"سلسلہ دفاع سنت قسط 9″”جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت”

میزبان :آج ہم جس موضوع پر بات کریں گے وہ ہے عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک مومن کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا انداز کیسا ہونا چاہیے؟

مہمان:اللہ کا احسان ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارا آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنایااور اللہ تعالٰی نے اس کو قرآن کریم میں بطور احسان ذکر کیا۔ 

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ

(تحقیق احسان کیا اللہ نے مومنوں پر کہ ان پر ایک رسول بھیجا ان ہی میں سے) سورتہ آل عمران 164

نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوقات کے لیے رحمت اور شفقت بن کر آئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے احسانات ہیں۔ہمارے اوپر اور ان احسانات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے محسن ہیں اس کے بدلے میں ان سے محبت کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کا خیال کرنا اور ان کے فرمان کو ماننا واجب ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک معلم اور داعی ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ایمان کا تقاضا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اللہ سے محبت کی دلیل ہےاور اللہ سے محبت کی دلیل اللہ پر ایمان لانا ہے۔ اس وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہر مسلمان کو ہونی چاہیے- جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں ہےاس کا ایمان ہی نہیں ہے۔  

کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت تک تم میں سے کوئی مومن ہی نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کو اس کے مال ،اولاد، جان ہر چیز سے محبوب نہ ہو جاؤ ( صحیح البخاری 15)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک معیار بتا دیا  کہ تم نے کس انداز میں محبت کرنی ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقع معروف ہےکہ:

"اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کو سوائے اپنی جان کے ہر چیز سے زیادہ محبوب سمجھتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمر رضی اللہ عنہ تیرا ابھی تک ایمان مکمل نہیں ہوا ۔تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب میں آپ سے اپنی جان سے بھی زیادہ محبت کرتا ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب تیرا ایمان مکمل ہوا۔ اللہ کی محبت سب سے پہلے ہےاس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے۔جو بندہ اپنے آپ کو مومن کہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہ ہو اس کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے ۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کس انداز سے ہو تو اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں صحابہ کرام کی محبت کو معیار بنایا ہے اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے ۔۔۔۔۔

فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا ۖ

اگر یہ لوگ اس انداز میں ایمان لے کر آتے ہیں جس انداز میں صحابہ ایمان لے کر آئیں ہیں تو ان کے ایمان کا اعتبار ہو گااور اگر یہ اپنے دعوے اور خواہش کے مطابق ایمان لے کر آتے ہیں تو ان کا کوئی اعتبار نہیں ۔(البقرہ 137)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جس انداز میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے محبت کی ہےاس انداز میں اگر کوئی مسلمان محبت کرے گا   تو وہ قابل قبول ہےاور اگر خالی نعرے ہیں تو پھر کوئی فائدہ نہیں اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کیسے کی ہے؟کیا صحابہ نے یہ کہا کہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور وہ گھر میں بیٹھ گئے ۔ کیا انھوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد نہیں کیا ؟اپنی جان و مال کی قربانی نہیں دی ؟کیا نمازیں نہیں پڑھی ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےفرامین پر عمل نہیں کیا؟

 کیا اپنی شکل وصورت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل و صورت جیسا نہیں بنایا؟کیا اپنا لباس اور اٹھنا بیٹھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مطابق نہیں بنایا ؟تو ایک بندہ جب کسی سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو اس محبوب کے ہر ایک حکم کو ماننا پڑتا ہے۔صرف دعویٰ کر لینا کہ مجھے اللہ سے محبت ہےاسی وجہ سے شاعر نے کہا کہ تم اللہ کی نافرمانی بھی کر رہے ہو اور اس سے محبت کا دعویٰ بھی کر رہے ہو ۔محبت کرنے والا تو محبوب کے تابع ہوتا ہے ۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے محبت کا دعویٰ کیا ہے تو اس پر عمل کر کہ بھی دکھایا ہے ۔

لیکن اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا یہ معیار ہو گا کہ جھنڈیاں ،جلوس،اور نعرے لگا کر سال کے اندر ایک دفعہ یا کوئی کانفرنس کر دی جاتی ہے اور دعوے کر دیے جاتے ہیں تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی چپ کر کہ بیٹھ جاتے۔ مدینہ سے تبوک تک کا سفر نہ کرتے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ پر نہ جاتے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جان ومال کی قربانی دی ہے،عبادات کی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ہر عادت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی کرنے کی کوشش کرتے تھے- اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ:

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي

اگر تم اللہ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہو تو میری اتباع کرو میری پیروی کرو(سورتہ آل عمران 31)

اللہ سے محبت کرےاور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہ کرے وہ مسلمان نہیں ہو سکتا اور اگر کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ کرتا ہےاور سنت سے روگردانی کرتا ہے۔تو اس کی بھی محبت سچی نہیں ہو سکتی۔ وہ دنیا کا جھوٹا انسان ہے۔اگر کوئی سنت سے نفرت کرتا ہو دوسروں کے اقوال کو مانتا ہو۔ لیکن جب بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آئے ،سنت کی آئے ،فرمان کی آئے تو ان سے اس کو نفرت ہو تو یہ محبت نہیں۔محبوب کی باتوں ،عادات، اور حلیے، لباس سے بھی محبت ہوتی ہے ۔ ہر ہر ادا سے محبت ہوتی ہے ۔اگر ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہےتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہر ایک پہلو کو اپنانا ہوگا ۔یہ لازم و ملزوم ہےاور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے ہونے کا ایک معیار ہے۔

میزبان:قرآن کریم میں آیت ہے(قل بفضل اللہ و برحمتہ سورتہ یونس 58) یہاں پر فضل ورحمت سے کیا مراد ہے؟ اور کیا اس سے میلاد منانے کا استدلال بنتا ہے ؟ 

مہمان: قرآن کریم کی آیت جو سورة یونس میں ہےاس میں اللہ تعالٰی کا جو ارشاد ہے ۔

قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ

کہہ دیجیے کہ اللہ کا فضل اور رحمت اس سے بہتر ہے تو خوش ہو جاؤ وہ بہتر ہے اس سے جسے تم جمع کر رہے ہو ۔

اس آیت سے پہلے جو آیت ہے-اس میں ہے کہ:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ

 اے ایمان والو! تحقیق آ گئی تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے اور اس میں دلوں کے لیے شفا ہے۔

اس آیت میں قرآن کریم کا ذکر ہے ۔ جمہور مفسرین اس آیت کے حوالے سے کہتے ہیں  کہ یہاں فضل ورحمت سے مراد سنت اور اسلام ہے اور قرآن کریم ہے۔(فبذلک فلیفرحو) کے حوالے سے علامہ ابن قیم نے بھی ذکر کیا ہے کہ خوشی منانے کا مطلب یہ نہیں ہے  کہ جسے ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف سے فضل ورحمت ہیں۔لہذا ان کے آنے کی خوشی میں ہمیں خوشی منانی چاہیے ۔ تنگ دل نہیں ہونا چاہیے خوشی منانی چاہیے ۔ اس آیت کی تفسیر ہم اپنی خواہش کے مطابق نہیں کریں گےجس کا جو دل کرے۔ ایسے تو ہر کوئی اپنی مرضی سے دلائل لےسکتا ہےتو پھر جو جھٹلاتے ہیں ،کافر ہیں۔وہ بھی تو دلیل لے سکتے ہیں-منکرین حدیث بھی قرآن کریم میں سے دلیل کا استدلال کرتے ہیں ۔

پھر تو کوئی باطل باطل نہیں رہے گا حق حق نہیں رہے گا ۔حق و باطل الگ الگ کیسے ہو گاتفسیر وہ معتبر ہے ۔جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے اور سلف و صالحین سے جو معنیٰ و مفہوم سمجھا جاتا تھا  اور یہاں خوشیاں منانے سے مراد جھنڈیاں لگانا، جلوس نکالنا، یہ ساری چیزیں مراد ہیں یا ایسے کلمات یا گفتگو کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و مناقب کے اندر کہ اگر اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی آ جائیں تو وہ سننا گوارا نہ کریں کیا یہ اس سے مراد ہے خوشی کا انداز کیا ہے ؟یعنی اللہ کا فضل و کرم کیا ہے ۔اسلام ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا بھی فضل وکرم ہے۔

(اجتماع الجیوش الاسلامیہ 38/2) میں امام قیم نے کیا خوب بات کی ہے ۔ "اسلام وسنت کے آنے کی وجہ سے دل کو خوشی دل کو زندگی ملتی ہے یعنی جس قدر دل کو حیات ملتی ہے ۔ اس انداز سے ہی دل خوش ہو گا۔ جس قدر انسان کا دل سنت و اسلام میں پختہ ہو گا اسی قدر دل کو خوشی ہو گی ۔مومن کو خوشی کس چیز سے ہو گی کہ قرآن پاک آیا ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہمارے پاس موجود ہے ۔اللہ تعالٰی نے اسلام دیا ہمیں ،قران اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دیے جس قدر مومن کا عمل بہتر ہو گااس قدر اس کو قرآن و سنت میں خوشی ہو گی اگر ایک بندہ قرآن وسنت پڑھتا ہے ۔ مگر اس کا عمل اس کے خلاف ہےتو ایسے بندے کے لیے تباہی اور بربادی ہو گی باوجود قرآن اور سنت ہونے کےوہ اگر گمراہی پر چل رہا ہے تو کیا فائدہ ہو گا ۔ اگر ایک بندے کے پاس قرآن وسنت کا علم ہے ہی نہیں اور ایک کے پاس ہےوہ پڑھ بھی رہا ہے مگر عمل غلط ہے ۔خوشی کا اظہار اس انداز سے کرنا چاہیے کہ قرآن و سنت کو پڑھنے کے ساتھ عمل بھی کریں جس قدر انسان سنت پر عمل کرے گا۔ 

اسی قدر اس کو زیادہ خوشی ہو گی ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی خوشی ، قرآن کے آنے کی خوشی ، اس بندے کو زیادہ ہو گی ۔ جو کہ سنت پر عمل کرنے والا ہو گا اور جو بندہ سنت پر عمل نہیں کر رہاوہ تو بے شرمی کی خوشی منا رہا ہے کس چیز کی خوشی کہ جو اپنے آپ کو بدعات سے نہ بچا سکے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئےخرافات کے دروازے بند کرنے کے لیے اور لوگ کہیں کہ نہیں ہمارا دل جیسے چاہے گا ویسے کریں گےآپ کون ہوتے ہو روکنے والے۔حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر چیز کو کر کہ دکھایا ۔عبادت وہ عبادت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی طریقہ وہ طریقہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کہ دکھایا اور خوشی منانے کا طریقہ بھی وہی معتبر ہو گا ۔جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منا کر دکھایا اور جو صحابہ نے اس قرآن سے سمجھا ہے وہ نہیں جو ہم سب سمجھ رہے ہیں۔اگر ہم اس اصول کو اپنائیں کہ کس چیز سے روکا گیا ہے تو پھر کوئی چیز غلط نہیں ہے  مومن کی خوشی قرآن وسنت سے ہے۔

ایسے انسانوں کے لئے تباہی ہےجو قرآن و سنت کے ہونے کے باوجود گمراہی کی طرف چل رہے ہیں اور اس انداز سے خوشی منانا کہ میں جھنڈیاں لگاتا ہوں جلوس نکالتا ہوں لنگر تقسیم کرتا ہوں  اور یہ کہ اگر نعتیں پڑھ لی جائیں وہ بھی شرکیہ، اس میں کہاں روکا گیا ہے اگر ہم اسلامی اصول ، قوائد و ضوابط کی بات کریں  تو کیا یہ انداز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تھا؟ جنہوں نے عملی طور پر قرآن کریم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا ۔میلاد منانے کا کہاں بتایا گیا ہے؟ کیا کوئی دلیل ہے ؟

میزبان:یہاں سے سوال اٹھایا جاتا ہے کہ جو منکرین حدیث ہیں ۔ 

(من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد :صحیح مسلم 1718) کہ جو میرے طریقے میں سے نہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اس کا ترجمہ کچھ اور ہے دین کے اندر جو چیزیں ہیں- ان کو اگر ہم بدلتے ہیں ۔تو پھر وہ خرابی ہے- جو کہ دین کے اندر موجود ہےاور وہ یہ دلیل بھی دیتے ہیں-(من سنتہ حسنتہ صحیح مسلم 1017)جس نے اچھا کام ایجاد کیا ۔کیا دین میں بھی کوئی اچھا کام ایجاد کرنے کا ثواب ملتا ہے ؟ کیا یہ باتیں اور دلائل جو وہ بیان کرتے ہیں ۔درست ہیں؟

مہمان: یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رویت ہے اس سے مراد دین کے اندر ہےیعنی جس کا تعلق عبادات سے ہے۔پہلی بات یہ کہ سب اس پر متفق ہیں کہ عبادت سمجھ کر کرتے ہیں اور جو میلاد نہیں مناتا اسے منکر اور شیطان کہتے ہیں ۔ آپ نیکی اور عبادت سمجھ کر کر رہے ہیں تو یہی بات حدیث کے اندر ہےکہ وہ اس پر مردود ہے ۔اس کا کوئی اعتبار نہیں عبادت کا اجر اللہ تعالٰی نے دینا ہے ۔ تو کیا اللہ کے ہاں اعتبار ہے ۔اس عبادت کا ،کیا یہ سنت سے ثابت ہے ؟جب آپ نیکی سمجھ کر کر رہے ہیں تو اس نیکی کی اصل بھی ہونی چاہیے۔

(جس نے اسلام کے اندر کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا ۔تو اس کے عمل کرنے والوں کا بھی اس کو اجر ملتا ہے)

اس سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ کوئی بھی نیا کام اسلام کے اندر ایجاد کیا جائے گا اس کو اجر ملے گا تو دوسری طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بھی حدیث ہے کہ ( وکل بدعتہ ضلالتہ وکل ضلالتہ فی النار ۔ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ کی طرف لے کر جاتی ہے ۔ سنن النسائی 1578

یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے "کل ” کا لفظ بولا اور” کل” عام کے لیے ہے۔یہاں کوئی ایسا طریقہ مراد ہےکہ جس کی اصل قرآن وسنت میں موجود ہے ۔ دین اسلام کے اندر کوئی کام مثلاً مسجد بنانا اور اس کی تعمیر میں تعاون کرنا ،اس طرح رفاع عامہ کے کام ، صلہ رحمی کرنا ،غریبوں کی دادرسی کرنا، اس طرح کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا کہ لوگ اسے دیکھ کر اور زیادہ تعاون کریں یہ سب کام صدقہ ہیں اور سنت سے ثابت ہیں۔قرآن وسنت میں اس کی ترغیب دی گئی ہے  اور فضائل بھی بتائے گئے ہیں اور جو بھی یہ کام کرے گا اس کے لیے اجر ہو گا ۔ یعنی صدقہ جاریہ والے کام کریں کہ مرنے کے بعد بھی اس کا اجر اسے ملتا رہے ۔ مگر ، شرط یہ ہے کہ وہ کام سنت سے ثابت ہو۔ نماز کے لیے کسی کو قائل کرنا کسی نئے طریقے سے ،نئی ایجاد کے ساتھ، اس کی عام مثال صدقہ خیرات بھی ہے ۔ مثلاً اگر کوئی ایک صدقہ کرتا ہے تو اس کو دیکھ کر سب صدقہ دینا شروع ہو جاتے ہیں ۔جتنے لوگ اس کو دیکھ کر تعاون کریں گے اس کو بھی ثواب ملے گا ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام میں جس کا جو دل چاہے ۔

ایک نئی دلیل نکال لے اور ایک نیا کام شروع کر دے۔ یہ بدعت ہو گی۔مثال کے طور پر اگر کوئی یہ کہے کہ آج سے نماز دو رکعت ہو گی ۔ اور اس کا طریقہ ایسے ہو گا  اور اگر کوئی اعتراض ہو تو کہہ دے کہ حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص نئی چیز ایجاد کرے گا تو اس کا ثواب ملے گا یہ سب بدعت میں آئے گا۔ میلاد کا آغاز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت پڑھنے سے ہوا۔اب دیکھیں کہ ترقی کرتے کرتے بدعت کی آج یہ نوبت ہےکہ اونٹنی نکالی جاتی ہے۔ اگر غیور اہل سنت خاموش رہیں گے  تو یہ اونٹنی سے آگے بھی کچھ اور نکال لیں گے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن مناتے ہوئے ہم نے کنجر نچائے ۔ہم نے موسیقی چلائی،شراب کی محفلیں قائم کی یہ سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہو رہا ہے ۔ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی۔صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی توہین کی ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم موسیقی کے آلات توڑنے کے لیے آئے تھے۔یہاں آج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر موسیقی کے آلات چلاتے ہیں سب کام چل رہے ہوتے ہیں اور باہر لکھا ہوتا ہے ۔”عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم” کیسی غیرت راہ کرگئی ہے ہمارے اندر کہ ہم اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ،اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے خلاف جو چیزیں ہیں وہ کر رہے ہیں ۔ یعنی اگر ہم یہ کہیں کہ نعت پڑھنے کی اجازت دے دو تو نعت پڑھنے سے ہی آغاز ہوا۔علماء نے یہاں پر ہی خاموشی اختیار کی ،اور نعت پڑھنے پر خاموش رہے۔ تو دیکھیں کہ آج سلسلہ کہاں تک پہنچ گیا ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی نہیں کہا تھا اس شخص کو کہ جس نے کہا تھا کہ "ہوتا وہی ہے ۔ جو آپ اور اللہ چاہتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے مجھے اللہ کا شریک بنا دیا۔ یہ کہو کہ وہی ہوتا ہے ۔ جو اللہ وحدہ لاشریک چاہتا ہے”(مسند احمد 2561)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً شرک کا دروازہ بند کر دیا کہ کہیں میرے بارے میں وہ اعتقاد رکھنا نہ شروع کر دیں ۔جو اللہ کے حوالے میں رکھتے ہیں اور ہم نعت کے دروازے سے داخل ہوئے ہیں اور آج ہم بے حیائی کی تمام حدیں پار چکے ہیں اور پتہ نہیں اگلے سالوں میں ہم نے کیا کچھ کرنا ہےاور دیکھنا ہے ۔آج حالات یہ ہیں کہ عیسائیوں کا کرسمس اور مسلمانوں کا عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہم فرق نہیں کر سکتے ۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال نے کہا کہ یہ ہیں مسلمان جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود ،وہ بھی ایسے کام نہیں کرتے۔جو آج مسلمانوں نے شروع کر دیئے ہیں وہ آج مسلمانوں کے اوپر ہنستے ہیں ۔

میزبان :اب بعض لوگ سمجھ دار ہوتے جا رہے ہیں اور بعض لوگ بے دین ،کچھ علماء کرام ان بدعات سے روکتے بھی ہیں۔اس بارے میں کیا کہتے ہیں ؟

مہمان:علماء کرام اگر روکتے ہیں تو اچھی بات ہے ۔علماء جو اعتدال کی راہ پر ہیں  یقیناً روکتے ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان چیزوں کو روکنے کے لیے باقاعدہ ایک مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔ایک جگہ تو علماء روک لیتے ہیں اور دوسری جگہ اگر وہی کیک کاٹ رہے ہیں،تقریر کر رہے ہیں اور صرف تقریر ہی نہیں ،جو اس بدعت سے منع کرتے ہیں ۔باقاعدہ ان کے خلاف بولتے ہیں ۔اگر آپ یہ کہیں کہ12ربیع الاول کو نعت پڑھنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر جلسہ کروانے میں کیا حرج ہے ۔پھر وہ یہ بھی کہیں گے کہ جھنڈیاں لگانے میں بھی کوئی حرج نہیں  اور پھر دھمالیں ڈالنے میں کیا حرج ہے ۔اس طرح بدعت کا دروازہ کھلتا ہے۔ تو پہلے ہی بدعت کا دروازہ بند کر دو ۔ محبت کا انداز وہ اپناؤ  جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تھا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا آپ بھی رکھیں مگر اس طرف کوئی نہیں آتا ۔ہم ہمیشہ وہ کام کرتے ہیں جو شیطان کو پسند ہوتے ہیں جو چیزیں خواہشات کے مطابق ہوتی ہیں  وہ کر لیتے ہیں باقی نہیں ۔

میزبان:وہ لوگ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے تھے۔اس دن تو یہ بھی ایک طرح کی دلیل ہے  اس کے بارے آپ کیا کہتے ہیں ؟

مہمان:پہلی بات کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں صحیح مسلم کے اندر حدیث موجود ہے۔حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا۔ سوموار کے روزے کے بارے میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ ایک ایسا دن ہے کہ جس دن میں پیدا ہوا ہوں اور اللہ نے مجھے اس دن کے اندر مبعوث کیا ہے ۔(صحیح مسلم 1162)

ایک دوسری حدیث ہے کہ جس سے پتہ چلتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیر کے دن کے روزہ رکھنے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن پیدا ہوئے۔بلکہ اصل میں اور بھی وجوہات تھی۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار اور جمعرات کا روزہ کیوں رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سوموار اور جمعرات کو اللہ کے ہاں اعمال پیش کیے جاتے ہیں اور مجھے یہ بات محبوب ہےکہ جب میرا اعمال نامہ اللہ کے سامنے پیش ہو تو میں روزے کی حالت میں ہوں۔(سنن ترمذی ۷۴۷)

ایک جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھنے پر بتایا کہ میں اس وجہ سے سوموار کا روزہ رکھتا ہوں کہ اس دن میں پیدا ہوا ہوں ۔ اور مبعوث کیا گیااور دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ اس دن اعمال نامے پیش کیے جاتے ہیں ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سوموار کو روزہ رکھنا صرف اس لیے نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اس روز ہوئی بلکہ اس وجہ سے بھی تھا کہ اس دن اعمال نامے پیش کیے جاتے ہیں تو دلیل بنا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد منانا درست نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے اگر روزہ رکھتے ہیں  تو رکھیں مگر آپ ایسے کام کیوں کرتے ہو ۔جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیےاور نہ بعد میں آنے والوں نے کیے۔

اگر آپ عبادت سمجھ کر کرتے ہو تو پھر روزہ رکھو وہ بھی ہر سوموار کو ،صرف 12 ربیع الاول کو نہیں ۔سال کے اندر صرف ایک دن میلاد منا لینا اور باقی کے دن سال میں ایک نماز بھی نہیں ۔فرائض اور واجبات کو پس پشت ڈال دیا جائے اور ایک ایسی چیز جس کی کوئی دلیل نہیں ۔ آدمی کہے کہ یہی اسلام ہے- اصل اسلام کیا ہے ؟نماز ،روزہ ، زکوٰۃ، حج 

اگر ہم ہر جاہل کو بتا دیں گے کہ ایک دن جشن منانے سے گناہ معاف ہو جائیں گے  جنتی ہو جاؤ گے ۔تو کیا باقی کے دن کوئی مسجد جائے گا ۔اسی لیے تو آج مسجدیں خالی پڑی ہیںکیونکہ جھوٹے عاشق بہت ہو گے ہیں اور ان کو پتا ہے کہ جھنڈیاں لگا کر جنت میں چلے جانا ہے تو کیا ضرورت ہے ۔مشکل کام اور عبادات کرنے کی  ہم خود قصوروار ہیں سڑکیں بند کروائی جاتی ہیں ۔لوگ اذیت اٹھاتے ہیں اور ہم شہر بازار  سجا رہے ہوتے ہیں- لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوتا ہم چراغاں کر رہے ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم جنتی ہیں ۔

میزبان: ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ؟ اور ہمارا مقصد کیا ہے ؟رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے اظہار کا صحیح معنیٰ کیا ہے ؟جو عام لوگ ہیں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں میلاد مناتے ہیں ۔ وہ دیکھتے ہیں کہ میرے گھر کے سامنے چراغاں ہو رہی ہیں  اور لوگ چیزیں بانٹ رہے ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں تو میں بھی یہ کام کرو اور محبت کا اظہار کروں۔ آج چونکہ مہنگائی کا دور ہے اور اوپر سے ہم چراغاں کریں گے  تو کیا یہ سب چیزیں فضول خرچی کے زمرے میں آ سکتی ہیں ؟

مہمان:کیا یہ چراغاں کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ایسا کچھ مانگا ہے کہ مجھ سے سچی محبت تب ہو گی کہ جب تم چراغاں کرو گے۔اصل محبت دل کی محبت کا نام ہے ۔ظاہری چیزوں کا نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہم سب پر واجب ہے ۔لیکن محبت کس انداز میں ہو۔ فضول خرچ شیطان کا بھائی ہوتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں فضول خرچی کرنا اور بے حیائی کرنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف چیزیں کرنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں، تو یہ کیسی محبت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے خلاف کام کیے جائیں یہ جہالت ہے۔ان سب کی اصلاح کی ضرورت ہے ۔اہل سنہ کے علماء کو چاہیے کہ ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے کا صحیح طریقہ بتائیں اور اصلاحی پہلو کو اپنائیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں جو پروگرام کیے جاتے ہیں ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ شرک ہیں بلکہ وہ بدعت ہیں ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایسے ایسے الفاظ کہہ دیے جاتے ہیں کہ جو کہ شرک ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر یہاں آ جائیں تو وہ سننا گوارہ نہ کریں۔ جو نبی یہ گوارہ نہیں کر سکتا کہ "جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ چاہتے ہیں” وہ نبی یہ کیسے گوارہ کرے گاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشکلیں حل کرنے والے ہیں ، اولاد دینے والے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کچھ کرنے  والے ہیں ۔

یہ سب کلمات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدہ سرائی کے اندر غلو کیا جاتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اس قدر بڑھا کہ میرے مقام سے بلند نہ کرو ۔ جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بنا دیا (صحیح البخاری 3445)

جب وہ بچیاں کہہ رہی تھیں کہ ہمارے اندر ایسا نبی ہے جو کل کی خبریں جانتا ہے  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ٹوک دیا تھا کہ پہلے جو کچھ کہہ رہی تھیں وہ کہو یہ نہ کہو(صحیح البخاری 4001)

ہم یہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدہ سرائی میں جو کلمات کہے جاتے ہیں ۔وہ درست نہیں ہیں جشن منانے کو شرک نہیں کہتے بدعت کہتے ہیں ۔ ” شرک شرکیہ کلمات ہیں-جو نعتوں میں بولے جاتے ہیں ۔محبت کے بہت سے اور طریقے ہیں-وہ اپنائیں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنائیں ۔اپنے بچوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا عاشق بنائیں ۔اس صورت میں کہ وہ سنتوں پر عمل کریں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں ۔ اورمنع کی ہوئیں باتوں کو چھوڑ دیں۔

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں