سیّدنا عمر فاروق ؓ کے زمانے میں قحط سالی کی صورت میں نبی ﷺ کی قبر پر آ کر دعا کی درخواست کرنا : واقعے کی حقیقت

📍ضعیف احادیث و موضوع روایات📍

️ یہ واقعہ صحیح نہیں 

سیّدنا عمر فاروق ؓ کے زمانے میں قحط سالی کی صورت میں نبی ﷺ کی قبر پر آ کر دعا کی درخواست کرنا : واقعے کی حقیقت

عَنْ مَّالِکِ نِ الدَّارِ، قَالَ : وَکَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَی الطَّعَامِ، قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ، فَجَائَ رَجُلٌ إِلٰی قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْه وَسَلَّمَ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللّٰه، اسْتَسْقِ لِأُمَّتِکَ، فَإِنَّهمْ قَدْ هَلَکُوا، فَاُتِيَ الرَّجُلُ فِي الْمَنَامِ، فَقِیلَ لهٗ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْه السَّلَامَ، وَأَخْبِرْہُ أَنَّکُمْ مُّسْتَقِیمُونَ، وَقُلْ لّهٗ : عَلَیْکَ الْکَیْسُ، عَلَیْکَ الْکَیْسُ، فَاَتٰی عُمَرَ، فَأَخْبَرَہٗ، فَبَکٰی عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ : یَا رَبِّ، لَا آلُو إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْه۔

 

’’مالک دار،جو کہ غلے پر سیدنا عمر رضی الله عنه کی طرف سے خزانچی مقررتھے، ان سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی الله عنه کے زمانہ میں لوگ قحط میں مبتلا ہو گئے۔ ایک شخص نبی کریم صلی الله علیه وسلم کی قبر پر حاضر ہوئے اور عرض کی:الله کے رسول!آپ (الله تعالیٰ سے)اپنی امت کے لیے بارش طلب فرمائیں، کیونکہ وہ (قحط سالی کے باعث) تباہ ہو گئی ہے۔ پھر خواب میں نبی کریم صلی الله علیه وسلم اُس شخص کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: عمر کے پاس جاکر میرا سلام کہو۔ اور انہیں بتاؤ کہ تم سیراب کیے جاؤ گے اور عمر سے (یہ بھی) کہہ دو کہ عقلمندی سے کام لیں۔ وہ شخص سیدنا عمر رضی الله عنه کے پاس آيا اور انہیں خبر دی، تو سیدنا عمر رضی الله عنه رو پڑے اور فرمایا: اے الله!میں کوتاہی نہیں کرتا ، مگر یہ کہ عاجز آجاؤں ۔‘‘

]مصنّف ابن أبي شیبة : 356/6، تاریخ ابن أبي خیثمة : 70/2، الرقم : 1818، دلائل النبوّۃ للبیهقي :47/7، الاستیعاب لابن عبد البرّ : 1149/11، تاریخ دمشق لابن عساکر: 345/44، 489/56]

📌تبصره:

یہ روایت اصول حدیث کی روشنی میں ضعیف اور نا قابل استدلال ہے۔ اس روایت کی سند کچھ یوں ہے:

حدثنا ابو معاویہ عن الاعمش عن ابی صالح عن مالک الدار

چنانچہ اس سند میں ایک راوی الاعمش ہیں جو کہ مشہور مدلس ہیں اور اصول حدیث میں یہ بات طے شدہ ہے کہ مدلس کی معنعن روایت ضعیف ہوتی ہے جب تک اس کا سماع ثابت نہ ہو۔

√ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں:

’’ہم مدلس کی کوئی حدیث اس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک وہ حدثنی یا سمعت نہ کہے۔‘‘

]الرساله: ص۵۳[

√ اصول حدیث کے امام ابن الصلاحؒ فرماتے ہیں:

’’حکم یہ ہے کہ مدلس کی صرف وہی روایت قبول کی جائے جس میں وہ سماع کی تصریح کرے۔‘‘

]علوم الحدیث للامام ابن الصلاح:ص۹۹[

√ فرقہ بریلویہ کے بانی احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:

’’اور عنعنہ، مدلس (كا) جمہور محدثین کے مذهب ، مختار و معتمد، میں مردود و نا مستند ہے۔‘‘

]فتاویٰ رضویہ:ج۵ص۲۴۵[

√ فرقہ دیوبند کے امام اہل سنت سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں:

’’مدلس راوی عن سے روایت کرے تو حجت نہیں الا یہ کہ وہ تحدیث کرے یا کوئی اس کا ثقة متابع موجود ہو۔‘‘

]خزائن السنن:ج۱ص۱[

 امام یحییٰ بن معین رحمه الله فرماتے ہیں :

لا يكون حجة فيما دلس.

مدلس راوی کی تدلیس والی روایت قابل حجت نہیں ہوتی۔“ [الكامل لابن عدي:34/1]-وسنده حسن

اصول حدیث کے اس اتفاقی ضابطہ کے تحت اوپر پیش کی گئی روایت مالک الدار بھی ضعیف اور نا قابل حجت ہے کیونکہ سند میں الاعمش راوی مدلس ہے.

 [میزان الاعتدال:ج2ص224، التمهید:ج10، ص227] جو عن سے روایت کر رہا ہے۔

√ عباس رضوی بریلوی (فاضل محدث) ایک روایت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ایک راوی امام اعمش ہیں جو اگرچہ بہت بڑے امام ہیں لیکن مدلس ہیں اور مدلس راوی جب عن سے روایت کرے تو اس کی روایت بالاتفاق مردود ہو گی۔‘‘

]آپ زندہ ہیں والله:ص۲۵۱[

√ عباس رضوی بریلوی کے متعلق مشہور بریلوی عالم و محقق عبدالحکیم شرف قادری فرماتے ہیں:

’’وسیع النظرعدیم النظیر فاضل محدث‘‘ [آپ زندہ ہیں واللہ:ص۲۵[

جب اصول حدیث کے ساتھ ساتھ خود فرقہ بریلویہ کے فاضل محدث نے بھی اس بات کو تسلیم کر رکھا ہے کہ اعمش مدلس ہیں اور ان کی معنعن روایت بالاتفاق ضعیف اور مردود ہے تو پھر اس مالک الدار والی روایت کو بے جا طور پر پیش کیے جانا کہاں کا انصاف ہے۔۔۔؟

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں