Search

"سلسلہ دفاع سنت قسط 8″حدیث عرینیین””اونٹوں کے پیشاب کے بارے میں وارد ہونےوالی حدیث”

میزبان:آج کا موضوع حدیث عرینیین سے ہے۔منکرین حدیث کے اشکالات اور اعتراضات کیا ہیں؟ حدیث عرینیین سے کیا مراد ہے ؟کیا یہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے ؟

مہمان:حدیث عرینیین سے مراد وہ حدیث ہے جس میں عرینہ قبیلے کے لوگوں کا ذکر ہے  اور یہ حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاور یہ مسلم و بخآری میں موجود ہے اور بخاری میں امام بخآری رحمۃ اللہ علیہ نے  چار جگہوں پر اس سے استدلال کیا ہے ۔یہ حدیث انتہائی اعلیٰ درجے پر صحیح ثابت ہے   کیونکہ یہ حدیث متفق علیہ ہے اس حوالے سے اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔حدیث کی اصل تفسیر کیا ہے ؟

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ عرینہ قبیلے کے کچھ لوگ مدینہ میں آئے بظاہر کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے اور کچھ دیر مدینہ میں رہنے کے بعد انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر شکوہ کیاکہ ہم دیہاتی لوگ ہیں اور ہم اونٹ چراتے ہیں اور مدینہ ایک شہر ہے اس کی آب و ہوا ہمیں موافق نہیں آئی اس وجہ سے ہمیں پیٹ میں درد ہےتو ہم کیا کریں ؟حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو تم ایسا کرو کہ مدینہ کے باہر صدقے کے اونٹ اور اونٹنیاں چر رہی ہیں وہاں چلے جاؤ اور اونٹوں کا پیشاب اور اونٹنیوں کا دودھ ملا کر تم پیو اور تمہیں شفا مل جائے گی۔ (صحیح مسلم 1671)

امام بخاری نے کچھ الفاظ کا اضافہ کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ لوگ مدینہ کے باہر جہاں اونٹ چر رہے تھے وہاں گئے اور انہوں نے پیشاب اور دودھ پیاحتیٰ کہ اس نسخے پر عمل کرنے سےوہ ٹھیک اور موٹے تازے ہو گئے۔اونٹ کے دودھ میں بہت پروٹین ہوتی ہے اور جدید سائنس نے بھی اس کو ثابت کیا-ان لوگوں نے کیا کیاکہ بجائے اس کے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اور شکریہ ادا کرتے ۔انہوں نے اس کے برعکس کیاایک تو وہ اسلام سے پھر گئے دوسرا جو چرواہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں لوہے کی گرم سلاخیں ڈال دی۔اور ان کے جسموں کے اعضاء کاٹ ڈالےاور ان کو تڑپتا ہوا چھوڑ کر خود اونٹ لے کر بھاگ گئے انہوں نے جب ایسا کیا تو خبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھیجا کہ ان کو پکڑ کر لائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ وہی کیا۔جو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہوں کے ساتھ کیا تھا۔(صحیح البخاری 6824)

ان کے جرم بہت تھےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی کیا ۔جو چرواہوں کے ساتھ انہوں نے کیا تھا اور یہ حدیث اس لیے عرینیین کے نام سے ہےکہ ان کا قبیلہ عرینہ تھا۔

میزبان :منکرین حدیث کے اس حدیث کے حوالے سے شکوک وشبہات کیا ہیں؟ 

مہمان :اس حدیث کے حوالے سے جو مشتشرکین اور اسلام کے دشمن ، اور بعض جو اہلِ مغرب سے متاثر ہیں اور جدید مفکرین جنہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھا ھوا ہے مگر اصل میں وہ اسلام کے دشمن ہیں ان کے معروف اعتراضات دو ہیں۔ پہلا یہ کہ اونٹوں کے پیشاب اور دودھ کو ملا کر جو نسخہ بتایا ہے اس کو عقل نہیں مانتی یعنی پیشاب ایک ناپاک چیز ہے اور ناپاک چیز سے علاج کیسے؟ عقل کے خلاف ہےاور طبیعت بھی نہیں مانتی ۔لہذا یہ چیز عقل کے خلاف ہےمنکرین حدیث کے ہاں حدیث کے صحیح ہونے کا معیار صحیح سند نہیں ہے  بلکہ ان کے ہاں حدیث کے صحیح اور ضعیف ہونے کا معیار عقل ہے۔

اگر عقل نے اس کو صحیح کہہ دیا تو وہ صحیح ہے  چاہے افلاطون کا قول ہی کیوں نہ ہو ۔ارسطو کا قول یا بڑے سے بڑے خبیث انسان کا کیوں نا ہو ان کے ہاں صحیح ہے کیونکہ عقل اس کو صحیح کہہ رہی ہے لیکن اگر انکی عقل نہیں مان رہی  حالانکہ عقل بھی تو بیمار ہو سکتی ہے عقل کوہمت کیوں نہیں دیتے۔عقل کو ناقص ہونے کا الزام کیوں نہیں دیتے ۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو شراب سے علاج کو درست قرار دیتے ہیں۔اس طرح کی بہت ساری   چیزیں ہیں کہ جن کو بظاہر انسان نہیں کھا سکتا، مگر علاج کی غرض سے ادویات کے طور پر وہ استعمال ہو رہی ہیں ۔ بہرحال یہ ان کا اعتراض ہے ۔

دوسرا اعتراض ان کا یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ یہاں دو احادیث کا آپس میں ٹکراؤ ہےاور حدیث کا حدیث کے ساتھ تعارض کہ حدیث حجت نہیں ہے ۔وحی یعنی قرآن کریم حجت ہے  وہ کہتے ہیں کہ ایک حدیث کے اندر یہ آتا ہے کہ حضرت عمران بن حسین رضی اللہ عنہ اور بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے صحیح سند کے ساتھ سنن ابی داؤد ،سنن دارمی ،اور مسند احمد وغیرہ میں حدیث موجود ہے ۔

حضرت عمران بن حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں صدقہ دینے پر ترغیب دیتے تھے اور  مثلہ کرنے سے منع کرتے تھے ۔(سنن ابی داؤد 2667)

ان کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا مثلہ کروایا۔ یہ دو بنیادی اعتراضات ہیں۔

میزبان :اگر دیکھا جائے تو جو دوسرا اعتراض ہے کہ مثلہ کرنے سے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا یہاں تو ان لوگوں کا باقاعدہ مثلہ ہوا ۔ اس حدیث کا شریعت نے کیا جواب دیا؟

مہمانپہلی بات یہ کہ دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہےجس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا  وہ عام ہے کہ عام حالت جنگ میں آپ کسی کا مثلہ نہ کریں یعنی کسی کے کان ، ناک ، یا کوئی اعضاء نہ کاٹیں  صرف جان لینا مقصود ہے ۔مگر جو حدیث عرینیین ہے ۔اس کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کے طور پر مثلہ کیا۔کیونکہ انہوں نے چرواہوں کے ساتھ ایسا کیا تھا۔

قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ:

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ

” تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہےاگر تم عقل رکھتے ہو۔”(سورتہ البقرہ 179)

یعنی اگر تم برابری کے ساتھ بدلہ نہیں لو گے تو یہ زیادتی ہےمظلوم کے ساتھ انصاف نہیں ہے اور دوسری بات کہ اللہ تعالٰی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کی تائید کے اندر قرآن کریم کی آیت اتاری ہے۔

جو آیت حرابہ ہے  جس کے اندر جو ڈکیتی کرنے والے ،راستہ روکنے والے، مسلم و غیر مسلم قافلوں کو لوٹنے والے ہیں ۔ آیت حرابہ اس کو کہتے ہیں ۔اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں کہ:

إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ

 ” سوائے اس کے نہیں وہ لوگ جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑتے ہیں  دشمنی اختیار کرتے ہیں اور زمین میں دشمنی اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور فساد برپا کرتے ہیں ۔ان کی جزا ہے کہ ان کو قتل کیا جائے  ان کو سولی  چڑھایا جائے،اور ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دیے جائیں ۔”( سورةالمائدہ 33)

اسلام نے اتنی سخت سزا کسی اور کی نہیں بیان کی اور اگر دیکھا جائے تو بہت سے ممالک میں ان جرائم کی سزائیں کافی سخت ہیں۔اسلام میں اگر اتنی سخت سزائیں رائج نہ ہوں تو کوئی راستہ، مال ، اور عزتیں محفوظ نہ رہ سکیں۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دیگر علماء اور مفسرین کا قول یہ ہے کہ یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس واقع کے بعد اتری ۔گویا کہ اللہ تعالٰی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں یہ آیت اتاری کہ ایسے لوگوں کی یہی سزا ہونی چاہیے اور اگر پہلے بھی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کیا ہے اور ایک بات اور کہ قبیلہ عرینہ کے لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی توہین کی تھی۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان کی خاطر تواضع کر رہے ہیں ان کو علاج بتایا اور وہ صحت یاب ہونے کے بعد ناشکری کرنے لگ پڑے۔ لوٹ مار اور چوری شروع کر دی ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں احادیث کا آپس میں تعارض نہیں ہے ۔ تعارض تب ہوتا کہ  اگر انہوں نے چرواہوں کے ساتھ کچھ نہ کیا ہوتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ کچھ برا کرتے۔اس وقت ہم کہتے کہ ان احادیث کا آپس میں تعارض ہے- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مثلہ کرنے سے منع کیا اس صورت میں جب وہ مثلہ نہ کریں۔

وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنْفَ بِالْأَنْفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ

جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ ” دانت کے بدلے دانت ،کان کے بدلے کان، ناک کے بدلے ناک(سورتہ المائدہ 145)

میزبان:منکرین حدیث اعتراض کرتے ہیں کہ پیشاب تو ایک نجس چیز ہے ۔تو نجس چیز کو آپ کس طرح علاج کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں ؟

مہمان :پہلی بات یہ کہ جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے ۔ جمہور علماء کے ہاں ان کا پیشاب نجس نہیں ہے ۔جیسا کہ اونٹ بکریاں وغیرہ ان کا گوبر ناپاک نہیں ہے ۔اگر کپڑوں پر لگ جائے تو کپڑا نجس نہیں ہو گا ۔ دھویا تو جائے گا مگر حالت مجبوری اس میں نماز پڑھی جا سکتی ہے ۔اس کی دلیل کیا ہے کہ حلال جانوروں کا گوبر اور پیشاب پاک ہے؟

پہلی بات یہ ہےکہ ان کے نجس ہونے کی کوئی واضح دلیل نہیں- اور چیزوں میں اصل پاک ہونا ہے الا کہ ان کے نجس ہونے کی کوئی واضح دلیل آ جائے۔پہلا اصول کہ اس کے نجس ہونے کی واضح دلیل نہیں۔

دوسری بات کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے  بخاری و مسلم کے اندر صحیح حدیث موجود ہے ۔کہ ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی کی تعمیر سے پہلے جب مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی مہینوں تک بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھی ہے۔ ( صحیح البخاری 234)

یہ حدیث صحیح ہے کیا بکریوں کے باڑے میں ان کا پیشاب نہیں ہوتا،سب کچھ ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز پڑھی۔اس طرح ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر پوچھا ” کیا میں اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھوں ؟

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا کہ نہیں تو اس صحابی نے سوال کیا کہ کیا بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لیا کروں،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں”(صحیح مسلم 360)

اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھنے سے اس لیے نہیں منع کیا کہ اونٹوں کا پیشاب نجس ہے بلکہ اس میں حکمت ہےکہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرنے کا حکم دیا،یہ اونٹ کے ساتھ خاص ہےاور اس میں کیا حکمت ہے،اس کا علم نہیں اور بعض علماء نے یہ بیان فرمایا کہ اونٹ کی شیطانی فطرت کی وجہ سے،اگر اونٹ کے باڑے میں نماز پڑھیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ روند ڈالے یا کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے۔یہ ایک ابدی حکم ہے کہ اونٹ کے باڑے میں نماز نہ پڑھیں تو نہیں پڑھیں گے۔تیسری بات یہ ہےکہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کا پیشاب نجس ہے اور ہم کہتے ہیں کہ اگر وہ نجس ہے تو تم اپنے گھروں میں کیوں لگاتے ہو، دیہاتوں میں مٹی میں گوبر ڈال کر نیچے زمین پر لگایا جاتا ہے اور وہاں عورتیں نماز بھی پڑھتی ہیں ، اور گوبر جو خشک کر کہ آگ بھی جلائی جاتی ہے ۔ تو کیا کھانا بھی ناپاک ہے ۔

یہاں لوگ حکم کو نہیں دیکھتے پاک اور ناپاک کے چکروں میں پڑ جاتے ہیں ،یہ حدیث کے ساتھ مذاق ہے۔بلکہ اونٹوں کے پیشاب کے پاک ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہےکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو نسخہ بتا رہے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا نجس چیز کا علاج بتا سکتے ہیں کہ اس سے تمہیں شفا ہو گی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قبیلہ عرینہ کے لوگوں کو اونٹوں کے پیشاب کا نسخہ بتانا اس بات کی دلیل ہے حلال جانوروں کا گوبر پاک ہے ، یہاں اہم بات یہ ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ گائے اور بکری کا پیشاب بھی پیوہر پاک چیز کھائی یا پی نہیں جاتی، اور اونٹ کے پیشاب اور دودھ کو ملا کر پینا کوئی ایسا علاج تھاجو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا، اگر یہ کہیں کہ ہندو جو کر رہے ہیں وہ صحیح کر رہے ہیں تو کہیں گے کہ کب کہتے ہیں کہ گائے اور بکری کا پیشاب پیو ۔اگر تمہارے اوپر وحی یا الہام ہوتا ہے تو تم بھی کہہ دو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس بیماری کے علاج کے لیے خاص اونٹ کے پیشاب کا نسخہ ہی بتایا تھا۔گائے یا بکری کا نہیں ،طبیعت اور فطرت اس بات کے خلاف ہےکہ اونٹوں کا پیشاب علاج کے طور پر کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔سائنس نے اس پر باقاعدہ ریسرچ کی، ایک یہودی پروفیسر نے اس پر تحقیق کی اور وہ کہتا ہے کہ اونٹ کا پیشاب ایسے مواد پر مشتمل ہے ۔کہ جو انسان کے جسم کے اندر معدے میں موجود بہت سے جراثیم کو ختم کرنے میں مددگار ہے  ان کو پیٹ سے ختم کر دیتا ہے اور ڈاکٹروں نے اور علماء نے اس کا صحیح واقع ذکر کیا ہے کہتے ہیں کہ ایک آدمی تھا، اس کی انتٹریوں میں تکلیف تھی اس نے کافی علاج کروایا، جدید ادوایات کا استعمال کیا ،مگر کوئی افاقہ نہ ہوا ۔

اس کو ایک عالم نے مشورہ دیا کہ اگر تمہیں پیٹ کا مسئلہ ہی ہے  تو تم اونٹوں کا پیشاب اور دودھ ملا کر پیو،ہو سکتا ہے کہ اللہ تمہیں شفا دے دے۔اس بندے نے اونٹوں کے چرنے کی جگہ پر خیمہ لگا لیا۔ ایک تو تازہ ہوا کے لیے اور دوسرا وہ پیشاب اور دودھ ملا کر پیتا رہا ،اس نے تین یا چار دن ایسا کیا اور اس کو اسہال آئے اور اس کے پیٹ سے ایسی چیز کٹ کر نکلی، جس کی وجہ سے اس کو تکلیف ہوتی تھی۔اس کے بعد وہ شخص تندرست ہو گیا۔یہ عملی مثال ہے ،اور یہ ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے ۔اسی طرح 2005 میں اس بات پر تحقیق کی گئی، اور نتیجے کے طور پر تمام ڈاکٹروں نے یہ بتایا کہ اونٹ کا پیشاب انٹی بائیو ٹک کا کام کرتا ہے اور اس کے اندر ایسے بیکٹیریا موجود ہوتے ہیں- جو پیٹ کے جراثیموں کو ختم کر دیتے ہیں پیٹ کی جتنی بھی بیماریاں ہیں ان کے لیے مثبت علاج ہے۔

غیر مسلم ان احادیث سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہم میں سے جدید مفکرین ہیں ،جو اپنے آپ کو بہت پڑھا لکھا سمجھتے ہیں وہ اعتراض کرتے ہیں اور یہودی اور عیسائی اس بات کی تائید کرتے ہیں  ایک اور اہم بات یہ کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے اور امین ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ 1400 سال پہلے اونٹ کے پیشاب کا ہی نسخہ کیوں بتایااس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے بغیر نہیں بولتے ،”وما ینطق عن الھوی " ( سورتہ النجم 3) نہ اس وقت کوئی جدید ٹیکنالوجی تھی تو یہ دلائل نبوت میں سے ہےاعتراض نہیں بنتا، جدید سائنس اس کی تائید کرتی ہے ۔ 

میزبان: اگر کپڑوں پر حلال جانوروں کا بول و براز لگ جاتا ہے تو اگر آپ نماز پڑھ لیں گے تو کیا آپ کی نماز ہو جائے گی؟ یہ کس صورت میں ہے، ہمیں پتہ ہے تب یا ہمیں پتہ نہیں ہے تب نماز ہو جائے گی اور اگر پتہ چل گیا ہے تو کیا ہمیں نماز دہرانی پڑے گی؟

مہمان: اگر تو انسان کو پتہ ہے تو اس کو دھونا چاہیے، یہ تو پاک چیزیں بھی ہم کپڑوں پر لگی گوارا نہیں کرتے۔اگر بکری کا پیشاب لگ جائے تو اس کو دھونا   چاہئے ،اگرپتہ نہیں تھا اور نماز پڑھ لی ہے  تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے ،تو ایک کافر نے گندی اونٹ کی اوجری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر رکھ دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے کی حالت میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے کی حالت میں اسی طرح پڑے رہے ۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کسی نے بتایا تو وہ دوڑی آئی ،انھوں نے اس کو اتار کر پھینکا ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز نہیں دہرائی ، حالانکہ وہ اونٹ کی اوجری تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جاری رکھی۔اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ جبرائیل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ جوتے کے نیچے غلاظت لگی ہے ۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اتار کر رکھ دیا ،اور نماز جاری رکھی۔

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں