Search

صحیح بخاری جلد اول :كتاب الجمعة(جمعہ کے مسائل کے بیان میں) : حدیث:-916

كتاب الجمعة
کتاب: جمعہ کے بیان میں
The Book of Al-Jumuah (Friday)
25- بَابُ التَّأْذِينِ عِنْدَ الْخُطْبَةِ:
باب: جمعہ کی اذان خطبہ کے وقت دینا۔
(25) Chapter. To pronounce the Adhan before delivering the Khutba (religious talk).

[quote arrow=”yes” "]

1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]

2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

4: حدیث کا اردو ترجمہ:

5: حدیث کی اردو تشریح:

English Translation :6 

[/quote]

حدیث اعراب کے ساتھ:  [sta_anchor id=”artash”]

حدیث نمبر:916

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ ، يَقُولُ : ” إِنَّ الْأَذَانَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ كَانَ أَوَّلُهُ حِينَ يَجْلِسُ الْإِمَامُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى الْمِنْبَرِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، فَلَمَّا كَانَ فِي خِلَافَةِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَثُرُوا ، أَمَرَ عُثْمَانُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِالْأَذَانِ الثَّالِثِ ، فَأُذِّنَ بِهِ عَلَى الزَّوْرَاءِ فَثَبَتَ الْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ ” .

. ..حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”]

916 ـ حدثنا محمد بن مقاتل، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا يونس، عن الزهري، قال سمعت السائب بن يزيد، يقول إن الأذان يوم الجمعة كان أوله حين يجلس الإمام يوم الجمعة على المنبر في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر ـ رضى الله عنهما ـ فلما كان في خلافة عثمان ـ رضى الله عنه ـ وكثروا، أمر عثمان يوم الجمعة بالأذان الثالث، فأذن به على الزوراء، فثبت الأمر على ذلك‏.‏

حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]

916 ـ حدثنا محمد بن مقاتل، قال اخبرنا عبد اللہ، قال اخبرنا یونس، عن الزہری، قال سمعت السائب بن یزید، یقول ان الاذان یوم الجمعۃ کان اولہ حین یجلس الامام یوم الجمعۃ على المنبر فی عہد رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم وابی بکر وعمر ـ رضى اللہ عنہما ـ فلما کان فی خلافۃ عثمان ـ رضى اللہ عنہ ـ وکثروا، امر عثمان یوم الجمعۃ بالاذان الثالث، فاذن بہ على الزوراء، فثبت الامر على ذلک‏.‏

‏‏‏اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

´ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم کو یونس بن یزید نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے یہ سنا تھا کہ` جمعہ کی پہلی اذان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں اس وقت دی جاتی تھی جب امام منبر پر بیٹھتا۔ جب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا دور آیا اور نمازیوں کی تعداد بڑھ گئی تو آپ نے جمعہ کے دن ایک تیسری اذان کا حکم دیا، یہ اذان مقام زوراء پر دی گئی اور بعد میں یہی دستور قائم رہا۔
حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]
تشریح : تیسری اس کو اس لیے کہا کہ تکبیر بھی اذان ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد سے پھر یہی طریقہ جاری ہو گیا کہ جمعہ میں ایک پہلی اذان ہوتی ہے پھر جب امام منبر پر جاتا ہے تو دوسری اذان دیتے ہیں پھر نماز شروع کرتے وقت تیسری اذان یعنی تکبیر کہتے ہیں گوحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا فعل بدعت نہیں ہو سکتا اس لیے کہ وہ خلفاءراشدین میں سے ہیں۔مگر انہوں نے یہ اذان ایک ضرورت سے بڑھائی کہ مدینہ کی آبادی دور دور تک پہنچ گئی تھی اور خطبہ کی اذان سب کے جمع ہونے کے لیے کافی نہ تھی،آتے آتے ہی نماز ختم ہو جاتی۔ مگر جہاں یہ ضرورت نہ ہو وہاں بموجب سنت نبوی صرف خطبہ ہی کی اذان دینا چاہیے اورخوب بلند آواز سے نہ کہ جیسا جاہل لوگ خطبہ کے وقت آہستہ آہستہ اذان دیتے ہیں۔ اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ ابن ابی شیبہ نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے نکالا تیسری اذان بدعت ہے۔ یعنی ایک نئی بات ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں نہ تھی اب اس سنت نبوی کو سوائے اہل حدیث کے اور کوئی بجا نہیں لاتے۔ جہاں دیکھو سنت عثمانی کا رواج ہے ( مولانا وحید الزماں ) حضرت عبد اللہ بن عمر نے جو اسے بدعت کہا اس کی توجیہ میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:فیحتمل ان یکون ذالک علی سبیل الانکار ویحتمل ان یرید انہ لم یکن فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم وکل مالم یکن فی زمنہ یسمی بدعۃ۔ ( نیل الاوطار )
یعنی احتمال ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے انکار کے طور پر ایسا کہا ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ ان کی مراد یہ ہو کہ یہ اذان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں نہ تھی اور جو آپ کے زمانہ میں نہ ہو اس کو ( لغوی حیثیت سے ) بدعت یعنی نئی چیز کہا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بلغنی ان اھل المغرب الادنی الان لاتاذین عندھم سوی مرۃ یعنی مجھے خبر پہنچی ہے کہ مغرب والوں کا عمل اب بھی صرف سنت نبوی یعنی ایک ہی اذان پر ہے۔
جمہورعلماءاہل حدیث کا مسلک بھی یہی ہے کہ سنت نبوی پر عمل بہتر ہے اور اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے جیسی ضرورت محسوس ہو تو مسجد سے باہر کسی مناسب جگہ پر یہ اذان کہہ دی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
جن لوگوں نے اذان عثمانی کو بھی مسنون قرار دیا ان کا قول محل نظر ہے۔چنانچہ حضرت مولانا عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے اس امر پر روشنی ڈالی ہے۔ آخر میں آپ فرماتے ہیں:ان الاستدلال علی کون الاذان الثالث ھو من مجتھدات عثمان امرا مسنونا لیس بتام الاتری ان ابن عمر قال الاذان الاول یوم الجمعۃ بدعۃ فلو کان ھذا الاستدلال تاما وکان الاذان الثالث امرا مسنونا لم یطلق علیہ لفظ البدعۃ لا علی سبیل الانکار ولا علی سبیل غیرالانکار فان الامر المسنون لا یجوز ان یطلق علیہ لفظ البدعۃ بای معنی کان فتفکر۔ ( تحفۃ الاحوذی۔

 
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated Az-Zuhri: I heard As-Saib bin Yazid, saying, "In the lifetime of Allah’s Apostle, and Abu Bakr and `Umar, the Adhan for the Jumua prayer used to be pronounced after the Imam had taken his seat on the pulpit. But when the people increased in number during the caliphate of `Uthman, he introduced a third Adhan (on Friday for the Jumua prayer) and it was pronounced at Az-Zaura’ and that new state of affairs remained so in the succeeding years.

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں