنا ہے۔ شریعت کی نظر اس سلسلے میں بہت دور تک ہے۔ اسی محاکمہ میں امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ “کوئی شخص اگر ظلماً ( ظالمانہ طور پر ) قتل کیا جاتا ہے تو اس قتل کی ایک حد تک ذمہ داری آدم علیہ السلام کے سب سے پہلے بیٹے ( قابیل ) پر عائد ہوتی ہے۔” قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا تھا۔ یہ روئے زمین پر سب سے پہلا ظالمانہ قتل تھا۔ اس سے پہلے دنیا اس سے ناواقف تھی۔ اب چونکہ اس طریقہ ظلم کی ایجاد سب سے پہلے آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے کی تھی‘ اس لیے قیامت تک ہونے والے ظالمانہ قتل کے گناہ کا ایک حصہ اس کے نام بھی لکھا جائے گا۔ شریعت کے اس اصول کو اگر سامنے رکھا جائے تو عذاب وثواب کی بہت سی بنیادی گر ہیں کھل جائیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیان کردہ اصول پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ قرآن نے خود فیصلہ کردیا ہے کہ “کسی انسان پر دوسرے کی کوئی ذمہ داری نہیں۔” حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تھا کہ مرنے والے کو کیا اختیار ہے؟ اس کا تعلق اب اس عالم ناسوت سے ختم ہوچکا ہے۔ نہ وہ کسی کو روک سکتا ہے اور نہ اس پر قدرت ہے۔ پھر اس ناکردہ گناہ کی ذمہ داری اس پر عائد کرنا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟
اس موقع پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ شریعت نے ہر چیز کے لیے اگرچہ ضابطے اور قاعدے متعین کردئیے ہیں لیکن بعض اوقات کسی ایک میں بہت سے اصول بیک وقت جمع ہوجاتے ہیں اور یہیں سے اجتہاد کی حد شروع ہوجاتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جزئی کس ضابطے کے تحت آسکتی ہے؟ اور ان مختلف اصول میں اپنے مضمرات کے اعتبار سے جزئی کس اصول سے زیادہ قریب ہے؟ اس مسئلہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے اجتہاد سے یہ فیصلہ کیا تھا کہ میت پر نوحہ وماتم کا میت سے تعلق قرآن کے بیان کردہ اس اصول سے متعلق ہے کہ “کسی انسان پر دوسرے کی ذمہ داری نہیں۔” جیسا کہ ہم نے تفصیل سے بتایا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اجتہاد کو امت نے اس مسئلہ میں قبول نہیں کیا ہے۔ اس باب پر ہم نے یہ طویل نوٹ اس لیے لکھا کہ اس میں روز مرہ زندگی سے متعلق بعض بنیادی اصول سامنے آئے تھے۔ جہاں تک نوحہ وماتم کا سوال ہے اسے اسلام ان غیر ضروری اور لغو حرکتوں کی وجہ سے رد کرتا ہے جو اس سلسلے میں کی جاتی تھیں۔ ورنہ عزیز وقریب یا کسی بھی متعلق کی موت پر غم قدرتی چیز ہے اور اسلام نہ صرف اس کے اظہار کی اجازت دیتا ہے بلکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض افراد کو جن کے دل میں اپنے عزیز وقریب کی موت سے کوئی ٹیس نہیں لگی‘ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سخت دل کہا۔ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عزیز وقریب کی وفات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا اور آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے ( تفہیم البخاری )
نصوص شرعیہ کی موجودگی میں ان کے خلاف اجتہاد قابل قبول نہیں ہے۔ خواہ اجتہاد کرنے والا کوئی ہو۔ رائے اور قیاس ہی وہ بیماریاں ہیں جنہوں نے امت کا بیڑہ غرق کردیا اور امت تقسیم درتقسیم ہوکر رہ گئی۔ حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کی مناسب توجیہ فرمادی ہے‘ وہی ٹھیک ہے۔

 English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 
Narrated By Usama bin Zaid : The daughter of the Prophet (p.b.u.h) sent (a messenger) to the Prophet requesting him to come as her child was dying (or was gasping), but the Prophet returned the messenger and told him to convey his greeting to her and say: "Whatever Allah takes is for Him and whatever He gives, is for Him, and everything with Him has a limited fixed term (in this world) and so she should be patient and hope for Allah’s reward.” She again sent for him, swearing that he should come. The Prophet got up, and so did Sad bin ‘Ubada, Muadh bin Jabal, Ubai bin Ka’b, Zaid bin Thabit and some other men. The child was brought to Allah’s Apostle while his breath was disturbed in his chest (the sub-narrator thinks that Usama added): as if it was a leather water-skin. On that the eyes of the Prophet (p.b.u.h) started shedding tears. Sad said, "O Allah’s Apostle! What is this?” He replied, "It is mercy which Allah has lodged in the hearts of His slaves, and Allah is merciful only to those of His slaves who are merciful (to others).

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں