میزبان:حدیث ثویبہ سے کیا مراد ہے ؟
مہمان:حدیث ثویبہ سے مراد وہ حدیث ہے جسے امام بخآری رحمۃ اللہ علیہ نے تابعی حضرت عروہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ مرسل روایت ذکر کی ہے۔اصل میں امام بخآری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب النکاح میں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے یہ حدیث نقل کی ہے۔حضرت ام حبیبہ نے رضی اللہ عنہا نے اپنی بہن سے نبیﷺ کو نکاح کرنے کی پیشکش کی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنا یہ جائز نہیں ہے۔حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہمارے سننے میں آیا ہے کہ آپ ﷺ ابو سلمہ کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ میرے رضائی بھائی ہیں ان کی بیٹی سے میں کیسے نکاح کر سکتا ہوں۔نبی ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اور ابو سلمہ کو ثویبہ نے دودھ پلایا تھا۔
نبیﷺ کی اس بات کی وجہ سے کہ ( مجھے اور ابو سلمہ کو ثویبہ نے دودھ پلایا تھا) صحیح البخاری 9/7
امام بخآری رحمۃ اللہ علیہ نے عروہ کا قول نقل کیا۔عروہ کہتے ہیں کہ ثویبہ ابو لہب کی لونڈی تھی جس کو اس نے آزاد کر دیا تھا۔ابو لہب خواب میں اپنے اہلِ خانہ میں سے کسی کو ملے اور خواب کے اندر انھوں نے بتایا کہ میں نے جب سے تم کو چھوڑا ہےمیں خیر میں نہیں ہوں میں انتہائی مشکلات میں ہوں لیکن مجھے اس انگوٹھے سے پیر کے دن کچھ پینے کو مل جاتا ہے کیونکہ اس نے اس دن اپنے انگوٹھے سے اشارہ کر کہ اپنی لونڈی کو آزاد کیا تھایہ حدیث ہے جسے حدیث ثویبہ کہا جاتا ہے۔اصل میں اس کو اس لیے ذکر کیا جاتا ہےکہ اس سے بہت سارے لوگ بہت سے مسائل کے اندر استدلال کرتے ہیں جیسے جشن میلاد النبیﷺ۔
یہ حدیث مرسل ہے۔امام بخآری رحمۃ اللہ علیہ کی شروط پر نہیں ہے اس لیے امام بخآری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو عروہ کے قول سے نقل کیاہےصرف وضاحت کے لیے۔ امام بخآری کی شروط متصل ،مرفوع حدیث نبی ﷺ کی جن کو امام بخآری اصول میں ذکر کرتے ہیں۔
میزبان:جس طرح ذکر ہوا کہ حدیث ثویبہ سے مراد یہ ہے کہ ابو لہب نے اپنی لونڈی کو آزاد کیا تھا اور اس کو اس سے جہنم میں کچھ افاقہ ہو رہا ہے۔اس سے بعض لوگ یہ استدلال کر کہ عید میلادالنبیﷺ مناتے ہیں اس کا ثبوت لیتے ہیں کیا یہ استدلال درست ہے ؟
مہمان:پہلی بات یہ کہ جس واقع سے استدلال لیا جا رہا ہے عیدمیلاد النبیﷺ کا وہ ایک کافر کا ہےاور کافر بھی کون ہے جس کے متعلق ایک پوری سورۃ ہے (سورتہ مسد)پہلی بات یہ ایک کافر کا واقع ہے اور اس کے حالت کفر کا ہے۔دوسری بات یہ کہ یہ حدیث جو ہے حافظ ابن حجر اور ان سے پہلے دیگر جو لوگ تھےانھوں نے احادیث کی کتابوں کی شرح کی انھوں نے بڑی وضاحت سے یہ بات ذکر کی ہے کہ نبیﷺ نے یہ حدیث بیان نہیں کیاور نہ ہی صحابہ نے کی بلکہ ایک تابعی وضاحت کر رہے ہیں کہ ابو لہب کے گھر والوں میں سے کسی کو خواب میں نظر آیا اور بتایا کہ لونڈی کو آزاد کرنے پر مجھے جہنم میں کچھ افاقہ ہوتا ہےلہذا نبی ﷺ نے تو یہ بتایا نہیں کہ ہم اس پر یقین کریں اور دوسری بات یہ کہ کسی صحابی نے بھی نہیں بتایا۔ صرف ایک تابعی نے قول نقل کیااور اس کے اندر کافر کافر کو مل رہا ہے کہ مجھے ولادت کی خوشی میں لونڈی آزاد کرنے کی بنا پر کچھ پینے کو ملتا ہے۔ہم مسلمان ہیں اور ہمارے اندر سے غیرت ختم ہوتی جا رہی ہے کہ ایک کافر کا واقع ہے اور اس سے ہم استدلال کر رہے ہیں کہ اگر اس کو فائدہ ہو سکتا ہےتو ہمیں میلاد منانے پر فائدہ کیوں نہیں ہو سکتا اگر کوئی غیر مسلم ایسا کچھ کر دے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ گستاخ ہےلیکن ہم کیا کچھ نہیں کر رہے۔جو حدیث ثوبیہ ہےیہ امام بخآری نے مرسل ذکر کی ہے۔
میزبان:اگر یہ روایت حجت نہیں بن سکتی ۔میلاد منانے کے لیے تو امام بخآری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو یہاں کیوں ذکر کیا ہے ؟
مہمان:امام بخآری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے استدلال نہیں کیا۔بلکہ امام بخآری رحمۃ اللہ علیہ نے عروہ کا یہ قول اس لیے ذکر کیا ہے کہ یہ ثویبہ ابو لہب کی آزاد کردہ لونڈی تھی جس نے نبی ﷺ اور ابو سلمہ کو دودھ پلایا تھا۔یہ حدیث امام بخآری کی شروط پر نہیں ہےیہ مرسل ہے۔ مرسل روایت ضعیف کی ایک قسم ہے۔یہ روایت درست ہے مگر حدیث مرسل ہے۔باقی یہ مسئلہ کہ ابو لہب نے اس کو کب آزاد کیا تو اس میں اختلاف ہےحافظ ابن حجر اور بہت سے علماء نے ترجیح دی ہے وہ یہ ہے کہ ہجرت سے پہلے ابو لہب نے اسے آزاد کیا تھا۔ولادت کے کہیں سالوں کے بعد اور بعض علماء کہتے ہیں کہ اس سے پہلے دودھ پلایا تھا اور بعض کہتے ہیں کہ آزاد ہونے کے بعد دودھ پلایا تھا۔کسی بھی صحیح روایت میں ولادت پر آزاد کرنا ثابت نہیں ۔کس کے خواب میں ابو لہب آیا ؟
بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عباس کے خواب میں آیا تو یہ حالت کفر میں آیا ۔ علماء اور محدثین کے ہاں یہ اصول ہےکہ کافر کے حالت کفر میں کوئی بات بیان کرتا ہے تو اس کا اعتبار نہیں۔لیکن اگر حالت اسلام میں حالت کفر کی بات بیان کرے گاتو اس کا اعتبار ہے جیسے ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا ہریکل کے ساتھ ان کا واقع پیش آیا۔شام میں اس کو اسلام لانے کے بعد واقع بیان کیا تو محدثین نے اس کو لیا ہے ہریکل کے ساتھ ابو سفیان کا ایک مکالمہ ہوا تھا۔تحمل کے وقت اسلام شرط نہیں مگر ارادے کے وقت شرط ہے۔
یعنی حدیث لینے کے وقت شرط نہیں مگر جب وہ بیان کی جائے اس وقت دائرہ اسلام میں ہونا شرط ہے۔اگر یہ مان لیا جائے کہ وہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ جن کے خواب میں ابو لہب آیا تھا تو وہ اس وقت مشرک تھے۔تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مشرک کی خواب سچی ہو اور کبھی ایسا نہیں ہو سکتا ۔ البتہ ایک مومن کے لیے آیا ہے کہ اس کے خواب سچے ہو سکتے ہیں۔ خواب وحی کا حصہ ہیں مگر خوابوں کی بنا پر شریعت سازی نہیں ہو سکتی ۔جشن میلادالنبی ﷺ خواب سمجھ کر منایا جاتا ہے اور اس کی دلیل خواب کو رکھا گیا ہےاور خواب بھی ایسی کہ کافر کافر کو خواب کے اندر مل رہا ہے ایک کافر کہ جس کے متعلق قرآن کریم میں آیا ہے کہ ابو لہب نبی ﷺ کا کتنا بڑا دشمن تھا ۔
اس کو حجت بنا کر میلاد مناتے ہیں جشن منایا جاتا ہے عبادت سمجھ کر اور عبادت کی دلیل تو کتاب و سنت سے ہونی چاہیےیہ نہیں کہ ایک کافر کو دلیل بنا کر لوگوں کو گمراہ کرنا شروع کر دیں کہ ابو لہب کافر ہےاس کو جہنم میں دودھ یا مشروب ملتی ہے تو اگر مسلمان میلاد منائے گا تو جنتی ہے اور جو نہیں منائے گا تو کیا نعوذ بااللہ جہنمی ہے اورشیطان بھی کہا جاتا ہے ۔
میزبان:اس کا قصور وار کون ہے،بتانے والا یا عمل کرنے والا ؟
مہمان: دونوں قصور وار ہیں،بتانے والے خیانت کر رہے ہیں اور سننے والے تحقیق نہیں کر رہے ۔ دنیاوی اعتبار سے تو کوئی چیز لیں گے تو اس کی گہرائی تک جائیں گے اور اگر حق کو لینا ہے تو کسی سے پوچھ نہیں سکتے حق ہے کہ نہیں۔۔۔۔۔۔اگر میلاد منانا جائز ہوتا تو ہمیں خوابوں کی ضرورت نہیں تھی اللہ کے نبی ﷺ خود منا کر دکھاتے ۔اللہ کے نبی ﷺ کے زمانے میں غربت تھی آپ ﷺ نے میلاد نہیں منایاتو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں تو مال غنیمت بہت تھا اور مسلمانوں پر اللہ کا خاص کرم ہو گیا تھاوہ کر سکتے تھے ۔انہیں تو اللہ کے نبی ﷺ سے ہم سے زیادہ محبت تھی مگر انھوں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا ۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو آپ ﷺ پر جان نچھاور کرتے تھے ۔
تو کیا وہ جھنڈیاں نہیں لگا سکتے تھے ،کھانے نہیں پکوا سکتے تھے۔ آج ہم سال میں ایک دفعہ محبت کا اظہار کر کہ خود کو عاشق رسول ﷺ بنا دیتے ہیں کیونکہ نبی ﷺ نے کسی ایسی بات کی وصیت نہیں کی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی ایسا کچھ نہیں کیا ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دور خلافت گزرا اور بھی تابعین ،تبع تابعین اور پھر امام بخآری ،امام شافعی ،امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا کسی سے بھی یہ بات ثابت ہے ؟
ہم ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی پتہ نہیں کہاں جا رہے ہیں۔ایک طرف شیعہ حضرات کے گھوڑے نکل رہے ہیں۔تو دوسری طرف عاشق رسول اونٹنی نکال رہے ہیں۔ایک طرف دودھ اور شربت کی سبیلیں لگ رہی ہیں تو دوسری طرف بھی مشروبات تقسیم ہو رہے ہیں۔جلوس اور دن بدن گمراہی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس طرح انسان بدعات میں آگے بڑھتا جاتا ہے ۔سنت سے اس قدر دور ہوتا جا رہا ہے اس کو روکنے والا ہی کوئی نہیں اور پھر علماء اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں عام آدمی نے تو گمراہ ہونا ہی ہے ۔
میزبان:اگر ہم اس سے یہ اصول نکالیں کہ روایت تو بیشک مرسل ہےکہ جو کافر ہیں اگر وہ نیک کام کریں تو کیا ان کو اس کا بدلہ ملے گا یا نہیں ملے گا ؟
مہمان:جو کوئی کافر ہےایمان نہیں لاتا تو وہ جو نیک کام کرے گااس کا بدلا اس کو دنیا میں مل جائے گامگر آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں سوائے حضرت ابو طالب کے جن کے بارے میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ سب سے ہلکا عذاب ان کو ہو گا کہ ان کو آگ کا جوتا پہنایا جائے گا ۔جس سے ان کا دماغ کھولے گا۔(صحیح البخاری 6564)
جو کافر ہیں نہ ان کو ان کے اعمال کام آئیں گے اور نہ ان کو اس کے بدلے نعمتیں دی جائیں گی ۔بعض علماء کی رائے ہے کہ بعض کافروں سے ان کے اعمال کی بنا پر عذاب ہلکا کر دیا جائے گا ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ:
وَقَدِمْنَا إِلَىٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَنْثُورًا
ہم ان کی طرف لائے ان کے اعمال جو انھوں نے کیےاور ہم نے ان کو زرات کی طرح بنا دیا۔(سورة الفرقان 23)
جو تنکے اور زرات ہوتے ہیں پکڑے نہیں جا سکتےایسا بنا دیا جائے گا۔دوسرے مقام پر اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ:
وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَىٰ عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا ۚ
جو کافر ہیں ان کے لیے جہنم کی آگ ہےاور ان پر موت نہیں آئے گی اور نہ ان سے جہنم کا عذاب ہلکا ہو گا۔ (سورة فاطر 36(
ایک اور مقام پر اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ:
فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ
نہیں ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی (سورة البقرہ 86(
نبی ﷺ سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا کہ ابنِ جدان ایک آدمی تھاکہ جو لوگوں کے ساتھ صلہ رحمی کرتا تھا لوگوں کی مدد کرتا تھا اسکے بارے میں آپ ﷺ کا کیا خیال ہے ۔کیا اس کو اس کا بدلہ ملے گا ۔تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ اس کے یہ نیک اعمال بلکل نفع نہیں دیں گے ۔کیونکہ اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا کہ اے اللہ میرے گناہوں کو معاف کر دے۔(صحیح مسلم 214)
یعنی اس نے ایک دن بھی اللہ کو نہیں پکارا تو یہ نیک کام کیسے نفع دیں گے ۔البتہ اس کو دنیا میں اس کا اجر ملے گا۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
نبی ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی کافر اچھا کام کرتا ہے اللہ تعالٰی اس کے بدلے میں دنیا میں ہی کچھ نعمتیں اس کو عطا کر دیتا ہے۔(صحیح مسلم 2808)
کافروں کے اعمال دنیا تک ہیں آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ۔کفار سے مراد اہل کتاب بھی ہیں ہندو اور تمام مذاہب آخرت میں کفار کے درجات ہیں اپنے شر کی وجہ سے۔۔۔۔۔۔۔منافقین جہنم کے آخری گڑھے میں ہونگے ہر ایک کا درجہ ہو گا۔ اللہ تعالٰی سب کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین