Search

صحیح بخاری کی احادیث و روایات اور بعض دوسری صحیح احادیث کا دفاع

یہ مضمون اس سے پہلے کہیں شائع نہیں ہوا۔ اس مضمون میں کمپوزنگ کی غلطیاں ہو سکتی ہیں کیونکہ اسے ان پیج پروگرام سے یونیکوڈ میں تبدیل کیا گیا ہے۔
اصل مضمون کے لئے پی ڈی ایف  کھولیں۔
ایک معترض صحیح بخاری کی احادیث کے متعلق لکھتا ہے کہ:
’’بخاری شریف کی چھ روایات کے راوی اکثریت جھوٹے اور ضعیف‘‘
یہ عنوان قائم کرنے کے بعد لکھتا ہے: ’’۱: مسیب …….. (سکین)
روایت نمبر 1، 2، 3، 4 میں ابتدائی راوی مسیب ہیں جن کے متعلق بخاری کی شرح لکھنے والے دو علماء کا بیان ملاحظہ ہو:
’’اہل سنت کی معتبر کتاب کرمانی شرح بخاری جلد 7صفحہ 142… الخ۔‘‘
ذیل میں معترض کی ہر ہر بات نقل کر کے اُس کا جواب دیا گیا ہے، پہلا اعتراض جو کہ اوپر مسیب کے عنوان سے ہے اس کا جواب:

مسیب بن حَزن رضی اللہ عنہ:

صحابی رسول ﷺ ہیں، ان کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب التہذیب میں لکھا ہے:

’’لہ ولأبیہ صحبۃ۔ (ت 6774)‘‘

حافظ ابن عساکر لکھتے ہیں:

’’لہ صحبۃ وھو ممن بایع تحت الشجرۃ، وروی عن النبي ﷺ حدیثا ، وعن أبیہ حزن ابن أبي وھب.‘‘

(تاریخ دمشق 181/58)

ابن قانع نے معجم الصحابۃ، ابو نعیم الاصبہانی نے معرفۃ لصحابۃ ، ابن عبد البر نے الاستیعاب، ابن الاثیر نے اسد الغابۃ، حافظ ابن حجر نے الاصابۃ، صحابہ میں ذکر کیا ہے، ان کے صحابی ہونے میں شک نہیں ہے۔
بلکہ الامقانی (شیعہ) اپنی کتاب تنقیح المقال فی علم الرجال میں لکھتا ہے:

’’المسیب بن حزن أبو سعید صحابي اٰماميّ حسن.‘‘

(15/1ت11814)

آگے مسیب بن حزن کے ترجمہ کے تحت لکھتا ہے:

’’وقد حضر بیعۃ الرضوان و قد عدہ الشیخ رہ في رجالہ من غیر کنیۃ من أصحاب رسول اللّٰہ ؐ و نقل فی المنہج عدّہ مرّۃ اخری من اصحاب عليؑ ‘‘

(217/3)

اور محمد الجواھری: المفید من معجم رجال الحدیث میں لکھتا ہے:

مسیب بن حزن: من أصحاب رسول اللّٰہ (ص) رجال الشیخ۔ عنوانہ العلامۃ: مسیب بن حزن ’’حرب‘‘ یکنّی أبا سعید. وقال ابن داود المسیب بن جرّي یکنی أبا سعید ’ی‘‘ ’’جخ‘‘ أقول ما ذکراہ ھوا الصحیح. و في بعض النسخ میسرۃ بن المیسب وھو خطأ.‘‘

(ص 605)

اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اہل سنت اہل حدیث کا اجماعی قاعدہ ہے کہ ’’الصحابۃ کلھم عدول‘‘ چند ایک حوالے درج ذیل ہیں:
۱: ابن صلاح:

لأن الصحابۃ کلھم عدول ، واللّٰہ أعلم

(میانۃ صحیح مسلم:178)

۲: ابن شاہین:

لأنّ الصحابۃ علیہم السلام أرفع حالاً من أن یقال لھم: ثقۃ، ھم عدول الدِّین.

(شرح مذاہب أھل السنۃ لابن شاہین ص 45)

۳: قاضی محمد بن عبد اللہ ابو بکر بن العربی نے اپنی کتاب العوصم من القواصم (ص32) میں عنوان قائم کیا ہے:

’’أصحاب رسول اللّٰہ ﷺ عدول‘‘

۴: ابن الاثیر:

الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم أجمعین عدول بتعدیل اللّٰہ تعالٰی و رسولہ لا یتاجون إلی بحث عن عدالتھم.

(جامع الأصول 89/1)

۵: ابن عبد البر:

و نحن و إن کان الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہ قد کفینا البعث عن أحوالھم لإجماع أھل الحق من المسلمین وھم أھل السنۃ والجماعۃ علی أنھم کلھم عدول.

(الاستیعاب فی اسماء الأصحاب 18/1)

لان الصحابۃ کلھم عدول موضیون وھذا أمر مجتمع علیہ عند أھل العلم بالحدیث.

(الاستذکار 301/3)

۶: ابن ابی حاتم: الصحابۃ کاعنوان قائم کر کے اس کے تحت لکھتے ہیں:

سماھم عدول الامۃ ۔۔۔ فکانوا عدول الأمۃ وأئمۃ الھدي وحج الدین و نقلۃ الکتاب والسنۃ.

(تقدمۃ الجرح والتعدیل 7/1)

۷: ابن بطال:

أن الصحابۃ کان یأخذ بعضھم العلم عن بعض و یصدق بعضھم بعضًا و کلھم عدول رضیً . وھم خیر أمۃٍ أخرجت للناس.

(شرح ابن بطال 46/10)

۸: القرطبی:

فالصحابۃ کلھم عدول ، أولیاء اللّٰہ تعالی و أصفیاؤہ، و خیرتہ من خلقہ بعد أنبیاۂ و رسلہ، ھذا مذہب أھل السنۃ و الذي علیہ الجماعۃ من أئمۃ ھذہ والأمۃ.

(الجامع لا حکام القرآن 299/16)

۹: ثم انّ الامّۃ مجمعۃٌ علی تعدیل جمیع الصحابۃ و من لا بس الفتن منھم فکذلک بإجماع العلماء الذین یعتدّ بھم فی الإجماع.

(معرفۃ أنواع علم الحدیث لابن الصلاح ص 398)

۱۰: خطیب بغدادی:

لکون جمیعھم عدولا فرضین.

(الکفایۃ 436/2)

۱۱: ابن الترکمانی حنفی:

الصحابۃ وھم عدول فلا یضرھم الجماعۃ.

(الجواھر النقی 83/1)

۱۲: علامہ نووی:

الصحابۃ کلھم عدول ، من لا بس الفتن وغیرہم باجماع من یعتدّبہ.

(تقریب والتیسر :457)

۱۳: الہیثمی: اپنی کتاب مجمع الزوائد میں عنوان قائم کیا ہے:

باب لا تضر الجھالۃ بالصحابۃ لأنھم عدول.

(مجمع الزوائد 153/1)

۱۴: ابن کثیر:

والصحابۃ کلھم عدول عند أھل السنۃ والجماعۃ.

(اختصار علوم الحدیث ص1810)

۱۵: حافظ ابن حجر عسقلانی:

اتفق أھل السنۃ علی أن الجمیع عدول.

(الاصابۃ 9/1)

آگے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے:

إذا رأیت الرجل ینقص أحداً من أصحاب رسول اللّٰہ a فأعلم أنہ زندیق.

(الاصابۃ 10/1)

ان سب علماء و محدثین رحمہم اللہ اجمعین نے صراحت کی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم عادل ہیں۔
معترض نے مسیب رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’بخاری کی شرح لکھنے والے دو علماء کا بیان ملاحظہ ہو‘‘ پھر دونوں کی عبارات کو یکجا ہی لکھ دیا گیا ہے اور پوری عبارت بھی نہیں لکھی۔
کرمانی شرح بخاری میں پوری عبارت یوں ہے:

((سعید بن المسیب)) بفتح الیاء علی المشھور و بکسرھا. قال النووي: لم یرو عن المسیب الا ابنہ ففیہ رد علی الحاکم أبي عبد اللّٰہ فیما قال ان البخاري لم یخرج عن أحد ممن لم یروعنہ إلا واحد ولعلہ أراد من غیر الصحابي.

نووی (رحمہ اللہ) کہتے ہیں: مسیب (رضی اللہ عنہ) سے ان کے بیٹے کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی اس میں ابو عبد اللہ الحاکم کے اس قول کا رد ہے کہ (امام) بخاری( رحمہ اللہ) نے ان رواۃ کی احادیث نہیں بیان کیں کہ جن سے صرف ایک راوی ہی نے روایت بیان کی ہو اور شاید کہ ان کی مراد صحابی نہ ہو۔

(البخاری شرح الکرمانی 143/17)

کرمانی کی عبارت کا حوالہ دیا گیا تھا۔ اس عبارت میں کرمانی نووی کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں۔ اور علامہ نووی کی یہ بات ان کی کتاب شرح صحیح مسلم (213/1) میں موجود ہے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ اس میں امام ابو عبد اللہ الحاکم کا رد کر رہے ہیں، امام حاکم کا موقف یہ ہے کہ

ولم یخرج البخاري و مسلم ھذا النوع من الحدیث فی الصحیح.

(المدخل الی معرفۃ کتاب الاکلیل ص47)

اور ولعلہ أراد من غیر الصحابۃ واللّٰہ أعلم علامہ نووی کا قول ہے جس میں وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ شاید حاکم کی مراد صحابہ (رضی اللہ عنہم) کے علاوہ سے ہو۔
اس نوع کو اصول حدیث میں ’’الوحدان‘‘ کہاجاتا ہے۔ اس نوع کی احادیث بھی (شرط سند صحیح ) صحیح ہوتی ہیں۔
اس نوع کے متعلق امام مسلم رحمہ اللہ نے ایک خاص کتاب ’’الوحدان‘‘ لکھی ہے۔ جب ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے صرف ایک شخص حدیث بیان کرے جیسا کہ

لم یردہ عن المسیب الا ابنہ سعید.

اور بیان کرنے والا ثقہ ہو تو اس کی روایت رد نہیں کی جاتی الا یہ کہ باقی سند میں کوئی علت ہو۔
کرمانی اور عینی حنفی کے حوالے سے یہ بات بھی ذکر کی گئی ہے کہ

ہذا الاسناد لیس علی شرط البخاري.

اس کے بارے میں عرض ہے کہ کرمانی کی کتاب سے محولہ عبارت نہیں مل سکی البتہ عمدۃ القاری میں عینی نے کرمانی کے حوالے سے یوں تحریر کیا ہے:

قال الکرماني قیل ھذا الإسناد لیس علی شرط البخاري اذلم یرو عن المسیب الا ابنہ.

اس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ کرمانی و عینی دونوں ہی اس بات سے بری ہیں کہ انھوں نے کہا ہو کہ یہ حدیث بخاری کی شرط پر نہیں ہے کیونکہ قال الکرماني کے بعد قیل صیغہ مجہول کا ہے۔ جس کا قائل نامعلوم ہے۔
لہٰذا اس عبارت میں کرمانی اور عینی دونوں پر جھوٹ بولا گیا ہے۔
اور اگر بالفرض اس قول کا قائل معلوم بھی ہو جائے تب بھی یہ کہنا کہ ’’اس روایت کی اسناد بخاری کی اپنی قائم کردہ شرط پر ہی پوری نہیں اترتی‘‘بھی غلط و باطل ہے۔
کرمانی خود فرماتے ہیں:

ھذا ممایبطل القاعدۃ القائلۃ بأن شرط البخاري أن لا یروي عن شخص یکون لہ رواہ واحد بل راویان اذ لیس للمسیب إلا راو واحد و ھوابنہ.

(شرح الکرماني 124/23)

اور یہی بات عینی حنفی نے کرمانی ہی سے عمدۃ القاری (199/23) میں نقل کی ہے۔
آگے معترض لکھتا ہے:
’’اور پوری بخاری شریف میں صرف ایک یہی روایت ایسی ہے جو امام بخاری نے اپنی شرط کو توڑتے ہوئے دو ابتدائی غیر صحابی راویوں کی بجائے صرف ایک راوی سے قبول کر لی ہے۔‘‘
جواب: کیا یہ عبارت عینی کی ہے یا کرمانی کی؟ جس کا آپ نے یہ ترجمہ لکھا ہے۔ اگر ان دونوں میں سے کسی ایک کی ہے تو کہاں ہے؟ کیونکہ جو عبارت آپ نے تحریر کی ہے اُس میں ایسی کوئی عربی عبارت نہیں ہے جس کا ترجمہ درجہ بالا ہو۔
معترض: پوری بخاری شریف میں صرف ایک ہی روایت ایسی ہے۔
جواب: یہ بہت بڑا جھوٹا دعویٰ ہے بلکہ صحیح بخاری میں’’الوحدان‘‘ کے قبیل سے اور روایات بھی موجود ہیں مثلاً:
۱: حسن عن عمرو بن تغلب (رضی اللہ عنہ) إني لأعطی الرّجل … إلخ

(صحیح البخاري: 923،3145،7535)

۲: قیس بن أبي حازم عن مرداس الأسلمي (رضی اللہ عنہ) سے یذھب الصالحون ، الاوّل فالاوّل… والی حدیث۔

(صحیح البخاري:6434)

معترض: جو امام بخاری نے اپنی شرط کو توڑتے ہوئے دو ابتدائی غیر صحابی راویوں کی بجائے صرف ایک راوی سے قبول کر لی ہے۔
جواب: ’’امام بخاری نے اپنی شرط کو توڑتے ہوئے‘‘
جناب امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ شرط کہاں ذکر کی ہے۔ اگر کوئی کہے کہ امام حاکم رحمہ اللہ نے یہ کہا ہے کہ

’’فالقسم الأول من المتفق علیھا اختیار البخاري و مسلم وھو الوارعۃ الأولی من الصحیح ۔۔۔ إلخ ‘‘

(المدخل الی معرفۃ کتاب الإکلیل ص42-43)

۱: تو عرض ہے کہ یہ دعویٰ درست نہیں ہے ۔ اس کے نقیض کی دو مثالیں گزر چکی ہیں۔
۲: خود امام حاکم رحمہ اللہ مستدرک میں اس قبیل کی ایک حدیث کے بعد فرماتے ہیں :

ھو صھیح علی شرطھما جمیعًا، فإن البخاري قد احتج بحدیث قیس بن أبي حازم ، عن مرداس الأسلمي، عن النبي ﷺ : بذھب الصالحون.

(مستدرک 24/1نسخۃ أخریٰ 75/1)

۳: ابو الفضل محمد بن طاہر المقدسی رحمہ اللہ امام حاکم رحمہ اللہ کے اس دعویٰ کو نقل کرکے اس کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’أن البخاري و مسلمًا لم یشترطا ھذا الشرط ولا نقل عن واحد منھما أنہ قال ذلک ۔۔۔ إلخ‘‘

(شروط الأئمۃ الستۃ ص17)

۴: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ امام حاکم رحمہ اللہ کے دعویٰ کو نقل کر کے یوں فرماتے ہیں:

فمنتقض علیہ بأنھما أخرجا أحادیث جماعۃ من الصحابۃ لیس لعلم إلا راو واحد أنتھی.

(مقدمۃ فتح البخاري ص9)

۵: کرمانی جن کا حوالہ آپ نے دیا ہے۔ اُن کا قول بھی اس دعویٰ کی تردید میں پہلے گزر چکا ہے۔
معترض نے علامہ عینی کے حوالے سے بھی لکھا ہے:

’’بأن المسیب علی قول العسکري ممن بائع تحت الشجرۃ تال فایاما کان لم یشھدہ وفاۃ أبي طالب .‘‘

جواب: ۱: معترض نے اس کا ترجمہ یوں لکھا ہے کہ ’’حضرت مسیب نے عسکری کے قول کے مطابق بیعت رضوان کے وقت اسلام قبول کیا۔‘‘
یہ ترجمہ کہ ’’بیعت رضوان کے وقت اسلام قبول کیا۔‘‘ غلط ہے بلکہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ عسکری کے قول کے مطابق مسیب (رضی اللہ عنہ) کا شمار ان میں ہوتا ہے جنھوں نے شجرہ کے تحت بیعت کی (یعنی جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے)۔
۲: اس سے یہ ثابت کرنا کہ وہ بیعت رضوان کے وقت اسلام لائے تھے، غلط ہے۔ اگر اس سے ہی مراد لیتے ہو تو باقی 14سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں کیا خیال ہے ، وہ بھی تو بیعت رضوان میں شریک ہوئے تھے۔ کیا اُن سب نے اسی وقت اسلام قبول کیا تھا؟!
۳: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس قول کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں؟

’’وَوَجْہُ الرَّدِّ أَنَّہُ لَا یَلْزَمُ مِنْ کَوْنِ الْمُسَیَّبِ تَأَخَّرَ إِسْلَامُہُ أَنْ لَا یَشْہَدَ وَفَاۃَ أَبِی طَالِبٍ کَمَا شَہِدَہَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِی أُمَیَّۃَ وَہُوَ یَوْمَءِذٍ کَافِرٌ ثُمَّ أَسْلَمَ بَعْدَ ذَلِکَ وَعَجَبٌ مِنْ ہَذَا الْقَاءِلُ کَیْفَ یَعْزُو کَوْنَ الْمُسَیَّبِ کَانَ مِمَّنْ بَایَعَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ إِلَی الْعَسْکَرِيِّ وَیَغْفُلُ عَنْ کَوْنِ ذَلِکَ ثَابِتًا فِی ہَذَا الصَّحِیحِ الَّذِيْ شَرَحَہُ کَمَا مَرَّ فِی الْمَغَازِيْ وَاضِحًا‘‘

(فتح الباري 474-475/10)

معترض: صحابی رسول سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جو عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں، کا بیان کہ قرآن مسیب پر نہیں اترا:
دونوں آیات مقدسہ کو ’’حضرت ‘‘ ابو طالب کے حق میں بیان کرنے والے جناب مسیب ہیں حالانکہ ان دونوں آیات کے نزول میں تقریباً بارہ سال کا طویل وقفہ موجود ہے۔
جواب: بارہ سال کا طویل وقفہ باسند صحیح ثابت کریں۔
معترض: صحابی رسول سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا بیان مسیب کے بارے میں:
اہل سنت کے معتبر کتاب تفسیر در منثور (104/1) عن سعد بن أبي وقاص أنہ قرأ ما ننسح من ابۃ … إلخ
جواب: در منثور کے حوالے سے جو اثر معترض نے لکھا ہے وہ در منثور میں درج ذیل کتابوں کے حوالے سے موجود ہے:

عبد الرزاق و سعید بن منصور و ابو داود فی ناسحہ و ابنہ فی المصاحف والنساءي و ابن جریر و ابن المنذر و ابن أبي حاتم والحاکم.

ان کتابوں میں یہ اثراس سند سے مروی ہے:

ہشیم : أنبا یعلی بن عطاء عن القاسم بن ربیعۃ قال: کان سعد بن أبي وقاص رضی اللہ عنہ إذا ۔۔۔إلخ

۱: یہ قول سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے۔
سعد بن ابی وقاصرضی اللہ عنہ صحابی رسولﷺہیں اور سارے صحابہ کرام رضوان رضی اللہ عنہم عادل ہیں جیسا کہ اس کے بارے میں گزر چکا ہے۔

وللّٰہ الحمد

لیکن بطور الزام عرض ہے کہ شیعہ کی کتاب تنقیع المقال میں سعد بن ابی وقاصرضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے: ’’ضعیف‘‘ (ص 62)

نعوذ باللّٰہ من ذلک.

۲: سعید بن المسیب رحمہ اللہ جو ؟؟ پڑھا ہے تو یہ اختلاف القرأۃ کی وجہ سے پڑا ہے ، اس کی تفصیل در منثور (104/1) میں موجود ہے اور اسی طرح ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ کی کتاب الناسخ والمنسوخ میں بھی موجود ہے۔
۳: یہ کہنا کہ قرآن مسیب رضی اللہ عنہ پر نہیں اترا کوئی جرح تو نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے اُن کی ساری باتیں ہی رد کر دی جائیں۔
۴: کیا شیعہ کے ہاں ایک حسن درجہ کا راوی پر ضعیف درجہ کے راوی کی جرح مقبول ہوتی ہیں؟
معترض: نوٹ: اس روایت میں جو آیت ہے ۔۔۔ الخ
جواب: معترض نے نوٹ کے تحت جو کچھ لکھا ہے اس کا جواب بھی گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موضوع کے لیے صرف سیدنا مسیب رضی اللہ عنہ کی روایت پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس موضوع کی وضاحت کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے بھی روایات لے کر آئے ہیں۔ ملاحظہ ہو صحیح بخاری ، کتاب المناقب الانصار باب قصۃ أبی طالب۔
معترض نے اس کے بعد ابن شہاب زہری کا عنوان قائم کر کے امام زہری رحمہ اللہ کو مجروح کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ حالانکہ ابن شہاب زہری رحمہ اللہ سے پہلے سند میں سعید بن المسیب رحمہ اللہ بھی ہے اُن کے بارے میں اُس نے کچھ نہیں لکھا۔
سعید بن المسیب رحمہ اللہ : چونکہ سعید بن المسیب رحمہ اللہ کے بارے میں معترض نے کچھ نہیں کہا ۔ اس لیے یہاں سعید بن المسیب رحمہ اللہ کی جلالت شان کے بارے میں صرف اہل سنت علماء کے اقوال اور بطور الزام ایک قول شیعہ کی کتاب سے پیش خدمت ہے:
۱: امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’الإمام شیخ الإسلام فقیہ المدینۃ أبو محمد المخذومي اجلّ التابعین.

(تذکرۃ الحفاظ 54/1)

وقال : ثقۃ دجّۃ فقیہ رفیع الذکر، رأس فی العلم و العمل.

(الکاشف 436/1)

۲: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’أحد العلماء الأثبات الفقہا الکبار.‘‘

(تقریب التہذیب : ت 2396)

۳: المامقانی شیعہ:

سعید بن المسیب بن حزن أبو محمد المخذومي ثقۃ علی الأقوی.

