کیا صحابہ کو تنقید کے لیے ” اوپن ” کر دیا جائے ؟
برادر فہد حارث کی وال پر قاری حنیف ڈار صاحب لکھتے ہیں کہ :
"مشاجراتِ صحابہ پہ کفِ لسان ممکن ہی نہیں،
آپ موجودہ معاملات میں کفِ لسان کیوں نہیں
کرتے ؟ کیا اس وقت کے بارے میں کفِ لسان ثواب
ہے اور آج والوں کے کپڑے اتارنا ثواب ہے ؟ منکر ہر
زمانے میں ہر شخص کے لئے منکر ہی تھا ، کسی
ایلیٹ کلاس کے لئے اس کو معروف بنا کر قرآن و
سنت کی بیخ کنی نہیں کی جا سکتی ہے "
قاری صاحب کی اس عبارت کو پڑھ لیجئے اور خود سے فیصلہ کیجئے کہ کیا ایک ایک لفظ میں صحابہ کی ردائے عظمت کو تار تار کرنے کی خواہش نہیں مچل رہی ؟ یہ کہنا کہ موجودہ معاملات میں كف لسان کیوں نہیں کرتے اور صحابہ کے باب میں کیوں کرتے ہیں ؟
تو عرض ہے کہ یہ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے اور اس کا حکم ہمیں رسول مکرم نے یہ کہہ کر دیا ہے کہ ” میرے صحابہ کو برا مت کہو "
اب جب مشاجرات کا تذکرہ آپ ایسے عامیوں اور ادب نا آشنا لوگوں کی زبان حق ناشناس اور نوک قلم پر آئے گا تو كف لسان کہاں ممکن رہے گا ۔۔۔سو اسی لیے حکم دے دیا ہے کہ میرے صحابہ کے باب میں خاموش رہو ۔۔۔۔
اب آپ کی یہ ضد ہے کہ زخم جگر دیکھیں گے تو آسان سی بات ہے کہ یہ مقام نازک ہے اور مزاجا بدووں کو ایسے مقامات سے ورے رہنا چاہئے ۔۔۔اور حضور آپ جیسے افراد کو تو کوئی کوس بھر دور سے گزرنا ہو گا ، وگرنہ اعمال کا نامہ مجنوں کا خرابہ ہو جائے گا ۔۔۔
اب خود ہی دیکھیے اسی ایک پیرے میں آپ کی اخلاقی حالت کیسی پتلی ہے کہ کسی مہذب محفل میں آپ کا بیٹھنا ___ گویا کسی تپتی بھٹی میں آگ پھونکتے لوہار کا عطار کی محفل میں ____ نکل آنا ہوا . . . آپ لکھتے ہیں :
کیا اس وقت کے بارے میں كف لسان ثواب اور آج
والوں کے کپڑے اتارنے ثواب "
یعنی آپ کی خواہش ہے کہ مقدس ترین افراد کے کپڑے بھی آپکو اسی طرح اتارنے کا حق دیا جائے ؟ ۔۔گو آپ نے پہلے کبھی کم نہیں کی ۔۔آپ کی بدتہذیبی کا زمانہ گواہ ہے خاص طور پر سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ بارے آپ کی دریدہ دہنی احباب کے پاس محفوظ ہے ۔۔۔۔
لیکن چونکہ بات مشاجرات کی ہو رہی ہے سو ہم اسی حوالے سے ایک سوال کرتے ہیں ۔۔۔آپ جو لکھتے ہیں کہ :
” ان حضرات کے بارے میں حساسیت کو ختم کرنا
ہو گا اور ان کو امت کے لئے اوپن کرنا ہو گا ـ تقدس
ذاتی معاملہ ہوتا ھے کسی کا رائٹ نہیں کہ اس کے
قتل کو نیکی کہا جائے تبھی وہ نیک ثابت ہو گا ،،
اس پر سوال ہے کہ سیدنا عائشہ رضی الله عنہا اور سیدنا علی رضی الله عنہ فہم کے تفاوت سے اور مختلف فیہ اجتہادات کے سبب باہم مقابل آ گئے ۔۔اب اگر رسول مکرم ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے گا تو ہمیں ان معاملات پر زبان بند رکھنی چاہیے اور بہت ضروری ہو اور مجبوری بن جائے تو تاریخ کو ضرور بیان کیا جائے گا لیکن ہم فیصل اور حکم نہیں بن بیٹھیں گے کہ ضد کریں نہیں ہم نے كف لسان نہیں کرنا ۔۔۔بلکہ آپ کے بقول ” ان کو امت کے لیے اوپن کرنا ہو گا ” تو جناب ایک طرف سیدہ عائشہ ہیں اور دوسری طرف سیدنا علی ۔۔۔۔۔تو کس پر اعتراض اٹھائیں گے اور کیونکر ۔۔۔۔۔۔۔
سیدنا اسامہ کے واقعے کو رنگ آمیزی سے بیان کر کے آپ کہتے ہیں کہ روز قیامت خون کے حساب ہوں گے ، قتل شمار کیے جائیں گے ۔۔۔۔تو یہ دونوں فریق تو کنفرم جنتی ہیں ۔رسالت ﷺ کی زبان سے سیدہ کو بھی جنتی کہا گیا اور سیدنا علی کو بھی بار بار جنتی کہا گیا ۔۔۔۔اور آپ کہتے ہیں کہ امت کے lliay انکو ” اوپن ” کیا جائے گا ۔۔۔۔۔حضور ذرا پھر بتائیے گا کہ یہاں کیا ہو گا ؟
احباب ! جب بندہ دین کی بنیاد سے الجھتا ہے تو عمر بھر ڈور سلجھتی نہیں ۔۔لکھتے ہیں کہ :
۔۔۔۔۔۔۔
اسامہ بن زیدؓ جیسے محب ابن محب کو کورا جواب دے دیا تو آخرت میں بھلا قاتلین کی شفاعت کیوں کریں گے ؟ من یعمل سوء یجز بہ ،ولا یجد لہ من دون اللہ ولیاً ولا نصیراِ جو برائی کرے گا وہ اس کی جزا پائے گا اور اس کا نہ کوئی دوست ہو گا نہ مددگار ( النساء) اس لئے مدعی سست گواہ چست والا معاملہ نہ کیا جائے ـ یہ بھی رسول اللہ ﷺ کا ہی فرمان ہے کہ جس نے کسی ناحق خون میں ایک کلمے کی بھی مدد کی اللہ اس کو جھنم کا غوطہ لگا کر رہے گا ’’ اگرچہ وہ کوئی بھی ہو ‘‘ یہ کوئی بھی ہو والا حصہ بڑا معنی خیز ہے ـ
۔۔۔۔۔۔۔
اب جناب جسٹس صاحب ان دونوں بزرگوں بارے کیا فیصلہ کریں گے کہ دونوں میدان قتال میں باہم مقابل آئے اور اپنے اپنے اجتہاد کے ماتحت پوری دیانت سے آئے ۔۔۔۔اور دونوں کو جنت کی بشارت اسی رسول نے دی ۔۔۔
احباب ! آپ کے لیے عرض ہے کہ مشاجرات کے باب میں آئمہ اہل سنہ کا موقف بالکل درست ہے کہ وہ جانیں اور رب جانے ۔۔۔۔۔۔اس پر كف لسان کرنا چاہئے ۔۔۔اور ان کا معامله ہم ایسوں سا نہیں ہے کہ ان کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا اور ڈار صاحب جسے لوگ ان کو ” اوپن ” کر رہے ہوں گے ۔۔۔۔اور ہاں چلتے چلتے عرض ہے کہ آج بھی آپ کے قانون میں ان کے مقابل معمولی حیثیت والے آپ کے صدور اور وزرا اعظم کو استثنا ہوتا ہے ۔۔۔۔تو ان عالی شان ہستیوں کے باب میں آپ کو فیصل بنایا جائے گا ؟
۔۔۔ابوبکر قدوسی