صحیح بخاری کے مآخذ۔۔۔۔۔ایک عظیم علمی شاہ کار

حدیث نبوی کے ذخائر میں صحیح بخاری کی اہمیت واوّلیت کسی با شعور پر مخفی نہیں ہے۔ یہی کتاب قرآن مجید کے بعد اسلامی تعلیمات کا صحیح ترین مجموعہ ہے اور پوری امت کا اس کی صحت پر اتفاق ہے۔ 

مگر افسوس کہ بعض نادانوں کو بخاری کی یہ عظمت و اَصحّیت ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہ اس کی اہمیت کم کرنے کی بے سود کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ایسے میں محدث الہند شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی یہ تنبیہ یاد رکھنی چاہیے کہ ہر وہ شخص جو بخاری ومسلم کی حیثیت گھٹاتا ہے، بدعتی اور گمراہ انسان ہے۔

صحیح بخاری پر ایک بڑا اعتراض جو پہلے غیر مسلم مستشرقین کی طرف سے آیا اور آج نادانی میں بعض کلمہ گو بھی اسے دہراتے ہیں کہ احادیث کی اتنی بڑی تعداد تو امام بخاری نے اڑھائی تین سو سال بعد خود سے لکھ لی تھی، اس لیے یہ روایات دین نہیں ہو سکتیں۔ 

دنیائے تحقیق میں اس اشکال کا علمی وتحقیقی بلکہ دستاویزی جائزہ، ترکی کے ایک عبقری اسکالر جناب ڈاکٹر محمد فؤاد سزگین (وفات: 2018ء) نے اس انداز سے لیا کہ اعتراض کرنے والوں کو منہ کی کھانا پڑی۔

انھوں نے پہلی بار اس بات کے مضبوط دستاویزی ثبوت دنیا کے سامنے پیش کیے کہ احادیث کی یہ تعداد امام بخاری نے خود سے نہیں لکھی، بلکہ اپنے سے قبل تحریر کیے گئے حدیث نبوی کے صحیفوں اور مصنفات سے اخذ کی ہے۔ اور ساتھ ہی ان سابقہ کتب کی کھوج لگا کر ان کے حوالہ جات بھی درج کر دیے۔ 

ڈاکٹر سزگین علم وتحقیق کا ایک بے مثل نام ہے جن کی نظیر پیش کرنا آسان نہیں۔ ان کی عظیم علمی خدمات کا ایک نمونہ یہ ہے کہ انھوں نے 17 جلدوں میں ایک کتاب لکھی جس میں دنیا جہاں میں پائے جانے والے مسلمانوں کے تحریر کردہ عربی مخطوطات کی نشان دہی کی، جس میں بتایا کہ فلاں علم کا فلاں مخطوط دنیا میں کہاں کہاں پڑا ہے، اس کی کیفیت کیا ہے اور اس کا مصنف کون ہے۔ یوں اس عظیم کاوش سے دنیا بھر کے محققین کے لیے ان قلمی کتابوں تک رسائی آسان ہوئی۔ 

ڈاکٹر فواد مرحوم کو اللہ رب العزت نے بڑی خوبیوں سے نوازا تھا۔ ان کی بیٹی ہلال سزگین کے بقول وہ 27 زبانوں کے ماہر تھے۔ اور یہ نتیجہ تھا ان کے استاد ڈاکٹر ہلموٹ ریٹر کی نصیحت کا کہ ہر سال ایک نئی زبان سیکھا کرو۔ اسی طرح ایک دن استاد ریٹر نے اپنے لائق شاگرد سے پوچھا کہ روزانہ کتنے گھنٹے پڑھتے ہو؟ کہا: تیرہ چودہ گھنٹے۔ استاد نے نصیحت کی: اگر واقعی محقق بننا چاہتے ہو تو روزانہ سترہ اٹھارہ گھنٹے پڑھا کرو۔ اس دن سے شاگرد نے یہ نصیحت ہمیشہ کے لیے پلے باندھ لی اور اس پر عمل پیرا رہے۔ 

 ڈاکٹر سزگین نے 1954ء میں انقرہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی اور اپنا تھیسیز بخاری کے مآخد کے نام پر ترکی زبان میں لکھا جو اب تک کسی اور زبان میں ترجمہ نہیں ہوا۔ یہ سعادت پہلی مرتبہ اردو زبان کو نصیب ہوئی کہ معروف عالم ومحقق جناب ڈاکٹر خالد ظفر اللہ صاحب کی برسہا برس (تقریبا 30 سال) کی محنت کے نتیجے میں اردو دان طبقے کے لیے اس علمی سوغات سے استفادہ ممکن ہوا۔ 

ڈاکٹر خالد صاحب نے اس کتاب کا صرف اردو ترجمہ ہی نہیں کیا، بلکہ اس میں اس قدر مفید اضافے، استدراکات، تعاقبات اور حواشی لکھے ہیں کہ اب وہ اس اردو طباعت کے شریک مولف کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 

اس کتاب میں چونکہ مولف نے ثابت کیا تھا کہ امام بخاری نے اپنی کتاب کی تالیف اپنے سے ما قبل لکھے گئے صحائف اور کتابوں سے کی ہے، اس لیے مولف نے سابقہ کتابوں کے ساتھ بخاری کا تقابل کر کے بڑے مضبوط دلائل پیش کیے تھے، مثلا بخاری کا ایک اہم مصدر  امام مالک (93۔ 179ھ) کی کتاب موطا ہے جس سے امام بخاری نے ساڑھے چھے سو سے زائد احادیث نقل کی ہیں۔ سزگین صاحب نے وہ تمام روایات دونوں کتابوں سے نشان دہی کر کے بتائیں تاکہ اعتراض کرنے والے کھلی آنکھوں سے اپنی لا علمی کا نظارہ کریں اور سمجھ لیں کہ بخاری سے قبل بھی احادیث کی کتابیں اور تحریری ذخائر موجود تھے۔

یہاں اس کتاب کے ترجمہ وتحقیق میں محترم ڈاکٹر خالد صاحب کی پیہم سعی اور عرق ریزی کا اندازہ لگانے کے لیے ایک مثال دیکھیے کہ ڈاکٹر سزگین نے تو لکھا تھا بخاری میں موطا سے لی گئی روایات کی تعداد ساڑھے چھے سو کے قریب ہے اور پھر ان کی صرف حوالہ جات کے ساتھ نشاندہی کی۔ 

مگر ڈاکٹر خالد صاحب نے دونوں کتابوں کا جائزہ لینے کے بعد لکھا ہے کہ بخاری میں موطا کی روایات کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔ اور پھر پروفیسر خالد صاحب نے وہ اضافی روایات بھی مکمل سند ومتن اور حدیث وصفحہ نمبر کے ساتھ کتاب میں درج کر دیں جن کی تعداد 71 بنتی ہے۔ ایسے ہی مفید ضافے مترجم نے کتاب کے ہر ہر باب میں کیے ہیں جو بلا شبہہ ایک مستقل تصنیف کا درجہ رکھتے ہیں۔

 جہاں مولف نے کسی عبارت کا مفہوم لکھا یا اس کا حوالہ دیا تھا، مترجم نے وہاں مکمل عربی عبارت حاشیے میں نقل کر دی ہے تاکہ قارئین اسے مکمل پڑھ سکیں اور بات کو اچھی طرح سمجھ پائیں۔ 

 ڈاکٹر فواد صاحب نے بخاری وموطا کے تقابلی جائزہ میں صرف دونوں کتابوں کے حوالے لکھے تھے، مگر مترجم نے دونوں کتابوں کے مکمل متون بھی حدیث وصفحہ نمبر کے ساتھ ذکر کر دیے ہیں تاکہ ہر شخص براہ راست یہ ثبوت دیکھ سکے کہ بخاری کی روایات پہلے لکھی گئی کتابوں میں ہو بہو موجود ہیں اور امام بخاری نے یہ خود سے نہیں لکھی۔ 

المختصر اولا تو اصل کتاب ہی تحقیق کا شاہکار تھی مگر اسے اردو زبان میں منتقل کر کے اور کئی قیمتی اضافے شامل کر کے محترم ڈاکٹر خالد ظفر اللہ حفظہ اللہ نے چار چاند لگا دیے ہیں۔ اللہ رب العزت انھیں اجر جزیل عطا کرے، اس کاوش کو قبول فرمائے اور مزید ایسی علمی خدمات کی توفیق سے نوازے۔ آمین یا رب العالمین۔

 (حافظ شاھد رفیق)

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں