کیا مرد و عورت کا اختلاط جائز ہے

دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

ان کا کہنا ہے کہ عورت اور مردکا  ایک دوسرے سے ایسا اختلاط جائز ہے :

ازقلم ،

ابوبکر قدوسی 

ایک صاحب نے تین   راویات لکھ کے "ثابت ” کہ غیر محرم عورت کسی مرد کو چھو سکتی ہے — بخاری کی دو روایات اور مسلم کی ایک روایت ہے – لیجئے ان کی اپنی پوسٹ سے راویت کا ترجمہ پڑھئے :

………….

عرض ہے کہ ضرورت کے تحت ایسا اختلاط جائز و مباح ہے اور اس پر یہ دلائل موجود ہیں:

1) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "مدینہ طیبہ کی لونڈیوں میں سے کوئی لونڈی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیتی اور اپنے کسی کام کے لئے جہاں چاہتی لے جاتی۔"

(صحیح بخاری، کتاب الادب، باب الکبر، حدیث 6072)

2) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اپنا دورانِ حج کا واقعہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں: "پھر میں بنو قیس کی ایک عورت کے پاس آیا تو اس نے میرے سر کی جوئیں نکالیں اور کنگھی کی۔"

(صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب حجۃ الوداع، حدیث 4397)

3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء کو سر پر وزن لادا ہوا آتے دیکھ کر اپنے پیچھے اونٹ پر بیٹھایا تھا۔ دیکھئے صحیح مسلم (رقم 2182، دارالسلام 5692)

مشہور محدث و امام نووی نے اس واقعہ سے استدلال لیتے ہوئے باب باندھا ہے: "باب جواز إرداف المرأۃ الأجنبیۃ إذا أعیت فی الطریق” 

یعنی راستے میں تھک جانے والی اجنبی عورت کو اپنے ساتھ سواری پر بیٹھانے کا جواز

لہٰذا کریم اور اوبر سروس کا استعمال بلاشبہ مباح اور جائز ہے۔ ھٰذا ما عندی واللہ اعلم

…………………..

الجواب:

پہلی راویت میں لکھا ہے کہ مدینے کی  لونڈیوں سے کوئی  لونڈی …اب ترجمہ کرنے والے کی "مہارت ” دیکھیے کہ آسان سا ترجمہ [ مدینے کی لونڈیوں سے ایک لونڈی ] بھی کیا جا سکتا تھا ..لیکن اس طرح ” مقصد ” حاصل نہیں ہوتا  تھا – کیونکہ اس طرح واضح ہو جاتا کہ وہ ایک لونڈی ایسا کیونکر کرتی تھی …اور وہی ایسا کیوں کرتی تھی .اب ایک کی  بجائے "کوئی لونڈی ” کرنے سے یہ تاثر پڑا کہ کبھی کوئی اور کبھی کوئی ایسا کر لیتی تھی ..روایت کے الفاظ ہیں :

"ان کانت الامہ من اماء اہل المدینہ "

اور امام بخاری   نے اس پر باب باندھا ہے "باب الکبر ” یعنی تکبر کی برائی ..مطلوب معنی یہ ہے کہ عورت پاگل تھی پھر بھی نبی کریم اس کو اہمیت دیتے –

دوستو اسی لونڈی کا تذکرہ ایک اور حدیث میں بھی ہے  جس میں وہ نبی کریم کا ہاتھ تھامے بہت دیر تک کھڑی رہی اور آپ نے اس سے ہاتھ نہیں چھڑایا ….جی ہاں یہی حدیث ہے جس سے غامدی صاحب نے بھی استدلال  کرتے ہوے عورت اور مرد کا مصافحہ جائز قرار دیا تھا …..

دوستو ! مدینے   میں موجود یہ لونڈی اصل میں پاگل تھی اور اس کی اس حالت کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت کے سبب اس  سے ہاتھ نہ چھڑایا …یہی وجہ ہے کہ اوپر بیان کردہ پہلی حدیث میں جس میں وہ لونڈی آپ کا ہاتھ تھامے آپ کو کسی نہ کسی کام سے لے جاتی ….کیا عنوان امام بخاری رحمہ اللہ نے تکبر سے اعراض باندھا ہے ..یعنی اس کو آپ کی نرمی اور شفقت اور عدم غرور پر محمول کیا ہے …

دوسری حدیث جو سیدنا ابو موسی اشعری والی ہے خود صاحب پوسٹ کے عنوان سے ہی نہیں ملتی کہ مجبوری میں غیر محرم سے اختلاط کیا جا سکتا ہے …سوال یہ ہے سیدنا ابو موسی کو کیا مجبوری تھی .؟..

کیا جوئیں نکلوانا بھی کوئی ایسی مجبوری ہو جاتی ہے کہ غیر محرم سے یہ کام کروایا جائے؟

 …اصل قصہ جو چھپا لیا گیا کہ ہے وہ یہ تھا کہ خاتون ان کی رضاعی خالہ تھیں  … دوستو ! ایک حدیث کو پکڑ لیا جاتا  ہے ، اپنی مرضی کا مفھوم پیش کیا جاتا ہے ، جب کہ بسا اوقات اس حدیث سے محدثین کوئی اور مفھوم مراد لے رہے ہوتے ہیں اور ان کی مراد جو مفھوم ہوتا ہے ، تو ضرورت کے واسطے وہ مختصر حدیث لے کے آتے ہیں ..جب کہ ان کے علم میں ہوتا ہے کہ اس "اعتراض ” کی صورت میں مکمل حدیث پیش کی جا سکتی ہے یا دوسری حدیث جو اس اعتراض کو رفع   کرتی ہے اس کو بیان کیا جائے گا …مگر آجکل کے "دانش ور ” کبھی لاعلمی سے اور کبھی مجرمانہ طور پر ادھوری احادیث لے کے آتے ہیں اور  ہمارے "معصوم ” دوست الجھ کے رہ جاتے ہیں – سیدنا ابو موسی اشعری کی اس روایت سے بھی یہی معاملہ ہے …کہ دوسری روایت ان کے اس عورت سے رشتے کو واضح کر رہی تھی لیکن اس کا ذکر ہی نہیں کیا گیا – ظاہر ہے پھر "تھرتھلی ” کس طرح مچتی ، اور ذہنوں میں شکوک کہاں سے انڈیلے جاتے –

تیسری راویت کا بھی یہی معاملہ ہے …کس طرح ممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک غیر محرم خاتون کو اس طرح اونٹ پر بٹھا لیں کہ اس کا جسم آپ سے چھو جائے ، بھلے وہ آپ سے عمر میں بہت چھوٹی اور رشتے میں سالی ہی تھیں ..جب کہ انہی سیدہ  اسماء کی سگی چھوٹی بہن سیدہ عائشہ کی ہی روایت ہے کہ :

” اللہ کی قسم نبی کریم نے کبھی بیعت کے واسطے بھی کسی غیر محرم عورت کو نہیں  چھوا "

 دوستو ! نبی  کریم   صلی اللہ  کے اونٹ پر ایک کجاوہ دھرا ہوتا تھا اس کے پیچھے باقاعدہ ٹیک کے لیے اونچی لکڑی  ہوتی تھی …یوں اگر کوئی پیچھے بٹھا بھی یا جائے و بیچ میں لکڑی کی رکاوٹ موجود رہتی تھی …جیسا کی بخاری  حدیث نمبر ٥٩٦٧ میں سیدنا معاذ بن جبل اپنے نبی کریم کے پیچھے بیٹھنے کی کفیت بیان کرتے ہوے فرماتے ہیں

 "لیس بینی و بینہ الا آخرہ الرحل ” 

"میرےاور آپ کے درمیان سواے کجاوۓ کی لکڑی کے بیچ  کچھ نہ تھا "

اور خود  نبی  کریم کی حدیث ہے کہ کسی غیر محرم عورت کو چھونے سے  بہتر ہے کہ جسم میں کوئی لوہے کی کنگھی داخل ہو ے زخمی کر دے – اب خود ہی سوچئے کہ   اس تعلیم  دینے کے بعد کیا اس بات کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ خود آپ ہی اس کا اہتمام نہ کریں –

جہاں تک تعلق ہے امام نووی کے کے باب کا جو انہوں نے حدیث پر باندھا ہے تو اس  سے کس کو انکار ہے ..بنا چھوے ، اور جسم ملائے کسی خاتون کو ساتھ بٹھا لینا جائز ضرور ہے ..لیکن یاد رکھیے اس جواز کی صورت وہی ہو گی جو دوسری احادیث کی بیان کردہ شرائط کے مطابق ہو گی –

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں