صحیح بخاری کی بعض احادیث پر اعتراضات کے جوابات

 صحیح بخاری کی بعض احادیث پر اعتراضات کے جوابات

. ۱ : حدثنا عبدالله بن محمد قال حدثني عبدالصمد قال حدثني شعبة قال حدثني ابوبكر بن حفص قال سمعت اباسلمة يقول : دخلت انا واخو عائشة على عائشة فسالھا اخوھا عن غسل النبى صلى الله عليه وسلم فدعت بانائٍ نحو من صاعٍ فاغتسلت و افاضت على راسھا و بيننا و بينها حجاب ۔ (بخاري ، الغسل ، الغسل بالصاع…ح : ۲۵۱) . ” عبداللہ بن محمد بیان کرتے ہیں کہ انھیں عبدالصمد نے بیان کیا ، وہ فرماتے ہیں کہ ابوسلمہ نے فرمایا کہ میں اور سیدہ عائشہ کے بھائی ، سیدہ عائشہ کے پاس گئے ۔ ان کے بھائی نے ان سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح غسل کیا کرتے تھے ؟ سیدہ عائشہ نے پانی سے بھرا ہوا ایک برتن منگوایا جس سے آپ نے غسل کیا اور سرپر بھی پانی ڈالا ، درمیان میں ایک پردہ لٹکایا ہوا تھا ۔“ . سوال یہ ہے کہ آیا یہ دونوں حضرات اس پردے میں سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کو غسل کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے ؟ جواب نفی میں ہے ۔ غسل کی کیفیت بتانے کے لیے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے غسل نہیں کیا بلکہ انہوں نے پانی کی مقدار کا ذکر کیا تو ابوسلمہ اور دیگر نے تعجب کا اظہار کیا کہ اتنے پانی سے کیسے نہایا جاسکتا ہے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ یہ بالکل ممکن ہے اور دیکھو اب میں نہانے کے لیے جا رہی ہوں اور اتنے ہی پانی سے نہاؤں گی اس کے بعد انہوں نے پردہ ڈالا اور غسل کیا اور یہ ثابت کر دیا کہ اتنے پانی سے نہانا ممکن ہے ۔ اس مفہوم کی دلیل یہ ہے کہ امام بخاری رحمه الله نے مذکورہ حدیث پر ” الغسل بالصاع و نحوه “ کا باب باندھا ہے ۔ . امام بخاری رحمه الله کی تبویب منکرین حدیث کی اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے کافی ہے ۔ نیز غسل کے معنی صرف نہانے کے نہیں ہوتے بلکہ غسل کا ایک مطلب ” نہانے کا پانی “ بھی ہوتا ہے ۔ . ۲ : عن عامر بن سعد عن ابيه قال امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقتل الوزغ وسماه فويسقا ۔ (ابوداؤد ، الادب ، فی قتل الاوزاغ ، ح : ۵۲۶۲) . ” عامر اپنے حضرت سعد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپکلی کے مارنے کا حکم دیا اور اسے فاسق کہا۔“ . چھپکلی کے قتل کا یہ سبب نہیں کہ وہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی آگ پر پھونک مار رہی تھی ۔ مذکورہ بالا حدیث سے اس کا فويسق (زہریلا اور موذی) ہونا بتایا گیا ہے ۔ نیز بعض جانور فطرتاً شریف ہوتے ہیں اور بعض فطرتاً بد طینت ہوتے ہیں ۔ جیسے بچھو اور چھپکلی وغیرہ… تو ابراہیم علیہ السلام کی آگ میں پھونک مارنا اس کے خبثِ باطن کو ظاہر کرتا ہے ۔ . یہ بھی کہا: جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ چھپکلی کیسے پھونک مار رہی تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ بات ہے جو ہمارے علم میں نہیں ہے ۔ ویسے بھی قرآن سے یہ ثابت ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن وہ تسبیح کیسے بیان کر رہی ہے ؟ ہماری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ چھپکلی ایک برے کام میں مدد کیوں کر رہی تھی؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ۔ . ۳ : عن عائشة جاء ت سهلة بنت سهيل الي النبى صلى الله عليه وسلم فقالت يارسول الله ! انّي اري فى وجه ابي حذيفة من دخول سالم ۔ وھو حليفه ۔ فقال النبى صلى الله عليه وسلم ”اِرْضِعِيْهِ“ قالت : وكيف اُرضعه وھو رجل كبير؟ فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال : ”قَدْ عَلِمْتُ اَنَّهُ رَجُلٌ كَبِيْرٌ ۔“ (مسلم ، الرضاع ، رضاعۃ الکبیر ، ح : ۱۴۵۳) . ” سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سہلہ بنت سہیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: کہ سالم جب گھر میں داخل ہوتے ہیں تو میں ابوحذیفہ کے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھتی ہوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تو سالم کو اپنا دودھ پلا دے ۔“ کہنے لگیں : میں انھیں کیسے دودھ پلا دوں ؟ وہ بچے نہیں ہیں بلکہ بڑی عمر کے آدمی ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا : ”مجھے معلوم ہے کہ وہ جوان ہیں ۔“ . مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ ابوحذیفہ کی بیوی سہلہ نے نوجوان سالم کو اپنا دودھ پلایا ۔ . جواب اس کا یہ ہے کہ اسلام میں حرجِ شدید کا لحاظ کیا گیا ہے جیسے کہ ایام ماہواری میں عورت کی نماز معاف ہے جبکہ نماز جنگ میں بھی معاف نہیں ۔ سالم چونکہ بچپن سے ابوحذیفہ کے گھر آتے جاتے تھے اور سودا سلف بھی لے آتے تھے ۔ گھر میں اور کوئی نہ تھا ۔ لہٰذا مجبوری کی وجہ سے ایسا کیا گیا ، یہ ان کے لیے خاص تھا ۔ . بعض کہتے ہیں کہ یہ حدیث منسوخ ہے ۔ نیز اس حدیث سے یہ پتا نہیں چلتا کہ سہلہ نے سالم کو اس طرح اپنا دودھ پلایا جیسے بچے کو پلایا جاتا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ کسی برتن میں دودھ نکال کر پلایا گیا ہو ۔ ۔۔۔۔(جاری ہے ) ​

عذابِ قبر
.
منکرین حدیث کا ایک اعتراض یہ ہے کہ اگر عذاب قبر کو مان لیا جائے تو تین زندگیاں اور تین موتیں لازم آتی ہیں جبکہ قرآن میں صرف دو زندگیوں اور دو موتوں کا تذکرہ ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
.
«قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ» (۴۰؍المؤمن : ۱۱)
.
” وہ کہیں گے : ہمارے رب ! تُو نے ہمیں دو بار موت دی اور دو بار زندگی دی ۔“
.
جواب یہ ہے کہ قرآن میں کئی واقعات ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ مردے زندہ ہو گئے ۔ جیسے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں باذن اللہ مردوں کا زندہ ہونا اور سورۃالبقرۃ میں سیدنا عزیر علیہ السلام اور ان کے گدھے کا زندہ ہونا اور چار پرندوں کا زندہ ہونا…تو کیا یہ تیسری زندگی نہیں ہے ؟
.
ہاں یہ صحیح ہے کہ قرآن میں یہ ہے کہ قیامت سے پہلے سب لوگوں کو نہیں اٹھایا جائے گا اور نہ کوئی مسلمان اس کا عقیدہ رکھتا ہے ۔ نیز اہل قبور کے لیے دنیا کی معروف زندگی اور موت کی معروف بے حسی کے درمیان کسی درجے کا احساسِ زندگی تسلیم کر لیا جائے تو کیا حرج ہے ؟ ؎ ۱
.
.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
.
.
؎ ۱ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ عذابِ قبر مردے کو ہوتا ہے زندہ انسان کو نہیں ، کوئی بھی صحیح العقیدہ مسلمان اس بات کا قائل نہیں کہ عذابِ قبر مردے کی بجائے زندہ انسان کو ہوتا ہے لہٰذا جب یہ کسی کا عقیدہ ہی نہیں کہ عذابِ قبر زندہ کو ہوتا ہے تو پھر یہ کہنا ہی فضول ہے کہ عذابِ قبر سے تیسری زندگی لازم آتی ہے ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے راقم الحروف کی اس موضوع پر لکھی گئی کتب : عذابِ قبر ، منکرین عذابِ قبر کے اعتراضات کے مدلل اور مسکت جوابات؛ عذابِ قبر ، قرآن کی روشنی میں ؛المسند فی عذاب القبر(محمد ارشد کمال)
ملحوظہ : … عذاب قبر نہ صرف یہ کہ احادیث سے ثابت ہے بلکہ قرآن سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے ، عذابِ قبر کے قرآنی ثبوت کے لیے ان آیات کا مطالعہ کیجیے : سورۃ ابرھیم : ۲۷؛ طہ : ۱۲۴ ۔ ۱۲۶؛ الانعام : ۹۳؛ الانفال : ۵۰ ۔ ۵۱؛ محمد : ۲۷؛المؤمن : ۴۵ ۔ ۴۶؛نوح : ۲۵؛التوبۃ : ۱۰۱؛التکاثر : ۱ ۔ ۴؛ الواقعۃ : ۸۳ ۔ ۹۶؛النحل : ۲۸ ۔ ۳۲ (شہبازحسن)
۔۔۔۔(جاری ہے ) ​

ثبوت اس آیت میں ہے :
.
«قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا » (۳۶؍یٰسٓ : ۵۲)
.
” انھوں نے کہا: ہائے ! ہمیں ہمارے مرقد سے کس نے اٹھایا ۔“
.
رقود نیند کو اور مرقد خوابگاہ کو کہتے ہیں ۔ پتا چلا کہ قبر میں مردے کی کیفیت ایسی ہوتی ہے جیسے سونے والے کی ۔ اس میں زندگی کی پوری حسیت اور موت کی مکمل بے حسی طاری نہیں ہوتی بلکہ بین بین کی کیفیت ہوتی ہے ۔
.
اس بحث ميں ايك ضمني سوال يه بھي هے كه قيامت كے وقوع سے پهلے بدله ديا جانا انصاف كے خلاف هے !
.
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر قیامت سے پہلے کوئی بدلہ دیا جانا تسلیم نہ کیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت سے پہلے دنیا میں قوموں کو ان کے برے اعمال کی سزا کیوں دی؟
.
حدیث ثلاث کذبات
.
منکرین حدیث کا اعتراض یہ بھی ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صدیق کہا: ہے اور صحیح بخاری میں ( ح : ۵۰۸۴)ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
.
”لَمْ یَکْذِبْ اِبْرَاہِیْمُ اِلَّا ثَلَاثَ کَذَبَاتٍ“
.
” سیدنا ابراہیم نے صرف تین جھوٹ بولے : ۔“
.
درحقیقت اسے توریہ کہتے ہیں یعنی ایسا کلام جو مجازاً کذب(جھوٹ) ہوتا ہے مگر حقیقت میں سچ ہوتا ہے ۔ ویسے دیکھا جائے تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ایسے جھوٹ کا تذکرہ خود قرآن میں بھی ہے :
.
.
« فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ » (۳۷؍الصّٰفّٰت : ۸۹)
.
” تو انہوں نے کہا: میں بیمار ہوں ۔“
.
ایک تو یہ کہ آپ بیمار نہیں تھے مگر آپ نے کہا: کہ میں بیمار ہوں ۔
.
دوسرایہ کہ آپ نے خود بتوں کو توڑ کر بڑے بت کا نام لے دیا ۔
.
«قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَـٰذَا» (۲۱؍الانبیاء : ۶۳)
.
” آپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ان کے اس بڑے نے یہ کیا ہے ۔“
.
تیسرایہ کہ آپ نے تارہ ، چاند اور سورج کو دیکھ کر انھیں اپنا رب کہا: ۔
.
«فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَـٰذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ ﴿٧٧﴾ فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَـٰذَا رَبِّي هَـٰذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ ﴿٧٨﴾ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿٧٩﴾» (۶؍الانعام : ۷۷ ۔ ۷۹)
.
کیا ابراہیمؑ کا انھیں رب کہنا سچ تھا یا جھوٹ؟
.
اب جو توجیہ منکرین حدیث ان آیات کی کریں وہی اسی قسم کی احادیث کی سمجھ لیں ۔
.
درحقیقت حدیث میں حقیقی جھوٹ نہیں بلکہ مجازی جھوٹ کا تذکرہ ہے جسے توریہ کہا جاتا ہے ۔ جس میں ظاہری کلام کی صورت کذب کی ہوتی ہے مگراس پر مواخذہ نہیں ہوتا لیکن بڑے لوگوں کو اس سے شرم آتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے ) ​

حدیث زنائے قردۃ
.
امام بخاری رحمه الله نے صحیح بخاری میں کتاب مناقب الانصار كے باب القسامة فى الجاهلية (ح : ۳۸۴۹) میں اپنے استاد نعیم بن حماد رحمه الله سے اس طرح روایت کیا ہے :
.
عن عمرو بن ميمون قال رايت فى الجاھلية قردة اجتمع عليھا قردة قد زنت فرجموھا فرجمتھا معھم ۔
.
” عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ جاہلیت میں مَیں نے دیکھا کہ ایک بندریا جس نے زنا کیا تھا دوسرے بندروں نے اکٹھے ہو کر اسے سنگسار کیا ، میں نے بھی ان کے ساتھ اس بندریا کو سنگسار کیا ۔“
.
منکرین حدیث اس حدیث کو بھی اپنے اعتراض کا موضوع بناتے ہیں اور حدیث کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا بندروں کے یہاں بھی نکاح و طلاق اور حدود و تعزیرات کا نظام لاگو ہے ؟
.
پہلا جواب تو یہ ہے کہ بندروں کی شکل میں وہ جن تھے اور وہ بھی شریعت کے مکلف ہیں ۔ تورات میں رجم کا حکم تھا اور نص قرآنی سے ثابت ہے کہ جنوں کی ایک جماعت شریعت موسوی کی پابند تھی ۔ (دیکھیے الاحقاف : ۲۶)
.
دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر بندروں نے کسی بندریا کو اُس کی آوارگی پر پتھروں سے ہلاک کر دیا تو اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں یہ کون سی عجیب بات ہو گئی جسے عقل و مشاہدہ قبول نہیں کرسکتے ۔ جبکہ ماہر عمرانیات کی تصریحات موجود ہیں کہ بندر کے جسم کے ساتھ ساتھ اس کی سوچ بھی انسانوں سے مشابہت رکھتی ہے ۔ جانوروں میں غیرت کا پایا جانا ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے ، لہٰذا اُنھیں بھی غیرت آتی ہے ۔
.
اس واقعہ میں نصیحت یہ ہے کہ انسان کے اندر غیرت ہونی چاہئے کیوں کہ اس معاملے میں جانور بھی پیچھے نہیں ہیں اور سزائے رجم فطری سزا ہے کہ ایک حیوان اپنی نفسیاتی پاکیزگی کے لیے رجم کرسکتا ہے تو کیا انسان کے لیے یہ سزا نامناسب ہے ؟
.
تیسرا جواب یہ ہے کہ امام بخاری رحمه الله نے اس واقعہ کا ذکر حیوان کو مکلف ٹھہرانے کے لیے نہیں کیا بلکہ یہ ثابت کرنے کے لیے کیا ہے کہ عمرو بن میمون مخضرم تابعی ہیں ۔ اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ امام بخاری رحمه الله نے زیر بحث روایت کو التاریخ الکبیر میں عمرو بن میمون کے ترجمے کے تحت ذکر کیا ہے اور اہل فن اس سے بخوبی واقف ہیں کہ تراجم کی کتابوں میں احادیث و روایات کے ذکر سے ترجمہ ہی کے متعلق کوئی اطلاع بہم پہنچانا مقصود ہوتا ہے ۔
.
(تفصیل کے لیے دیکھیے ہماری کتاب مقاصد تراجم ابوابِ بخاری)
۔۔۔(جاری ہے ) 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو اور اس کی نوعیت

.

.

حدیث سحر النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت معروض یہ ہے کہ یہ واقعہ صحیح بخاری میں منقول ہے ۔ لہٰذا اِس کا انکار قرآن کا انکار ہے کیونکہ قرآن میں فرمایا گیا ہے :

.

.

«وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ» (۱۰؍یونس : ۱۰۷)

.

” اگر اللہ آپ کو کوئی تکلیف پہنچائے تو سوائے اس کے ، کوئی اسے دُور کرنے والا نہیں ہے ۔“

.

آیت مذکورہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ضرر کے طاری ہونے کا امکان ثابت ہوتا ہے اور سحر بھی ایک ضرر ہے ۔ چنانچہ سحر کے ضرر ہونے کی دلیل خود قرآن میں ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

.

«وَمَا هُم بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ » (۲؍البقرۃ : ۱۰۲)

.

” اور یہ (جادوگر لوگ) اس (جادو) کے ذریعے ضرر نہیں پہنچا سکتے مگر اللہ کے حکم سے ۔“

.

آیت کے دونوں ٹکڑے بتا رہے ہیں کہ سحر ایک ضرر ہے ۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ سحر کئی طرح کا ہوتا ہے ۔ ایک تو وہ جو عقل و تمیز اور قلب پر اثر کرتا ہے ۔ دوسرا اُس کا اثر ظاہر اعضائے جسم پر ہوتا ہے پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو سحر ہوا وہ دوسری قسم کا تھا ۔ چنانچہ قاضی عیاض نے فرمایا :

.

ان السحر انما تسلط على ظاهره و جوارحه لا على قلبه و اعتقاده وعقله ۔ (الشفا۲؍۱۸۷)

.

”جادو کا اثر آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ظاہر اعضائے بدن پر ہوا تھا ۔ نہ کہ آپ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل ، اعتقاد اور عقل پر ۔“

.

معلوم ہوا کہ سحر ایک مرض تھا ، جس طرح اور امراض میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبتلا ہوئے ۔ سر میں درد ہوا ، بخار آیا ، زہر کا اثر ہوا ، اسی طرح ایک بار مرضِ سحر میں بھی مبتلا ہوئے اور یہ سب لوازمات بشریہ میں سے ہیں ۔

.

علامہ ابن القیم رحمه الله زادالمعاد میں لکھتے ہیں :

.

قد انكر ھذا طائفة من الناس وقالوا : لايجوز ھذا عليه وظنّوه نقصا و عيبا وليس الامر كما زعموا ، بل ھو من جنس ما كان يعتريه صلى الله عليه وسلم من الاسقام والاوجاع وھو مرض من الامراض ، واصابته به كاصابة بالسمِّ لافرق بينھما… قال القاضي عياض : والسحر مرض من الامراض وعارض من العلل يجوز عليه صلى الله عليه وسلم كانواع الامراض مما لاينكر ولا يقدح فى نبوته ۔(زادالمعاد۳؍۷۶۷)

.

” لوگوں کی ایک جماعت نے اس واقعہ کا انکار کیا ہے اور کہا: ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم پر جادو کا تسلیم کرنا جائز نہیں ۔ اسے یہ لوگ نقص اور عیب سمجھتے ہیں ۔ (جو ایک نبی کی شان سے بعید ہے ) حالانکہ معاملہ ایسا نہیں ہے جیسا انہوں نے سمجھا ہے بلکہ وہ( سحر) ان امراض و بیماریوں اور تکلیفوں کی جنس سے ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش آئیں ۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر زہر کا اثر ہوا اسی طرح سحر کا بھی ہوا ۔ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں … قاضی عیاض فرماتے ہیں : سحر ایک مرض ہے اور دیگر امراض کی طرح اس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اثر کرنا جائز ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ اس سے آپ صلى الله عليه وسلم کی نبوت پر کوئی حرف نہیں آتا ۔“

.

اور اس سحر کا مرض ہونا خود حدیث بخاری سے ثابت ہے ، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ دو فرشتوں میں سے ایک نے پوچھا:

.

( (مَا وَجَعُ الرَّجُلِ؟ قَالَ : مَطْبُوْبٌ) )

.

یعنی اس شخص کو کیا بیماری ہے ؟

.

تو دوسرے نے کہا: ( (مَطْبُوْبٌ) ) (بخاری ، الطب ، السحر ، ح : ۵۷۶۳)

.

” ان پر جادو ہوا ہے ۔“

.

مختار الصحاح میں ہے :

.

الوجع المرض ۔ طب لفظ لغات اضداد میں سے ہے ، اس کے معنی داء اور دوا دونوں کے ہیں اور بمعنی جادو بھی آتا ہے ۔ پس معنی ہوئے کہ انھیں سحر کی بیماری ہے ۔ آخری روایت میں آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

.

.

”اَمَّا اَنَا فَقَدْ شَفَانِی اللّٰہُ“

.

(بخاري ، بدأ الخلق ، صفة ابليس ، ح : ۳۲۶۸)

.

” اللہ نے مجھے شفا دے دی ۔“

.

اور ظاہر ہے کہ شفا مرض ہی سے ہوتی ہے کیونکہ مرض کی ضد شفا ہے ۔ ظاہر ہے کہ مرض سے عصمت اور امور تبلیغی پر کوئی اثر ، نقصان وغیرہ کا واقع نہیں ہوتا جیسے نیند یا بخار کی غفلت یا نسیان عارضی کا عصمت پر اور امور تبلیغی پر کوئی اثر نہیں ہوتا اسی طرح کا سحر بھی ہے ۔

۔۔۔۔(جاری ہے ) ​

مسحور :
.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں جو مسحور کا لفظ اس آیت «إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا» (۲۵؍الفرقان : ۸)
.
(تم صرف ایک مسحور آدمی کی اتباع کر رہے ہو) میں آیا ہے ۔ چونکہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم پر سحر تسلیم کرنے سے کفار کے قول کی تصدیق ہوتی ہے ۔
.
سوالِ اول کی دو شقیں ہیں :
.
۱ : لفظ مسحور کی تحقیق جو قرآن میں وارد ہوا ہے ۔
.
۲ : حقیقت سحر النبی اور اس کا اثر ۔
.
پس واضح ہو کہ قرآن مجید میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت مقولہ « رَجُلًا مَّسْحُورًا» کفار دو مقامات ( بنی اسرائیل ، الفرقان) پر منقول ہے ۔
.
میری تحقیق اس مسئلہ کے متعلق یہ ہے کہ قرآن مجید عرب کے محاور ے میں نازل ہوا ہے اور عرب العرباء کبھی اسم مفعول کے لیے اسم فاعل کا لفظ بولتے ہیں جیسا کہ خود قرآن میں ہے ۔ «عيشة راضية» بمعنی «مرضية » ۔ «مائدة» بمعنی «ممدؤة»
.
اسی طرح کبھی اسم فاعل کے لیے اسم مفعول کا لفظ استعمال کرتے ہیں جیسے «ملک مرطوب » (تری والا ملک) «مکان مھول» (خوف دلانے والی جگہ) «جارية مغنوجة» (ناز کرنے والی لڑکی)
.
خود قرآن میں اس کی مثال «حِجَابًا مَّسْتُورًا» (۱۷؍بنی اسرائیل : ۴۵) ہے :
.
قال الاخفش : المستور ھھنا بمعني الساتر فان الفاعل قد تجيء بلفظ المفعول كما يقال انك لمشؤم علينا و ميمون وانما ھو شائم و يامن ۔
.
اخفش کہتے ہیں کہ مستور سے یہاں ساتر(ڈھانپنے والا) مراد ہے ، اسم فاعل کبھی مفعول کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، جیسے «مشؤم شائم»(نحوست والا) کے معنی میں جبکہ «میمون یأمن» (برکت والا) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔
.
اسی طرح ہر دو مقام پر مسحور بمعنی ساحر ہے اور اس پر چند دلیلیں ہیں :
.
۱ : کفار مکہ عام طور سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ساحر کہتے تھے نہ کہ مسحور ، سورۃ یونس میں ان کا مقولہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت «لَسَاحِرٌ مُّبِينٌ» (آیت۲) منقول ہے اور سورۃ ص میں «سَاحِرٌ كَذَّابٌ» (آیت۴) ہے ۔ پس بفحوائے تفسیر کلام اللہ اقرب الی الصواب (تفسیر کبیر جلد۳) دونوں جگہوں میں مسحور بمعنی ساحر ہے ۔
.
۲ : سورۃ بنی اسرائیل میں موسیٰ علیہ السلام کی بابت بھی فرعون کا مقولہ یوں منقول ہے :
.
«إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا» (آیت : ۱۰۱)
.
” یقیناً میں تو تجھے اے موسیٰ ! جادو زدہ سمجھتا ہوں ۔“
.
حالانکہ سارے قرآن میں فرعون اور اس کی قوم کا مقولہ جو منقول ہے وہ یہ ہے کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کو ساحر کہتے تھے ۔ سورۃالاعراف و سورۃالشعراء میں « لَسَاحِرٌ عَلِيمٌ» آیا ہے ۔ (دیکھیے سورۃالاعراف : ۱۰۹؛الشعراء : ۳۴)
.
سورۃ المؤمن میں «سَاحِرٌ كَذَّابٌ» (آیت۲۴) آیا ہے ۔
.
سورۃالذاریٰت میں « سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ » (آیت۳۹) آیا ہے ۔
.
سورۃ الزخرف میں «يَا أَيُّهَ السَّاحِرُ» (آیت۴۹) منقول ہے ۔
.
سورۃ طہٰ میں «بِسِحْرِكَ يَا مُوسَىٰ» (آیت۵۷) اور «إِنْ هَـٰذَانِ لَسَاحِرَانِ» (آیت۶۳) آیا ہے ۔
.
سورۃ طہٰ اور شعراء میں « وماۤ اكۡرهۡتنا عليۡه من السحۡر» ، اور «إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ» (طہ : ۷۱؛ الشعراء : ۴۹) وارد ہے ۔
.
پس جب فرعون اور اس کی قوم کے لوگ موسیٰ علیہ السلام کو ساحر کہتے تھے تو سورۃ بنی اسرائیل میں فرعون کے مقولہ منقولہ میں مسحور کو ساحر کے معنی میں لینا ہوگا ۔ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت کفار کا مقولہ جو (۱۷ : ۴۵) ہے ۔ یہاں بھی مسحور کو ساحر کے معنی میں ماننا پڑے گا ۔ فراء نحوی کا بھی یہی موقف ہے کہ یہاں مسحور بمعنی ساحر ہے ۔ تفسیر کبیر میں ہے کہ فراء کہتے ہیں :
.
ان المسحور بمعني الساحر كالمشؤم والميمون ۔
.
” مسحور ساحر کے معنیٰ میں ہے جیسے مشؤم اور میمون کے الفاظ ہیں ۔“
.
پس جب مسحور بمعنی ساحر ہوا تو حدیث متفق علیہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا) اس آیت کے مخالف نہیں ہوئی اور نہ کوئی ظلم و کفر لازم آیا اور اگر کوئی صاحب محاورہ عرب سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے ان تینوں دلیلوں کو ماننے پر آمادہ نہ ہوں تو کم سے کم انھیں اپنے فہمیدہ معنی کی اصلاح کر لینی چاہئے اور وہ یہ ہے کہ مسحور کے معنی ان مقامات میں (جادو کیا گیا) نہیں ہے بلکہ ” جادو دیا گیا “ یعنی کفار نے کہا: کہ تم ایسے شخص کی پیروی کرو گے جسے جادو کا علم دیا گیا ہے ۔ یعنی وہ ساحر ہے ۔ چنانچہ مشہور مفسر علامہ ابن جریر طبری نے یہی معنی مراد لئے ہیں ۔ ابن جریر طبری نے کہا:
.
معناه اُعطيت علم السحر فھذه العجائب التى تاتي بھا من ذلك السحر ۔
.
” مسحور کے معنی یہ ہیں تو جادو دیا گیا ہے ۔ پس یہ عجائبات (معجزات) اسی جادو کا نتیجہ ہیں ۔“
.
۳ : نیز کفار نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر بھی کہا ہے :
.
«قَالُوا أَبَعَثَ اللَّـهُ بَشَرًا رَّسُولًا» (۱۷؍بنی اسرائیل : ۹۴)
.
” انھوں نے کہا: کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے ۔“
.
«فَقَالُوا أَبَشَرٌ يَهْدُونَنَا» (۶۴؍التغابن : ۶)
.
” تو اُنھوں نے کہا: کیا بشر ہماری راہنمائی کریں گے !“
.
لہٰذا آیت (۱۸؍الکھف : ۱۱۰) ”فرما دیجیے کہ مَیں تم جیسا ایک بشر ہی ہوں“ اور حدیث ”اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ اَنْسٰی کَمَا تَنْسَوْنَ“ (مسلم ، المساجد ، السھو فی الصلاۃ… ح : ۵۷۲ ) (مَیں تو ایک بشر ہوں جس طرح تم بھول جاتے ہو مَیں بھی بھول جاتا ہوں ) سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بشر ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ اس سے چونکہ کفار کے قول کی تائید ہوتی ہے ۔ لہٰذا احادیث کے ساتھ ان آیات کو بھی نہیں ماننا چاہیے !
.
۴ : کفار نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بھی کہا:
.
.
«قَالُوا أَبَعَثَ اللَّـهُ بَشَرًا رَّسُولًا» (۱۷؍بنی اسرائیل : ۹۴)
.
” اُنھوں نے کہا: کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے ۔“
.
«وَقَالُوا مَالِ هَـٰذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ» (۲۵؍الفرقان : ۷)
.
” اور اُنھوں نے کہا: اس رسول کو کیا ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے ۔“
.
آیت « مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ» (۴۸؍الفتح : ۲۹) (محمد اللہ کے رسول ہیں ) اور حدیث ”اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ“ (بخاری ، الاذان ، التشھد فی الاٰخرۃ … ح : ۸۳۱) (میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں ) سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رسول ہونا ثابت ہوتا ہے ، اس سے چونکہ کفار کے قول سے اتفاق ہو جاتا ہے ۔ لہٰذا اِس آیت اور حدیث کو تسلیم نہیں کیا جائے گا !
.
۵ : کفار نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا: کہ وہ کھانا کھاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سب باتوں پر فرماتا ہے :
.
«انظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا» (۲۵؍الفرقان : ۹)
.
” دیکھیے اُنھوں نے آپ کے لیے کیسی مثالیں بیان کی ہیں ، تو وہ گمراہ ہو گئے ، پس اب وہ کوئی راستہ نہیں پا سکتے ۔“
.
لہٰذا آیت «كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ » (۵؍المائدۃ : ۷۵) (وہ دونوں کھانا کھاتے تھے ) اور حدیث عن ابي ايوب كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا اُتي بطعام اكل منه (مسلم ، الاشربة ، اباحة اكل الثوم…ح : ۲۰۵۳) ( ابوایوب سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھانا لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تناول کیا) سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانا کھانا ثابت ہے ۔ اس سے چونکہ کفار کے قول کی تصدیق ہوتی ہے ۔ جسے اللہ تعالیٰ نے ضلالت قرار دیا ہے ، لہٰذا یہ آیت اور حدیث ناقابل تسلیم ہیں ! ورنہ پھر تو الزامِ کفار کو غلط نہیں کہا جاسکے گا ۔
۔۔۔(جاری ہے ) ​

گزشتہ سے پیوستہ :۔۔۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کو قرآن کے خلاف قرار دینے کی مغلاطہ انگیزی

.

(از شہباز حسن)

.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جن میں جادو احادیث میں جادو کیے جانے کا بیان ہے انہیں منکرین حدیث خلاف قرآن کہہ کر بہت اچھالتے ہیں اس پر کبھی ”اصل بات تو وہ ہے جو قرآن کے خلاف نہ ہو , کا عنوان قائم کرتے ہیں اور کبھی ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو ہونے کے سلسلے میں بخاری کی تفصیل اور قرآن کی تردید“ کی سرخی جماتے ہیں اور یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم مخالفین کو لاجواب کردیا ہے لہذا وہ مانتے پر مجبور ہوگئے ہیں جیسا کہ اس عنوان سے ظاہر ہے : :قرآن کی بات اگر دلائل وبراہین سے پیش کی جائے تو پھر وہ تو چپک جاتی ہے ۔

.

(مطالب الفرقان فی دوروس القرآن (سورۃ بنی اسرائیل ) ص : 232)

.

«اِذْ يَقُوْلُ الظَّالِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا» (17 اسرائیل : 47) کی وضاحت میں اس بات پر منکرین حدیث بہت زور دیتے ہیں کہ ”کفار کاقول ہے“ ”قرآن خود یہ بتا رہا ہے کہ کفار کاقول تھا“ ”قرآن کی اس کی نفی کررہا ہے یہاں یہ کفار کا قول بتا رہا ہے ۔“ کفار کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف یہ قول ہے کہ «رَجُلًا مَّسْحُوْرًا» (17 /بنی اسرائیل : 47) ہے وغیرہ (ایضاًص 233-232)

.

جس سے وہ یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ قول کفار کے مطابق آپ رجل مسحور تھے تو اس طرح تو یہ کفار کے قول کی تصدیق یا موافقت ہوئی ۔ غلام احمد پرویز لوگوں سے دریافت کرتے ہیں :

.

”آپ کو معلوم ہے عزیزان ! کہ آپ کے ہاں کا عقیدہ کیا ہے اور کہاں سے وہ آیا ہوا ہے بخاری شریف میں حضور صلى الله عليه وسلم کے متعلق یہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر معاذ اللہ ایک یہودی نے جادو کردیا تھا آپ اس جادو کے اثر میں آگئے تھے اور کیفیت یہ تھی کہ آپ کو یاد ہی نہیں رہتا تھا کہ میں نے فلاں کام کیا ہے یا نہیں کیا ۔ حتیٰ کہ یہ بھی یاد نہیں کہ میں نے نماز پڑھ لی یا نہیں ۔ ”اس پر کسی نے جادو کردیا ہے“ قرآن اس کی نفی کررہا ہے یہاں پہ کفار کا قول بتا رہا ہے عزیزان من ! آپ کی معتبر ترین کتاب بخاری کی ہے اس میں یہ چیز ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر کسی یہودی نے جادو کردیا تھا اور بڑی لمبی تفصیل ہے کہ جادو کیسے کردیا تھا کس طرح سے آپ کی یہ کیفیت ہوگئی تھی آپ «رَجُلًا مَّسْحُوْرًا» معاذ اللہ بن گئے تھے ۔ پھر کس طرح سے یہ پتا لگایا کس طرح سے لوگوں کو وہاں بھیجا یہاں وہ تعویذ کالا جادو کیا ہوا کنویں میں سے نکالا پھر اس کا اثر زائل ہوا یہ ساری تفصیل دی ہوئی ہے یہاں قرآن یہ کہتا ہے کہ کفار کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف یہ قول ہے کہ وہ «رَجُلًا مَّسْحُوْرًا» ہے اور یہ کالا جادو لگائے ہوئے چلے آرہے ہیں“ ۔ (ایضاً)

.

حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیے جانے کے سلسلے میں پرویز کسی بھی قسم کی مفسرین کی پیش کردہ Justification ماننے کے لیے تیار نہیں وہ اس حدیث کا انکار کیوں کرتے ہیں ! اس کے بارے میں ان کا کہنا ہے :

.

”اس سے لیے انکار ہے کہ اول تو بہرحال عقل و بصیرت کی بناء یہ چیز آجاتی ہے عقیدت و احترام کو تو چھوڑیے عزیزان من ! خالص اس بناء پر یہ لیجیے کہ جو شخص دنیا کے اندر اتنا عظیم انقلاب پیدا کرتا ہے لاکھوں انسانوں کے دل کے اندر اور پھر باہر کی دنیا کے اندر بھی اتنا عظیم انقلاب پیدا کرتا ہے اس کی کیفیت یہ ہے جادو کا مارا ہوا انسان خود تو وہ کسی اور کے لیے یہ کچھ کرنا ایک طرف رہا اپنے لیے بھی کچھ نہیں کرسکتا جسے یہ بھی یاد نہ رہا ہو کہ میں نماز بھی پڑھ لی یا نہیں وہ اتنی عظیم مملکت کا بھی انتظام کرلے گا ؟ کتنے عظیم انسانوں کے قلب ونگاہ کی دنیا کو بدل کے رکھ دے گا ۔ کیا وہ «رَجُلًا مَّسْحُوْرًا» ہوگا؟ معاذ اللہ ! نہیں قطعاً نہیں (ایضاً ص : 233) ) !“

.

”دلائل وبراہین“ کی بات کرتے ہوئے پرویز صاحب گویا ہوئے : میری تو سند یہ ہوتی ہے کہ کیا قرآن کریم یہ کچھ کہتا ہے کہ یا یہ کفار مخالفین اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف آکر اس قسم کی کفر کی باتیں کرتے تھے کہ یہ ( رَجُلًا مَّسْحُوْرًا) ہے ؟ یہ ان پہ جادو کردیا ؟ قرآن خود یہ بتا رہا ہے کہ کفار کا قول تھا آپ ہم سے کہتے ہیں کہ مانیے کہ ہاں آپ «رَجُلًا مَّسْحُوْرًا» تھے اس پر کوئی کیا کرے یہ کیا بات ہوئی کہ نہ کوئی دلیل ہے نہ کوئی برہان ہے نہ محفوظ بات کو رد کرسکتے ہیں (مطالب الفرقن فی دوروس القرآن (سورۃ بنی اسرائیل ) ص : 232)

.

آگے چل کر پرویز پوچھتے ہیں اس پر بخاری اس حدیث کو کوئی کیا کرے ۔ (ایضاً ص : 234)

.

احمد مصطفیٰ مراغی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کے اثرات کی نفی اس بنیاد کرتے ہیں کہ اگر ایسا تسلیم کرلیا جائے تو مشرکین کاقول «اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا» (17 : 47) درست ثابت ہوتا ہے (تفسیر المراغی جزء 30 ص 268)

.

سید قطب نے اس سلسلے کی احادیث کو اس لیے بھی ماننے سے انکار کردیا ہے کہ ھذه الرويات تحالف اصل العصمة النبوية فى الفعل والتبليغ ”یہ روایات فعل و تبلیغ میں عصمت نبوت کے منافی ہیں۔“ (سید قطب ؛10/294 مطبعة عیسی البابی الحلبی ، مصر)

.

حقیقت یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیے جانے کے بارے میں بہت سی احادیث ہیں ۔ یہ احادیث صحیح بخاری ، مسلم ، سنن ابن ماجہ ، اور مسند احمد وغیرہ کتب حدیث میں موجود ہیں ۔ صحیح بخاری یہ حدیث کئی مقامات پر آئی ہے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :

.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا اور کیفیت یہ ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سمجھنے لگے کہ فلاں کام آپ نے کرلیا ہے حالانکہ وہ کام آپ نے نہیں کیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے دعا کی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تمھیں معلوم ہے اللہ نے مجھے وہ بات بتا دی ہے جو میں نے اس سے پوچھی تھی ۔“ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: اللہ کے رسول ﷺ ! وہ خواب کیا ہے ؟ فرمایا : ”میرے پاس دو مرد آئے اور ایک میرے سر کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا پاؤں کے پاس پھر ایک اپنے دوسرے ساتھی سے کہا: ان صاحب کی بیماری کیا ہے ؟ دوسرے نے جواب دیا ان پر جادو ہوا ہے ۔ پہلے نے پوچھا: کس نے جادو کیا ہے ؟ جواب دیا کہ لبیدبن اعصم نے ۔ پوچھا: وہ کس چیز میں ہے ؟ جواب دیا کہ کنگھی پر کھجور کے خوشہ میں ۔ پوچھا: وہ ہے کہاں؟ کہا: وہ ذروان میں اور ذروان بنی کا ایک کنواں ہے ۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کنویں پر تشریف لے گئے اور جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس دوبارہ واپس آئے تو فرمایا : ”واللہ اس کا پانی تو مہندی سے نچوڑے ہوئے پانی کی طرح تھا اور وہاں کے کھجور کے درکت شیطان کے سر کی طرح تھے ۔“ بیان کیا کہ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور انھیں کنویں کے متعلق بتایا ۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول ! پھر آپ نے اسے نکالا کیوں نہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”مجھے اللہ نے شفا دے دی اور میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ لوگوں میں ایک بری چیز پھیلاؤں ۔“ (بخاری الدعوات 80 ، تکریر الدعاء 57 ح 6391 ، نیز دیکھیے الطب 76 ، السحر 47 ، ح 5763 ، ھل یستخرج السحر 49 ، ح 5766 ، الادب78 ، ح 6063 ، الجزية والموادعة 58 ، ھل يعفي عن الذمي اذا سحر 14 ، ح 3175 ، مسند احمد 96 ، 64 ، 63 ، 57/6)

.

اس روایت میں ”آپ کو خیال گزرتا“ ان صاحب کی بیماری کیا ہے ؟ ”اور اللہ نے مجھے شفا دے دی ہے“ سے معلوم ہوتا ہے جادو سے صرف جسمانی تکلیف ہی محسوس کرتے تھے یعنی جادو کا اثر صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تک ہی محدود تھا نبوت ورسالت اس اثر سے محفوظ تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جادو کے اثر سے کوئی شرعی حکم یا عمل ترک نہیں کیا ۔ پرویز نے جو صحیح بخاری کے حوالے سے یہ کہا: کہ آپ کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ ”حتی کہ یہ بھی یاد نہیں کہ میں نے نماز پڑھ لی یا نہیں“ یہ وہی ”علمی دیانت“ ہے جس کا مظاہرہ وہ اکثر اپنی تالیفات میں کرتے رہتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کے اثر کرنے کی بنیاد پر انہوں نے ”جادو کا مارا ہوا انسان“ کے الفاظ غلو و مبالغہ آرائی کرتے ہوئے استعال کیے ہیں جو کہ علمی خیانت ہے ۔

.

حالانکہ اس سلسلے کی بخاری کی کسی بھی حدیث میں اس بات کا تذکرہ موجود نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھنے نہ پڑھنے کا بھی یاد نہیں رہتا تھا اوپر بیان کردہ حدیث میں آپ سمجھنے لگے کہ فلاں کام ”آپ نے کرلیا ہے حالانکہ وہ کام آپ نے نہیں کیا تھا“ کا تذکرہ ہوا ہے ایک حدیث بخاری میں كان يخيل اليه انه صنع شياء ولم يصنعه (ح : 3175) کے الفاظ ہیں ۔

.

بخاری کی ایک اور حدیث میں حتي كان يرى انه ياتي النساء ولا ياتيھن (ح 5765) کے الفاظ ہیں ليخيل اليه انه يفعل الشئ وما فعله (ح 5766) کے الفاظ ایک حدیث میں موجود ہیں ۔

.

اس معنیٰ و مفہوم کے الفاظ مسند احمد میں ہیں (مسند احمد 96 ، 63 ، 57/6)

.

ان حوالہ جات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر جسمانی حد تک تھا روحانیت اس سے متاثر نہیں ہوئی تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت وتبلیغ کی سرگرمیوں میں کوئی نہیں آیا ، یہی وجہ ہے کہ عام لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیے جانے واقعہ سے واقف تک نہ تھے امہات المؤمنین میں سے بعض اس سحر کے اثرات سے واقف تھیں ۔ جب یہ اثرات جسم کی حد تھ تھے تو سحر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اثر جانے کو عصمت نبوت کے منافی کیوں کر قرار دیا جاسکتا ہے !

.

پھر یہ بات قرآن کی نص سے ثابت ہے کہ وحی الہٰی میں کوئی شیطانی اثر نہیں ہوسکتا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : « وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّـهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّـهُ آيَاتِهِ» (22/الحج : 52)

.

”اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہ جب کوئی آرزو کرتا تھا تو شیطان اس کی آرزو میں (وسوسہ) ڈال دیتا تھا تو جو شیطان ڈالتا ہے اللہ اسے دور کرتا ہے پھر اللہ اپنی آیات کو مضبوط کردیتا ہے ۔“

.

لہٰذا رسول پر جو جسمانی عوراض طاری ہوں ان سے وحی الہیٰ اور احکام ربانی کو نقصان پہنچنے کا کوئی احتمال نہیں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

.

یہ بات یقینی طور پر ثابت ہے کہ یہ جادو شریعت کے احکام پر ہر گز اثرانداز نہیں ہوا ۔ بلکہ یہ اثر محض آپ کی ذاتی حثییت تک محدود رہا ۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس وقت تک آدھے سے ذیادہ قرآن نازل ہوچکا تھا عرب کے لوگ اس وقت دو متوازی فرقوں میں بٹ چکے تھے جن میں ایک فرقہ تو مسلمان تھا یا مسلمانوں کا حلیف اور دوسرا فرقہ ان کے مخالف . اگر اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر شریعت میں اثر انداز ہوتا ، یعنی کبھی آپ نماز ہی نہ پڑھاتے یا ایک کے بجائے دو پڑھا دیتے یا قرآن کی آیات خلط ملط کرکے یا غلط سلط پڑھتے یا کوئی اور کام شریعت منزل من اللہ کے خلاف سر زد ہوتا تو دوست و دشمن سب میں یعنی پورے عرب میں اس کی دھوم مچ جاتی جب کہ واقعہ یہ ہے کہ ہمیں ایک بھی ایسی روایت نہیں ملتی جس میں یہ اشارہ تک بھی پایا جاتا ہو کہ اس اثر سے آپ کے شرعی اعمال وافعال میں کبھی حرج واقع ہوا ہو ۔ (مولانا عبدالرحمٰن کیلانی : آئینہ پرویزیت ص : 727ط : 4 ، 2004ء مكتبة السلام وسن پورہ لاہور)

.

اگر جسم پر سحر کے اثر کی وجہ سے عصمت نبوت پر حرف آتا ہو تو موسٰی علیہ السلام پر جادو کا اثر نہ ہوتا جبکہ یہ بات تو قرآن سے ثابت ہے کہ موسیٰ علیہ السلام پر جادو کا اثر ہوگیا تھا ارشاد باری تعالیٰ ہے : «قَالَ بَلْ اَلْقُوْافَاِذَا حِبَالُـهُـمْ وَعِصِيُّـهُـمْ يُخَيَّلُ اِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِـمْ اَنَّـهَا تَسْعٰى فَاَوْجَسَ فِىْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْسٰى قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى» (20 طہٰ 66-68)

.

”موسیٰ نے کہا: تم ہی ڈالتے ہی ان کی رسیاں اور لاٹھیاں موسٰی کے خیال میں ایسے آنے لگیں کہ وہ دوڑ رہے ہیں تو موسٰی نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا ہم نے کہا: خوف نہ کرو ۔“

.

معلوم ہوا موسٰی علیہ السلام کے جسم پر جادو کا اثر ہوگیا تھا مگر جادو کی وجہ سے کفار ان پر غالب نہ آسکے تھے اسی طرح جادو کرنے سے یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب نہیں آگئے تھے بلکہ مسلسل دشمنان پیغمبر ذلیل سے ذلیل تر ہوتے گئے ۔

.

آیات مذکورہ میں موسیٰ علیہ السلام کے لیے «يُخَیَّلُ اِلَيْهِ» کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور بالکل یہی الفاظ اوپر بیان کردہ احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آئے ہیں اگر جادو کے اثر ہونے سے موسٰی علیہ السلام کو رجل مسحور کہنا درست نہیں تو پیغمبر علیہ السلام کو بھی «رَجُلًا مَّسْحُوْرًا» کہنا درست نہیں جیسا کہ پرویز باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ موسٰی علیہ السلام کے لیے بھی فرعون نے مسحورا کا لفظ استعمال کیا تھا :

.

«فَقَالَ لَهُ فِرْعَوْنُ إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا» (17 الاسراء : 101)

.

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی انہوں نے مسحورا کا لفظ استعمال کیا تھا :

.

«اِذْ يَقُوْلُ الظَّالِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا» (17/الاسراء : 47)

.

دوسری آیت میں یہ الفاظ ہیں : «وَقَالَ الظَّالِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا» (25/الفقران : 8)

.

فرق صرف اتنا باقی رہ جاتا ہے کہ موسٰی علیہ السلام پر جو جادو کا اثر «يُخَیَّلُ اِلَيْهِ» ہوا تھا اس کا ذکر قرآن میں ہے جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو جادو کا «يُخَیَّلُ اِلَيْهِ» ہوگیا تھا اس کا تذکرہ احادیث نبویہ میں ہے مگر پرویز صاحب کہتے ہیں :

.

”بخاری کی اس حدیث کو کوئی کیا کرے ۔“

.

(مطالب الفرقان فی دوروس القران (سورۃ نبی اسرائیل) ص : 234)

.

کیا انصاف پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پرویز کو یہ نہیں کہنا چاہئے تھا کہ موسٰی صلی اللہ علیہ وسلم کو مسحورا کہنے کا قول تو کفار کا تھا لہذا کی ان آیات کو کوئی کیا کرے جو یہ بیان کرتی ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کے جسم پر جادو کا اثر ہوگیا تھا اور وہ ڈر گئے تھے ؟؟

.

عبداللہ بن علی نجدی قصیمی لکھتے ہیں :

.

فتغير قدامه الاشياء ويظنھا على غير ماھي عليه فالا مثل الحديث (عبدالله بن على النجدي القصيمي : مشكلات الاحاديث النبوية وبیانھا ، ص : 56 ، ط : 1986/51406 ، المجلس العلمی السلفی ، لاھور)

.

”موسیٰ علیہ السلام کے سامنے چیزوں کی ماہیت بدل گئی پس آیت حدیث کی طرح ہے“

.

پرویز نے جس انداز سے احادیث سحر کی تردید کی ہے اس سے تو قرآن کی تردید کا پہلو بھی نکلتا ہے حدیث کی مخالفت میں ایسا ہونا بعید بھی نہیں ہے ۔

۔۔۔۔(جاری ہے ) ​

حدیث بخاری کو قرآن کے خلاف قرار دینے سے پہلے اگر پرویز نے ”خالی الذھن“ ہو کر رجلا مسحورا اور اس جیسی دیگر آیات کے سیاق وسباق پر غور کیا ہوتا تو ان پر الفاظ کے کہنے کا مقصد واضح ہوجاتا ہے اور وقتی طور پر جسم کے اثر کر جانے اور مسحور ہونے کا فرق بھی کھل جاتا ہے ۔

.

کفار جو نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم یا دیگر انبیاء کو مسحور یا مسحر کہا: تو اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ انبیاء کی نبوت کا دعویٰ جادو کے اثر کی وجہ سے ہے وہ انبیاء و رسل علیہم السلام کے پیش کردہ شرعی احکام یا معجزات کو جادو کا کرشمہ سمجھتے تھے ۔ مثلاً جب «تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ» ـ(نو واضح نشانیاں) کے ساتھ موسیٰ علیہ السلام مبعوث ہوئے تو فرعون نے آپ کو مسحورا ( جادو زدہ )کہا تھا ۔ (101 : 17)

.

سیدنا صالح علیہ السلام نے جب قوم کو دعوت توحید دی تو قوم نے «اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِيْنَ» (153 : 26) کے الفاظ سے انہیں جادو زدہ قرار دیا ۔ اور ان کی نبوت کو اس لیے نہ مانا کہ «مَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُـنَا» (156 : 24) ”تم اور کچھ نہیں ہماری طرح کے آدمی ہو ۔ “

.

اسی طرح کا جواب سیدنا شعیب علیہ السلام کو ان کو قوم نے دیا تھا (186 ۔ 185 : 26)

.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی جہاں مسحورا کا لفظ آیا ہے وہاں یہی بات تھی کہ وہ لوگ اپ کو نبی ماننے کے لیے تیار نہ تھے اور آپ کی تعلیمات کو جادو کا کرشمہ قرار دیتے تھے توحید الہٰی کا بیان سن کر بھاگ کھڑے ہوتے تھے اور سرگوشیاں کرتے تھے کہ تممسحورا آدمی کو پیروی کرتے ہو لہذا وہ گمراہ ہوگئے ۔ (دیکھیے الاسراء 17 : 47 ، 48)

.

دوسرے مقام پر تو اور بھی صراحت سے یہ بات بیان کی گئی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کفار جو طرح کے الفاظ استعمال کرتے تھے تو ان کا مقصد یہ تھا کہ ایسا شخص نبی نہیں ہوسکتا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

.

«وَقَالُوا مَالِ هَـٰذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ لَوْلَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا ﴿٧﴾ أَوْ يُلْقَىٰ إِلَيْهِ كَنزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا وَقَالَ الظَّالِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا ﴿٨﴾ انظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا﴿٩﴾»(25 /الفرقان : 9-7)

.

” اور انہوں نے کہا: یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نازل نہیں کیا گیا کہ اس کے ساتھ ہدایت کرنے کو رہتا یا اس کی طرف خزانہ تارا جاتا اس کا کوئی باغ ہوتا کہ اس میں سے کھایا کرتا اور ظالموں نے کہا: کہ تم تو ایک جادو زدہ شخص کی پیروی کرتے ہو ۔ دیکھو تو یہ تمھارے بارے میں کس کس طرح کی باتیں ہیں سو گمراہ ہوگئے اور راستہ نہیں پاسکتے ۔ “

.

تو کیا کفار کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاذ اللہ «رجلاً مسحورا» کہنا اور مسلمانوں کا معتبر احادیث کی روشنی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کا جسمانی اور وقتی اثر تسلیم کرنا ایک جیسا ہے ؟ بینھما بعد ساشع ۔ ۔ ۔ ٰ

.

یہاں ایک اور چیز بھی قابل غور ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سحر کی وجہ سے بعض چیزیں یاد نہیں رہتی تھیں یہ کیفیت چند ماہ کبھی کبھی ہوجاتی تھی جبکہ سحر کے بغیر بھی انبیاء ورسل علیہم السلام کا نسیان ثابت ہے ۔ وحی خفی کے انکار کے وقت منکرین حدیث ایسے دلائل کے انبار جمع کردیتے ہیں تاکہ اپنا مقصود حاصل کریں ۔

.

سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنے لیے «نَسِيتُ» ( 18/الکھف 63 ، 73) ”میں بھول گیا“ کالفظ استعمال کیا موسٰی علیہ السلام اور ان کے ساتھی یوشع بن نون دونوں کے لیے «نَسِيَا» (18 الکھف : 61) (وہ دونوں بھول گئے ) کا لفظ قرآن میں آیا ہے آدم علیہ السلام کے لیے«نَسِیَ» (طہٰ 20 : 115) ”وہ بھول گیا“ کا لفظ قرآن میں ہے جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اللہ تعالیٰ نے «وَاذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ» (18 الکھف 24) اور «فَلَا تَنْسَىٰ»(87الاعلٰی : 6) فرماکر «إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ» کا استثناء کرکے نسیان کا اثبات کیا ۔ مولانا عبداللہ بن علی القصیمی لکھتے ہیں :

.

فما كان جوابا لھم عن النسيان كان جوابا لنا عن السحر (مشکلات الاحادیث النبوية ویبانھا ، ص : 53)

.

”جو جواب ان کا نسیان کے بارے میں ہوگا وہی ہمارا جواب سحر کے بارے میں ہوگا ۔ “

.

انبیاء ورسل علیہم السلام کے نسیان کے باوجود تبلیغ رسالت میں کوئی حرف نہیں آیا اور نہ کوئی خلل واقع ہوا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کی مسلسل راہنمائی اور حفاظت کرتا تھا اس لیے اگر ان سے کبھی کوئی لغزش ہوتی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی فوراً تصحیح کردیتا ۔

.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بعض دفعہ بھول جاتے تھے مگر اس نسیان کی وجہ سے کوئی شرعی حکم متاثر نہیں ہوا بلکہ آپ نے نسیان میں بھی امت کے لیے مکمل اسوہ حسنہ بننے کی حکمت موجود ہوتئ تھئ کہ امت بھی کسی عمل کی ادائیگی بھول جائے تو اسی طرح کرے جیسے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا ۔ بھولنے پر آپ کی کسی نی کسی ذریعے سے یاد دہانی ہوجاتی تھی ۔ اسی طرح حالت سحر میں بھی آپ کا بھول جانا تبلیغ رسالت میں مخل نہیں ہوا ۔ پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد منصوری اپنے مقالے ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کی حقیقت اور مفسرین“ کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

.

” مفسرین کرام نے عمل سحر کے اثرات کی مطلقاً نفی نہیں کی ۔ ہاروت ماروت کا جادو سکھانے کا واقعہ اور ساحرین کا فرعون کے جادو کے اثرات اثبات سحر کی نقلی دلیل ہین عقل وقیاس بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ اگر انیباء کرام علیہم السلام کو زخم بیماری اور بچھو کا کاٹنا تکلیف دے سکتا ہے تو جادو کے اثرسے جسمانی یا روحانی اذیت پہنچنا بھی ایسا ہی عمل ہے ساحرین فرعون کے عمل سحر سے دیگر لوگوں کی طرح سیدنا موسٰی علیہ السلام پر بھی خوف طاری ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو تسلی دی اور کہا: کہ تم جو تمھارے داہنے ہاتھ میں ہے سے پھینکو یہ سب کچھ نگل جائے گی ۔

.

احمد مصطفیٰ المراغی سید قطب شہید رحمه الله اور امین احسن اصلاحی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کو عصمت انبیاء کے خلاف قرار دیا ہے اس سلسلے میں جواحادیث ہیں وہ عام طور پر خبر احاد ہیں لییکن خود انہی بزرگوں نے کسی حد تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کے اثرات کو درست بھی تسلیم کیا ہے ۔

.

سید قطب رحمہ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کی روایات میں سے کچھ کو صحیح تسلیم کرتے ہیں ۔ تو اگر یہ متعدد روایات ہیں اور صحاح ستہ کی اکثر کتب میں مستند طور پر روایت کی گئی ہیں تو پھر ان کی صحت کو تسلیم کرنے سے انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔

.

محترم اصلاحی صاحب نے یہ تسلیم کیا ہے کہ انبیاء کرام پر جادو کے اثرات عارضی طور پر ہو سکتے ہیں ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ عام طور پر جو مفسرین کرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم سحر کی نفی کرتے ہیں وہ اسے یکسر رد نہیں کرتے ۔ “

.

احادیث کی حثیت کے بارے میں ڈاکٹر موصوف لکھتے ہیں :

.

” جہاں تک احادیث کے خبر احاد ہونے کا تعلق ہے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ خبر احاد کو محض اس لیے رد نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی حثیت خبر واحد کی ہے خبر واحد کو ان بزرگوں نے صحیح بھی قرار دیا ہے ۔ سب کی صحت پر اعتراض نہیں کیا جہاں تک عصمت انبیاء علیہم السلام کا تعلق ہے وہ اس سحر کے اثر سے متاثر نہیں ہوتی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کے اثرات جسمانی و ذاتی اور باطنی حد تک تھے ان اثرات کو صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو محسوس کررہے تھے کسی اور پر ہرگز ظاہر نہ ہوتے تھے البتہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے تفصیل بیان کی اور کنویں میں سے مواد سحر کو نکالا گیا تب اکثر لوگوں کو پتا چلا ۔

.

جب تک آپ پر جادو کا اثر رہا آپ جسمانی کرب وتکلیف فرماتے رہے لیکن کسی فریضہ کی ادائیگی میں کوئی کمی بیشی واقع نہ ہوئی ۔ (پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد منصوری رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کی حقیقت اور مفسرین محدیث (ماہنامہ) ص 61 فروری 1990)

.

اس ساری بحث سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ منکرین احادیث کو رد کرنے کے لیے جس طرح انھیں قرآن کے خلاف قرار دیتے ہیں اسی انداز کو اگر قرآن میں جاری و ساری کریں تو بہت سی آیات متضاد قرار پاکر ان کے نزدیک کالعدم ہوجائیں ہاں اگر محدیثین کے اصول پر چلیں تو کوئی بھی صحیح حدیث انہیں قرآن سے متصادم نظر نہیں آئے گی ، بلکہ اکثر احادیث تفسیر القرآن بالحدیث کے اصول تفسیر میں قدم قدم پر فہم قرآن میں مدد کریں گی ، مگر منکرین حدیث اور غلام احمد پرویز کے نزدیک صرف وہی حدیث صحیح ہوسکتی ہے جو قرآن کے مطابق ہو ۔ ا س لیے تفسیر القرآن بالحدیث میں پرویز بعض احادیث بھی ذکر کردیتے ہیں جو ان کے فہم قرآن کی تائید کرتی ہیں یا جن سے (بزعم خویش) مخالفین کو لاجواب کرنا مقصود ہوتا ہے تفسیر میں جو احادیث وہ بیان کرتے ہیں وہ صرف اپنے مطلب کی حد تک لیتے ہیں ورنہ اصول محدیثین کے مطابق وہ کسی بھی حدیث کو تسلیم نہیں کرتے ۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے راقم الحروف کا پی ایچ ڈی کا مقالہ : عربی لغت سے استدلال اردو تفسیری ادب کے رجحانات)

۔۔۔(جاری ہے ) ​

دجال :

.

منکرین حدیث واقعہ کو ایک فسانے سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بہت سی احادیث میں اپنی امت کو مسیح دجال کے فتنے سے ڈرایا اور بتایا ہے کہ یہ روئے زمین کا سب سے بڑا فتنہ ہوگا جس سے ہر ایک مسلمان دو چار ہوگا ۔ مسیح کا مطلب ہے ممسوح العينکیونکہ اس کی ایک آنکھ نہ ہوگی ۔ سیدنا عیسٰی علیہ السلام کو مسیح اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ دجال کو قتل کریں گے کیونکہ عربی میں کہا جاتا ہے :

.

مسَحَ الله العِلَّةَ عن العليل ”اللہ نے بیماری سے شفا دی ۔ “

.

چونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے عیسٰی علیہ السلام مریض پر ہاتھ پھیرتے تھے وہ اچھا ہوجاتا تھا اور مسح فلانا بالسيف کا مطلب ہے قتل کرنا ۔ چونکہ عیسیٰ علیہ السلام دجال کو قتل کریں گے اسی وجہ سے انہیں مسیح کہا گیا ہے اور عربی میں مسیح کانا کو بھی کہتے ہیں چونکہ دجال کانا ہوگا ۔ (بخاری الفتن ذکر الدجال ح 7131) اسی وجہ سے مسیح کہا جاتا ہے ۔

.

سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ ایک کشتی پر سوار ہوئے کشتی ایک جزیرے پر جا پہنچی یہ جزیرہ قبرص (Cyprus) کے قریب تھا اس جزیرے پر انہوں نے ایک جانور جساسہ دیکھا جس کا چہرہ انسان کا چہرہ تھا اور بدن پر بال بہت زیادہ تھے مگر پتا نہ چلتا تھا کہ وہ مرد ہے یا عورت ۔ اس کے بعد دجال کو دیکھا جو بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا ۔

.

(مسلم الفتن قصة الجساسة ۔ ح 2942)

.

دجال یہودیوں میں سے ہوگا ۔ یہ ایران کے شہر خراسان سے نکلے گا بعض کہتے ہیں کہ اصفہان سے نکلے گا یہ بھی خراسان ہی کے قریب ہے اور ستر ہزار یہودی اس کے ساتھ ہوجائیں گے جو دجال کا لشکر ہوں گے ان کے جسموں پر طیالسہ یعنی طیلسانی (ہرے رنگ جیسے )کپڑے ہوں گے(مسلم الفتن فى بقية من احاديث الدجال ح 2944) :

.

دجال کے ہاتھوں بہت سی خرق عادت چیزوں کا ظہور ہوگا وہ ویران جگہ سے خزانہ نکال دے گا ۔ مردے کو بظاہر زندہ کردے گا جنت و جہنم دکھائے گا اس کی جنت جہنم ہوگی اور جہنم جنت ہوگی جب یہ نکلے گا تو پہلے ایمان اور عمل صالح کی دعوت دے گا مگر بعد نبوت کا دعویٰ کرے گا اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ک ف ر (کافر) لکھا ہوا ہوگا جسے نہ صرف پڑھا لکھا ان پڑھ مسلمان بھی پڑھ لے گا البتہ کافر ومنافق نہ پڑھ سکیں گے (اگرچہ وہ کتنے ہی پڑھے لکھے ہوں۔ )

.

پھر عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا دمشق شام میں منارہ شرفیہ کے پاس اتریں گے مہدی کا ظہور ہوگا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے ہوں گے وہ زمین کو عدل وسلامتی سے بھر دیں گے عیسٰی علیہ السلام مہدی کے پیچھے نماز پڑھیں گے اور مہدی شریعت محمدیہ کے مطابق فیصلہ کریں گے پھر عیسٰی علیہ السلام دجال کا پیچھا کریں گے اور اسے فلسطین کے ایک مقام باب لد کے پاس قتل کریں گے ۔ (دیکھیے بخاری الفتن ذکر الدجال ح 7130 ، 7131 ، مسلم ، الفتن ، ذکر الدجال ، ح 2937)

.

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں دابة الارض اور یاجوج ماجوج کا ذکر فرمایا مگر دجال کا نام ذکر نہیں فرمایا !

.

جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اشارتاً اس کا ذکر فرمایا ہے : «يَوْمَ يَاْتِىْ بَعْضُ اٰيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًااِيْمَانُـهَا» (6/الانعام : 158)

.

”جس دن آپ کے رب نشانیاں ظاہر ہوں گی تو کسی اس وقت ایمان لانا فائدہ نہ دے گا ۔ “

.

اس ایت کی تفسیر ایک حدیث اس طرح کرتی ہے :

.

ثلاث اذا خرجن جن یعنی تین چیزوں کا جب ظہور ہوگا تو کسی کو اس کا ایمان لانا فائدہ نہ دے ایک ہے سورج کا مغرب سے نکلنا دوسرا دابة الارض کا نکلنا تیسرا دجال کا نکلنا ۔

.

(ترمذی التفسیر ومن سورۃ الانعام ح 3072)

.

نسخ :

.

منکرین حدیث قرآن میں نسخ کے بھی قائل نہیں ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : «مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ» (2/البقرۃ : 106) ”جو بھی آیت ہم منسوخ کرتے ہیں“

.

قرآن میں نسخ کا بین ثبوت ہے ۔

.

ملحوظہ : ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نسخ شیعہ کے عقیدے ”عقیدہ بدا“ کے خلاف ہے ۔ بدا کا مطلب ہے کہ پہلے کوئی حکم دیا پھر اس حکم میں کسی غلطی یا نقصان کا علم ہوا تو اسے بدل دیا ۔ بدا کے مفہوم میں غلطی اور خطا داخل ہے ۔

.

نسخ کا مطلب کہ ایک حکم کا زمانہ ختم ہوجائے اور دوسرے حکم کا زمانہ آجائے تو پہلے حکم کو بحکمت بالغہ دوسرے حکم سے بدل دیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور اس کی کتاب قرآن بھی حکمت والی کتاب ہے ایک حکیم کسی مریض کے مرض کی تشخیص کے بعد اس کا علاج کرتا ہے تو مریض کی حالت جیسے جیسے بہتر ہوتی جاتی ہے وہ دوا بدلتا جاتا ہے مرض کی ابتداء سے لے کر انتہاء تک ایک ہی دوا دیتے جانا حکمت خلاف ہے ۔

.

نسخ سابقہ شریعتوں میں بھی رہا ہے جیسے بہن بھائیوں کی شادی شریعت آدم علیہ السلام میں جائز تھی بعد میں حرام ہوگئی ۔

.

اسی طرح شریعت یعقوب علیہ السلام میں دو سگی بہنوں سے ایک ساتھ نکاح درست تھا بعد میں اسے حرام قرار دیا گیا ۔

.

سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ذبح کا حکم دیا پھر ذبح سے پہلے اس حکم کو منسوخ کردیا ۔

.

قانون الہیٰ کے نسخ میں انسانوں کے لیے بہت سی مصلحتیں ہیں کوئی قانون کسی سبب کے تحت کوئی حکم نافذ کرتا ہے مگر جب سبب زائل ہوجاتا ہے تو اس حکم کو اٹھالیا جاتا ہے ۔ ؎ ۱

.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے قربانیوں کے گوشت کے ادّخار ( ذخیرہ کرنے ) سے منع فرمایا تھا مگر جب صحابہ رضی اللہ عنہم میں معاشی خوشحالی آئی تو اس حکم کو منسوخ کردیا ۔ (دیکھیے مسلم ، الاضاحی ، بیان ما کان من النھی عن اکل الحوم الاضاحی ۔ ۔ ۔ ۔ ح 1969 ، 1970 ، 1971 ، 198 ، 1972)

.

قرآن میں شراب کی حرمت کے نزول میں تدریج در حقیقت اسی حکمت کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔

.

نسخ کبھی صریحی کبھی کلی اور کبھی جزئی ہوتا ہے قرآن میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ایک مثال کو ذہن میں رکھنا کافی ہوگا اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

.

«كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَـرَكَ خَيْـرَا ِ الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِـدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِيْنَ» (2 البقرۃ 180)

.

”تم پر فرض کردیا گیا جب تم میں کسی کو موت آ پہنچے اگر اس نے کوئی مال چھوڑا ہو اچھے طریقے کے ساتھ وصیت کرنا ماں باپ اور رشتہ داروں کے لیے متقی لوگوں پر یہ لازم ہے ۔ “

.

یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ انسان مرتے ماں باپ کے لیے ترکے میں وصیت کرسکتا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے آیت میراث «يُوْصِيْكُمُ اللّـٰهُ فِىٓ اَوْلَادِكُمْ» (4 النساء 11) میں یہ حکم منسوخ کردیا یہ آیت پہلی آیت کے لیے ناسخ ہے اور پہلا حکم منسوخ ہے جمہور کی رائے یہی ہے ۔

.

.

——————

.

؎ ۱: وحی بند ہونے کے بعد اگر کسی حکم کا سبب بالفرض زائل بھی ہوجائے تو وہ حکم باقی رہے گا ، کیونکہ اسے ختم کرنے کا اختیار امت میں سے کسی کے پاس بھی نہیں ، اور نہ اس کی جگہ پر کوئی نیا حکم دیا جاسکتا ہے ، کیونکہ منسوخ کرنا اور ناسخ لانا وحی کے ذریعے ہی ہوتا ہے ۔ جیسا سورۃ البقرۃ ( آیت 106 ) میں واضح کیا گیا ہے ۔ ( شہباز حسن )​

ظہور مہدی :

.

ظہور مہدی اسلامی عقیدے کا ایک جزو ہے اس کے بارے میں احادیث نبویہ تواتر کے درجے تک پہنچ چکی ہیں حوت بیروتی ، رشید رضا ، فرید وجدی وغیرہ اور مشہور گولڈ زیہر جیسے لوگوں نے ظہور مہدی کا انکار کیا ہے انہوں نے بڑے شد ومد کے ساتھ اس کی تردید کرنے کی کوشش کی ہے ۔

.

عیسائیوں کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام مہدی منتظر ہیں جبکہ اسلامی عقیدے کی رو سے میں وہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ذریت اور سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی اولاد میں سے ہوں گے ۔ ان کا نام محمد یا احمد بن عبداللہ ہوگا وہ جب آئیں گے تو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور ظلم وجور کا خاتمہ ہوجائیگا مال کی اتنی کثرت ہوگی کہ ہوئی صدقہ لینے والا نہ ہوگا ۔

.

مہدی کی پوری دنیا میں بطور خاص عرب پر سات سال حکومت رہے گی ۔ مہدی کی وفات کے بعد زمام خلافت سیدنا عیسٰی علیہ السلام کے ہاتھوں میں ہوگی اور انہی کے دور میں یاجوج ماجوج کا ظہور ہوگا اور انہی کی دعا سے یاجوج ماجوج ہلاک ہوں گے ۔

.

امام شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ فرمایا کہ مہدی منتظر کے متعلق احادیث کی تعداد پچاس ہے جن میں کچھ صحیح کچھ حسن درجہ کی اور کچھ ذرا ضعیف ہیں مہدی کے متعلق روایت کرنے والے صحابی کی مجموعی تعداد ۲۶ ہے اور اس متعلق کم و بیش ۲۸ آثار بھی ہیں ۔

.

مہدی کوئی ذاتی نام نہیں ہوگا بلکہ لغوی ”ہدایت یافتہ“ کے ہوں گے ان کے ظہور کی کسی حتمی تاریخ اور دن کی صراحت نہیں ملتی ہاں اس وقت روئے زمین پر عدل و انصاف نام کی کوئئی چیز نہ ہوگی ۔ چارون طرف ظلم وجوار اور جبر استبداد کا دور دورہ ہوگا اس وقت لوگ مہدی کے منتظر ہوں گے رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان ان کی علامات دیکھ کر انہیں پہچان لیا جائے گا ۔ اور پھر ان پر بیعت کا سلسلہ جاری ہوجائے گا ۔

.

اس وقت مسلم حکومت جس کا دار الخلافہ دمشق ہوگا اسے اپنے خلاف سمجھ کر مہدی سے لڑنے کے لیے نکلے گی اور مکہ سے پہلے ہی ایک مقام بیداء میں ایک آدمی کو چھوڑ کر سارا لشکر دھنس جائے گا ۔ (مسلم الفتن الخسف بالجیش الذی ۔ ۔ ۔ ۔ ح 2882 ، 2884)

.

وہی آدمی وآپس جاکر اس واقعہ کی صحیح اطلاع دے گا ۔ پھر یہ خبر پوری دنیا میں پھیل جائے گی ۔ اور سب لوگوں کو یقین ہوجائے گا کہ حقیقت میں مہدی منتظر یہی ہیں اور لوگ جوق در جوق چل کر ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے بیعت کی شروعات رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان سے ہوگی مہدی کو خود علم نہ ہوگا کہ وہ مہدی ہیں یہاں تک کہ لوگ خود ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے وہ خود خلافت کے دعوے دار نہ ہوں گے ۔

.

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہدی میرے اہل یت میں سے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی خلافت کا انتظام ایک ہی رات میں کر دے گا ۔ (ابن ماجہ ، الفتن ، خروج المھدی ، ح 4085)

.

سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ مہدی ہم میں سے ہوں گے جب کے پیچھے عیسٰی ابن مریم نماز پڑھیں گے ( ابونعیم فی کتاب المھدی وذکرہ المناوی فی فیض القدیر وھو صحیح ، اس سے ملتی جلتی روایت صحیح مسلم میں بھی ہے دیکھیے مسلم الایمان نزول عیسی بن مریم ۔ ۔ ۔ ۔ 156)

.

اس سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ عیسٰی علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے پابند بن کر اتریں گے کوئی نیا دین لے کر نہیں آئیں گے نہ عیسائیت ہی کے مبلغ ہوں گے ۔ سب لوگ مسلمان ہوجایئں گے اور اسلام غالب آجائے گا ۔

.​

اللھم اعزالاسلام والمسلمين

﴿اختتام﴾

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں