1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر:521
حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
521 ـ حدثنا عبد اللہ بن مسلمۃ، قال قرات على مالک عن ابن شہاب، ان عمر بن عبد العزیز، اخر الصلاۃ یوما، فدخل علیہ عروۃ بن الزبیر، فاخبرہ ان المغیرۃ بن شعبۃ اخر الصلاۃ یوما وہو بالعراق، فدخل علیہ ابو مسعود الانصاری فقال ما ہذا یا مغیرۃ الیس قد علمت ان جبریل نزل فصلى، فصلى رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ثم صلى فصلى رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ثم صلى فصلى رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ثم صلى فصلى رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ثم صلى فصلى رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ثم قال ” بہذا امرت ”. فقال عمر لعروۃ اعلم ما تحدث اوان جبریل ہو اقام لرسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم وقت الصلاۃ. قال عروۃ کذلک کان بشیر بن ابی مسعود یحدث عن ابیہ.
اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
حدیث کی اردو تشریح: ⇪ [sta_anchor id=”urdtashree”]
تشریح : حضرت امام الدنیا فی الحدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پاکیزہ کتاب کے پارہ سوم کو کتاب مواقیت الصلوٰۃ سے شروع فرمایا، آگے باب مواقیت الصلوٰۃ الخ منعقد کیا، ان ہر دو میں فرق یہ کہ کتاب میں مطلق اوقات مذکور ہوں گے، خواہ فضیلت کے اوقات ہوں یا کراہیت کے اورباب میں وہ وقت مذکور ہورہے ہیں جن میں نماز پڑھنا افضل ہے۔
مواقیت کی تحقیق اورآیت کریمہ مذکورہ کی تفصیل میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: مواقیت جمع میقات وہو مفعال من الوقۃ والمراد بہ الوقت الذی عینہ اللہ لاداءہذہ العبادۃ وہوالقدر المحدود للفعل من الزمان قال تعالیٰ ان الصلوٰۃ کانت علی المؤمنین کتاباً موقوتا ای مفروضاً فی اوقات معینۃ معلومۃ فاجمل ذکرالاوقات فی ہذہ الآیۃ و بینہا فی مواضع آخر من الکتاب من غیر ذکر تحدیداوائلہا واواخرہا وبین علی لسان الرسول صلی اللہ علیہ وسلم تحدیدہا ومقادیرہا الخ۔ مرعاۃجلد 1، ص: 383 )
یعنی لفظ مواقیت کا ماہ وقت ہے اوروہ مفعال کے وزن پر ہے اوراس سے مراد وقت ہے۔جسے اللہ نے اس عبادت کی ادائیگی کے لیے متعین فرمادیا اوروہ زمانہ کاایک محدود حصہ ہے۔ اللہ نے فرمایانماز کہ ایمان والوں پر وقت مقررہ پر فرض کی گئی ہے۔ اس آیت میں اوقات کامجمل ذکر ہے، قرآن پاک کے دیگر مقامات پر کچھ تفصیلات بھی مذکورہیں، مگروقتوں کا اول وآخر اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک ہی سے بیان کرایاہے۔ آیت کریمہ اقم الصلوٰۃ طرفی النہار وزلفا من اللیل میں فجر اورمغرب اور عشاءکی نمازیں مذکور ہیں۔ آیت کریمہ اقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس میں ظہر وعصر کی طرف اشارہ ہے۔ الی غسق اللہ میں مغرب اورعشاءمذکورہیں وقرآن الفجر میں نماز فجر کا ذکر ہے۔ آیت کریمہ فسبحان اللہ حین تمسون میں مغرب اورعشاءمذکور ہیں وحین تصبحونمیں صبح کا ذکر ہے۔ وعشیاء میں عصر اور حین تظہرون میں ظہر اورآیت شریفہ وسبح بحمدربک قبل طلوع الشمس میں فجر اور قبل غروبہا میں عصر ومن انآءاللیل آیت کریمہ وزلفا من اللیل کی طرح ہے۔ فسبحہ واطراف النہار میں ظہر کا ذکر ہے۔ الغرض نماز پنجگانہ کی یہ مختصر تفصیلات قرآن کریم میں ذکرہوئی ہیں، ان کے اوقات کی پوری تفصیل اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل اورقول سے پیش کی ہیں،جن کے مطابق نماز کا ادا کرنا ضروری ہے۔
آج کل کچھ بدبختوں نے احادیث نبوی کا انکار کرکے صرف قرآن مجید پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کیاہے، چونکہ وہ قرآن مجید کی تفسیر محض اپنی رائے ناقص سے کرتے ہیں اس لیے ان میں کچھ لوگ پنج وقت نمازوں کے قائل ہیں، کچھ تین نمازیں بتلاتے ہیں اورکچھ دونمازوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ پھر ادائیگی نماز کے لیے انھوں نے اپنے ناقص دماغوں سے جو صورتیں تجویز کی ہیں وہ انتہائی مضحکہ خیز ہیں۔ احادیث نبوی کو چھوڑنے کایہی نتیجہ ہونا چاہئیے تھا، چنانچہ یہ لوگ اہل اسلام میں بدترین انسان کہے جاسکتے ہیں۔ جنھوں نے قرآن مجید کی آڑمیں اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھلی ہوئی غداری پر کمرباندھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب فرمائے۔
آیت مذکورہ باب کے تحت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگرتلوار چل رہی ہو اورٹھہرنے کی مہلت نہ ہو توتب بھی نماز اپنے وقت پر پڑھ لینی چاہئیے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایسے وقت میں نماز میں تاخیر درست ہے۔ ان کی دلیل خندق کی حدیث ہے جس میں مذکورہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی نمازوں کو تاخیر سے ادا فرمایا، وہ حدیث یہ ہے عن جابربن عبداللہ ان عمر جاءیوم الخندق بعد ما غربت الشمس فجعل یسب کفارقریش وقال یارسول اللہ ماکدت اصلی العصر حتی کادت الشمس تغرب فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ماصلیتہا فتوضا وتوضانا فصلی العصر بعدما غربت الشمس ثم صلی بعدہا المغرب۔ ( متفق علیہ ) یعنی جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خندق کے دن سورج غروب ہونے کے بعد کفار قریش کو برابھلا کہتے ہوئے خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور کہا کہ حضور میری عصر کی نماز رہ گئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں بھی نہیں پڑھ سکاہوں۔پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اورہم نے وضوکیا اور پہلے عصرکی نماز پھرمغرب کی نماز ادا کی۔
معلوم ہوا کہ ایسی ضرورت کے وقت تاخیر ہونے میں مضائقہ نہیں ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ اس موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ رضی اللہ عنہم کی چار نمازیں فوت ہوگئیں تھیں،جن کو مغرب کے وقت ترتیب کے ساتھ پڑھایاگیا۔
اس حدیث میں جن بزرگ کا ذکر آیاہے وہ حضرت عمربن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ خامس خلفائے راشدین میں شمار کئے گئے ہیں۔ ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ عصر کی نماز میں ان سے تاخیر ہوگئی یعنی اول وقت میں نہ ادا کرسکے جس پر عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان کو یہ حدیث سنائی، جسے سن کر حضرت عمربن عبدالعزیزرحمۃ اللہ علیہ نے عروہ سے مزید تحقیق کے لیے فرمایا کہ ذرا سمجھ کر حدیث بیان کرو، کیا جبریل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نمازوں کے اوقات عملاً مقرر کرکے بتلائے تھے، شاید عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو اس حدیث کی اطلاع نہ ہوگی، اس لیے انھوں نے عروہ کی روایت میں شبہ کیا، عروہ نے بیان کردیا کہ میں نے ابومسعود کی یہ حدیث ان کے بیٹے بشیربن ابی مسعود سے سنی ہے اوردوسری حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ و الی بھی بیان کردی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز عصراول وقت میں ادا کرنا مذکور ہے۔
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ عراق کے حاکم تھے، عراق عرب کے اس ملک کو کہتے ہیں جس کا طول عبادان سے موصل تک اورعرض قادسیہ سے حلوان تک ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو یہاں کا گورنر مقرر کیاتھا۔ روایت میں حضرت جبرئیل علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازوں کا ذکر ہے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے پانچوں نمازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے دن اول اوردوسرے دن آخروقت پڑھائیں اوربتایاکہ نماز پنج وقتہ کے اول وآخر اوقات یہ ہیں۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے مقام ابراہیم کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ نمازیں پڑھائیں۔ آپ امام ہوئے اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی ہوئے، اس طرح اوقات نماز کی تعلیم بجائے قول کے فعل کے ذریعہ کی گئی۔ حضرت عمربن عبدالعزیزرحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث سن کر تامل کیاکہ قول کے ذریعہ وقت کی تعیین کی جاسکتی تھی، عملاً اس کی کیا ضرورت تھی، اس لیے آپ نے وضاحت سے کہا کہ کیا جبریل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھائی تھی؟ جب عروہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنائی توعمر رضی اللہ عنہ بن عبدالعزیز کو کچھ اور تامل ہوا۔ اس کو دور کرنے کے لیے حضرت عروہ رحمہ اللہ نے اس کی سند بھی بیان کردی تاکہ حضرت عمربن عبدالعزیز کو پوری طرح اطمینان ہوجائے۔
حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ومقصودعروۃ بذلک ان امرالاوقات عظیم قدنزل لتحدیدہا جبریل فعلمہا النبی صلی اللہ علیہ وسلم بالفعل فلاینبغی التقصیر فی مثلہ۔ ( مرعاۃجلد 1،ص: 387 ) یعنی عروہ کا مقصود یہ تھا کہ اوقات نماز بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ جن کو مقرر کرنے کے لیے جبریل علیہ السلام نازل ہوئے اورعملی طور پر انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نمازیں پڑھاکر اوقات صلوٰۃ کی تعلیم فرمائی۔ پس اس بارے میں کمزوری مناسب نہیں۔
بعض علمائے احناف کا یہ کہنا کہ حضرت عمربن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ میں عصر کی نماز دیر کرکے پڑھنے کا معمول غلط تھا روایت میں صاف موجود ہے کہ اخّر الصلوٰۃ یوما ایک دن اتفاق سے تاخیر ہوگئی تھی، حنفیہ کے جواب کے لیے یہی روایت کافی ہے۔ واللہ اعلم۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