Search

صحیح بخاری جلد اول :كتاب الحيض (حيض کا بیان) : حدیث 305

كتاب الحيض
کتاب: حیض کے احکام و مسائل
(THE BOOK OF MENSES (MENSTRUAL PERIODS
 
7- بَابُ تَقْضِي الْحَائِضُ الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا إِلاَّ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ:
باب: اس بارے میں کہ حائضہ بیت اللہ کے طواف کے علاوہ حج کے باقی ارکان پورا کرے گی۔

وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ:‏‏‏‏ لَا بَأْسَ أَنْ تَقْرَأَ الْآيَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَرَ ابْنُ عَبَّاسٍ بِالْقِرَاءَةِ لِلْجُنُبِ بَأْسًا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ اللَّهَ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ:‏‏‏‏ كُنَّا نُؤْمَرُ أَنْ يَخْرُجَ الْحُيَّضُ فَيُكَبِّرْنَ بِتَكْبِيرِهِمْ وَيَدْعُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبُو سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ هِرَقْلَ دَعَا بِكِتَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَ يَأَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ سورة آل عمران آية 64، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ عَطَاءٌ:‏‏‏‏ عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَاضَتْ عَائِشَةُ فَنَسَكَتِ الْمَنَاسِكَ غَيْرَ الطَّوَافِ بِالْبَيْتِ وَلَا تُصَلِّي”، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ الْحَكَمُ:‏‏‏‏ إِنِّي لَأَذْبَحُ وَأَنَا جُنُبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ وَلا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ سورة الأنعام آية 121
ابراہیم نے کہا کہ آیت پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما جنبی کے لیے قرآن مجید پڑھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ اور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ام عطیہ نے فرمایا ہمیں حکم ہوتا تھا کہ ہم حیض والی عورتوں کو بھی (عید کے دن) باہر نکالیں۔ پس وہ مردوں کے ساتھ تکبیر کہتیں اور دعا کرتیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ان سے ابوسفیان نے بیان کیا کہ ہرقل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرامی نامہ کو طلب کیا اور اسے پڑھا۔ اس میں لکھا ہوا تھا۔ شروع کرتا ہوں میں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ اور اے کتاب والو! ایک ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے قول«مسلمون» تک۔ عطاء نے جابر کے حوالہ سے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو (حج میں) حیض آ گیا تو آپ نے تمام مناسک پورے کئے سوائے بیت اللہ کے طواف کے اور آپ نماز بھی نہیں پڑھتی تھیں اور حکم نے کہا میں جنبی ہونے کے باوجود ذبح کرتا ہوں جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «ولا تأكلوا مما لم يذكر اسم الله عليه‏» کہ جس ذبیحہ پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے نہ کھاؤ۔

[quote arrow=”yes”]

1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]

2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

4: حدیث کا اردو ترجمہ:

5: حدیث کی اردو تشریح:

English Translation :6 

[/quote]

حدیث اعراب کے ساتھ:  [sta_anchor id=”artash”]

حدیث نمبر305:

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَذْكُرُ إِلَّا الْحَجَّ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا جِئْنَا سَرِفَ طَمِثْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا يُبْكِيكِ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ لَوَدِدْتُ وَاللَّهِ أَنِّي لَمْ أَحُجَّ الْعَامَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَعَلَّكِ نُفِسْتِ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "فَإِنَّ ذَلِكِ شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، ‏‏‏‏‏‏فَافْعَلِي مَا يَفْعَلُ الْحَاجُّ غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي”.
الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”] 
305 ـ حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا عبد العزيز بن أبي سلمة، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن القاسم بن محمد، عن عائشة، قالت خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم لا نذكر إلا الحج، فلما جئنا سرف طمثت، فدخل على النبي صلى الله عليه وسلم وأنا أبكي فقال ‏{‏ما يبكيك‏}‏‏.‏ قلت لوددت والله أني لم أحج العام‏.‏ قال ‏{‏لعلك نفست‏}‏‏.‏ قلت نعم‏.‏ قال ‏”‏ فإن ذلك شىء كتبه الله على بنات آدم، فافعلي ما يفعل الحاج، غير أن لا تطوفي بالبيت حتى تطهري ‏”‏‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
305 ـ حدثنا ابو نعیم، قال حدثنا عبد العزیز بن ابی سلمۃ، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن القاسم بن محمد، عن عایشۃ، قالت خرجنا مع النبی صلى اللہ علیہ وسلم لا نذکر الا الحج، فلما جینا سرف طمثت، فدخل على النبی صلى اللہ علیہ وسلم وانا ابکی فقال ‏{‏ما یبکیک‏}‏‏.‏ قلت لوددت واللہ انی لم احج العام‏.‏ قال ‏{‏لعلک نفست‏}‏‏.‏ قلت نعم‏.‏ قال ‏”‏ فان ذلک شىء کتبہ اللہ على بنات ادم، فافعلی ما یفعل الحاج، غیر ان لا تطوفی بالبیت حتى تطہری ‏”‏‏.‏
ا اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے بیان کیا، انہوں نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے، انہوں نے قاسم بن محمد سے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لیے اس طرح نکلے کہ ہماری زبانوں پر حج کے علاوہ اور کوئی ذکر ہی نہ تھا۔ جب ہم مقام سرف پہنچے تو مجھے حیض آ گیا۔ (اس غم سے) میں رو رہی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیوں رو رہی ہو؟ میں نے کہا کاش! میں اس سال حج کا ارادہ ہی نہ کرتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید تمہیں حیض آ گیا ہے۔ میں نے کہا جی ہاں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ چیز تو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے مقرر کر دی ہے۔ اس لیے تم جب تک پاک نہ ہو جاؤ طواف بیت اللہ کے علاوہ حاجیوں کی طرح تمام کام انجام دو۔

حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : سیدالمحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ حائضہ اور جنبی کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کی اجازت ہے۔ جیسا کہ حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں: اعلم ان البخاری عقد بابا فی صحیحہ یدل علی انہ قائل بجواز قراءۃ القرآن للجنب والحائض۔ ( تحفۃ الاحوذی،جلد1،ص: 124 )
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں کوئی صحیح روایت ایسی نہیں ہے جس میں جنبی اور حائضہ کو قرات سے روکا گیا ہوگو اس سلسلے میں متعدد روایات ہیں اور بعض کی متعدد محدثین نے تصحیح کی ہے لیکن صحیح یہی ہے کہ کوئی صحیح روایت اس سلسلہ میں نہیں ہے جیسا کہ صاحب ایضاح البخاری نے جزء11،ص: 94 پر تحریر فرمایا ہے۔ درجہ حسن تک کی روایات توموجود ہیں، البتہ ان تمام روایات کا قدر مشترک یہی ہے کہ جنبی کو قرات قرآن کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن چونکہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں کوئی روایت درجہ صحت تک پہنچی ہوئی نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے جنبی اور حائضہ کے لیے قرات قرآن کو جائز رکھا ہے۔ ائمہ فقہاءمیں سے حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے دوروایتیں ہیں۔ ایک میں جنبی اور حائضہ ہردو کوقرات کی اجازت ہے اور طبری،ابن منذر اور بعض حضرات سے بھی یہ اجازت منقول ہے۔ حضرت مولانا مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں۔ تمسک البخاری ومن قال بالجواز غیرہ کالطبری وابن المنذر وداود بعموم حدیث کان یذکر اللہ علی کل احیانہ لان الذکر اعم ان یکون بالقرآن اوبغیرہ الخ ( تحفۃ الاحوذی،ج1،ص: 124 )
یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے علاوہ دیگر مجوزین نے حدیث یذکراللہ علی کل احیانہ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہرحال میں اللہ کا ذکر فرماتے تھے ) سے استدلال کیا ہے۔ اس لیے کہ ذکرمیں تلاوت قرآن بھی داخل ہے۔ مگرجمہور کا مذہب مختار یہی ہے کہ جنبی اور حائضہ کوقرات قرآن جائز نہیں۔ تفصیل کے لیے تحفۃ الاحوذی کا مقام مذکورہ مطالعہ کیاجائے۔
صاحب ایضاح البخاری فرماتے ہیں کہ “ درحقیقت ان اختلافات کا بنیادی منشاءاسلام کا وہ توسع ہے جس کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات میں بھی فرمایا تھا اور ایسے ہی اختلافات کے متعلق آپ نے خوش ہوکر پیشین گوئی کی تھی کہ میری امت کا اختلاف باعث رحمت ہوگا۔ ( ایضاح البخاری،ج2،ص: 32 ) ( امت کا اختلاف باعث رحمت ہونے کی حدیث صحیح نہیں۔

English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated `Aisha: We set out with the Prophet for Hajj and when we reached Sarif I got my menses. When the Prophet came to me, I was weeping. He asked, "Why are you weeping?” I said, "I wish if I had not performed Hajj this year.” He asked, "May be that you got your menses?” I replied, "Yes.” He then said, "This is the thing which Allah has ordained for all the daughters of Adam. So do what all the pilgrims do except that you do not perform the Tawaf round the Ka`ba till you are clean.”

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں