Search

صحیح بخاری جلد اول :كتاب الأذان (اذان کا بیان) : حدیث:-607

كتاب الأذان
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
The Book of Adhan
3- بَابُ الإِقَامَةُ وَاحِدَةٌ، إِلاَّ قَوْلَهُ قَدْ قَامَتِ الصَّلاَةُ:
باب: اس بارے میں کہ سوائے «قد قامت الصلاة» کے اقامت کے کلمات ایک ایک دفعہ کہے جائیں۔
(3) Chapter. To pronounce the wording of Iqama once (in singles) except Qad-qamat-is-Salat.
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : ” أُمِرَ بِلَالٌ أَنْ يَشْفَعَ الْأَذَانَ وَأَنْ يُوتِرَ الْإِقَامَةَ ” ، قَالَ إِسْمَاعِيلُ : فَذَكَرْتُ لِأَيُّوبَ ، فَقَالَ : إِلَّا الْإِقَامَةَ .
حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”] 
607 ـ حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثنا خالد، عن أبي قلابة، عن أنس، قال أمر بلال أن يشفع، الأذان، وأن يوتر الإقامة‏.‏ قال إسماعيل فذكرت لأيوب فقال إلا الإقامة‏.‏
الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
607 ـ حدثنا علی بن عبد اللہ، حدثنا اسماعیل بن ابراہیم، حدثنا خالد، عن ابی قلابۃ، عن انس، قال امر بلال ان یشفع، الاذان، وان یوتر الاقامۃ‏.‏ قال اسماعیل فذکرت لایوب فقال الا الاقامۃ‏.‏
‏‏اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

´ہم سے علی بن عبداللہ بن مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد حذاء نے ابوقلابہ سے بیان کیا، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ` بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا کہ اذان کے کلمات دو دو دفعہ کہیں اور تکبیر میں یہی کلمات ایک ایک دفعہ۔ اسماعیل نے بتایا کہ میں نے ایوب سختیانی سے اس حدیث کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا مگر لفظ «قد قامت الصلوة» دو ہی دفعہ کہا جائے گا۔

حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : امام المحدثین رحمۃ اللہ علیہ نے اکہری اقامت کے مسنون ہونے کے بارے میں یہ باب منعقد فرمایاہے اورحدیث بلال رضی اللہ عنہ سے اسے مدلل کیاہے۔ یہاں صیغہ مجہول امربلال وارد ہواہے۔ مگر بعض طرق صحیحہ میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم امربلالا ان یشفع الاذان ویوتر الاقامۃ۔ ( کذا رواہ النسائی ) یعنی حضرت بلال کو اکہری تکبیر کا حکم فرمانے والے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔ 
محدث مبارک پوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ تحفۃ الاحوذی میں فرماتے ہیں: وبہذا ظہر بطلان قول العینی فی شرح الکنزلاحجۃ لہم فیہ لانہ لم یذکر الامر فیحتمل ان یکون ہوالنبی صلی اللہ علیہ وسلم اوغیرہ۔ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی سنن نسائی میں آمدہ تفصیل سے علامہ عینی کے اس قول کا بطلان ظاہر ہوگیا جوانھوں نے شرح کنزمیں لکھاہے کہ اس حدیث میں احتمال ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم کرنے والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہوں یا آپ کے علاوہ کوئی اورہو۔ لہٰذا اس سے اکہری تکبیر کا ثبوت صحیح نہیں ہے۔ یہ علامہ عینی صاحب مرحوم کی تاویل کس قدر باطل ہے، مزید وضاحت کی ضرورت نہیں۔ اکہری تکبیر کے بارے میں احمد، ابوداؤد، نسائی میں اس قدر روایات ہیں کہ سب کو جمع کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ 
مولانا مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں: قال الحازمی فی کتاب الاعتبار رای اکثراہل العلم ان الاقامۃ فرادی والی ہذاالمذہب ذہب سعیدبن المسیب وعروۃ بن الزبیر والزہری ومالک بن انس واہل الحجاز والشافعی واصحابہ والیہ ذہب عمروبن عبدالعزیز ومکحول والاوزاعی واہل الشام والیہ ذہب الحسن البصری ومحمدبن سیرین واحمدبن حنبل ومن تبعہم من العراقیین والیہ ذہب یحییٰ بن یحییٰ واسحاق بن ابراہیم الحنظلی ومن تبعہما من الخراسانیین وذہبوا فی ذلک الی حدیث انس انتہیٰ کلام الجازمی۔ ( تحفۃ الاحوذی ) 
یعنی امام حازمی نے کتاب الاعتبار میں اکثر اہل علم کا یہی فتویٰ نقل کیاہے کہ تکبیر اکہری کہنا مسنون ہے۔ ان علماءمیں حجازی، شامی، عراقی اور خراسانی یہ تمام علماءاس کے قائل ہیں۔ جن کے اسماءگرامی علامہ حازمی صاحب نے پیش فرمائے ہیں۔ 
آخر میں علامہ مبارک پوری مرحوم نے کس قدر منصفانہ فیصلہ دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: والحق ان احادیث افراد الاقامۃ صحیحۃ ثابتۃ محکمۃ لیست بمنسوخۃ ولابمؤلۃ نعم قد ثبت احادیث ثنیۃ الاقامۃ ایضا وہی ایضاً محکمۃ لیست منسوخۃ ولابمؤلۃ وعندی الافراد والثنیۃ کلاہما جائزان واللہ تعالیٰ اعلم۔ ( تحفۃ الاحوذی، ج1، ص:172 ) یعنی حق بات یہی ہے کہ اکہری تکبیر والی احادیث صحیح، ثابت محکم ہیں۔ نہ وہ منسوخ ہیں نہ قابل تاویل ہیں، اسی طرح دوہری تکبیر کی احادیث بھی محکم ہیں اوروہ بھی منسوخ نہیں ہیں۔ نہ قابل تاویل ہیں۔ پس میرے نزدیک ہر دوطرح سے تکبیر کہنا جائز ہے۔ 
کس قدر افسوس کی بات ہے: ہمارے عوام نہیں بلکہ خواص حنفی حضرات اگرکبھی اتفاقاً کہیں اکہری تکبیر سن پاتے ہیں تو فوراً ہی مشتعل ہوجاتے ہیں اوربعض متعصّب اس اکہری تکبیر کوباطل قرار دے کر دوبارہ دوہری تکبیرکہلواتے ہیں۔ اہل علم حضرات سے ایسی حرکت انتہائی مذموم ہے جو اپنی علمی ذمہ داریوں کو ذرا بھی محسوس نہیں کرتے۔ بنظر انصاف دیکھا جائے تو یہی حضرات افتراق امت کے مجرم ہیں۔ جنھوں نے جزئی وفروعی اختلافات کو ہوا دے کر اسلام میں فرقہ بندی کی بنیاد رکھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسی کا نام تقلید جامد ہے۔ جب تک امت ان اختلافات کو فراموش کرکے اسلامی تعلیمات کے ہر پہلو کے لیے اپنے دلوںمیں گنجائش نہ پیدا کرے گی امت میں اتفاق مشکل ہے۔ اگرکچھ مخلصین ذمہ دار علماءاس کے لیے تہیہ کرلیں تو کچھ مشکل بھی نہیں ہے۔ جب کہ آج پوری دنیائے اسلام موت و حیات کی کشمکش میں مبتلاہے ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے عوام وخواص کو بتلایا جائے کہ اتفاق باہمی کتنی عمدہ چیز ہے۔ الحمد للہ کہ آج تک کسی اہل حدیث مسجد سے متعلق ایسا کوئی کیس نہیں مل سکے گا کہ وہاں کسی حنفی بھائی نے دوہری تکبیرکہی ہو اوراس پر اہل حدیث کی طرف سے کبھی بلوہ ہوگیا ہو۔ برخلاف اس کے کتنی ہی مثالیں موجود ہیں۔ اللہ پاک مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے کہ وہ کلمہ اورقرآن اورکعبہ وتوحید ورسالت پر متفق ہوکر اسلام کوسربلند کرنے کی کوشش کریں۔ 
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated Abu Qilaba: Anas said, "Bilal was ordered to pronounce the wording of Adhan twice and of Iqama once only.” The sub narrator Isma`il said, "I mentioned that to Aiyub and he added (to that), "Except Iqama (i.e. Qadqamat- is-salat which should be said twice).

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں