Search

صحیح بخاری جلد اول : كتاب الإيمان (ایمان کا بیان) : حدیث 26

كتاب الإيمان
کتاب: ایمان کے بیان میں
.(THE BOOK OF BELIEF (FAITH
 
18- بَابُ مَنْ قَالَ: إِنَّ الإِيمَانَ هُوَ الْعَمَلُ:
باب: اس شخص کے قول کی تصدیق میں جس نے کہا ہے کہ ایمان عمل (کا نام) ہے۔
لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ ‏‏‏‏وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ‏‏‏‏. وَقَالَ عِدَّةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ ‏‏‏‏فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ‏‏‏‏ عَنْ قَوْلِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ. وَقَالَ:‏‏‏‏ ‏‏‏‏لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُونَ‏‏‏‏.
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے «وتلك الجنة التي أورثتموها بما كنتم تعملون‏» ”اور یہ جنت ہے اپنے عمل کے بدلے میں تم جس کے مالک ہوئے ہو۔“ اور بہت سے اہل علم حضرات ارشاد باری تعالیٰ «فوربك لنسألنهم أجمعين عما كانوا يعملون‏» الخ کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ یہاں عمل سے مراد «لا إله إلا الله» کہنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ”عمل کرنے والوں کو اسی جیسا عمل کرنا چاہئے۔“
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ وَمُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏”أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ، ‏‏‏‏‏‏أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ:‏‏‏‏ ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ:‏‏‏‏ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ:‏‏‏‏ ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ:‏‏‏‏ حَجٌّ مَبْرُورٌ”.

حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”] 

26 ـ حدثنا أحمد بن يونس، وموسى بن إسماعيل، قالا حدثنا إبراهيم بن سعد، قال حدثنا ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل أى العمل أفضل فقال ‏”‏ إيمان بالله ورسوله ‏”‏‏.‏ قيل ثم ماذا قال ‏”‏ الجهاد في سبيل الله ‏”‏‏.‏ قيل ثم ماذا قال ‏”‏ حج مبرور ‏”‏‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
26 ـ حدثنا احمد بن یونس، وموسى بن اسماعیل، قالا حدثنا ابراہیم بن سعد، قال حدثنا ابن شہاب، عن سعید بن المسیب، عن ابی ہریرۃ، ان رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سیل اى العمل افضل فقال ‏”‏ ایمان باللہ ورسولہ ‏”‏‏.‏ قیل ثم ماذا قال ‏”‏ الجہاد فی سبیل اللہ ‏”‏‏.‏ قیل ثم ماذا قال ‏”‏ حج مبرور ‏”‏‏.‏

حدیث کا اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

ہم سے احمد بن یونس اور موسیٰ بن اسماعیل دونوں نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، وہ سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا“ کہا گیا، اس کے بعد کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنا“ کہا گیا، پھر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ”حج مبرور“۔

حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : حضرت امام قدس سرہ یہاں بھی ثابت فرما رہے ہیں کہ ایمان اور عمل ہردوشے درحقیقت ایک ہی ہیں اور قرآنی آیات میں جو یہاں مذکور ہیں لفظ عمل استعمال کرکے ایمان مراد لیا گیا ہے۔ جیسا کہ آیت کریمہ وتلک الجنۃ التی اور ثتموہا بما کنتم تعملون ( الزخرف: 72 ) میں ہے اور بہت سے اہل علم جیسے حضرت انس بن مالک اور مجاہد اور عبداللہ بن عمر نے بالاتفاق کہا ہے کہ آیت کریمہ فوربک الخ میں عما کانوا یعملون ( الحجر: 933 ) سے کلمہ طیبہ لاالہ الااللہ پڑھنا اور اس پر عمل کرنامراد ہے کہ قیامت کے دن اسی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آیت شریفہ لمثل ہذا فلیعمل العملون ( الصافات: 611 ) میں بھی ایمان مراد ہے۔ مقصد یہ کہ کتاب اللہ کی اسی قسم کی جملہ آیات میں عمل کالفظ استعمال میں لاکر ایمان مراد لیا گیا ہے۔ پھر حدیث مذکور میں نہایت صاف لفظوں میں موجود  ہے ای العمل افضل کون سا عمل بہترہے؟ جواب میں فرمایا ایمان باللہ ورسولہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ یہاں اس بارے میں ایسی صراحت موجود ہے جس میں کسی تاویل کی گنجائش ہی نہیں۔ باب کا مطلب بھی یہیں سے نکلتا ہے، کیونکہ یہاں ایمان کو صاف صاف لفظوں میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ عمل سے تعبیر فرمایا ہے اور دوسرے اعمال کو اس لیے ذکر فرمایا کہ ایمان سے یہاں اللہ ورسول پر یقین رکھنا مراد ہے۔ اسی ایمانی طاقت کے ساتھ مرد مومن میدان جہاد میں گامزن ہوتا ہے۔ حج مبرور سے خالص حج مراد ہے جس میں ریا ونمود کا شائبہ نہ ہو۔ اس کی نشانی یہ ہے کہ حج کے بعد آدمی گناہوں سے توبہ کرے۔ پھر گناہ میں مبتلا نہ ہو۔
علامہ سندی فرماتے ہیں: فماوقع فی القرآن من عطف العمل علی الایمان فی مواضع فہو من عطف العام علی الخالص لمزید الاہتمام بالخاص واللہ اعلم یعنی قرآن پاک کے بعض مقامات پر عمل کا عطف ایمان پر واقع ہوا ہے اور یہ اہتمام خاص کے پیش نظر عام کا عطف خاص پر ہے۔ خلاصہ یہ کہ جو لوگ ایمان قول بلاعمل کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ سراسر خطا پر ہیں اور کتاب وسنت سے ان کا یہ عقیدہ باطل ظاہر و باہرہے۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرنے والے حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ تھے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں ایمان باللہ کے بعد جہاد کا پھر حج مبرور کا ذکر ہے۔ حدیث ابوذر میں حج کا ذکر چھوڑ کر عتق یعنی غلام آزاد کرنے کا ذکر ہے۔ حدیث ابن مسعود میں نماز پھر بر ( نیکی ) پھر جہاد کا ذکر ہے۔ بعض جگہ پہلے اس شخص کا ذکر ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ سلامتی میں رہیں۔ یہ جملہ اختلافات احوال مختلفہ کی بنا پر اور اہل خطاب کی ضروریات کی بنا پر ہیں۔ بعض جگہ سامعین کوجوچیز معلوم تھیں ان کا ذکر نہیں کیاگیا اور جو معلوم کرانا تھا اسے ذکر کردیاگیا۔ اس روایت میں جہاد کو مقدم کیا جو ارکان خمسہ میں سے نہیں ہے اور حج کو مؤخر کیاجوارکان خمسہ میں سے ہے۔ یہ اس لیے کہ جہاد کا نفع متعدی ہے یعنی پوری ملت کو حاصل ہو سکتا ہے اور حج کا نفع ایک حاجی کی ذات تک منحصرہے۔ آیت شریفہ وتلک الجنۃ الخ سورۃ زخزف میں ہے اور آیت شریفہفوربک الخ سورۃ حجر میں ہے اور آیت شریفہ لمثل ہذا الخ سورۃ صافات میں ہے۔
تنبیہ: حضرت امام الدنیا فی الحدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے جملہ تراجم ابواب پر نظر غائر ڈالنے سے آپ کی دقت نظرو وسعت معلومات، مجتہدانہ بصیرت، خدادادقابلیت روزروشن کی طرح واضح ہوتی ہے۔ مگرتعصب کا برا ہو آج کل ایک جماعت نے اسی کو “ خدمت حدیث  ” قرار دیا ہے کہ آپ کی علمی شان پر جاوبےجا حملے کرکے آپ کے خداداد مقام کو گرایا جائے اور صحیح بخاری شریف کو اللہ نے جوقبولیت عام عطا کی ہے جس طور پر بھی ممکن ہواسے عدم قبولیت میں تبدیل کیاجائے۔ اگرچہ ان حضرات کی یہ غلط کوشش بالکل بے سود ہے۔ پھر بھی کچھ سادہ لوح مسلمان ان کی ایسی نامبارک مساعی سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ ان “ حضرات ” کی ایک نئی اپج یہ بھی ہے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حدیث نبوی کے لیے ناقل محض تھے۔ مجتہدانہ بصیرت ان کے حصہ میں نہیں آئی تھی۔ یہ قول اتنا باطل اور بے ہودہ ہے کہ اس کی تردید میں دفاتر لکھے جاسکتے ہیں۔ مگربخوف طوالت ہم سردست صرف حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مختصر تبصرہ نقل کرتے ہیں جس سے واضح ہوجائے گا کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں ایسی ہرزہ سرائی کرنے والوں کی دیانت وامانت کس درجہ میں ہے۔ یہ تبصرہ حضرت العلام مولانا وحیدالزماں رحمۃ اللہ علیہ کے لفظوں میں یہ ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بعض تالیفات میں لکھا ہے کہ ایک دن ہم اس حدیث میں بحث کررہے تھے۔ لوکان الایمان عندالثریا لنالہ رجال اور جل من ہولاءیعنی اہل فارس وفی روایۃ لنالہ رجال من ہولاء میں نے کہا امام بخاری رحمہ اللہ ان  لوگوں میں داخل ہیں۔ اس لیے کہ خدائے منان نے حدیث کا علم انھیں کے ہاتھوں مشہور کیا ہے اور ہمارے زمانے تک حدیث باسناد صحیح متصل اسی مرد کی ہمت مردانہ سے باقی رہی۔ ( جس شخص کے ساتھ بحث ہورہی تھی ) وہ شخص اہل حدیث سے ایک قسم کا بغض رکھتا تھا جیسے ہمارے زمانے کے اکثر فقیہوں کا حال ہے۔ خدا ان کو ہدایت کرے اس نے میری بات کو پسند نہ کیا اور کہاکہ امام بخاری حدیث کے حافظ تھے نہ عالم۔ ان کو ضعیف اور حدیث صحیح کی پہچان تھی لیکن فقہ اور فہم میں کامل نہ تھے ( اے جاہل! تونے امام بخاری رحمہ اللہ کی تصنیفات پر غور نہیں کی اور نہ ایسی بات ان کے حق میں نہیں نکالتا۔ وہ توفقہ اور فہم اور باریکی استنباط میں طاق ہیں اور مجتہد مطلق ہیں اور اس کے ساتھ حافظ حدیث بھی تھے، یہ فضیلت کسی مجتہد کو بہت کم نصیب ہوتی ہے ) شاہ صاحب نے فرمایا کہ میں نے اس شخص کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ ( کیونکہ جواب جاہلاں باشد خموشی ) اور اپنے لوگوں کی طرف متوجہ ہوا اور میں نے کہا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تقریب میں لکھتے ہیں: محمدابن اسماعیل امام الدنیا فی فقہ الحدیث یعنی امام بخاری رحمہ اللہ سب دنیا کے امام ہیں فقہ حدیث میں اور یہ امر اس شخص کے نزدیک جس نے فن حدیث کا تتبع کیاہو، بدیہی ہے۔ بعد اس کے میں نے امام بخاری رحمہ اللہ کی چند تحقیقات علمیہ جو سوا ان کے کسی نے نہیں کی ہیں، بیان کیں اور جو کچھ خدا نے چاہا وہ میری زبان سے نکلا۔ ( مقدمہ تیسیرالباری، ص: 27-28 ) 
صاحب ایضاح البخاری ( دیوبند ) نے بھی حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو ایک مجتہد تسلیم کیا ہے۔ جیسا کہ اسی کتاب کے مقدمہ پر مرقوم ہے۔ مگر دوسری طرف کچھ ایسے متعصب بھی موجود ہیں جن کا مشن ہی یہ ہے کہ جس طور بھی ممکن ہو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی تخفیف و تنقیص وتجہیل کی جائے۔ 
ایسے حضرات کو یہ حدیث قدسی یادرکھنی چاہئیے من عادیٰ لی ولیا فقد اذنتہ بالحرب اللہ کے پیارے بندوں سے عداوت رکھنے والے خدا سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہوجائیں اور نتیجہ دیکھ لیں کہ اس جنگ میں ان کو کیا حاصل ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اللہ کے پیارے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے فدائی تھے۔
یہ عرض کردینا بھی ضروری ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بھی اپنی جگہ پر امت کے لیے باعث صدفخر ہیں۔ ان کی مجتہدانہ مساعی کے شکریہ سے امت کسی صورت میں بھی عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔ مگران کی تعریف اور توصیف میں ہم امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تنقیص و تجہیل کرنا شروع کردیں، یہ انتہائی غلط قدم ہوگا۔ اللہ ہم سب کو نیک سمجھ عطا فرمائے۔ آمین۔
حضرت امام بخاری قدس سرہ کے مناقب کے لیے یہ ہی کافی ہے کہ وہ نہ صرف محدث، فقیہ، مفسر بلکہ ولی کامل بھی تھے۔ خدا پر ستی اور استغراق کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ نماز کی حالت میں آپ کو زنبور نے سترہ بار کاٹا اور آپ نے نماز میں اف تک نہ کی۔ نماز کے بعدلوگوں نے دیکھا کہ سترہ جگہ زنبور کا ڈنک لگا اور جسم کا بیشتر حصہ سوج گیا ہے۔ آپ کی سخاوت کا ہرطرف چرچا تھا خصوصاً طلبائے اسلام کا بہت زیادہ خیال رکھا کرتے تھے، اسی لیے علمائے معاصرین میں سے بہت بڑی تعداد کا یہ متفقہ قول ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کو علماء پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی کہ مردوں کو عورتوں پر حاصل ہے، وہ اللہ پاک کی آیات قدرت میں سے زمین پر چلنے پھرنے والی ایک زندہ نشانی تھے، ( رحمۃ اللہ علیہ ) 
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ مناقب حضرت امام بخاری کے مشائخ اور ان کے زمانہ کے علماءکے بیان کردہ ہیں اگر ہم بعد والوں کے بھی اقوال نقل کریں توکاغذ ختم ہوجائیں گے اور عمرتمام ہوجائے گی مگر ہم ان سب کو نہ لکھ سکیں گے۔ مطلب یہ کہ بے شمار علماء نے ان کی تعریف کی ہے۔

English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated Abu Huraira: Allah’s Apostle was asked, "What is the best deed?” He replied, "To believe in Allah and His Apostle (Muhammad). The questioner then asked, "What is the next (in goodness)? He replied, "To participate in Jihad (religious fighting) in Allah’s Cause.” The questioner again asked, "What is the next (in goodness)?” He replied, "To perform Hajj (Pilgrim age to Mecca) ‘Mubrur, (which is accepted by Allah and is performed with the intention of seeking Allah’s pleasure only and not to show off and without committing a sin and in accordance with the traditions of the Prophet).”

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں