"سلسلہ دفاع سنت قسط 5 "کیا سورج اللہ کے عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے؟

میزبان :

جو منکرین حدیث ہیں وہ اعتراض کرتے ہیں کہ دین اسلام میں ایسی باتیں ہیں جو بظاہر تجربے ،سائنس اور مشاہدے کے خلاف ہیں۔جس طرح وہ اعتراض کرتے ہیں کہ حدیث میں ہے کہ سورج جب غروب ہوتا ہے۔تو وہ اللہ کے عرش کے نیچے سجدہ کرتاہے۔اس کے بعد اللہ سے اجازت طلب کرتا ہے۔اور پھر طلوع ہوتا ہے۔جب کہ بعض ممالک ایسے ہیں کہ جہاں چھ ماہ تک سورج طلوع نہیں ہوتااور بعض ممالک ایسے ہیں کہ جہاں سورج طلوع ہی رہتا ہے۔ چھ ماہ تک غروب نہیں ہوتااور بعض جگہوں میں ایسے لگتا ہے کہ سورج غروب ہونے والا ہے مگر ہوتا نہیں۔تو جب سورج وہاں پر غروب ہو نہیں رہا تو پھر سجدہ کیسے کرتا ہے اور اجازت کیسے طلب کرتا ہے۔یہ چیزیں عقل اور مشاہدے کے خلاف ہیں۔ اسلام ان چیزوں کے بارے میں کیسے ہمیں بتا سکتا ہے۔یہاں سے حدیث پر اعتراض کرنا شروع کر دیتے ہیں اور وہ کسی ایک نقطے کو وجہ بنا کر ساری کی ساری حدیث کا انکار کر دیتے ہیں۔

اس حصے میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گےکہ یہ اعتراض بنتا ہے ۔جو عقل مشاہدے اور تجربے کے خلاف لگتا ہےاور تجربے کے خلاف لگتا ہے۔کیا ان کے اعترضات کوئی حقیقت رکھتے ہیں۔ کیا منکرین حدیث یا مستشرقین کا یہ اعتراض کہ سورج عرش کے نیچے سجدہ کرتاہے۔اور پھر اجازت لے کر طلوع ہوتا ہے۔تو کیا ان کا اعتراض درست ہےکہ بعض مقام پر تو سورج چھ مہینے طلوع ہی رہتا ہےاور بعض مقام پر چھ مہینے تک غروب ہی رہتا ہے ۔ تو وہ سجدہ کیسے کرتا ہے؟اور اجازت کیسے طلب کرتا ہے ؟اس کا جواب کیا ہے ؟

مہمان:

سب سے پہلی بات کہ جو حدیث ہے جس پر اعتراض ہے   وہ صحیح ہے ۔اس کے راوی حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ ہیں اور یہ بخاری اور مسلم کی حدیث ہےاور فرماتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کے ساتھ مسجد میں تھا۔جب سورج غروب ہو رہا تھا تو اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا:

"اے ابو ذر کیا تجھے معلوم ہے کہ سورج کہاں غروب ہوتا ہے ۔تو میں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں مجھ سے۔نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہ سورج جب غروب ہوتا ہے تو یہ عرشِ الٰہی کے سامنے سجدہ کرتاہے۔ (صحیح البخاری 4802)

اس پر یہ اعتراض ہوتا ہےکہ ہر صاحب عقل جانتا ہے کہ سورج پوری دنیا میں ایک وقت میں طلوع نہیں ہوتا۔بعض ممالک میں سورج طلوع ہوتا ہے تو بعض میں ظہر کا وقت ہوتا ہے۔بعض میں سورج غروب ہونے کے قریب ہوتا ہے۔مگر غروب نہیں ہو رہا ہوتااور بعض میں رات ہی رہتی ہےتویہ کیسے ممکن ہے،عقل اس چیز کو تسلیم نہیں کرتی۔ لہذا جب عقل اس چیز کو تسلیم نہیں کر رہی۔عقل، مشاہدہ اور تجربہ اس کے خلاف ہے تو یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔جیسا کہ پہلے بھی اس چیز کی طرف اشارہ ہوا کہ وہ ایک حدیث کو لے کر تمام احادیث کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور ان کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اور ان کا اصل مقصد حدیث پر تنقید کرنا نہیں بلکہ اصل مقصد صحیح البخاری اور مسلم سے لوگوں کا اعتماد اٹھانا ہےاور حدیث سے لوگوں کو دور کرنا ہےکہ حدیث حجت نہیں اور اگر یہ وحی ہوتی تو ایسی چیز نہ ہوتی جو خلاف واقع اور خلاف مشاہدہ ہے۔

سب سے پہلی بات یہ کہ یہ حدیث صحیح ہے اور صحیح البخاری اور مسلم میں ہےاور جو محدثین ،آئمہ اور علماء کی شروط ہیں حدیث کو لینے کی اس کے مطابق ہےاور دوسری بات یہ کہ سورج کا سجدہ کرنا یہ صرف حدیث میں نہیں بلکہ قرآن کریم سے بھی ثابت ہے۔قرآن کریم میں سورج کا چاند اور ستاروں کے سجدہ کرنے کا بیان موجود ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہےکہ:

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ

اے مخاطب تو دیکھتا نہیں کہ بیشک اللہ کے لیے سجدہ کرتی ہے ۔جو کچھ ہے زمین وآسمان میں ہر وہ چیز اور سورج،چاند اور ستارے، (سورتہ الحج 18)

درخت  چوپائے ہر چیز اللہ کو سجدہ کرتی ہے۔ یہ قرآن کریم کی آیت ہےاور اس میں اللہ تعالٰی نے سورج ستاروں اور چاند کے سجدہ کرنے کا ذکر کیا ہے۔یہ بات غائب سے تعلق رکھتی ہے عقل جن کا ادراک نہیں کر سکتی ۔ مشاہدہ جن کی حقیقت کو نہیں جان سکتایا سائنس اور جدید آلات جہاں تک نہیں پہنچ سکتے ان چیزوں کے بارے میں جیسا ہے ویسا تسلیم کرنا پڑے گا۔صحیح حدیث کے اندر یا قرآن کی آیت کے اندر جو بات بتائی گئی ہے  ہمیں ان کو تسلیم کرنا پڑے گا،اسے ماننا پڑے گا ۔جب اس کا تعلق غائب کے ساتھ ہو۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کو عقل نہیں تسلیم کرتی یا یہ تو عقل کے خلاف ہے یا مشاہدے کے خلاف ہے۔اس کا تعلق غائب سے ہے  لہذا جیسا وارد ہوا ہے اسی طرح ماننا ہو گا۔

دوسری بات یہ کہ سورج،چاند اور ستاروں کا سجدہ کرنا اگر ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ انسانوں کی طرح سجدہ کرنا ہے۔تو ایسا بلکل بھی نہیں ہے۔جیسے سورج ،چاند اور ستاروں کے لائق ہے وہ اللہ تعالٰی کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔اور اللہ تعالٰی نے خود قرآن کریم کے اندر ارشاد فرمایا ہے کہ:یہ سب چیزیں اللہ کے آگے سجدہ کرتیں ہیں۔

اور رہی یہ بات کہ سورج بعض علاقوں میں طلوع ہوتا ہے۔بعض میں غروب ہوتا ہے تو کیسے ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی ﷺ نے مدینہ کی یہ بات کی ہے۔جن علاقوں میں سورج غروب ہوتا ہے جب غروب ہوتا ہے تب وہ سجدہ کرتا ہے۔اللہ تعالٰی نے قرآن کریم کے اندر یہ بات فرمائی ہےاور حدیث نے اس کی وضاحت کر دی کہ کب سورج سجدہ کرتا ہے۔جب غروب ہوتا ہے تب وہ عرش کے نیچے سجدہ کرتاہے۔

نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہ ہے اللہ تعالٰی کا وہ قول کہ سورج اپنے مقررہ مدار میں گردش کرتا ہے ۔(صحیح البخاری 4802)

یہاں اس کا مدار کیا ہے علماء کہتے ہیں کہ سورج اپنی منزلیں طے کر رہا ہے۔اس سے مراد یا تو وہ مقام ہے جہاں سورج جا کر کچھ دیر کو رکتا ہے اور رکنے کے بعد وہ سجدہ کرتا ہےاور سجدہ کرنے کے بعد پھر اپنی منزلیں طے کرتا ہے ۔ سورج کا طلوع اور غروب ہونا یہ منازل ہیں۔پوری دنیا میں سورج بیک وقت غروب یا طلوع نہیں ہوتا ۔اس کا علماء نے جو صحیح معنی بیان کیا ہے کہ سورج عرش کے نیچے سجدہ کرتاہے۔وہ کہتے ہیں کہ جب سورج اپنے مدار میں چل رہا ہوتا ہے اور جب وہ عرش کے نیچے پہنچتا ہےتو تھوڑی دیر رکتا ہے اور سجدہ کرتا ہے کیسے کرتا ہے یہ غائب ہے اس کاہم مشاہدہ نہیں کر سکتے۔جب ہم مشاہدہ نہ کریں عقل اس کا ادراک نہ کرے  ہم کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ تو جتنی بھی غائبی چیزیں ہیں اس کے متعلق بھی بیان کرنا انسان کے بس کی بات نہیں۔یہ عقل سے بالاتر باتیں ہیں ۔ لہذا جیسا بیان کیا جائے ہمیں اسے اسی طرح قبول کرنا ہے۔

جب سورج غروب ہو رہا ہوتا ہےاور بعض جگہ پر وہ طلوع ہو رہا ہوتا ہےاسی وقت وہ سجدہ کرتا ہے یہ صحیح حدیث اور قرآن کے اندر ثابت ہےکہ سورج سجدہ کرتا ہے ۔تو ہمیں اس کو ماننا ہو گا ۔ لیکن کیسے اس کیفیت کو ہم نہیں جان سکتےاب جو لوگ کیفیات میں مبتلا ہو جاتے ہیں ان کو سمجھ نہیں آتی وہ کہتے ہیں کہ اگر سجدہ کرتا ہے تو کیسے۔یہاں بعض لوگوں نے ایک اور اعتراض کیا وہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم کے اندر آتا ہے کہ جب ذوالقرنین کو سورج کے طلوع ہونے کی اور غروب ہونے کی جگہیں دیکھائی گئیں تو ان کے بارے میں آتا ہےکہ:

حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ

یہاں تک کہ سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچ گیا اور اسے ایک دلدل کےچشمے میں غروب ہوتا ہوا پایا ۔”(سورة الکہف 86)

وہاں یہ ہے کہ سورج غروب ہوتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ سورج کا دلدل کے اندر غروب ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس دلدل یا کیچڑ کے اندر غروب ہو رہا تھا بلکہ سورج ذوالقرنین کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔یہاں بھی غروب ہونے سے مراد اوجھل ہونا ہےاور جب وہ اوجھل ہوتا ہے۔تو اس وقت وہ اللہ کے عرش کے نیچے سجدہ کرتاہے۔اوجھل ہونے سے مراد یہ نہیں کہ وہ ساری دنیا سے اوجھل ہو گیا۔

اس طرح حدیث کے اندر کوئی مشکل نہیں اور نہ ہی کوئی اعتراض بنتا ہے ۔ یہ بات مشاہدے اور تجربے سے ظاہر نہیں ہوتی مگر عقل اس کو تسلیم کرتی ہے۔کیونکہ اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا اور نبی ﷺ نے خبر دی حدیث کے ذریعے اور حدیث بھی وحی کا حصہ ہےاور وحی حق ہے۔ جس طرح ہمیں بتایا گیا اسی طرح ہمیں ایمان بھی لانا ہو گا۔اس کے اندر قیاس آرائیاں کرنا درست نہیں۔

میزبان:

جیسے آپ نے یہ بات کی کہ ان چیزوں کا تعلق غیبیات سے ہے اور ہم نہیں سمجھ سکتے کہ جو بھی اللہ تعالٰی کی مخلوقات ہیں وہ کس طرح   اللہ کو سجدہ کرتی ہیں ہم تو نہیں جانتے یہ کیفیت اور یہ جو ان کی ہیئت ہے ان کے بارے میں اللہ کو ہی معلوم ہےتو کیا جو مخلوقات ہیں جاندار وہ اللہ تعالٰی کی تسبیحات بھی بیان کرتی ہیں اگر کرتی ہیں تو وہ کس طرح کرتی ہیں اور ہم انہیں کیوں نہیں محسوس کر سکتے۔

مہمان:

اللہ تعالٰی کی صفات میں صفت کلام بھی ایک صفت ہے ۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ:

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللَّهُ ۖ

"یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے بعض وه ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے بات چیت کی ہے” (سورتہ البقرہ: 253(

اللہ تعالٰی کی کلام صفت قرآن کریم میں کہیں جگہوں پر ثابت ہے۔اللہ تعالٰی اپنی مخلوقات میں سے جن کو اللہ نے بولنے اور سمجھنے کی طاقت دی جیسا کہ انسان ہےاور کچھ ایسی مخلوقات ہیں جو جاندار ہیں اور کچھ بےجان ہیں۔لوگوں نے یہ تجربے اور مشاہدے سے دیکھا بھی اور ثقہ راویوں نے اس کو رویت بھی کیاکہ نبی ﷺ کے سامنے  کنکریوں نے گفتگو کی اور اسی طرح صحیح البخاری میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ رویت کرتے ہیں: 

فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ ایک کھجور کے تنے کے ساتھ کھڑے ہو کر خطبہ دیا کرتے تھے۔جب ممبر ابھی تک نہیں بنا تھاجب ممبر بن گیا اور آ پ ﷺ ممبر پر خطبہ دینے لگ گئےتو کھجور کے تنے نے چھوٹے بچے کی طرح رونا شروع کر دیا ۔صحابہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے کانوں سے اس کے رونے کی آوازیں سنی۔نبی ﷺ نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا ممبر سے اتر کر تو وہ خاموش ہو گیا ۔(صحیح البخاری 3583)

کھجور کا تنا جو کہ بے جان ہے وہ نبی ﷺ کی محبت میں کس طرح روتا ہے  ذکر سے محرومی کی وجہ سے۔بے شمار صحابہ نے یہ خبر دی ہے کہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا۔اب اللہ تعالٰی کھجور کے تنے کو یہ ہمت دے سکتا ہے۔کیا اس سے   ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں اور یہ کہ بے جان چیزیں اللہ کی تسبیح نہیں کرتی۔اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ:

تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ ۚ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَٰكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ۗ

ساتوں آسمان اور زمین اور جو بھی ان میں ہے اسی کی تسبیح کر رہے ہیں۔ ایسی کوئی چیز نہیں جو اسے پاکیزگی اور تعریف کے ساتھ یاد نہ کرتی ہو(سورة اسراء44)

اگر ہمیں سمجھ نہیں آتی تو کیا ہم یہ کہنا شروع کر دیں کہ ایسا نہیں ہے اس کو اگر ہم پچھلی حدیث کے ساتھ جوڑیں کہ حدیث میں ہے کہ سورج عرش کے نیچے سجدہ کرتاہے۔لیکن وہ کہیں کہ عقل اس چیز کو نہیں مانتی۔اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ تسبیح کرتی ہے ہر چیز اپنے انداز میں تسبیح کرتی ہے ۔ اب انسانوں کے تسبیح کرنے کا انداز اور ہے۔ بے جان چیزوں  پتھروں کے تسبیح کرنے کا انداز اور ہے۔لیکن اللہ نے ان چیزوں کو بنایا تو جو کھجور کے اس تنے کو بلوا سکتا ہے کیا وہ رب العالمین درختوں اور باقی چیزوں سے تسبیح نہیں کروا سکتا۔دنیا کی ہر چیز اللہ کا ذکر کرتی ہے ۔جب چاہیے اللہ بلوا سکتا ہے ۔ اللہ تعالٰی علیم و قدیر ہے۔یہ نبی ﷺ کا معجزہ ہے۔کھجور کے تنے کا رونا اور دین اسلام کے بر حق ہونے کی بھی دلیل ہے ۔اور اللہ کے ہونے کی بھی دلیل ہے۔اس طرح جانوروں کے بہت سے واقعات ہیں ۔کہ وہ نبی ﷺ کے سامنے آ کر شکایت کرتے تھے۔اونٹ کا واقع بہت مشہور ہے ۔کہ ایک اونٹ نے نبی ﷺ سے شکایت کی کہ اس کا مالک کام زیادہ کرواتا ہےاور چارہ کم ڈالتا ہے ۔ تو نبی ﷺ نے اس مالک کو بلا کر نصحیت کی اور فرمایا کہ اس کا خیال کرو۔(مسند احمد 1745(

جیسے ہم جانوروں کی تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے ۔ اس طرح ممکن ہے کہ وہ بھی ہماری تسبیح کو نہ سمجھ سکتے ہوں۔اس کی مثال واضح حدیث میں موجود ہےکہ جب قبر کے اندر کسی کو عذاب ہو رہا ہوتا ہے۔ہم نہیں سن سکتے ہم قبر کے اوپر کھڑے نہیں سن سکتے ۔ جب کہ جانور سنتے ہیں ۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ:

جن و انس کے علاوہ ساری مخلوقات سن رہی ہوتی ہیں مردے کی چیخ و پکار کو (صحیح البخاری 1675(

        چونکہ اس کا تعلق غائب سے ہے ۔ اس لیے ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں۔اصل میں جو عقل پرست ان کا یہی مقصد ہےکہ وہ لوگوں کو اس انداز میں دین سے پیچھے ہٹائیں کہ ان کو دین سے متنفر کر دیں اور ان کو لادینیت کی طرف لگا دیں۔انسان کا علم محدود ہے۔ وہ صرف وہی جان سکتا ہےجس کی وہ کوشش کرتا ہے۔آج جو لوگ انکار کر رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ کچھ عرصہ بعد اس چیز کی کوئی تحقیق سامنے آ جائے۔مثلاً جیسے ڈی این اے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان بندر سے نہیں نکلا بلکہ انسان کا اپنا ڈی این اے ہے۔اسی طرح جیسے جیسے لوگ علوم میں ترقی کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ اس چیز کی بھی تحقیق ہو جائےکہ سورج سجدہ کیسے کرتا ہے اور بے جان چیزیں کیسے بولتی ہیں۔

میزبان:

جیسے ذکر ہوا کہ اللہ تعالٰی کا عرش اللہ کی کرسی سے بڑا ہے ۔ایک مسلمان کا عقیدہ اور نظریہ اس حوالے سے کیسا ہونا چاہئےکہ وہ اللہ تعالٰی کے عرش کی کیفیت اس کا حجم کس طرح کا ہوتا ہے اور جو اللہ نے ہمیں بتا دیا ہے۔ہم صرف اسی پر ایمان لائیں گےیا حدیث کے اندر مزید اس کے بارے میں بتایا گیا ہےاور جو بتایا گیا ہے۔ہمیں اس کے مطابق اپنا ایمان رکھنا چاہیے۔ اس بارے میں آسانیاں کیسے پیدا ہونگی تاکہ وہ اپنے عقائد خود درست کر سکیں۔

مہمان:

عرش اور کرسی کو ہم نے نہیں دیکھا اور نہ مشاہدہ کیا ہے ۔اور نہ ہی ہم اس کا مشاہدہ دنیا کے اندر کر سکتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ غائبیات سے ہےاور اس بارے میں ایک ہی قاعدہ ہےکہ جیسے بتایا گیا ہے اسی طرح ہم اس پر ایمان لائیں جو چیز ہمیں حدیث اور قرآن کے اندر بتائی گئی ہے۔اس کو اتنا ہی مانیں اور ایمان لائیں اپنی طرف سے کوئی چیز نہ ڈالیں اور نہ کیفیات میں مبتلا ہوں۔کیفیات میں اسی وقت پڑا جاتا ہے کہ جب مشاہدے سے کوئی چیز دیکھ رہے ہوں تو جب یہ ممکن نہیں ہے تو جیسے ہمیں بتایا گیا ہےہم اسی طرح ایمان لائیں گےاور رہی یہ بات کہ عرش کا حجم کتنا ہے تو کیا حدیث یا قرآن کی آیت کے اندر اسی چیز کو بیان کیا گیا ہےتو قرآن میں آیت الکرسی کے اندر اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ: 

اللہ کی کرسی زمین و آسمان سے وسیع ہے۔(سورة البقرہ 255)

اور ایک حدیث میں ابن ابی شیبہ نے کتاب العرش کے اندر اور ذہبی نے اولوف  کے اندر ذکر کیا ہےکہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ حدیث روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ:

 کرسی عرش کے مقابلے میں ایسے ہےکہ جیسے لوہے کا چھوٹا سا کڑا ہو۔جسے ایک بہت بڑے صحرا کے اندر رکھا ہو۔ایک چھوٹے کڑے کی صحرا کے اندر کیا حیثیت ہو گی۔(العظمتہ لابی الشیخ الامیھانی 587/2)

یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کے عرش کی وسعت کیا ہو گی۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: یہ کرسی قدموں کی جگہ ہے۔جیسا کہ صحیح حدیث کے اندر مروی ہے۔(التوحید لابن خزیمہ 248/1)

تو اندازہ کریں کہ قدموں کی جگہ زمین وآسمان سے وسیع ہے۔تو وہ عرش کے مقابلے میں چھوٹا سا کڑا ہے ۔ جو صحرا میں ڈالا گیا ہو۔اس سے اللہ کے عرش کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔قرآن کریم میں عرش کی ایک خاص کیفیت ہے   جو ہمیں نہیں بتائی گئی۔قران کریم میں آتا ہے کہ قیامت کے دن  اللہ کا عرش آٹھ  فرشتوں نے اٹھایا ہو گا۔(سورتہ الحاقہ 17)

اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا حجم ہو گا مگر کیا ہے ہمیں نہیں بتایا گیا ۔ وہ کیا ہے لہذا جیسا ہمیں بتایا گیا ہے ۔ ہمیں ویسے اس پر ایمان لانا ہو گا۔سائنس دان کہتے ہیں کہ سورج زمین سے 13 لاکھ گنا بڑا ہے ۔اور کچھ ایسے سیارے ہیں جو سورج سے بھی عربوں کھربوں گنا بڑے ہوتے ہیں۔ہم تو اللہ کی چھوٹی سی مخلوقات ہیں۔ہم کرسی اور عرش کی بات کرتے ہیں۔حدیث میں آتا ہے کہ:

زمین سے آسمان کا فاصلہ 5 سو سال کا ہےاور ہر آسمان میں ایک دوسرے کے درمیان 5 سو سال کا فاصلہ ہے۔ہمیں شکوک وشبہات میں نہیں پڑنا چاہیے۔ بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے گئے راستے پر چلتے رہنا چاہیے اسی میں کامیابی ہے۔

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں