میزبان:آج کا موضوع حدیث قرطاس کے اعترضات کے بارے میں ہے۔
بعض فرقوں کے اندر یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جو وصیت نبیﷺنے کرنی تھی وہ خلافت کے حوالے سے کرنی تھی یا کسی اور معاملے کے حوالے سے کرنی تھی اسکی اصل حقیقت کیا ہے؟کیایہ ممکن ہے کہ ایک نبی ایک اختلاف اپنی امت میں چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو جائے۔سب سے پہلے اس بات کو بیان کریں کہ حدیث قرطاس سے کیا مراد ہے ؟
مہمان:حدیث قرطاس سے مراد حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ۔ جو کہ مسلم اور بخاری میں موجود ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبیﷺکی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ ﷺنے اس شدت کی بیماری میں صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ:
میرے پاس کاغذ اور قلم لے آؤ میں تمھارے لیے کچھ لکھ کر دے دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو سکو گے۔(صحیح البخاری 114)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب نبی ﷺکی بیماری کی شدت کو دیکھا تو فرمایا کہ:نبی ﷺپر بیماری کی شدت ہے۔لہذا ہمیں اللہ تعالٰی کی کتاب کافی ہے۔یعنی اگر ہم اللہ کی کتاب اور سنت رسول ﷺپر عمل کرتے رہیں گے تو ہم کبھی بھٹکیں گے نہیں۔اس وقت لوگوں کی آوازیں بلند ہوئیں اور لوگ دو فرقوں میں بٹ گئے۔کچھ نے کہا کہ کاغذ اور قلم لے کر آؤ ۔ نبی ﷺکوئی وصیت لکھوانا چاہتے ہیںاور بعض نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ ﷺپر بیماری کی شدت ہے۔
یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجتہاد تھابعض حق کو پہنچ جاتے تھے اور بعض کا اجتہاد غلط بھی ہوتا تھا۔اصل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھا کہ نبی ﷺبیماری کی شدت کی وجہ سے کچھ الفاظ بول رہے ہیں اور لکھوانا چاہ رہے ہیں۔اگر یہ دین کے اندر لازم ہوا تو جب آپ ﷺہوش میں آئیں گے تو لکھوا لیں گے۔یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فہم و فراست کی دلیل ہے ۔اور اگر یہ لازم نہ ہوا تو آپ ﷺاس کو نہیں لکھوائیں گے۔نبی ﷺسے موت کی اجازت مانگی گئی تھی آپ ﷺکو خبر دی گی تھی۔
جیسے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو آپ ﷺنے اپنے پاس بلایا اور آپ کے کان میں کوئی بات کہی۔پہلی دفعہ وہ رو پڑی اور دوسری دفعہ وہ ہنسنے لگی۔جب ان سے پوچھا گیا کہ روئی کس بات پر تھی تو انھوں نے کہا کہ نبی ﷺنے جب فرمایا کہ میں دنیا سے جانے لگا ہوں تو اس بات پر مجھے رونا آیااور جب آپ ﷺنے فرمایا کہ میرے اہل خانہ میں سے سب سے پہلے جو مجھ سے ملے گا وہ تم ہو تو اس بات پر مجھے خوشی ہوئی۔(صحیح البخاری 3624)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جب یہ حدیث بیان کرتے ہیں تو حدیث کے آخر میں انھوں نے کچھ الفاظ کہے ہیں۔ الفاظ یہ ہیں کہ فرماتے ہیں کہ یہ بہت بڑی مصیبت تھی مسلمانوں پر کہ جو نبی ﷺوصیت یا خط لکھوانا چاہتے تھے ۔ ان کے درمیان حائل ہو گئی۔اس کی وجہ سے نبی ﷺوہ وصیت نہ لکھوا سکےیہ حدیث قرطاس ہے۔یہ مشہور اس وجہ سے ہے کہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺحضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام وصیت لکھوانا چاہتے تھے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
ان الدزیتہ کل الدزیتہ ما حال بین رسول اللہ ﷺوبین کتابہ(صحیح البخاری 114)
یہ حدیث قرطاس ہے۔
میزبان:حدیث قرطاس کے حوالے سے جو لوگوں کے اشکالات ہیں ان کے جوابات کیا ہیں؟
مہمان:سب سے پہلی بات کہ جو اشکالات بیان کیے گئے ہیں اس حدیث میں ان میں سے پہلا اشکال یہ ہے کہ:
وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کاغذ ،قلم روکنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ اللہ کے نبی ﷺحضرت علی کے نام خلافت کی وصیت کرنا چاہتے تھےتو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے روکا۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ نعوذ بااللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺکے حکم کے آگے اپنی رائے یا آواز کو بلند کرنے کی کوشش کی اور اسی طرح بعض کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی اس کو صحیح نہیں سمجھتےوہ بھی یہ سمجھتے تھے کہ نبی ﷺحضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی وصیت کرنا چاہتے تھے۔
اس طرح کے اشکالات اس حدیث کے ظاہر سے لیے جاتے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ جو مشکل الحدیث ہوتی ہیں یا جن میں ظاہری تعارض ہوتا ہے ۔ان کا حل یہ ہے کہ پہلے ہم محکم حدیث اور آیت کی طرف جائیں۔محکم احادیث یہ ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اجتہاد نبی ﷺکے زمانے میں کرتے تھےاور اس کی مثالیں موجود ہیں۔جیسا کہ نبی ﷺنے فرمایا کہ تم نے بنو قریظہ میں جا کر عصر کی نماز ادا کرنی ہے۔(صحیح البخاری 946)
راستے میں عصر کی نماز کا وقت ہو گیا تو بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نماز پڑھ لی اور بعض نے کہا کہ نہیں ہم نے وہاں جا کر نماز پڑھنی ہےکیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے نماز پڑھ لی وہ آپ ﷺکے حکم کی حکم عدولی کر رہے ہیں جب نبی ﷺکو یہ معلوم ہوا کہ بعض لوگوں نے راستے میں نماز پڑھ لی ہے اور بعض لوگوں نے آپ ﷺکے حکم کو واجب سمجھ کر بنو قریظہ میں نماز پڑھی ہے۔
آپ ﷺنے دونوں فریقوں کو درست قرار دیا ۔فرمایا کہ دونوں نے ٹھیک کیا ہے اس طرح بے شمار ایسے واقعات ہیں۔جب آپ ﷺتندرست تھے صلح حدیبیہ کے موقع پرحضرت عمر نے کہا تھا کہ اے اللہ کے نبی کیا ہم حق پر نہیں ہیں۔اللہ کے نبی ﷺنے فرمایا کہ ہم حق پر ہیں مگر مصلحت کی بنا پر ایسا ہو رہا ہے ۔(صحیح البخاری 4844)
اس کے علاوہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک مقام ہے اور ان کے بارے میں بے شمار فضائل ہیں۔محکم احادیث کو نظر انداز کر کہ صرف ایک حدیث کو لے کر ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کیسے گستاخ رسول ﷺٹھہرا دیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فضائل کے اندر بے شمار احادیث موجود ہیں۔جیسا کہ نبی ﷺنے فرمایا کہ مجھ سے پہلے جو امتیں تھیں ان میں ایک ایسا شخص ہوتا تھا کہ جو محدث ہوتا تھافرمایا کہ میری امت میں اگر کوئی محدث ہے۔تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔(صحیح البخاری 3689)
اللہ تعالٰی نے کئی مقامات پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبان پر حق کو جاری کیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہیں کہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کی تین چیزوں کے اندر میں نے موافقت کی ہے۔ان میں پہلی چیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺکو مشورہ دیا کہ مقام ابراہیم کونماز کی جگہ بنا دیا جائے ۔(صحیح البخاری 402)
اس طرح دوسرا واقع حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺکو یہ مشورہ دیا کہ اللہ کے رسول ﷺآپ ﷺکے پاس فاسق، فاجر اور نیک لوگ بھی آتے ہیں تو اپنی بیویوں کو مشورہ دیا کریں کہ وہ پردہ کر لیں اور تیسری بات غزوہ بدر کے قیدیوں کے بارے میں ہے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ ان سے فدیہ لے کر ان کو چھوڑ دیا جائے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ ان کا خون بہایا جائے اور ہر رشتے دار اپنے رشتے دار کو قتل کرے یعنی قصاص لیا جائے۔نبی کریم ﷺنے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کو لے کر اس پر عمل کر دیااور ان کو چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے آیت اتار دیکہ اگر یہ پہلے سے کتاب میں نہ لکھا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کا عذاب تم پر نازل ہوتا۔(صحیح البخاری 1763)
نبی ﷺ کی زندگی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ رائے دیتے تھےمگر آپ ﷺ نے کبھی نہیں کہا کہ تم میرے حکم کی حکم عدولی کر رہے ہو تو یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اجتہاد میں سے ایک اجتہاد ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک رائے دی تھی کہ آپ ﷺ اس وقت بیماری کی شدت میں ہیں تو نبی ﷺ کو کیوں ہم مشکل میں ڈالیں لہذا کاغذ وقلم نہ لاؤ اگر یہ واقع اللہ کی طرف سے ہوا تو نبیﷺ کو شفا ملے گیاور آپ ﷺ لکھیں گے اور اگر یہ واجب نہ ہوا تو پھر نہیں لکھ سکیں گے اور جب نبی ﷺ کو شفا ملی تو یہ جمعرات کا دن تھا اور آپ ﷺ کا وصال سوموار کو ہوا ۔ آپ ﷺ اس کے بعد تین چار دن زندہ رہےاور آپ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے پر عمل کیا۔اللہ کے نبی ﷺ کو تبلیغ کا حکم ہےاگر کوئی ضروری چیز ہوتی تو آپ ﷺ لکھوا دیتےاور اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ غلط ہوتے تو آپ ﷺ ان کے بارے میں کوئی کلمات کہتے۔اسکے بعد نبی ﷺ نے اور وصیتیں بھی کیں ان میں سے ایک وصیت یہ تھی کہ:
یہود کو جزیرہ عرب سے نکال دیا جائے ۔اسکے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ نماز، نماز ،نماز کا خیال کرو اور اپنے غلاموں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ۔(صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ 1/106)( مسند احمد26483)
اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے تین وصیتیں کی تھیں۔اپنی موت کے قریب اور اگر یہ بھی کوئی ایسی وصیت ہوتی تو آپ ﷺ لکھوا دیتے۔دوسری بات یہ ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے نام خلافت کے حوالے سے کچھ وصیت کرنا چاہتے تھے تو انھوں کی کتابوں میں یہ بات بھی درج ہے کہ اس سے پہلے آپ ﷺ خلافت کی وصیت کر چکے تھےتو پھر دوبارہ لکھوانے کی کیا ضرورت پیش آئی اور اگر آپ ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے نام کوئی وصیت کی بھی ہےتو وہ کہاں ہے؟
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی نے بھی کوئی نقل بیان نہیں کی اور اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے حکم کی حکم عدولی کرنے والے ہیں کہ آپ نے کاغذ وقلم نہیں لانے دیا اور آپ ﷺنے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو کاغذ وقلم لانے کا حکم دیا تھامگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ قلم نہیں لائےاور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اتنے بہادر ہونے کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے چپ رہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ یہ سمجھ گئے تھےکہ آپ ﷺبیماری کی شدت کی وجہ سے بول رہے ہیں۔
نبی ﷺپہ شفقت کرتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہ سوچا کہ ہم آپ ﷺکو تکلیف نہیں دینا چاہتےاور نبی ﷺنے خلافت کی وصیت پہلے کر دی تھی ۔ علماء کہتے ہیں کہ اگر آپ ﷺاگر خلافت کی وصیت لکھواتےبھی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نام لکھواتےاس سے پہلے آپ ﷺاس خواہش کا اظہار کر چکے تھے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا تھا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے بھائی عبدالرحمان بن ابو بکر کو بلا لو اور اپنے والد کو بلا لو کہ میں وصیت نامہ لکھ دوںتاکہ کوئی تمنا کرنے والا کل کو کوئی تمنا نہ کر دےکہ میں خلیفہ ہوں اور امت کے درمیان اختلاف کو میں ختم کر دوں۔(صحیح البخاری 7217)
جن معتبر مسادر سے یہ حدیث قرطاس ثابت ہوئی ہے۔انھی مسادر سے یہ بات بھی ثابت ہےکہ آپ ﷺخلافت کی وصیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کرنا چاہتے تھےآپ ﷺنے اشارتاً ایسا کیا ہے۔ آپ ﷺنے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنی جگہ امامت پر کھڑا کیا۔
اس کے علاوہ وہ عورت جو آپ ﷺکے پاس آئی تھ اور پوچھا تھا کہ اگر آپ ﷺنہ ہوں تو کس سے مسئلہ پوچھوں اور آپ ﷺنے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام لیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نام لیااس کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں محکم احادیث موجود ہیں کہ جن کے اندر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شان ،مرتبہ اور مقام ثابت ہے۔یہ سارے فضائل ایک طرف کر کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم عدولی کی اور آپ ﷺکی آواز پر اپنی آواز بلند کی ایسا نہیں ہو سکتا یہ تقدیر کا معاملہ ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کو اللہ تعالیٰ نے وحی بنا دیایہ بھی ان کا ایک مشورہ ہی تھا کہ ہمارے پاس حدیث اور قرآن موجود ہیں تو ہمیں اورکسی چیز کی کیا ضرورت ہے؟
یہ صرف بیماری میں شفقت کرتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کاغذ و قلم نہ لاؤاور یہی وجہ ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بھی زور نہیں ڈالا کہ میں لا کر دیتا ہوں آپ ﷺلکھیں۔بعض روایات میں موجود ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کہا کہ آپ ﷺ ہمیں بتا دیں کہ آپ ﷺکیا بتانا چاہتے ہیں تو آپ ﷺنے یہود کو جزیرہ عرب سے نکالنے والی اور کچھ وصیتیں کیں۔
میزبان:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے جو یہ الفاظ بیان کیے باقاعدہ کہ یہ سب مصیبت تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول ﷺکی اس وصیت میں حائل ہو گئے ۔اس سے کیا مراد ہے ؟
مہمان:سمجھا جاتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی مراد یہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر وہ تنقید کر رہے تھے کہ وہ آپ ﷺکی وصیت کے درمیان حائل ہوئے ہیں حالانکہ ان کی مراد ہرگز یہ نہیں تھی۔ان کی مراد اس قول سے کہ :ان الدزیتہ کل الدزیتہ ما حال بین رسول اللہ و بین کتابہ(صحیح البخاری 11)
اس سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی مراد یہ تھی کہ اگر یہ اللہ کے نبی ﷺلکھ دیتے تو شاید اختلاف نہ رہتااور ان کو یہ پتہ تھا کہ اگر آپ ﷺلکھواتے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نام لکھواتےان الفاظ سے مراد وہ لوگ تھےجو کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کو نہیں مان رہے تھےاور وہ بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ خلیفہ تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بننا چاہے تھاان کو آپ ﷺیہ کہہ رہے تھے کہ اگر اللہ کے نبی ﷺلکھوا دیتےتو یہ اختلاف نہ ہوتا ان کی مراد عمر رضی اللہ عنہ نہیں تھے بلکہ وہ لوگ تھے جو اختلاف کر رہے تھے۔