(تنقیح المقال 64/1)

ابن شہاب زہری: معترض نے امام زہری رحمہ اللہ کو مجروح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، معترض کی عبارتیں اور ان کے جواب سے پہلے محدثین سے امام زہری کی توثیق و تعریف ملاحظہ ہو:
۱: امام مالک بن انس فرماتے ہیں:

’’ما أدرکت بالمدینۃ فقیھًا محدّثًا غیر واحد قلت : من ھو ؟ قال ابن شھاب الزہري.‘‘

(طبقات الکبریٰ لابن سعد 157/1طبع مکتبۃ العلوم والحکم)

۲: ابن سعد رحمہ اللہ :

’’قال : کان الزھري ثقۃ کثیر الحدیث والعلم والروایۃ فقیھا جامعًا.‘‘

(طبقات الکبریٰ لابن سعد 186/1)

۳: امام ابو عثمان اسماعیل بن عبد الرحمن الصابونی رحمہ اللہ:

’’قال: امام الأئمۃ في عصرہ و عین علماء الأمۃ في وقتہ.‘‘

(عقیدۃ السلف و أصحاب الحدیث ص 249)

۴: امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے عثمان بن سعید الدارمی رحمہ اللہ سوال کرتے ہیں:

’’فالزھري أحبّ إلیک في سعید بن المسیب أو قتادۃ؟ فقال کلاھما: قلت فھما أحبّ إلیہ أیحیی بن سعید ؟ فقال : کل ثقۃ.‘‘

(تاریخ عثمان بن سعید الدارمي ص 46-47رقم 16و17)

۵: امام یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ :

’’ما بقي عند أحد من العلم ما بقي عند ابن شھاب.‘‘

(المعروفۃ والتاریخ للفسوي631/1)

۶: امام لیث بن سعد رحمہ اللہ:

’’ما رأیت عالمًا قط أجمع من ابن شھاب، ولا أکثر علمًا منہ .‘‘

(المعروفۃ والتاریخ للفسوي 623/1)

۷: امام علی بن المدینی رحمہ اللہ:

’’قال : کان ھولاء الستۃ معن اعتمد علیھم الناس فی الحدیث الزہري لاھل المدینۃ و عمرو بن دینار لاھل مکۃ و أبو إسحاق والأعمش لأھل الکوفۃ یحییٰ بن أبي کثیر و قتادۃ لأھل البصرۃ.‘‘

(المعروفۃ والتاریخ للفسوي 621/1)

۸: امام سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’مات الزھري یوم مات و لیس أحد أعلم بالسنۃ منہ .‘‘

(المعروفۃ والتریخ 635/1)

۹: عبید اللہ بن عمر رحمہ اللہ:

’’قال : نشأت فأردت أن اطلب العلم جعلت أتي أشیاخ آل عمر رجلاً رجلا فأقول : ما سمعت من سالم کلما أتیت رجلا منھم قال: علیک بابن شھاب فان ابن شھاب کان یلزمہ قال و ابن شھاب بالشام حیئذ ، فلزمت نافعآ فجعل اللّٰہ في ذلک خیر کثیرًا. ‘‘

(التاریخ لابن أبي خیثمۃ 145/3، المعرفۃ 638/1)

۱۰: امام ایوب السختیارنی رحمہ اللہ:

’’ قال: ما رأیت أحدًا أعلم من الزھري . فقال لہ صخر بن جویریۃ ولا الحسن ؟ قال: ما رأیت أحدًا أعلم من الزھري. ‘‘

(العلل و معرفۃ الرجال 171/1رقم: 107)

۱۱: امام ابو زرعہ الرازی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: الزھری و عمرو بن دینار کے متعلق توانھوں نے کہا:

الزھري احفظ الرجلین.

(الجرح والتعدیل 74/8)

۱۲: امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ:

الزھري احب لی من الأعمش ، یحتج بحدیثہ و اثبت اصحاب انس الزھري.

(الجرح والتعدیل 74/8)

۱۳: امام الحافظ احمد بن عبد اللہ بن صالح ابی الحسن العجلی رحمہ اللہ:

قال: تابعي، ثقۃ.

(تاریخ الثقات للعجلي ص 412ت1500)

۱۴: امام ابن حبان رحمہ اللہ:

ذکرہ في کتابہ : الثقات و قال: و کان من أحفظ أھل مانہ و أحسنھم سیاقالمتون الأخبار و کان فقیھا فاضلًا.

(الثقات 346/5)

۱۵: امام دارقطنی رحمہ اللہ:

’’ قال : لا أعلم أحدًا أنبل رجالاً ۔۔۔ من أھل المدینۃ : الزھري. ‘‘

(سوالات السلمي للدارقطني : 313)

۱۶: امام ابن عساکر رحمہ اللہ:

’’ قال : أحد الأعلام ، من أئمۃ الإسلام .‘‘

(تاریخ مدینۃ دمشق ، الزھري: 3)

۱۷: علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’و مناقبہ والثناء علیہ و علي حفظہ أکثر من أن یحصر .‘‘

(تہذیب الأسما واللغات 91/1)

۱۸: علامہ انب خلکان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’أحد الفقھاء والمحدثین والأعلام التابعین بالمدینۃ .‘‘

(وفیات الأعیان 177/4)

۱۹: حافظ ذہبی رحمہ اللہ:

’’ قال: الإمام العلم ، حافظ زمانہ .‘‘

(سیر أعلام النبلاء 327/5)

۲۰: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ:

’’ قال : الفقیہ الحافظ ، متفق علی جلالتہ وإتقانہ.‘‘

(تقریب التہذیب ص 716ت6297)

یہ صرف بطور مثال کے چند ائمہ و محدثین رحمہم اللہ علیہم اجمعین کی تعریفات و توثیقات نقل کی گئی ہیں، امام زہری رحمہ اللہ کی جلالت شان پر اور بھی بہت حوالے موجود ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تو ان کی شان و اتقان پر اتفاق نقل کر دیا ہے۔ اس سے واضح ہے کہ امام زہری رحمہ اللہ ثقہ بالاجماع ہیں۔
معترض نے سب سے پہلے اشعۃ اللمعات کے حوالے سے لکھا ہے:
’’ترجمہ: زہری تابعی ہے لیکن صغیر سن تابعی ہے اور اس کے رجال جو بطریق مرسل آتے ہیں وہ قوی اور مضبوط ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس متصل اسناد کے ساتھ بیان کردہ راوی ضعیف ہوتے ہیں۔‘‘
عرض ہے کہ اس سے امام زہری رحمہ اللہ کا جھوٹا اور ضعیف ہونا کہاں سے ثابت ہو رہا ہے۔ اس سے تو ظاہر ہی ہو رہا ہے کہ ایک ہی روایت مرسلاً و متصلاً منقول ہے۔ مرسلاً روایت کے راوی قوی و مضبوط ہیں اور متصل اسناد کے راوی عبد الحق دہلوی کے نزدیک ضعیف ہوں گے اور انھوں نے تو زھری پر جرح بھی نہیں کی۔ نہ تو کذب کی اور نہ ہی ضعف کی۔ بلکہ وہ زہری رحمہ اللہ کی مرسل روایت کو تو قوی و مضبوط قرار دے رہے ہیں۔ آپ کی اپنی ہی لکھی ہوئی عبارت کے مطابق۔
مزید یہ عرض ہے کہ آپ نے جو حوالہ دیا ہے وہ اصل کتاب سے پیش کریں اور کتاب کی طبع کے متعلق بھی بتائیں کہ کہاں سے طبع ہوئی ہے کیوں کہ ہمارے نسخہ میں یہ عبارت محولہ صفحے میں نہیں ہے۔
معترض: اہل سنت کی معتبر کتاب مقدمہ بخاری شریف صفحہ 7سے عبارت نقل کر کے لکھتے ہیں: مندرجہ بالا تحریر سے صراحتاً پتا چل جاتا ہے کہ زہری کی سعید بن مسیب سے بیان کردہ رویات منقطع ہے جسے صحیح کے درجے میں کسی بھی صورت میں داخل نہیں کیا جا سکتا ہے۔
جواب: ۱: عرج ہے کہ مقدمہ بخاری شریف خلیل احمد سھارنپوری نے امام نووی سے یہ بات نقل کی ہے اور نووی کی یہ بات ان کی اپنی کتاب شرح صحیح مسلم ، فصل فی الاسناد ؟؟؟(ص32)میں موجود ہے۔
اور آپ کے اس اعتراض کا جواب خود علامہ نووی رحمہ اللہ نے دے رکھ اہے کہ

’’وقال الجماھیر ھو کعن محمول علی السماع بالشرط المقدم و ھذا ھوالصحیح.‘‘

(مقدمہ شرح صحیح مسلم 32/1)

اور یہاں یہ بھ یاد رہے کہ اصول حدیث کا مسئلہ ہے ’’المعنعن‘‘ جس کے بارے میں نووی رحمہ اللہ خود لکھتے ہیں:

الصحیح الذي علیہ العمل و قالہ الجماھیر من أصحاب الحدیث والفقہ والأصول انہ متصل بشرط أن یکون المعنعن غیر مدلس.

(حوالہ سابقہ)

اور صحیح بخاری(1360) میں تو امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

أخبرني سعید ن المسیب.

لہٰذا آپ کا یہ اعتراض بھی تارعنکبوت ہوا۔ (وللہ الحمد)
۲: اور نووی ہی نے لکھا ہے:

واعلم أن ما کان فی الصحیحین عن المدلسین بعن و نحوھا فمحصول علی ثبوت السماع من جھۃ اخری.

(مقدمۃ شرح صحیح مسلم ص33)

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ امام زہری رحمہ اللہ کی تو یوں تعریف کرتے ہیں:
۱۔ امام اسحاق بن ابراہیم بن ہانی کہتے ہیں:

سألتہ عن : ابن أبي ذئب والزہري ، أیّما أحب الیک قال: جمیعًا واحد فی الثبت.

(مسائل الإمام احمد بن حنبل روایۃ اسحاق بن ابراہیم ابن ھاني 221/2رقم :2212)

۲۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے زہری و شعبی کے بارے میں پوچھا گیا کہ جب دونوں کا اختلاف ہو جائے تو آپ کو ان میں سے کون زیادہ پسند ہے اور کون زیادہ اعلم ہے؟ تو آپ نے جواب دیا:

کلاھما عالم فیکون الزہري قد سمع عن النبيﷺ الحدیث فیذھب الیہ فھو اعجب الینا ویکون الشعبي قد سمع الحدیث ولم سیمعہ الزہري فھو اعجب الینا.

(المعرفۃ والتاریخ 176/2)

۳۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ

اذا اجتمع رأي الزہري وقتادۃ أیھما أحب الیک؟ قال رأ الزھري اعحب الي.

(المعرفۃ والتاریخ 165/2)

۴۔ امام مالک رحمہ اللہ امام زہری رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا:

جالستہ عشر سنین کیوم واحد .

(تہذیب الکمال للمزي 511/6)

معترض: نوٹ: علاوہ ازیں سعید بن مسیب نے بھی رسول اللہ کی مرفوع حدیث روایت نہیں کی۔
جواب: یہ تو سعید بن مسیب رحمہ اللہ پر جھوٹ ہے وہ اس حدیث کو اپنے ابو سے بیان کرتے ہیں، اُن کے ابو کی مرفوع ہی بیان کر رہے ہیں۔
معترض: بلکہ اُن کے اپنے ہی گرامی جناب مسیب کے کفر کے زماہ کا قول ہے۔
جواب: عرج ہے کہ پہلے یہ باسند صحیح ثابت کریں کہ یہ اُن کے کفر کے زمانہ کا قول ہے، آگے بات چلے گی۔
معترض: جیسے زبردستی اس قدر اہمیت دی گئی ہے ۔
جواب: جناب صرف زبردستی اہمیت نہیں دی گئی بلکہ واضھ ، ٹھوس ، روز روشن کی طرح زبر دست دلائل کی بنیاد پر اہمیت دی گئی ہے۔ کما مرّ.
معترض: ثقہ محدثین کے نزدیک زہری کی کوئی اصل نہیں۔
جواب: یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ ثقہ محدثین کے نزدیک امام زہری رحمہ اللہ کا بہت بڑا مقام ہے۔ اور آپ کے ثقہ ہونے پر اجماع ہے۔ اور امام زہری رحمہ اللہ کی جلالت ، اتقان اور تعریفات کے بارے میں حافظ ابو نعیم اصبہانی نے ’’حلیۃ الاولیا‘‘ میں طویل تذکرہ لکھا ہے۔ ( 360-381/3)
اور حافظ ابن عساکر کی زہری رحمہ اللہ کی شان و اتقان کے متعلق الگ سے ایک کتاب الزہری کے نام سے بھی مطبوع ہے۔
معترض: اہل سنت کی معتبر کتاب تفسیر فتح البیان الخ۔
جواب: تفسیر فتح الباری کا جو حوالہ دیا گیا ہے اُس سے یہ عبارت نہیں مل سکی۔ بلہ فتح البیان پوری کتاب سے یہ عبارت نہیں ملی۔ لہٰذا عرض ہے کہ فتح البیان اصل کتاب اس عبارت کی نشاندہی کرائی جائے۔ ورنہ یہ نواب صاحب پر صریح جھوٹ ثابت ہو گا۔
معترض: نوٹ: یہ تھے ابن شہاب زہری اصل جڑ جو کہ اب کٹ چکی ہے خود علمائے اہل سنت کے ہاتھوں ۔ اب ان سے آگے کے راویوں پر تھوڑی نظر ڈالتے ہیں۔
جواب: علمائے اہل سنت کے ہاں تو امام زہری رحمہ اللہ بالاجماع ثقہ ہیں۔ کمامرّ۔ علمائے اہل سنت میں سے کسی ایک عالم کا بھی حوالہ باسند صحیح نہیں پیش کیا کہ اپس نے امام زہری کو کذب یا ضعف کے ساتھ متصف کیا ہو۔
بلکہ علمائے اہل سنت کو امام زہری کی احادیث کو اصح الاسانید میں شمار کرتے ہیں۔
دیکھئے مقدمہ ابن صلاح (ص22) تقریب النووی مع تدریب الراوی (77-78/1)
لہٰذا یہ معترض کی بہت بڑی جہالت بھی ہے اور علمائے اہل سنت پر بہت بڑا جھوٹ بھی۔
معمر بن راشد: معترض نے معمر بن راشد کے متعلق لکھا ہے: روایت نمبر 1 اور2 میں دوسرے بنیادی راوی معمر ہیں جنھیں اسماء الرجال میں معمر بن راشد بتایا گیا ہے۔
۱: اہل سنت کی معتبر کتاب میزان الاعتدال جلد 4صفحہ 152(علامہ ذہبی):

معمر بن راشد احد اعلام الثقات لہ اوھام۔۔۔إلخ

جواب: معمر بن راشد رحمہ اللہ کو جمہور محدثین نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے اور بخاری اور مسلم رحمہما اللہ نے صحیحین کے اصول میں ان سے حدیثیں بیان کیں ہیں۔
اور خود معترض نے جس کتاب کے حوالے سے یہ عبارات لکھی ہیں اسی کتاب کے مصنف نے انھیں احد الأعلام الثقات قرار دیا ہے، معترض کی تحریر کردہ عبارت میں موجود ہے اور جسے جمہور محدثین ثقہ قرار دیں تو اس پر بعض کی جرح مردود ہوتی ہے۔
اور معمر عن ثابت ضعیف جو لکھا ہے اس میں بھی دھوکے سے کام لیا ہے یہ عبارت میزان کے محولہ صفحہ میں ابن معین کی طرف منسوب ہے کہ امام ابن معین فرماتے ہیں:

معمر عن ثابت ضعیف.

یہ روایت یعنی صحیح بخاری والی تو امام معمر بن راشد امام زہری سے بیان کررہے ہیں تاکہ ثابت سے اور امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ معمر عن الزہری کے بارے میں فرماتے ہیں:

ھو من أثبتھم فی الزہري.

(میزان الاعتدال 154/4)

معترض کی اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ علوم الحدیث اور اسماء الرجال سے بالکل ناواقف ہیں۔
اور اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ اسماء الرجال کی کتابوں میں معمر بن راشد بتایا گیا ہے۔ تو عرض ہے کہ جناب یہ امام معمر بن راشد ہی ہیں جن کی توثیق ائمہ اہل سنت نے کر رکھی ہے۔ چند حوالے پیش خدمت ہیں:
۱: امام عجلی رحمہ اللہ:

ذکرہ فی کتابہ الثقات.

(ص435رقم:1611)

۲: امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ:

قال:صالح الحدیث.

(الجرح والتعدیل 257/8)

۳: امام ابن حبان رحمہ اللہ:

قال: کان فقیھا متقنا حافظا ورعا.

(الثقات 484/7)

۴: امام یعقوب بن شیبہ:

قال: معمر ثقۃ و صالح الحدیث عن الزہري.

(تہذیب الکمال للمزي 182/7)

۵: امام نسائی رحمہ اللہ:

قال: لم یود ھذا الحدیث أحدٌ من الثقات الا معمر.

(السنن الکبریٰ للنساءي 340/1ح 669)

وقال: معمر بن راشد الثقۃ المأمون .

(تہذیب الکمال 182/7)

۶: امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ:

قال: أثبت الناس فی الزہري مالک بن أنس و معمر و یونس و عقیل و شعیب بن أبي حمزہ، و ابن عیینۃ.

(تہذیب الکمال 182/7)

۷: امام الخلیلی رحمہ اللہ : کچھ رواۃ کا ذکر کیا اور اُن میں امام معمر بن راشد کا بھی ذکر کیا اور فرمایا:

وھو لاء ثقات.

(الارشاد للخلیلي 500/2)

۸: امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔

(السنن الدارقطني 143/1ح480)

۹: امام ذہبی رحمہ اللہ:

الإمام، الحافظ، شیخ الإسلام.

(سیر أعلام النبلاء 5/7)

وقال : أحد الاعلام الثقات.

(میزان الاعتدال 154/4)

۱۰: حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ:

ثقۃ ثبت فاضل.

(تقریب التہذیب ص 767ت 6809)

۱۱: علامہ نووی رحمہ اللہ:

قال: واتفقوا علی توثیقہ و جلالتہ.

(تہذیب الاسماء والصفات 107/2)

امام معمر بن راشد رحمہ اللہ کی توثیق کے اور بھی بہت حوالے ہیں لیکن یہاں انہی پر اکتفاء ہے۔ اتنی بری زبردست توثیق کے بعد بھی اگر کوئی امام معمر کو مجروح ثابت کرنے کی کوشش کرے تو وہ خود ہی مجروح قرار پائے گا۔ واللّٰہ المستعان

محمود بن غیلان

معترض لکھتے ہیں: میزان الاعتدال میں اس نام کا کوئی شخص نہیں صرف ابن غیلان ہے اور وہ بھی صرف ایک ہی راوی ہے اس کے متعلق لکھا ہے:
اہل سنت کی معتبر کتاب میزان جلد 4صفحہ 594 ابن غیلان قال ابو ذرعۃ مجہول
ترجمہ: ابو زرعہ فرماتے ہیں کہ ابن غیلان مجہول ہے۔
جواب: میزان الاعتدال میں اس نام کا کوئی شخص نہیں، عر ہے میزان الاعتدال میں یہ راوی ہو ہی کیوں؟ اور آپ کی اس عبارت سے صاف واضھ معلوم ہو چکا ہے کہ آپ اسماء و الرجال کے علم سے بالکل ناواقف ہیں، اور اپنی جہالت کی بنیاد پر ہی صحیح بخاری کے رواۃ کو جھوٹے اور ضعیف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
آپ پہلے میزان الاعتدال کا مقدمہ پڑھیں تاکہ آپ کو علم ہو جائے کہ اس کتاب میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے روات کو ذکر کرنے میں کیا طرف اختیار کی ہے اور یہ کتاب کون سے روات کے ساتھ خاص ہے۔
یہ آپ کی بہت بڑی جہالت ہے کہ آپ نے ابن غیلان کا تعین کرنے کے بغیر ہی محمود بن غیلا پر جرح ٹھوک دی ہے۔!!
حالانکہ محمود بن غیلان صحیح بخاری کے راوی متاخر ہیں اور جس ابن غیلان پر جرح آپ نے نقل کی ہے وہ تو متقدم ہے۔!!
اس کی دلیل آپ کے میزان الاعتدال کے محولہ صفحہ میں ہی ہے: عن عبد اللّٰہ بن مسعود فی الوضوء بالنبیذ، نمبر ۲ ، امام ابو زرعہ رحمہ اللہ کا یہ قول ’’مجھول‘‘ ابن ابی حاتم رحمہ اللہ کی کتاب الجرح والتعدیل 325-326/9میں ہے۔ وہاں بھی صاف لکھا ہوا ہے:

ابن غیلان روی عن عبد اللّٰہ بن مسعود فی الوضوء بالنبیذ روی عنہ أبو سلام سالت أبا زرعۃ عن ابن غیلان ھذا فقال: مجہول.

جس سے صاف ظاہر ہے کہ محمود بن غیلان رحمہ اللہ پر یہ جرح سرے سے ہے ہی نہیں اور محمود بن غیلان رحمہ اللہ جو کہ صحیح بخاری ، مسلم، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ کے راوی ثقہ ہیں بلکہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے خود ان کو الامام الحافظ الحجۃ قرار دیا ہے۔ ان کی توثیق کے چند ایک حوالے پیش خدمت ہیں:
۱: احمد بن حنبل رحمہ اللہ:

قال ثقۃ أعرفہ بالحدیث، صاحب سنۃ و قد حبس بسبب القرآن.

(تاریخ بغداد 89/13و موسوعۃ اقوال الامام احمد بن حنبل 331/3)

۲: ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ:

فقال: ثقۃ.

(الجرح والتعدیل 291/8)

۳: امام نسائی رحمہ اللہ:

قال: ثقۃ.

(تسمیۃ مشایخ ت 150)

۴: امام ابن حبان رحمہ اللہ:

ذکرہ في کتابہ الثقات.

(202/9)

۵: حافظ ذہبی رحمہ اللہ:

قال: الامام الحافظ الحجۃ، ابو أحمد العدوي مولاھم المروزي من ائمۃ الأثر.

(سیر أعلام النبلاء 223/12)

۶: حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ:

ثقۃ.

(تقریب التہذیب ص736ت 6515)

اس زبردست توثیق کے بعد بھی محمود بن غیلان کو ’’مجہول‘‘ قرار دینے والا خود مجہول ہے۔
اسحق بن ابراہیم: معترض نے لکھا ہے: دوسری روایت میں اسحق بن ابراہیم ہیں۔ الخ
جواب: عرض ہے کہ صحیح بخاری میں إسحق بن إبراہیم بن مخلد بن إبراہیم بن مطر الحنظلی أبو محمد وأبو یعقوب المعروف بابن راہویہ المروزي ہیں۔
یہ توآپ کی بہت بڑی جہالت ہے کہ بخاری کے روات جھوٹے اور ضعیف کرنے کی کوشش تو کرتے ہو لیکن بذاتِ خود صحیح بخاری کے ایک راوی کا تعین بھی نہیں کر سکتے ہو۔!!
آپ کو میزان سے اسحق بن ابراہیم الدبری اپنی خواہش کے مطابق ملا تو اسے صحیح بخاری کا راوی بنانے کی کوشش کر کے اپنے مقولہ کہ ’’بخاری شریف کی چھ روایات کے راوی اکثریت جھوٹے اور ضعیف‘‘ کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہو۔!!
آپ پہلے اصول حدیث و اسماء الرجال سے واقفیت حاصل کریں تاکہ ایسی بہت بڑی غلطی نہ کر سکیں۔
اور میزان الاعتدال کے جس صفحہ کا حوالہ آپ نے دیا ہے اس سے اگلا صفحہ 182کھول کر دیکھتے تو آپ کو پتہ چل جاتا کہ یہ اسحق بن راہویہ ہی صحیح بخاری کی اس حدیث کے راوی ہیں۔
اسحق بن ابراہیم ابن راہویہ تو ثقہ ، احد الائمۃ الاعلام ہیں۔ ان کی توثیق کے بھی چند حوالے پیش خدمت ہیں:
۱: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے اسحق بن راہویہ رحمہ اللہ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

مثل إسحاق یسال عنہ، و إسحاق یسال عنہ، إسحاق عندنا من ائمۃ المسلمین.

(الجرح والتعدیل 209-210/2)

۲: ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ:

قال: إسحاق بن راہویۃ إمام من أئمۃ المسلمین.

(الجرح والتعدیل 210/2)

۳: امام ابن حبان رحمہ اللہ:

قال: وکان إسحاق بن سادات زماہ فقھا و علما و حفظا و نظرا، معن صنف الکتب و فرع السنن و ذب عنھا و قمع من خالفھا.

(الثقات لابن حبان 116/8)

۴: امام نسائی رحمہ:

قال: أحد الأیعۃ.

(تسمیۃ مشایغ ص62ت 100)

۵: الخطیب بغدادی رحمہ اللہ:

قال: کان أحد ائمۃ المسلمین ، و علما من اعلام الدین، اجتمع لہ الحدیث وانعقہء والحفظ والصدق والورع والزہد.

(تاریخ بغداد 345/6)

۶: حافظ ذہبی رحمہ اللہ:

قال: ھو الإمام الکبیر، شیخ المشرق . سید الحفاظ.

(سیر أعلام النبلاء 358/11)

وقال: أحد الالاعقالا علام،ثقۃ حجۃ.

(میزان الاعتدال 183-182/1)

۷: ؟؟رحمہ اللہ:

قال: أحد الاعلام المتبوعین.

(الوافي بالوفیات 251/8)

۸: سبکی:

قال: أحد ائمۃ الدین و أعلام المسلمین و ھداۃ المؤمنین الجامع بین الفقۃ والحدیث والورع و التقویٰ.

(طبقات الشافعیۃ الکبرٰی 83/2)

۹: برکات بن احمد بن محمد الخطیب رحمہ اللہ:

إمام من أعلام الأئمۃ .

(الکواکب النیرات 81/1ت4)

۱۰: ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ:

قال: ثقۃ حافظ مجتھد.

(تقریب ص76ت 332)

عبد الرزاق: معترض لکھتا ہے: پہلی اور دوسری روایت میں معمر کے بعد عبد الرزاق کا کام ہے اور یہ عبد الرزاق ابن ہمام ہیں حفاظ حدیث میں آپ کا مقام نہایت ارفع ہے، لیکن ان کی روایات بھی اغلاط سے مبرا نہیں۔
جواب: معترض نے اس بات کا اقرار کر لیا ہے کہ ان کا مقام نہایت ارفع ہے۔ عرض ہے کہ ان کی کون سے روایات اغلاط سے مبرا نہیں؟
کیا ساری روایات اغلاط سے مبرا نہیں اگر ایسے ہے تو یہ بات غلط ہے، صحیح یہ ہے کہ ان کی اختلاط سے پہلے کی روایات صحیح ہیں۔

وقال النساءي: فیہ نظر لمن کتب عنہ بأخرۃ روی عنہ أحادیث مناکیر

اس کا ترجمہ معترض نے یہ لکھا ہے کہ چنانچہ امام نسائی فرماتے ہیں کہ وہ منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں اور ان کا آخر پر لکھا ہوا کلام محل نظر ہے۔!
عرض ہے کہ یہ ترجمہ بھی صحیح نہیں ہے بلکہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ جس نے ان سے آخری عمر میں لکھا ہے تو اُس میں نظر ہے، ان سے منکر احادیث بیان کی گئی ہیں۔
اور صحیح بخاری کی اس حدیث کو ان سے اسحاق بن ابراہیم بیان کر رہے ہیں انھوں نے تو آخری عمر میں اُن سے نہیں لکھا بلکہ اُن کے اختلاط سے قبل ہی لکھا ہے۔

(دیکھئے نہایۃ الاغتباط ص219)

اور نمبر 2 ایسا راوی جو اختلاط کا شکار ہوا ہو اور اُس کی روایات صحیحین میں بھی ہوں تو اصول حدیث میں یہ مقرر ہے کہ وہ اختلاط سے قبل کی ہیں، ابن صلاح فرماتے ہیں:

وأعلم أن من کان من ھذا القبیل معتجًا بروایتہ فی الصحیحین أو أحدہما فإنا نعرف علی الجملۃ أن ذلک مما تمیز و کان ماخوذًا عنہ قبل الاختلاط.

(معرفۃ انواع علم الحدیث:499)

آگے ابن عدی کی بات نقل کی ہے تو عرض ہے کہ کیا یہ روایت فضائل سے ہے اور کیا جو شخص شیعہ ہو تو اُس کی روایت بھی تمہارے نزدیک مردود ہے۔
امام دارقطنی کی عبارت نقل کی ہے اور نوٹ کے تحت لکھتا ہے: یاد رکھیں کہ یہ روایت انھوں نے معمر ہی سے بیان کی ہے جس کے دارقطنی کہتے ہیں کہ معمر کی روایت میں غلطی کرتے ہیں۔
عرض ہے کہ امام دارقطنی کی بات حافظ ذہبی سے بہت پہلے حافظ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں ذکر کی ہے جو کہ اس طرح ہے:

ثقۃ، یخطئ علی معمر في أحادیث لم تکن فی الکتاب.

کہ ثقہ ہیں معمر کی اُن احادیث میں غلطی کرتا ہے جو کہ کتاب میں نہ ہو اور یہ حدیث کو اُن کی کتاب تفسیر عبد الرزاق (167/2رقم :1132) طب: دارالکتب المعلمیۃ بیروت میں موجود ہے۔
۲: امام دارقطنی رحمہ اللہ سے بہت پہلے ان کے شاگرد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ابو زرعہ الدمشقی رحمہ اللہ نے پوچھا:

کان عبد الرزاق یحفظ حدیث معمر قال: نعم.

(تاریخ أبي زرعۃ الدمشقي ص457)

اور اگر آپ میزان الاعتدال کے صفحہ 609کو دیکھتے تو ایسی جسارت نہ کرتے کیونکہ یہ حوالہ میزان 609میں بھی موجود ہے۔
آپ ذرا اپنی کتاب کا بھی مطالعہ کریں کیونکہ اس میں عبد الرزاق کو ’’حسنٌ‘‘ لکھا ؟؟

معترض: اسحق:

تیسری روایت میں آخری راوی اسحق ہیں جنھیں اسماء الرجال میں اسحق بن راہویہ بتایا گیا ہے۔ اہل سنت کی معتبر کتاب میزان الاعتدال جلد 1ص183،

قال أبو عبید الآجري، سمعت أبو داود و یقول إسحق بن راہویۃ تغیر قبل ان یموت بخمسۃ اشھر۔۔۔ إلخ

جواب: جناب آپ کو اہل سنت اہل حدیث کی اسماء الرجال کی کتب سے ہی ناواقف ہیں، آپ کو صرف میزان الاعتدال کتاب ہی ملی ہے اور اُس کے طرز سے بھی آپ ناواقف ہیں، پہلے اُس کے مقدمہ کو بار بار پڑھو۔ پھر صحیح بخاری پر حملہ کرنے کی کوشش کرنا، تاکہ آپ کوئی علمی انداز میں لکھنے کے قابل ہو سکیں۔!
عرض ہے کہ آپ کی نمبرنگ کے مطابق آپ نے خود ہی تیسری روایت کے راوی کو اسحاق بن راہویہ بنا دیا ہے، حالانکہ آپ نے شروع میں ہی سب کے تحت جن دو علماء اہل سنت کی کتب کے حوالے سے لکھا ہے انہی کو دیکھ لیتے تو اتنی بڑی غلطی نہ کرتے۔ اب انہی دو علماء کا بیان ملاحظہ ہو:
۱: الکرمانی رحمہ اللہ:

قولہ (إسحق) ھو اما ابن راہویۃ وإما ابن منصور ولا فرح فی الأستاذ بھذا ابلس لأن کلا منھما بشرط البخاري.

(الکواکب الدراری في شرح صحیح البخاري لکرماني 135/7)

۲: بدر الدین عینی رحمہ اللہ نے بھی کرمانی سے یہی گزشتہ عبارت نقل کی ہے اور کوئی رد نہیں کیا۔ دیکھئے عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري (180/8)
ان کی تائید میں مزید حوالہ بھی ملاحظہ ہو۔
۳: شمس الدین الیوماوي:

إسحاق أي ابن منصور، ا۷و ابن راہویۃ ولا قدح لذلک لأن کلا منھما بشرطہ.

(اللامع الصحیح 274/5)

۴: ذکریا الانصاری رحمہ اللہ:

إسحق أي ابن راہویۃ أو ابن منصور.

(صفحۃ الباري : شرح صحیح البخاري السعي [تحفۃ الباري] 435/3)

آگے ابو عبید الامبری کے حوالے سے لکھا ہے:

قال أبو عبید الآجري سمعت أبو داود ۔۔۔ إلخ

عرض ہے کہ اصل کتاب سے دیکھ کر لکھتے تو یہ غلطی سمعت أبو داود نہ کرتے کیونکہ اصل کتاب میں توصحیح عبارت لکھی ہوئی ہے کہ سمعت أبا داود ۔
حضرت ابو عبید الآجری کی پہلی توثیق ثابت کریں پھر یہ حوالہ ذکر کریں۔
اس سے آگے اصل کتاب سے تین سطر ترک کر کے لکھتا ہے:

وذکر لشیخنا أبی الحجاج حدیث فقال قیل إسحاق اختلط في آخر عمرہ.

اس کا ترجمہ معترض نے یہاں بھی غلط لکھا ہے اور پورا ترجمہ لکھا بھی نہیں، معترض کا ترجمہ یہ ہے ابن حجاج کہتے ہیں کہ آخری عمر میں اُن سے روایات خلط ملط ہو جاتی تھیں۔
ذکر لشیخنا أبی الحجاج حدیث فقال کا ترجمہ ترک کر دیا ہے، اس کا صحیح ترجمہ ملاحظہ ہو:
(حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:) ہمارے شیخ ابی الحجاج رحمہ اللہ کے ہاں کسی حدیث کا ذکر کیا گیا تو انھوں نے فرمایا:

قیل إسحاق اختلط في آخر عمرہ.

کہ کہا گیا ہے کہ اسحاق اپنی آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔ اب قیل کا ترجمہ چھوڑ کر حافظ ابن الحجاج مزی رحمہ اللہ کو اس قول کا قائل بنا رہے ہیں۔ یہ ہے آپ کی عربی دانی۔
معرترض نے اپنے مقصد کو حل کرنے کی کوشش تو کی ہے لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ عرض ہے حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کے بعد قلت کہہ کر اس کا جواب خود ہی دے دیا ہے۔ آپ ذرا عینک لگا کر اُس کو تو پڑھ لیتے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا جواب ملاحظہ کیجیے:

قلت: الحدیث مارواہ عن ابن عیینۃ عن الزھري عن عبید اللّٰۃ عن ابن عباس عن میمونۃ فی النارۃ، فزاد فیہ إسحاق من دون أصحاب سفیان. و ان کان ذائبا فلا تقربوہ، فیعوذ أن یکون الخطأ ممن بعد إسحاق.

(میزان الاعتدال 183/1)

اسحاق بن راہویہ ثقہ امام الائمہ ہیں جیسا کہ صفحہ 25 اور 26 پر گزر چکا ہے۔
اسحاق بن منصور الکوسج بھی ثقہ ثبت ہیں، چند حوالے ملاحظہ ہوں:
۱: امام نسائی رحمہ:

ثقۃ.

(شیخۃ النساءي ت 102)

۲: امام ابن حبان رحمہ اللہ:

ذکرہ في الثقات.

(الثقات 118/8)

۳: امام مسلم رحمہ اللہ:

ثقۃ مأمون، أحد الأئمۃ من أصحاب الحدیث.

(تہذیب الکمال 476/2)

۴: الخطیب بغدادی رحمہ اللہ:

کان فقیھا عالمًا.

(تاریخ بغداد 364/6)

۵: حافظ ذہبی رحمہ اللہ:

قال: الإمام الفقیہ الحافظ، الحجۃ.

(میزان اعلام النبلاء 259/12)

۶: حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ:

ثقۃ ثبت .

(تقریب ص82ت 384)

ابو الیمان : معترض لکھتا ہے چوتھی روایت کے آخری راوی ابو الیمان جن کا نام الحکم بن نافع ہے ۔ ثقہ ہیں۔ الخ
جواب: ابو الیمان حکم بن نافع رحمہ اللہ کو معترض نے بھی ثقہ مان لیا ہے، حالانکہ وہ اپنی کتاب تنقیع المقال سے لگتا ہے کہ ناواقف ہو کیونکہ اُس میں ان کے بارے میں لکھا ہے : ضعیف۔ (44/1)
ابو الیمان حکم بن نافع کی تاریخ پیدائش 138ء ہے اور شعیب بن ابی حزہ کی تاریخ وفات 162ھ ہے۔
حکم بن نافع نے شعیب بن ابی حمزہ سے سماع کی اہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

سمع صفوان بن عمرو وشعیب بن أبي حمزۃ.

(التاریخ الکبیر 344/2)

امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

سمع صفوان بن عمرو و شعیب بن أبي حمزۃ و حریز بن عثمان.

(الکنی والأسماء 924/2)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ خود بھی فرماتے ہیں:

سمع حریز بن عثمان۔۔۔ وشعیب بن أبي حمزۃ و أمثالھم .

(تذکرۃ الحفاظ 301/1)

جب یہ ثابت ہو گیا کہ انھوں نے شعیب بن ابی حمزہ سے سنا ہے اور ان کا سماع بھی ممکن ہے تو پھر یہ اعتراض کہ ایک شخص کسی آدمی کو ملے بغیر یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے اُس سے یہ بات سنی ہے، باطل ہے اور اپنے باپ سے کچھ نہیں سنا ۔ (دیکھئے میزان الاعتدال 138/1)
اور آپ نے جو میزان سے عبارت نقل کی ہے اسی میں اس کا جواب بھی لکھا ہوا ہے جو کہ آپ نے دھوکہ دینے کے لیے لکھا ہی نہیں۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

قلت: مات سنۃ إحدی و عشرین و مائتین وھو ثبت في شعیب عالم بہ.

اور یہ جو قول آپ نے لکھا ہے یہ باسند صحیح امام احمد بن حنبل سے ثابت تو کریں۔
اور اسی طرح امام ابو داود کا قول بھی با سند صحیح ثابت کریں۔
اگے معترض نے ابو زرعہ کے حوالے سے لکھا ہے لیکن یہاں بھی دھوکے سے کام لیا ہے پوری عبارت ذکر ہی نہیں کی۔ پوری عبارت یہ ہے:

قال سعید البردعي: سمعت أبا زرعۃ یقول: لم یسمع أبو الیمان من شعیب الاحدیثا واحدا، والباقي إجازۃ.

(میزان 581/1)

والباقی اجازۃ کے الفاظ کو ترک کر دیا، کیونکہ اس میں معترض کا جواب موجود تھا اس لیے۔
اسی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مقدمۃ الفتح میں فرماتے ہیں:

ان صح ذلک فھو حجۃ في صحۃ الروایۃ بالاجازۃ الا أنہ کان یقول في جمیع ذلک أخبرنا ولا شاححۃ في ذلک ان کان اصطلاحًا لہ.

اگر آپ اصول حدیث سے تھوڑی سی واقفیت بھی رکھتے تو یہ اعتراض نہ کرتے۔ آپ کا یہ کہنا: تو اُس کا روایات بیان کرنے میں کیا مقام ہو گا یہ خود اندازہ لگا لیں۔
عرض ہے آپ اپنی علمیت کا خود اندازہ لگائیں۔
محمد بن ابی حفصہ: معترض نے محمد بن حفصہ لکھا ہے صحیح محمد بن ابی حفصہ ہے۔ صحیح بخاری میں اس کی دو روایات ہیں: نمبر 1592اور 4282
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان سے بطور متابعت کے روایت لی ہے، اصول میں ان سے روایت نہیں لی۔ امام ذہبی خود فرماتے ہیں:

وروی لہ الشیخان فی المتابعات ما اظن أنّ واحدًا منھما جعلہ حجّۃً.

(سیر اعلام النبلاء 508/6)

معترض میزان الاعتدال (525/3) سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے:

محمد بن أبي حفصۃ البصري عن الزھري فیہ شۂ ولھذ وثقہ ابن معین مرۃ. إلخ

جواب: معترض نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے اس قول کو ذکر نہیں کیا:

وقال أحمد: صالح الحدیث.

عرض ہے کہ امام ابن معین رحمہ اللہ کے اقوال متعارض ہونے کی وجہ سے ساقط ہیں۔
۱: امام احمد نے ان کو صالح الحدیث قرار دیا ہے۔
۲: حافظ ذہبی نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے۔

(دیکھئے دیوان الضعفاء ص348)

۳: حافظ ذہبی نے تو ان کے بارے میں اپنی کتاب الکاشف میں فرمایا ہے:

وثقہ غیر واحد.

۴: امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی ان کو صالح قرار دیا ہے۔

(سوالات البرقاني ص125ت437)

۵: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کو صدوق قرار دیا ہے۔

(تقریب: 5826)

۶: امام ابن شاہین نے بھی انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔

(تاریخ الثقات ص201)

لہٰذا یہ بھی جمہور کے نزدیک موثق ہی ہیں۔
معترض نے ابن عدی رحمہ اللہ کی عبارت کا ترجمہ بھی غلط لکھا ہے کہ ضعیف لوگوں کی روایت بیان کرتا ہے۔
حالانکہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ وہ ایسے ضعفاء لوگوں میں سے ہے جن کی احادیث لکھی جاتی ہیں۔
یہ ہے معترض کی علمی حیثیت آسان سی عربی کا اردو ترجمہ تو نہیں کر سکتا اور بخاری کے روات کو ضعیف ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
سلیمان بن عبد الرحمن: معترض لکھتا ہے: پانچویں روایت کے آخری راوی سلیمان بن عبد الرحمن ہیں ، اہل سنت کی معتبر کتاب میزان الاعتدال (213/2)

وقال أبو حاتم: صدوق الا انہ من ۔۔۔إلخ

جواب: جناب آپ سے پھر یہی عرج ہے کہ پہلے میزان کا مقدمہ بار بار پڑھیں تاکہ صرف میزان کے حوالوں پر ہی اکتفا نہ کریں اور خیانت اور دھوکہ بازی کو چھوڑیں، جو چیز نقل کرتیہیں اُسے پوری طرح دیکھ لیا کریں۔
آپ نے جو ابو حاتم رحمہ اللہ کی عبارت نقل کی ہے، اُس سے آگے حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے اس قول کو بھی تو دیکھیں جو کہ وہ قلت کہہ رہے ہیں:

قلت: بلی واللّٰہ ، کان یمیّز و یدری ھذا الشأن.

آگے معترض نے امام دارقطنی کی عبارت نقل کی کہ

قال الدارقطني ثقۃ عندہ مناکیر عن الضعفاء.

اور ترجمہ لکھا یوں لکھا: دارقطنی کہتے ہیں کہ اُن کے نزدیک منکر اور ضعی فروایات بھی ثقہ ہیں۔
یہ ہے معترض کی علمی حیثیت اور عربی دانی کہ عربی کا ترجمہ بھی نہیں کر سکتا اور صحیح بخاری کے روات کو ضعیف کہتا پھرتا ہے۔ جناب اس عبارت کا صحیح ترجمہ تو یہ ہے، ملاحظہ ہو:
امام دارقطنی فرماتے ہیں: وہ ثقہ ہیں اور اُن کے ہاں ضعفاء سے منکر روایات ہیں۔ اس میں سلیمان بن عبد الرحمن رحمہ اللہ پر تو کوئی جرح نہیں۔
تو کیا اس کے بعد حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی یہ عبارت نظر نہیں آئی یا اپنی عادت کے مطابق دھوکہ دیتے ہوئے جان بوجھ کر ترک کر دی؟!
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

قلت: لولم یذکرہ العقیلي في کتاب الضعفاء لما ذکرتہ، فانہ ثقۃ مطلقًا.

آگے امام ابو داود کی جو عبارت نقل کی ہے اس سے بھی اُن پر جرح ثابت نہیں ہو رہی کیونکہ وہ جمہور محدثین کے نزدیک ثقل و صدوق ہیں۔
جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فإنہ ثقۃ مطلقًا.

مزید دیکھئے تہذیب الکمال (290/3)

یونس:

معترض: چھٹی روایت میں ابن شھاب زہری کے بعد یونس ہیں،
۱: اہل سنت کی معتبر کتاب میزان الاعتدال جلد 4 صفحہ 484 الخ
جواب: جناب جس طرح پہلے اپنی عادت کے مطابق دھوکے دیے ہیں یہاں بھی دھوکہ و خیانت سے کام لیا ہے۔ صاحب الزھری کے بعد ثقۃ حجۃ بھی حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہوا ہے۔ اس کو کیوں کھا گئے ہو؟
حافظ ذہبی رحمہ اللہ تو خود بتا رہے ہیں کہ یہ ثقہ حجۃ ہیں۔
معترض نے لکھا ہے:

شذ ابن سعد في قولہ لیس بحجۃ و شذ وکیع فقال سأ الحفظ الخ

ترجمہ یوں لکھا ہے کہ ابن سعد کہتے ہیں کہ اس کی بات حجت نہیں ، وکیع کہتے ہیں کہ حافظہ کمزور تھا۔
یہاں بھی غلط ترجمہ کیا ہے صحیح ترجمہ یہ ہے کہ (حافظ ذہبی رحمہ اللہ ) فرماتے ہیں: ابن سعد نے اپنے اس قول لیس بحجۃ میںشذوذ اختیار کیا ہے۔ یعنی حافظ ذہبی رحمہ اللہ تو ابن سعد کے اس قول کو دوسرے محدثین کے خلاف ہونے کی وجہ سے شاذ قرار دے رہے ہیں اور وکیع رحمہ اللہ کی اس بات کو بھی شاذ قرار دے رہے ہیں۔ آگے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے اقوال نقل کیے ہیں۔ تو عرض ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے یہ بھی منقول ہے کہ وہ ان کو ثقہ کہتے تھے۔ ملاحظہ ہو:

قال الفضل بن زیاد، قال أحمد یونس أکثر حدیثًا عن الزھري من عقیل وھما ثقتان.

(التکمیل فی الجرح والتعدیل 493/2)

۱: وقال ابن معین رحمہ اللّٰہ: اثبت الناس فی الزھري ، مال و معمر و یونس و عقیل و شعی وابن عیینۃ.

(تاریخ ابن معین بروایۃ الدوري 116/3)

۲: امام عجلی رحمہ اللہ نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے۔

(الثقات ص488ت1886)

۳: قال أبو زرعۃ رحمہ اللّٰہ: لا بأس بہ.

(الجرح والتعدیل 247/9)

۴: وقال الذہبي رحمہ اللّٰہ: أحد الاثبات عن الزھري.

(الکاشف 404/2)

۵: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی ثقہ قرار دیا ہے۔

(تقریب ص825ت 7919)

معترض: بخاری شریف کی دوسری روایات جو حدیث ؟؟ کے متعلق ہیں ، کے راوی حسب ذیل ہیں: پہلی روایت میں مسدد، یحییٰ ، سفیان، عبد الملک بن عمیر، عبد اللہ بن حارث، عباس بن عبد المطلب۔
۱: اہل سنت کی معتبر کتاب میزان الاعتدال جلد 2 صفحہ 660۔
۱۲: عبد الملک بن عمیر:

اللخمی الکوفی الثقۃ۔۔۔ الخ

جواب: عبد الملک بن عمیر، ثقہ راوی ہیں محدثین نے اُن کی توثیق کر رکھی ہے۔
۱: ابن معین رحمہ اللہ:

ثقۃ .

(تھذیب التہذیب 412/6)

۲: عجلی رحمہ اللہ :

ثقۃ .

(الثقات: ت 1035)

۳: ابن نمیر رحمہ اللہ :

کان ثقۃ ثبتا فی الحدیث.

(تہذیب 412/6)

۴: امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ان سے روایات لے کر توثیق کر رکھی ہے۔
۵: امام ترمذی رحمہ اللہ :

بتصحیح حدیثہ.

(سنن الترمذي: 326)

۶: ابن کزیمہ رحمہ اللہ:

بتصحیح حدیثہ.

(صحیح ابن خزیمۃ: 508)

۷: ابو عوانہ:

بتصحیح حدیثہ.

(مستخرج أبي عوانۃ: 153)

۸: الدارقطنی:

بتصحیح حدیثہ.

(سنن دارقطني:483)

۹: حاکم :

بتصحیح حدیثہ.

(مستدرک للحاکم: 1155)

۱۰: ابن حبان رحمہ اللہ :

ذکرہ فی الثقات.

(116/5)

۱۱: امام نسائی رحمہ اللہ :

لیس بہ بأس .

(الکاشف 667/1)

۱۲: حافظ ذہبی رحمہ اللہ:

الثقۃ .

(میزان 660/2)

۱۳: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ:

ثقۃ فصیح عالم .

(تقریب : 4200)

اما ابو حاتم رحمہ اللہ نے تو ان کو صالح بھی قرار دیا ہے۔

(دیکھئے الجرح والتعدیل 361/5)

ان کے توثیق اور بھی محدثین نے کر رکھی ہے۔ یہاں صرف چند حوالے ہی ذکر کر دیے گئے ہیں۔
معترض: بخاری کی دوسری روایت کے راوی۔۔۔
13۔ اس میں تیسرے راوی ابن الہاد ہیں، جن کا یزید اللیثی ہے ، اہل سنت کی معتبر کتاب میزان الاعتدال 430/4

عن ابن معین صالح و قال أبو حاتم لیس بقوی. ترجمہ ۔۔۔ الخ

جواب: معترض کی علمی حدیثیت تو یہ ہے کہ ایک راوی کا تعین نہیں کر سکے۔ جس راوی پر جرح کرنے کی کوشش کی ہے وہ تو صحیح بخاری کی اس روایت میں ہے ہی نہیں، صحیح بخاری کی اس روایت میں جو ابن الہاد ہیں اُن کا پورا نام یزید بن عبد اللہ بن اسامہ بن الھاد اللیثی ہے جو کہ پانچویں طبقے کے ہیں جن کی تاریخ وفات 139ھ ہے۔
اور جس راوی پر معترض نے جرح کرنے کی کوشش کی ہے اُن کا پورا نام یزید بن عبداللہ بن قسیط ہے جو چوتھے طبقے کے ہیں اور ان کی تاریخ وفات 122ھ ہے۔
دونوں راوی ہی ثقہ ہیں، ابن الھاد کو بہت سارے محدثین نے ثقہ قرار دیا ہے، مثلاً احمد بن حنبل، ابن معین، ابو حاتم ، ابن سعد، نسائی، ابن حبان ، یعقوب بن سفیان، عجلی وغیرہم رحمہم اللہ اجمعین۔
معترض صاحب آپ سے گزارش ہے کہ پہلے اسماء الرجال سے تھوڑی واقفیت تو حاصل کریں تاکہ راوی کا تعین تو کم از کم کر سکیں۔
معترض: اسی روایت کے راوی لیث بن سعد ہیںِ اگرچہ بلا نزاع ثقہ ہیں اور اہل سنت کی معتبر کتاب میزان الاعتدال 423/3

وقال یحیی بن معین کان یتساھل فی الشیوخ والسماع ۔۔۔إلخ

جواب: امام اللیث بن سعد کے بارے میں میزان ہی میں لکھا ہے :

أحد أعلام والائمۃ الأثبات، ثقۃ حجۃ بلا نزاع.

معترض نے یحییٰ بن معین کی جو عبارت نقل کی ہے : ۱: وہ کوئی جرح نہیں ہے کہ اس سے ان کی روایات کو رد کر دیا جائے۔
۲: کیا یہ بات امام ابن معین سے باسند صحیح ثابت ہے، اگر ہے تو پیش کریں؟
۳: امام ابن معین تو ان کو خود ثقہ قرار دے رہے ہیں۔

(دیکھئے تاریخ عثمان بن سعید الدارمي عن یحیی بن معین ت 7)

امام ابن معین رحمہ اللہ کو اللیث زیادہ محبوب تھے۔

قال عثمان قلت فاللیث.. أعنی ابن سعد، أحبّ إلیک أو یحیی بن أیوب؟ فقال: اللیث أحبّ اليّ و یحیی ثقۃ.

(تاریخ عثمان بن سعید الدارمي : 719)

۴: حافظ ذہبی خود فرماتے ہیں:

لولا أنّ النباتي ذکر اللیث في ؟؟ علی الکامل لما ذکرتہ، لانہ ما ھو بدون مالک ولا سفیان وما تساھل فیہ اللیث فھو دلیل علی الجوان لأنہ قدوۃ.

(میزان 432/3)

معترض صاحب آپ کے اعتراض کا جواب حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے خود علی بھی دے دیا ہے، ذرا آنکھیں تو کھو لو اور دیکھو۔
معترض: اس روایت کے پہلے راوی عبد اللہ بن یوسف ہیں بخاری کے حاشیہ پر دیے گئے اسماء الرجال میں ان کو تنیسی بتایا گیا ہے جو بخاری کے اساتذہ میں سے ہیں اور ثقہ ہیں لیکن اہل سنت کی معتبر کتاب میزان الاعتدال 528/2

عبد اللہ بن یوسف عن اللیث لیس بمعتمد .

لیث بن سعد سے روایت کرنے والے جو عبد اللہ بن یوسف ہیں وہ لائق اعتماد نہیں ہیں۔
جواب: معترض صاحب پھر ذرا آنکھیں کھول کر میزان کو دیکھیں جن عبد اللہ بن یوسف پر جرح کر رہے ہو وہ عبد اللہ بن سلیمان بن یوسف ہے، میزان میں حافظ ذہبی نے خود وضاحت کی ہوئی ہے۔ خیانت اور دھوکہ سے کام نہ لیں، جو عبد اللہ بن یوسف صحیح بخاری کے راوی ہیں۔ اُن پر میزان میں جرح نہیں ہے، آپ نے خود ہی بخاری کے حاشیہ کے حوالے سے لکھا ہے انکو تفسیی بتایا گیا ہے، تو پھر کیا میزان (4713)میں جس عبد اللہ کی جرح نقل کی ہے وہ تنسیی ہی ہے؟ اُس سے اوپر والے راوی (رقم:4712)

عبد اللہ بن یوسف (خ، د، ت، س) التنسیی الثقۃ شیخ البخاري، أساء ابن عدي بذکرہ فی الکاملپر

نظر نہیں پڑی کیا؟پھر ذرا میزان کھول کر دیکھیں تم کسے دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہو۔
یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل عظیم ہے کہ جو بھی بخاری کی روایات کو ضعیف قرار دینے کی کوشش کرتا ہے اور صحیح بخاری پر حملہ کرتا ہے وہ خود ایسے علمی میدان میں ایسے ہی ذیل ہوتا ہے۔ والحمد للہ
معترض: نوٹ: یہ تھے بخاری کے راوی جن پر علمائے اہل سنت خود اعتبارنہیں کرتے تو وہ دوسروں تک صحیح بات کیسے پہنچا سکتے ہیں۔
جواب: صحیح بخاری کے جن روات پر معترض نے جرح کرنے کی کوشش کی ہے ، ثابت کیا جا چکا ہے کہ وہ ائمہ اہل سنت، علمائے حدیث کے ہاں قابل اعتماد وثقہ و صدوق علامء و ائمہ ہیں اور انھوں نے رہتی دنیا تک سیدنا و محبونا محمد رسول اللہ ﷺ کی ایک ایک بات کو اپنے اساتذہ سے سن کر اُسے یاد کرکے محفوظ طریقے سے پہنچا بھی دیا ہے۔ والحمد للہ
اور یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ معترض خود قابل اعتبار نہیں، صرف میزان الاعتدال کی عبارتوں میں کئی جگہ دھوکہ بازی اور خیانت سے کام لے کر ناقابل اعتماد بھی ہو چکا ہے۔

ترمذی کی اکلوتی روایت:

معترض نے درج بالا عنوان قائم کیا ہے۔ معترض کی یہ علمی حیثیت ہے کہ اکلوتی روایت کہہ رہے ہیں، حالانکہ یہ روایت صرف ترمذی میں ہی نہیں بلکہ حدیث کی اور بہت سی کتابوں میں موجود ہے، یہی روایت صحیح مسلم میں بھی موجود ہے۔
معترض: خود ترمذی لکھنے والے امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اس روایت کے راوی یزید بن کیسان کو ہم نہیں جانتے کسی راوی کے متعلق کسی محدث کا یہ کہہ دینا کافی ہوتا ہے۔
جواب: معترض کی علمی حیثیت یہ ہے کہ وہ خود امام ترمذی رحمہ اللہ کے اس قول

ھذا حدیث حسن غریب لا نعرفہ إلا من حدیث یزید بن کیسان

کا ترجمہ نہیں کر سکے۔یہ تو اُن کی جاھل ؟؟ ہونے کی بہت بڑی نشانی ہے، اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے ہم اس (حدیث کو) صرف یزید بن کیسا کی حدیث سے ہی جانتے ہیں۔
حضرت اعرابی کا مشہور قاعدہ ہے کہ جب نفی کے بعد اثبات آئے تو حصر پیدا کرتا ہے۔
یہاں تو آپ صحیح بخاری و دوسری احادیث کے روات کو جھوٹے ثابت کرتے ہوئے خود مفتری بن بیٹھے ہو، کہ امام ترمذی رحمہ اللہ پر جھوٹ گھڑ لیا ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ تو حدیث یزید بن کیسان کو بھی جانتے ہیں اور راوی یزید بن کیسان بھی جانتے ہیں اس وجہ سے ان کی احادیث حسن، حسن صحیح کہہ رہے ہیں۔ ملاحظہ ہو ترمذی کی احادیث : 3188،2900،3258
کسی راوی کے متعلق کسی محدث کا یہ کہہ دینا کافی ہوتا ہے۔
یہ اصول آپ کے اپنے ہی گھر کا بنایا ہوا ہے، جو کہ باطل ہے۔
معترض: تاہم ان کا نام اسماء الرجال جلد4صفحہ 439

قال أبو حاتم لا یحتج بہ وقال سعید القطان ھو صالح وسط لیس ممن یعتمد علیہ.ترجمہ ۔۔۔الخ

جواب: جب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ یزید بن کیسان کو جانتے بھی ہیں اور ان کی احادیث کو حسن صحیح بھی کہتے ہیں تو آپ کا ’’تاہم‘‘ لکھنا بھی غلط، باطل، ردی ٹھہرا۔
یزید بن کیسان ثقہ راوی ہیں ان کو محدثین ثقہ قرار دیا ہے:
۱: ابن معین رحمہ اللہ:

ثقۃ.

(الجرح والتعدیل 285/9سندہ صحیح)

۲: دارقطنی رحمہ اللہ:

ثقۃ.

(موسۃ اقوال أبی الحسن الداقطني 723/2)

۳: نسائی رحمہ اللہ:

ثقۃ.

(میزان 439/4)

۴: ابن حبان رحمہ اللہ:

ذکرہ في کتابہ الثقات.

۵: یعقوب بن سفیان رحمہ اللہ:

وثقہ

(دیکھئے تحریر تقریب ص860)

۶: امام مسلم رحمہ اللہ:

بتصحیح حدیثہ.

(مسلم: 25)

۷: حاکم رحمہ اللہ:

بتصحیح حدیثہ.

(مستدرک 366/2)

۸: ابو عوانہ رحمہ اللہ:

بتصحیح حدیثہ.

(مستخرج أبي عوانۃ :24)

۹: حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

غیر واحد ثقۃ.

(من تکلم فیہ ھو موثق 200/1)

۱۰: یحییٰ بن سعید بھی ان کو ھو صالح وسط کہہ کر توثیق ہی کر رہے ہیں۔
۱۱: ابو حاتم بھی ان کو صالح الحدیث کہتے ہیں۔

(دیکھئے الجرح والتعدیل 285/9)

معترض: ۱۔ اہل سنت کی معتبر کتاب میزان الاعتدال ج1صفحہ 353
بندر بن عمر، قال النخشی کذاب، ترجمہ: ان کا پورا نام بنداد بن عمر بتایا گیا ہے اور اسے کذاب بتایا گیا ہے۔
جواب: واہ سبحان اللہ!
معترض صاحب عرض ہے پہلے کسی ماہر عالم حدیث کے سامنے زانوئے تلمذ اختیار کریں تاکہ کم از کم ایک راویِ معروف کا تعین تو کر سکیں۔
جس بندار پر آپ نے جرح کر رکھی ہے وہ تو سنن ترمذی کا راوی ہی نہیں، بلکہ یہ تو کتب ستہ کا راوی بھی نہیں ہے، بلکہ وہ مجھے متقدمین محدثین کی کتب حدیث کے روات میں بھی نہیں مل سکے۔ واللّٰہ أعلم ونسالہ التوفیق.
آپ سنن ترمذی کے دوسرے نسخوں کو دیکھتے : مثلاً دارالسلام کا نسخہ، دارالکتب العلمیہ بیروت و بیت الافکار وغیرہ کا نسخہ تو آپ کو پتہ چل جاتا کہ یہ راوی محمد بن بشار ہیں جن کا لقب بندار ہے اور کنیت ابو بکر البصری ہے، جو کہ 167ھ میں پیدا ہوئے اور 252ھ میں فوت ہوئے ہیں اور ثقہ حافظ ہیں، جو کہ اصحاب حدیث کی ایک جماعت کے شیخ ہیں۔
آپ اسماء الرجال کا نام تو لیتے ہو لیکن اسماء الرجال کے ابجد سے بھی ناواقف ہو۔
اصول حدیث کی انواع میں سے ایک نوع معرفۃ الالقاب بھی ہے آپ ذرا اُس کا مطالعہ تو کرو، تاکہ آپ کو یہ تو پتہ چلے کہ بندار کون ہے۔
ایک ثقہ راوی حدیث کو کذاب قرار دینے والے خود اپنے بارے میں سوچ لو کہ تم کیا ہو۔
معترض: یہ روایت ابو ہریرہ سے شروع ہوتی ہے ۔۔۔ الخ
جواب: یہ حدیث بالکل صحیح ہے ، امام ابن مندہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ھذا حدیث صحیح علٰی صحتہ‘‘

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث میں : قال قال رسول اللّٰہ ﷺ کہہ کر بتا رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ لہٰذا یہ روایت قطعاً منقطع بھی نہیں ہے اور اس کے راویوں میں کوئی ایک راوی بھی کذاب وغیر معتمد نہیں ہیں، جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔
معترض: مسلم کی روایت کے راوی: عبید اللہ بن عمر القواریری ، محمد بن ابی بکر مقدمی، محمد بن عبد الملک اموی، ابع وانہ، عبد الملک بن عمیر، عبد اللہ بن حارث ، عباس بن عبد المطلب ۔
۱۔ اہل سنت کی معتبر کتاب میزان الاعتدلا جلد 3صفحہ 632 وقال ابو داؤود، لم یکن بمحکم العقل الخ.
جواب: معترض نے مسلم کی ایک ہی روایت کے سلسلہ سند کو مسلم سے لے کر آخر تک 7رجال شمار کیا ہے، حالانکہ امام مسلم رحمہ اللہ اس روایت کو اپنے تین اساتذہ عبید اللہ بن عمر القواریری، محمد بن ابی بکر المقدمی و محمد بن عبد الملک الاموی سے بیان کرتے ہیں، اور اُن کے تینوں اساتذہ اس حدیث کو امام ابو عوانہ سے بیان کرتے ہیں۔
امام مسلم اسی حدیث کو اسی جگہ پر اپنے چوتھے استاذ ابن ابی عمر حدثنا سفیان سے بیان کرتے ہیں اور اسی جگہ پر پانچویں استاد محمد بن حاتم سے بیان کر رہے ہیں۔ معترض نے ان کے ایک استاد محمد بن عبد الملک الاموی پر جرح کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن کامیاب نہیں ہو سکا۔ یہاں بھی معترض پہلے کی طرح راوی کا تعین ہی نہیں کیا پھر دھوکہ دینے کی کوشش کی، دونوں باتوں میں سے ایک ضرور ہے اگر نہیں تو پھر جہالت کی نسبت کا تو حقدار ہے ہی۔
صحیح مسلم کا راوی محمد بن عبد الملک بن ابی الشوارب ہے اور ان کی کنیت ابو عبد اللہ البصری ہے، یہ راوی القرشی الاموی ہیں اور ان کی تاریخ وفات 244ھ ہے، یہ مسلم ، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ کے راوی اور دسویں(10) طبقے کے ہیں۔ اور ثقہ وصدوق راوی ہیں۔ اور جس راوی پر معترض نے جرح کرنے کی کوشش کی ہے وہ صحیح مسلم کے راوی ہی نہیں ہیں۔ ان کا نام محمد بن عبد الملک بن مروان بن الحکم اور کنیت ابو جعفر ہے، یہ راوی الواسطی الدقیقی ہے، ان کی تاریخ وفات 266ھ ہے اور یہ گیارہویں (11) طھقے کے راوی ہیں اور حقیقت حال یہ ہے کہ یہ راوی بھی عند الجمہور ثقہ ہیں۔ دیکھئے تحریر تقریب التہذیب۔
اگر آپ میزان ہی میں محمد بن عبد الملک کے بعد بریکٹ میں د، ق کو دیکھ رک ان رموز کو سمجھ لیتے تو یہ بہت بڑی دھوکہ بازی یا جہالت نہ کرتے۔
د اور ق رموز بتا رہے ہیں کہ یہ کس کتاب کے راوی ہیں۔
معترض: اہل سنت کی معتبر کتاب میزان الاعتدال جلد 2 صفحہ 57 چوتھی روایت کے راوی عبد الرحمن بن عبد الہ ا [معترض نے ایسے ہی لکھا ہوا ہے]

قال ابو احمد الحاکم، لیس بالمتین عندھم وقال ابو بکر بن داؤد ضعیف.

ترجمہ : حاکم لکھتے ہیں ان مین سے متابنت نہیں تھی، ابوبکر بن داود کے مطابق ضعیف تھا۔
جواب: عرض ہے چوتھی روایت سے کونسی روایت مراد ہے اور کس کتاب کی روایت مرادہے، اس کا تعین ضروری ہے، ورنہ پہلی کی طرح یہ بھی دھوکہ بازی ہی ہو گی۔
اگر آپ کی مراد صحیح مسلم کے راوی عبد الرحمن بن عب الملک ہیں تو عرض ہے کہ صحیح مسلم کے راوی عبد الرحمن بن عبد الملک بن أبجر ثقہ راوی ہیں۔
معترض: عبد الملک بن عمیر اور تیسری روایت کے راوی ابن الہاد کا ذکر آپ پہلے پڑھ چکے ہیں۔
جواب: آپ کے ان اعتراضات کا جواب بھی پہلے صفحات پر گزر چکا ہے۔
آخر میں یہ بات بھی اپنے ذہن نشین کر لیں کہ آپ کے صحیح احادیث پر حملے کا جواب آپ کو مل چکا ہے۔ آپ جب بھی جس بھی صحیح حدیثِ رسول ﷺپر حملہ کرنے کی کوشش کریں گے تو اسی طرح آپ کو جواب ملتا ہی رہے گا۔ (ان شاء اللہ)
اب اگر آپ میری اس تحریر کا جواب دیں تو عرض ہے کہ جس طرح آپ کی ایک ایک بات کو سامنے رکھ کر جواب دیا گیا ہے اسی طرح آپ بھی میری اس تحریر میں سے ایک ایک بات کو نقل کرکے جواب لکھیں۔
اگر ایسا کریں گے تو آپ کو جواب قبول ہو گا اور آپ کی تحریر کا پھر آگے بھی جواب دیا جائے گا۔ان شاء اللہ
اگر ہماری اس تحریر کو سامنے رکھ کر جواب نہ دیا گیا تو پھر آپ کو جواب قابل قبول بھی نہیں ہوگا اور آپ کی تحریر کا جواب بھی نہیں دیا جائے گا۔
اصل مضمون کے لئے پی ڈی ایف  کھولیں۔
وما علینا الا البلاغ، الشیخ حبیب الرحمن ہزاروی


یونیکوڈ مضامین کی مکمل لسٹ دیکھیں

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں