صحیح بخاری جلد اول : كتاب الإيمان (ایمان کا بیان) : حدیث 30

كتاب الإيمان
کتاب: ایمان کے بیان میں
.(THE BOOK OF BELIEF (FAITH
 
22- بَابُ الْمَعَاصِي مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ:
باب: گناہ جاہلیت کے کام ہیں۔
لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ سورة النساء آية 48.
اور گناہ کرنے والا گناہ سے کافر نہیں ہوتا۔ ہاں اگر شرک کرے تو کافر ہو جائے گا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر سے فرمایا تھا تو ایسا آدمی ہے جس میں جاہلیت کی بو آتی ہے۔ (اس برائی کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کافر نہیں کہا) اور اللہ نے سورۃ نساء میں فرمایا ہے بیشک اللہ شرک کو نہیں بخشے گا اور اس کے علاوہ جس گناہ کو چاہے وہ بخش دے۔ (سورۃ الحجرات میں فرمایا) اور اگر ایمانداروں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو (اس آیت میں اللہ نے اس گناہ کبیرہ قتل و غارت کے باوجود ان لڑنے والوں کو مومن ہی کہا ہے)۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَيُّوبُ وَيُونُسُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحَسَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذَهَبْتُ لِأَنْصُرَ هَذَا الرَّجُلَ فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيْنَ تُرِيدُ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ أَنْصُرُ هَذَا الرَّجُلَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ارْجِعْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا، ‏‏‏‏‏‏فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏هَذَا الْقَاتِلُ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ كَانَ حَرِيصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ”.

حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”] 

30 ـ حدثنا سليمان بن حرب، قال حدثنا شعبة، عن واصل الأحدب، عن المعرور، قال لقيت أبا ذر بالربذة، وعليه حلة، وعلى غلامه حلة، فسألته عن ذلك، فقال إني ساببت رجلا، فعيرته بأمه، فقال لي النبي صلى الله عليه وسلم ‏”‏ يا أبا ذر أعيرته بأمه إنك امرؤ فيك جاهلية، إخوانكم خولكم، جعلهم الله تحت أيديكم، فمن كان أخوه تحت يده فليطعمه مما يأكل، وليلبسه مما يلبس، ولا تكلفوهم ما يغلبهم، فإن كلفتموهم فأعينوهم ‏”‏‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
30 ـ حدثنا سلیمان بن حرب، قال حدثنا شعبۃ، عن واصل الاحدب، عن المعرور، قال لقیت ابا ذر بالربذۃ، وعلیہ حلۃ، وعلى غلامہ حلۃ، فسالتہ عن ذلک، فقال انی ساببت رجلا، فعیرتہ بامہ، فقال لی النبی صلى اللہ علیہ وسلم ‏”‏ یا ابا ذر اعیرتہ بامہ انک امرو فیک جاہلیۃ، اخوانکم خولکم، جعلہم اللہ تحت ایدیکم، فمن کان اخوہ تحت یدہ فلیطعمہ مما یاکل، ولیلبسہ مما یلبس، ولا تکلفوہم ما یغلبہم، فان کلفتموہم فاعینوہم ‏”‏‏.‏
 

حدیث کا اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

ہم سے بیان کیا عبدالرحمٰن بن مبارک نے، کہا ہم سے بیان کیا حماد بن زید نے، کہا ہم سے بیان کیا ایوب اور یونس نے، انہوں نے حسن سے، انہوں نے احنف بن قیس سے، کہا کہ میں اس شخص (علی رضی اللہ عنہ) کی مدد کرنے کو چلا۔ راستے میں مجھ کو ابوبکرہ ملے۔ پوچھا کہاں جاتے ہو؟ میں نے کہا، اس شخص (علی رضی اللہ عنہ) کی مدد کرنے کو جاتا ہوں۔ ابوبکرہ نے کہا اپنے گھر کو لوٹ جاؤ۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے تھے جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواریں لے کر بھڑ جائیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! قاتل تو خیر (ضرور دوزخی ہونا چاہیے) مقتول کیوں؟ فرمایا ” وہ بھی اپنے ساتھی کو مار ڈالنے کی حرص رکھتا تھا۔ “ (موقع پاتا تو وہ اسے ضرور قتل کر دیتا دل کے عزم صمیم پر وہ دوزخی ہوا)۔

حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : اس بات کا مقصد خوارج اور معتزلہ کی تردید ہے جوکبیرہ گناہ کے مرتکب کوکافر قرار دیتے ہیں۔ احنف بن قیس جنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مددگاروں میں تھے۔ جب ابوبکرہ نے ان کو یہ حدیث سنائی تووہ لوٹ گئے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابوبکرہ نے اس حدیث کو مطلق رکھا۔ حالانکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب بلاوجہ شرعی دومسلمان ناحق لڑیں اور حق پر لڑنے کی قرآن میں خود اجازت ہے۔ جیسا کہ آیت فان بغت احدٰھماعلی الاخری ( الحجرات: 9 ) سے ظاہر ہے اس لیے احنف اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے اور انھوں نے ابوبکرہ کی رائے پر عمل نہیں کیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کرتے وقت اس کا موقع محل بھی ضروری مدنظر رکھنا چاہئیے۔

English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated Al-Ma’rur: At Ar-Rabadha I met Abu Dhar who was wearing a cloak, and his slave, too, was wearing a similar one. I asked about the reason for it. He replied, "I abused a person by calling his mother with bad names.” The Prophet said to me, ‘O Abu Dhar! Did you abuse him by calling his mother with bad names You still have some characteristics of ignorance. Your slaves are your brothers and Allah has put them under your command. So whoever has a brother under his command should feed him of what he eats and dress him of what he wears. Do not ask them (slaves) to do things beyond their capacity (power) and if you do so, then help them.’ "

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں