Search

صحیح بخاری جلد اول : كتاب الإيمان (ایمان کا بیان) : حدیث 24

كتاب الإيمان
کتاب: ایمان کے بیان میں
.(THE BOOK OF BELIEF (FAITH
 
16- بَابُ الْحَيَاءُ مِنَ الإِيمَانِ:
باب: شرم و حیاء بھی ایمان سے ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ وَهُوَ يَعِظُ أَخَاهُ فِي الْحَيَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "دَعْهُ فَإِنَّ الْحَيَاءَ مِنَ الْإِيمَانِ”.

حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”] 

24 ـ حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك بن أنس، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، عن أبيه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على رجل من الأنصار وهو يعظ أخاه في الحياء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏”‏ دعه فإن الحياء من الإيمان ‏”‏‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
24 ـ حدثنا عبد اللہ بن یوسف، قال اخبرنا مالک بن انس، عن ابن شہاب، عن سالم بن عبد اللہ، عن ابیہ، ان رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم مر على رجل من الانصار وہو یعظ اخاہ فی الحیاء، فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ‏”‏ دعہ فان الحیاء من الایمان ‏”‏‏.‏

حدیث کا اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

عبداللہ بن یوسف نے ہم سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں مالک بن انس نے ابن شہاب سے خبر دی، وہ سالم بن عبداللہ سے نقل کرتے ہیں، وہ اپنے باپ (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) سے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری شخص کے پاس سے گزرے اس حال میں کہ وہ اپنے ایک بھائی سے کہہ رہے تھے کہ تم اتنی شرم کیوں کرتے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انصاری سے فرمایا کہ اس کو اس کے حال پر رہنے دو کیونکہ حیاء بھی ایمان ہی کا ایک حصہ ہے۔

حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”] 

تشریحبخاری کتاب الادب میں یہی روایت ابن شہاب سے آئی ہے۔ اس میں لفظ یعظ کی جگہ یعاتب ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ وہ انصاری اس کو اس بارے میں عتاب کررہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری سے فرمایا اسے اس کی حالت پر رہنے دو۔ حیا ایمان ہی کا حصہ ہے۔
حیا کی حقیقت یہ ہے کہ انسان برائی کی نسبت اپنے نام کے ساتھ ہونے سے ڈرے۔ حرام امورمیں حیا کرنا واجب ہے اور مکروہات میں بھی حیا کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ الحیاءلایاتی الابخیر کا یہی مطلب ہے کہ حیا خیر ہی خیرلاتی ہے۔ بعض سلف کا قول ہے۔ خف اللہ علی قدرتہ علیک واستحی منہ علی قدرتہ قربہ منک۔ اللہ کا خوف پیدا کرو اس اندازہ کے مطابق کہ وہ تمہارے اوپر کتنی زبردست قدرت رکھتا ہے اور اس سے شرم رکھو یہ اندازہ کرتے ہوئے کہ وہ تم سے کس قدر قریب ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ کا خوف پورے طور پر ہو کہ تمہارے اوپر اپنی قدرت کامل رکھتا ہے جب وہ چاہے اور جس طرح چاہے تم کو پکڑے اور اس سے شرم وحیا بھی اس خیال سے ہونی چاہئیے کہ وہ تمہاری شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔
الغرض حیا اور شرم انسان کا ایک فطری نیک جذبہ ہے جو اسے بے حیائی سے روک دیتا ہے اور اس کے طفیل وہ بہت سے گناہوں کے ارتکاب سے بچ جاتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ حیا سے مراد وہ بے جاشرم نہیں ہے جس کی وجہ سے انسان کی جرات عمل ہی مفقود ہوجائے۔ وہ اپنے ضروری فرائض کی ادائیگی میں بھی شرم وحیا کا بہانہ تلاش کرنے لگے۔ حضرت امام المحدثین اس حدیث کی نقل سے بھی مرجیہ کی تردید کرنا چاہتے ہیں جو ایمان کو صرف قول بلاعمل مانتے ہیں۔ حالانکہ کتاب اللہ وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امیں جملہ اعمال صالحہ وعادات سیئہ کو ایمان ہی کے اجزا قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ حدیث بالاسے ظاہر ہے کہ حیاشرم جیسی پاکیزہ عادت بھی ایمان میں داخل ہے۔

English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated ‘Abdullah (bin ‘Umar): Once Allah’s Apostle passed by an Ansari (man) who was admonishing to his brother regarding Haya’. On that Allah’s Apostle said, "Leave him as Haya’ is a part of faith.” (See Hadith No. 8)

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں