Search

صحیح بخاری جلد اول :كتاب الأذان (اذان کا بیان) : حدیث:-684

كتاب الأذان
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
The Book of Adhan

48- بَابُ مَنْ دَخَلَ لِيَؤُمَّ النَّاسَ فَجَاءَ الإِمَامُ الأَوَّلُ فَتَأَخَّرَ الأَوَّلُ أَوْ لَمْ يَتَأَخَّرْ جَازَتْ صَلاَتُهُ:
باب: ایک شخص نے امامت شروع کر دی پھر پہلا امام آ گیا اب پہلا شخص (مقتدیوں میں ملنے کے لیے) پیچھے سرک گیا یا نہیں سرکا، بہرحال اس کی نماز جائز ہو گی۔
(48) Chapter. If somebody is leading the Salat (prayer) and (in the meanwhile) the first (usual) Imam comes, the Salat is valid whether the former retreats or does not retreat.

فِيهِ عَائِشَةُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
‏‏‏‏ یہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي حَازِمِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، ” أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَهَبَ إِلَى بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ ، فَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَجَاءَ الْمُؤَذِّنُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ ، فَقَالَ : أَتُصَلِّي لِلنَّاسِ فَأُقِيمَ ، قَالَ : نَعَمْ ، فَصَلَّى أَبُو بَكْرٍ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ فِي الصَّلَاةِ فَتَخَلَّصَ حَتَّى وَقَفَ فِي الصَّفِّ ، فَصَفَّقَ النَّاسُ ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لَا يَلْتَفِتُ فِي صَلَاتِهِ ، فَلَمَّا أَكْثَرَ النَّاسُ التَّصْفِيقَ الْتَفَتَ فَرَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِ امْكُثْ مَكَانَكَ ، فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَدَيْهِ فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى مَا أَمَرَهُ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ ، ثُمَّ اسْتَأْخَرَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى اسْتَوَى فِي الصَّفّ ، وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى ، فَلَمَّا انْصَرَفَ ، قَالَ : يَا أَبَا بَكْرٍ ، مَا مَنَعَكَ أَنْ تَثْبُتَ إِذْ أَمَرْتُكَ ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : مَا كَانَ لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا لِي رَأَيْتُكُمْ أَكْثَرْتُمُ التَّصْفِيقَ مَنْ رَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِ فَلْيُسَبِّحْ ، فَإِنَّهُ إِذَا سَبَّحَ الْتُفِتَ إِلَيْهِ ، وَإِنَّمَا التَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ ” 
حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”] 
684 ـ حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن أبي حازم بن دينار، عن سهل بن سعد الساعدي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذهب إلى بني عمرو بن عوف ليصلح بينهم فحانت الصلاة فجاء المؤذن إلى أبي بكر فقال أتصلي للناس فأقيم قال نعم‏.‏ فصلى أبو بكر، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس في الصلاة، فتخلص حتى وقف في الصف، فصفق الناس ـ وكان أبو بكر لا يلتفت في صلاته ـ فلما أكثر الناس التصفيق التفت فرأى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم أن امكث مكانك، فرفع أبو بكر ـ رضى الله عنه ـ يديه، فحمد الله على ما أمره به رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذلك، ثم استأخر أبو بكر حتى استوى في الصف، وتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى، فلما انصرف قال ‏”‏ يا أبا بكر ما منعك أن تثبت إذ أمرتك ‏”‏‏.‏ فقال أبو بكر ما كان لابن أبي قحافة أن يصلي بين يدى رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏”‏ ما لي رأيتكم أكثرتم التصفيق من رابه شىء في صلاته فليسبح، فإنه إذا سبح التفت إليه، وإنما التصفيق للنساء ‏”‏‏.‏
‏‏الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
684 ـ حدثنا عبد اللہ بن یوسف، قال اخبرنا مالک، عن ابی حازم بن دینار، عن سہل بن سعد الساعدی، ان رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ذہب الى بنی عمرو بن عوف لیصلح بینہم فحانت الصلاۃ فجاء الموذن الى ابی بکر فقال اتصلی للناس فاقیم قال نعم‏.‏ فصلى ابو بکر، فجاء رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم والناس فی الصلاۃ، فتخلص حتى وقف فی الصف، فصفق الناس ـ وکان ابو بکر لا یلتفت فی صلاتہ ـ فلما اکثر الناس التصفیق التفت فراى رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، فاشار الیہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ان امکث مکانک، فرفع ابو بکر ـ رضى اللہ عنہ ـ یدیہ، فحمد اللہ على ما امرہ بہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم من ذلک، ثم استاخر ابو بکر حتى استوى فی الصف، وتقدم رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فصلى، فلما انصرف قال ‏”‏ یا ابا بکر ما منعک ان تثبت اذ امرتک ‏”‏‏.‏ فقال ابو بکر ما کان لابن ابی قحافۃ ان یصلی بین یدى رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم‏.‏ فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ‏”‏ ما لی رایتکم اکثرتم التصفیق من رابہ شىء فی صلاتہ فلیسبح، فانہ اذا سبح التفت الیہ، وانما التصفیق للنساء ‏”‏‏.‏
‏‏اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

´´ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابوحازم سلمہ بن دینار سے خبر دی، انہوں نے سہل بن سعد ساعدی (صحابی رضی اللہ عنہ) سے کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی عمرو بن عوف میں (قباء میں) صلح کرانے کے لیے گئے، پس نماز کا وقت آ گیا۔ مؤذن (بلال رضی اللہ عنہ نے) ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آ کر کہا کہ کیا آپ نماز پڑھائیں گے۔ میں تکبیر کہوں۔ ابوبکر رضی اللہ نے فرمایا کہ ہاں چنانچہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نماز شروع کر دی۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے تو لوگ نماز میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفوں سے گزر کر پہلی صف میں پہنچے۔ لوگوں نے ایک ہاتھ کو دوسرے پر مارا (تاکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر آگاہ ہو جائیں) لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی طرف توجہ نہیں دیتے تھے۔ جب لوگوں نے متواتر ہاتھ پر ہاتھ مارنا شروع کیا تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ متوجہ ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے انہیں اپنی جگہ رہنے کے لیے کہا۔ (کہ نماز پڑھائے جاؤ) لیکن انہوں نے اپنے ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امامت کا اعزاز بخشا، پھر بھی وہ پیچھے ہٹ گئے اور صف میں شامل ہو گئے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر جب میں نے آپ کو حکم دے دیا تھا پھر آپ ثابت قدم کیوں نہ رہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے کہ ابوقحافہ کے بیٹے (یعنی ابوبکر) کی یہ حیثیت نہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نماز پڑھا سکیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ عجیب بات ہے۔ میں نے دیکھا کہ تم لوگ بکثرت تالیاں بجا رہے تھے۔ (یاد رکھو) اگر نماز میں کوئی بات پیش آ جائے تو سبحان اللہ کہنا چاہئے جب وہ یہ کہے گا تو اس کی طرف توجہ کی جائے گی اور یہ تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے۔

 
حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]
تشریح : بنی عمرو بن عوف ساکنان قبا قبیلہ اوس کی ایک شاخ تھی۔ ان میں آپس میں تکرار ہو گئی۔ ان میں صلح کرانے کی غرض سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے اور چلتے وقت بلال رضی اللہ عنہ سے فرما گئے تھے کہ اگر عصر کا وقت آجائے اور میں نہ آسکوں تو ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہنا وہ نماز پڑھا دیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ کو وہاں کافی وقت لگ گیا۔ یہاں تک کہ جماعت کا وقت آگیا اور حضرت صدیق اکبر ( رضی اللہ عنہ ) مصلے پر کھڑے کر دئیے گئے۔ اتنے ہی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور معلوم ہونے پر حضڑت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پیچھے ہو گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے تواضع و انکساری کی بنا پر اپنے آپ کو ابوقحافہ کا بیٹا کہا۔ کیوں کہ ان کے باپ ابوقحافہ کو دوسرے لوگوں پر کوئی خاص فضیلت نہ تھی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر مقررہ امام کے علاوہ کوئی دوسرا شخص امام بن جائے اور نماز شروع کرتے ہی فوراً دوسرا امام مقررہ آجائے تو اس کو اختیار ہے کہ خواہ خود امام بن جائے اور دوسرا شخص جو امامت شروع کراچکا تھا وہ مقتدی بن جائے یا نئے امام کا مقتدی رہ کر نماز ادا کرے کسی حال میں نماز میں خلل نہ ہوگا اور نہ نماز میں کوئی خرابی آئے گی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مردوں کو اگر امام کو لقمہ دینا پڑے تو باآواز بلند سبحان اللہ کہنا چاہئے۔ اگر کوئی عورت لقمہ دے تو اسے تالی بجا دینا کافی ہوگا۔

English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated Sahl bin Sa`d As-Sa`idi: Allah’s Apostle went to establish peace among Bani `Amr bin `Auf. In the meantime the time of prayer was due and the Mu’adh-dhin went to Abu Bakr and said, "Will you lead the prayer, so that I may pronounce the Iqama?” Abu Bakr replied in the affirmative and led the prayer. Allah’s Apostle came while the people were still praying and he entered the rows of the praying people till he stood in the (first row). The people clapped their hands. Abu Bakr never glanced sideways in his prayer but when the people continued clapping, Abu Bakr looked and saw Allah’s Apostle. Allah’s Apostle beckoned him to stay at his place. Abu Bakr raised his hands and thanked Allah for that order of Allah’s Apostle and then he retreated till he reached the first row. Allah’s Apostle went forward and led the prayer. When Allah’s Apostle finished the prayer, he said, "O Abu Bakr! What prevented you from staying when I ordered you to do so?” Abu Bakr replied, "How can Ibn Abi Quhafa (Abu Bakr) dare to lead the prayer in the presence of Allah’s Apostle?” Then Allah’s Apostle said, "Why did you clap so much? If something happens to anyone during his prayer he should say Subhan Allah. If he says so he will be attended to, for clapping is for women.”

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں