Search

صحیح بخاری جلد اول :كتاب الأذان (اذان کا بیان) : حدیث:-644

كتاب الأذان
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
The Book of Adhan

29- بَابُ وُجُوبِ صَلاَةِ الْجَمَاعَةِ:
باب: جماعت سے نماز پڑھنا فرض ہے۔
(29) Chapter. Congregational Salat (prayer) is obligatory.
وَقَالَ الْحَسَنُ : إِنْ مَنَعَتْهُ أُمُّهُ عَنِ الْعِشَاءِ فِي الْجَمَاعَةِ شَفَقَةً لَمْ يُطِعْهَا .
‏‏‏‏ اور امام حسن بصری نے کہا کہ اگر کسی شخص کی ماں اس کو محبت کی بنا پر عشاء کی نماز باجماعت کے لیے مسجد میں جانے سے روک دے تو اس شخص کے لیے ضروری ہے کہ اپنی ماں کی بات نہ مانے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : ” وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَيُحْطَبَ ، ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلَاةِ فَيُؤَذَّنَ لَهَا ، ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَيَؤُمَّ النَّاسَ ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَى رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ يَعْلَمُ أَحَدُهُمْ أَنَّهُ يَجِدُ عَرْقًا سَمِينًا أَوْ مِرْمَاتَيْنِ حَسَنَتَيْنِ لَشَهِدَ الْعِشَاءَ ” .
حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”] 
644 ـ حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏”‏ والذي نفسي بيده لقد هممت أن آمر بحطب فيحطب، ثم آمر بالصلاة فيؤذن لها، ثم آمر رجلا فيؤم الناس، ثم أخالف إلى رجال فأحرق عليهم بيوتهم، والذي نفسي بيده لو يعلم أحدهم أنه يجد عرقا سمينا أو مرماتين حسنتين لشهد العشاء ‏”‏‏.‏
الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
644 ـ حدثنا عبد اللہ بن یوسف، قال اخبرنا مالک، عن ابی الزناد، عن الاعرج، عن ابی ہریرۃ، ان رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم قال ‏”‏ والذی نفسی بیدہ لقد ہممت ان امر بحطب فیحطب، ثم امر بالصلاۃ فیوذن لہا، ثم امر رجلا فیوم الناس، ثم اخالف الى رجال فاحرق علیہم بیوتہم، والذی نفسی بیدہ لو یعلم احدہم انہ یجد عرقا سمینا او مرماتین حسنتین لشہد العشاء ‏”‏‏.‏
‏‏اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

´´´ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابوالزناد سے خبر دی، انہوں نے اعرج سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ لکڑیوں کے جمع کرنے کا حکم دوں۔ پھر نماز کے لیے کہوں، اس کے لیے اذان دی جائے پھر کسی شخص سے کہوں کہ وہ امامت کرے اور میں ان لوگوں کی طرف جاؤں (جو نماز باجماعت میں حاضر نہیں ہوتے) پھر انہیں ان کے گھروں سمیت جلا دوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر یہ جماعت میں نہ شریک ہونے والے لوگ اتنی بات جان لیں کہ انہیں مسجد میں ایک اچھے قسم کی گوشت والی ہڈی مل جائے گی یا دو عمدہ کھر ہی مل جائیں گے تو یہ عشاء کی جماعت کے لیے مسجد میں ضرور حاضر ہو جائیں۔

حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : اس حدیث سے نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا جس قدر ضروری معلوم ہوتاہے وہ الفاظ حدیث سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تارکین جماعت کے لیے ان کے گھروں کو آگ لگانے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ اسی لیے جن علماءنے نماز کو جماعت کے ساتھ فرض قراردیاہے یہ حدیث ان کی اہم دلیل ہے۔
علامہ شوکانی فرماتے ہیں: والحدیث استدل بہ القائلون بوجوب صلوٰۃ الجماعۃ لانہا لوکانت سنۃ لم یہدد تارکہا بالتحریق۔یعنی اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل پکڑی ہے جو نماز باجماعت کو واجب قراردیتے ہیں۔ اگریہ محض سنت ہوتی تواس کے چھوڑنے والے کو آگ میں جلانے کی دھمکی نہ دی جاتی۔
بعض علماءاس کے وجوب کے قائل نہیں ہیں اوروہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تنبیہ جن لوگوں کوفرمائی تھی، وہ منافق لوگ تھے۔ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: والذی یظہرلی ان الحدیث ورد فی المنافقین لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صدرالحدیث “ اثقل الصلوٰۃ علی المنافقین ” ولقولہ صلی اللہ علیہ وسلم “ لویعلمون الخ ” لان ہذا الوصف یلیق بہم لا بالمومنین لکن المراد نفاق المعصیۃ لانفاق الکفر الخ۔ یعنی میری سمجھ میں یہ آتاہے کہ یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ خاص منافقین کے بارے میں ہے۔ شروع کے الفاظ صاف ہیں کہ سب سے زیادہ بھاری نماز منافقین پر عشاءاور فجر کی نمازیں ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی یہی ظاہر کرتاہے لو یعلمون الخ یعنی اگروہ ان نمازوں کا ثواب باجماعت پڑھنے کا جان لیتے توآخرتک۔ پس یہ بری عادت اہل ایمان کی شان سے بہت ہی بعیدہے۔ یہ خاص اہل نفاق ہی کا شیوہ ہوسکتاہے۔ یہاں نفاق سے مراد نفاق معصیت ہے نفاق کفرمراد نہیں ہے۔ بہرحال جمہور علماءنے نماز باجماعت کو سنت قراردیاہے۔ ان کی دلیل وہ احادیث ہیں جن میں نمازباجماعت کی اکیلے کی نماز پر ستائیس درجہ زیادہ فضیلت بتلائی گئی ہے۔ معلوم ہوا کہ جماعت سے باہر بھی نماز ہوسکتی ہے مگر ثواب میں وہ اس قدر کم ہے کہ اس کے مقابلہ پر جماعت کی نماز ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔
علامہ شوکانی فرماتے ہیں: فاعدل الاقوال اقربہا الی الصواب ان الجماعۃ من السنن الموکدۃ التی لایخل بملازمتہا ماامکن الا محروم مشؤم۔ ( نیل، جزئ3، ص:137 ) یعنی درست تر قول یہی معلوم ہوتاہے کہ جماعت سے نماز ادا کرنا سنن مؤکدہ ہے۔ ایسی سنت کہ امکانی طاقت میں اس سے وہی شخص تساہل برت سکتاہے جو انتہائی بدبخت بلکہ منحوس ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان اس طرف معلوم ہوتاہے کہ نماز باجماعت واجب ہے جیسا کہ منعقدہ باب سے ظاہر ہے اسی لیے مولانا مرزاحیرت مرحوم فرماتے ہیں کہ ان المحققین ذھبوا الی وجوبہا والحق احق بالاتباع۔ 
حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مختلف طرق سے روایت کی گئی ہے۔ جس میں الفاظ کی کمی بیشی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نقل کردہ روایت میں منافقین کا ذکر صریح لفظوں میں نہیں ہے دوسری روایات میں منافقین کا ذکر صراحتاً آیاہے جیسا کہ مذکورہوا۔
بعض علماءکہتے ہیں کہ اگرنماز باجماعت ہی فرض ہوتی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بغیر جلائے نہ چھوڑتے۔ آپ کا اس سے رک جانا اس امر کی دلیل ہے کہ یہ فرض نہیں بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔ نیل الاوطار میں تفصیل سے ان مباحت کو لکھا گیاہے۔ من شاءفلیرجع الیہ۔

English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated Abu Huraira: Allah’s Apostle said, "By Him in Whose Hand my soul is I was about to order for collecting firewood (fuel) and then order Someone to pronounce the Adhan for the prayer and then order someone to lead the prayer then I would go from behind and burn the houses of men who did not present themselves for the (compulsory congregational) prayer. By Him, in Whose Hands my soul is, if anyone of them had known that he would get a bone covered with good meat or two (small) pieces of meat present in between two ribs, he would have turned up for the `Isha’ prayer.’

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں