یہ مضمون اس سے پہلے کہیں شائع نہیں ہوا۔ اس مضمون میں کمپوزنگ کی غلطیاں ہو سکتی ہیں کیونکہ اسے ان پیج پروگرام سے یونیکوڈ میں تبدیل کیا گیا ہے۔ اصل مضمون کے لئے پی ڈی ایف کھولیں۔ ایک معترض صحیح بخاری کی احادیث کے متعلق لکھتا ہے کہ: ’’بخاری شریف کی چھ روایات کے راوی اکثریت جھوٹے اور ضعیف‘‘ یہ عنوان قائم کرنے کے بعد لکھتا ہے: ’’۱: مسیب …….. (سکین) روایت نمبر 1، 2، 3، 4 میں ابتدائی راوی مسیب ہیں جن کے متعلق بخاری کی شرح لکھنے والے دو علماء کا بیان ملاحظہ ہو: ’’اہل سنت کی معتبر کتاب کرمانی شرح بخاری جلد 7صفحہ 142… الخ۔‘‘ ذیل میں معترض کی ہر ہر بات نقل کر کے اُس کا جواب دیا گیا ہے، پہلا اعتراض جو کہ اوپر مسیب کے عنوان سے ہے اس کا جواب: مسیب بن حَزن رضی اللہ عنہ:صحابی رسول ﷺ ہیں، ان کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب التہذیب میں لکھا ہے: ’’لہ ولأبیہ صحبۃ۔ (ت 6774)‘‘ حافظ ابن عساکر لکھتے ہیں: ’’لہ صحبۃ وھو ممن بایع تحت الشجرۃ، وروی عن النبي ﷺ حدیثا ، وعن أبیہ حزن ابن أبي وھب.‘‘ (تاریخ دمشق 181/58) ابن قانع نے معجم الصحابۃ، ابو نعیم الاصبہانی نے معرفۃ لصحابۃ ، ابن عبد البر نے الاستیعاب، ابن الاثیر نے اسد الغابۃ، حافظ ابن حجر نے الاصابۃ، صحابہ میں ذکر کیا ہے، ان کے صحابی ہونے میں شک نہیں ہے۔ ’’المسیب بن حزن أبو سعید صحابي اٰماميّ حسن.‘‘ (15/1ت11814) آگے مسیب بن حزن کے ترجمہ کے تحت لکھتا ہے: ’’وقد حضر بیعۃ الرضوان و قد عدہ الشیخ رہ في رجالہ من غیر کنیۃ من أصحاب رسول اللّٰہ ؐ و نقل فی المنہج عدّہ مرّۃ اخری من اصحاب عليؑ ‘‘ (217/3) اور محمد الجواھری: المفید من معجم رجال الحدیث میں لکھتا ہے: مسیب بن حزن: من أصحاب رسول اللّٰہ (ص) رجال الشیخ۔ عنوانہ العلامۃ: مسیب بن حزن ’’حرب‘‘ یکنّی أبا سعید. وقال ابن داود المسیب بن جرّي یکنی أبا سعید ’ی‘‘ ’’جخ‘‘ أقول ما ذکراہ ھوا الصحیح. و في بعض النسخ میسرۃ بن المیسب وھو خطأ.‘‘ (ص 605) اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اہل سنت اہل حدیث کا اجماعی قاعدہ ہے کہ ’’الصحابۃ کلھم عدول‘‘ چند ایک حوالے درج ذیل ہیں: لأن الصحابۃ کلھم عدول ، واللّٰہ أعلم (میانۃ صحیح مسلم:178) ۲: ابن شاہین: لأنّ الصحابۃ علیہم السلام أرفع حالاً من أن یقال لھم: ثقۃ، ھم عدول الدِّین. (شرح مذاہب أھل السنۃ لابن شاہین ص 45) ۳: قاضی محمد بن عبد اللہ ابو بکر بن العربی نے اپنی کتاب العوصم من القواصم (ص32) میں عنوان قائم کیا ہے: ’’أصحاب رسول اللّٰہ ﷺ عدول‘‘ ۴: ابن الاثیر: الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم أجمعین عدول بتعدیل اللّٰہ تعالٰی و رسولہ لا یتاجون إلی بحث عن عدالتھم. (جامع الأصول 89/1) ۵: ابن عبد البر: و نحن و إن کان الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہ قد کفینا البعث عن أحوالھم لإجماع أھل الحق من المسلمین وھم أھل السنۃ والجماعۃ علی أنھم کلھم عدول. (الاستیعاب فی اسماء الأصحاب 18/1) لان الصحابۃ کلھم عدول موضیون وھذا أمر مجتمع علیہ عند أھل العلم بالحدیث. (الاستذکار 301/3) ۶: ابن ابی حاتم: الصحابۃ کاعنوان قائم کر کے اس کے تحت لکھتے ہیں: سماھم عدول الامۃ ۔۔۔ فکانوا عدول الأمۃ وأئمۃ الھدي وحج الدین و نقلۃ الکتاب والسنۃ. (تقدمۃ الجرح والتعدیل 7/1) ۷: ابن بطال: أن الصحابۃ کان یأخذ بعضھم العلم عن بعض و یصدق بعضھم بعضًا و کلھم عدول رضیً . وھم خیر أمۃٍ أخرجت للناس. (شرح ابن بطال 46/10) ۸: القرطبی: فالصحابۃ کلھم عدول ، أولیاء اللّٰہ تعالی و أصفیاؤہ، و خیرتہ من خلقہ بعد أنبیاۂ و رسلہ، ھذا مذہب أھل السنۃ و الذي علیہ الجماعۃ من أئمۃ ھذہ والأمۃ. (الجامع لا حکام القرآن 299/16) ۹: ثم انّ الامّۃ مجمعۃٌ علی تعدیل جمیع الصحابۃ و من لا بس الفتن منھم فکذلک بإجماع العلماء الذین یعتدّ بھم فی الإجماع. (معرفۃ أنواع علم الحدیث لابن الصلاح ص 398) ۱۰: خطیب بغدادی: لکون جمیعھم عدولا فرضین. (الکفایۃ 436/2) ۱۱: ابن الترکمانی حنفی: الصحابۃ وھم عدول فلا یضرھم الجماعۃ. (الجواھر النقی 83/1) ۱۲: علامہ نووی: الصحابۃ کلھم عدول ، من لا بس الفتن وغیرہم باجماع من یعتدّبہ. (تقریب والتیسر :457) ۱۳: الہیثمی: اپنی کتاب مجمع الزوائد میں عنوان قائم کیا ہے: باب لا تضر الجھالۃ بالصحابۃ لأنھم عدول. (مجمع الزوائد 153/1) ۱۴: ابن کثیر: والصحابۃ کلھم عدول عند أھل السنۃ والجماعۃ. (اختصار علوم الحدیث ص1810) ۱۵: حافظ ابن حجر عسقلانی: اتفق أھل السنۃ علی أن الجمیع عدول. (الاصابۃ 9/1) آگے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: إذا رأیت الرجل ینقص أحداً من أصحاب رسول اللّٰہ a فأعلم أنہ زندیق. (الاصابۃ 10/1) ان سب علماء و محدثین رحمہم اللہ اجمعین نے صراحت کی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم عادل ہیں۔ ((سعید بن المسیب)) بفتح الیاء علی المشھور و بکسرھا. قال النووي: لم یرو عن المسیب الا ابنہ ففیہ رد علی الحاکم أبي عبد اللّٰہ فیما قال ان البخاري لم یخرج عن أحد ممن لم یروعنہ إلا واحد ولعلہ أراد من غیر الصحابي. نووی (رحمہ اللہ) کہتے ہیں: مسیب (رضی اللہ عنہ) سے ان کے بیٹے کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی اس میں ابو عبد اللہ الحاکم کے اس قول کا رد ہے کہ (امام) بخاری( رحمہ اللہ) نے ان رواۃ کی احادیث نہیں بیان کیں کہ جن سے صرف ایک راوی ہی نے روایت بیان کی ہو اور شاید کہ ان کی مراد صحابی نہ ہو۔ (البخاری شرح الکرمانی 143/17) کرمانی کی عبارت کا حوالہ دیا گیا تھا۔ اس عبارت میں کرمانی نووی کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں۔ اور علامہ نووی کی یہ بات ان کی کتاب شرح صحیح مسلم (213/1) میں موجود ہے۔ ولم یخرج البخاري و مسلم ھذا النوع من الحدیث فی الصحیح. (المدخل الی معرفۃ کتاب الاکلیل ص47) اور ولعلہ أراد من غیر الصحابۃ واللّٰہ أعلم علامہ نووی کا قول ہے جس میں وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ شاید حاکم کی مراد صحابہ (رضی اللہ عنہم) کے علاوہ سے ہو۔ لم یردہ عن المسیب الا ابنہ سعید. اور بیان کرنے والا ثقہ ہو تو اس کی روایت رد نہیں کی جاتی الا یہ کہ باقی سند میں کوئی علت ہو۔ ہذا الاسناد لیس علی شرط البخاري. اس کے بارے میں عرض ہے کہ کرمانی کی کتاب سے محولہ عبارت نہیں مل سکی البتہ عمدۃ القاری میں عینی نے کرمانی کے حوالے سے یوں تحریر کیا ہے: قال الکرماني قیل ھذا الإسناد لیس علی شرط البخاري اذلم یرو عن المسیب الا ابنہ. اس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ کرمانی و عینی دونوں ہی اس بات سے بری ہیں کہ انھوں نے کہا ہو کہ یہ حدیث بخاری کی شرط پر نہیں ہے کیونکہ قال الکرماني کے بعد قیل صیغہ مجہول کا ہے۔ جس کا قائل نامعلوم ہے۔ ھذا ممایبطل القاعدۃ القائلۃ بأن شرط البخاري أن لا یروي عن شخص یکون لہ رواہ واحد بل راویان اذ لیس للمسیب إلا راو واحد و ھوابنہ. (شرح الکرماني 124/23) اور یہی بات عینی حنفی نے کرمانی ہی سے عمدۃ القاری (199/23) میں نقل کی ہے۔ (صحیح البخاري: 923،3145،7535) ۲: قیس بن أبي حازم عن مرداس الأسلمي (رضی اللہ عنہ) سے یذھب الصالحون ، الاوّل فالاوّل… والی حدیث۔ (صحیح البخاري:6434) معترض: جو امام بخاری نے اپنی شرط کو توڑتے ہوئے دو ابتدائی غیر صحابی راویوں کی بجائے صرف ایک راوی سے قبول کر لی ہے۔ ’’فالقسم الأول من المتفق علیھا اختیار البخاري و مسلم وھو الوارعۃ الأولی من الصحیح ۔۔۔ إلخ ‘‘ (المدخل الی معرفۃ کتاب الإکلیل ص42-43) ۱: تو عرض ہے کہ یہ دعویٰ درست نہیں ہے ۔ اس کے نقیض کی دو مثالیں گزر چکی ہیں۔ ھو صھیح علی شرطھما جمیعًا، فإن البخاري قد احتج بحدیث قیس بن أبي حازم ، عن مرداس الأسلمي، عن النبي ﷺ : بذھب الصالحون. (مستدرک 24/1نسخۃ أخریٰ 75/1) ۳: ابو الفضل محمد بن طاہر المقدسی رحمہ اللہ امام حاکم رحمہ اللہ کے اس دعویٰ کو نقل کرکے اس کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’أن البخاري و مسلمًا لم یشترطا ھذا الشرط ولا نقل عن واحد منھما أنہ قال ذلک ۔۔۔ إلخ‘‘ (شروط الأئمۃ الستۃ ص17) ۴: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ امام حاکم رحمہ اللہ کے دعویٰ کو نقل کر کے یوں فرماتے ہیں: فمنتقض علیہ بأنھما أخرجا أحادیث جماعۃ من الصحابۃ لیس لعلم إلا راو واحد أنتھی. (مقدمۃ فتح البخاري ص9) ۵: کرمانی جن کا حوالہ آپ نے دیا ہے۔ اُن کا قول بھی اس دعویٰ کی تردید میں پہلے گزر چکا ہے۔ ’’بأن المسیب علی قول العسکري ممن بائع تحت الشجرۃ تال فایاما کان لم یشھدہ وفاۃ أبي طالب .‘‘ جواب: ۱: معترض نے اس کا ترجمہ یوں لکھا ہے کہ ’’حضرت مسیب نے عسکری کے قول کے مطابق بیعت رضوان کے وقت اسلام قبول کیا۔‘‘ ’’وَوَجْہُ الرَّدِّ أَنَّہُ لَا یَلْزَمُ مِنْ کَوْنِ الْمُسَیَّبِ تَأَخَّرَ إِسْلَامُہُ أَنْ لَا یَشْہَدَ وَفَاۃَ أَبِی طَالِبٍ کَمَا شَہِدَہَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِی أُمَیَّۃَ وَہُوَ یَوْمَءِذٍ کَافِرٌ ثُمَّ أَسْلَمَ بَعْدَ ذَلِکَ وَعَجَبٌ مِنْ ہَذَا الْقَاءِلُ کَیْفَ یَعْزُو کَوْنَ الْمُسَیَّبِ کَانَ مِمَّنْ بَایَعَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ إِلَی الْعَسْکَرِيِّ وَیَغْفُلُ عَنْ کَوْنِ ذَلِکَ ثَابِتًا فِی ہَذَا الصَّحِیحِ الَّذِيْ شَرَحَہُ کَمَا مَرَّ فِی الْمَغَازِيْ وَاضِحًا‘‘ (فتح الباري 474-475/10) معترض: صحابی رسول سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جو عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں، کا بیان کہ قرآن مسیب پر نہیں اترا: عبد الرزاق و سعید بن منصور و ابو داود فی ناسحہ و ابنہ فی المصاحف والنساءي و ابن جریر و ابن المنذر و ابن أبي حاتم والحاکم. ان کتابوں میں یہ اثراس سند سے مروی ہے: ہشیم : أنبا یعلی بن عطاء عن القاسم بن ربیعۃ قال: کان سعد بن أبي وقاص رضی اللہ عنہ إذا ۔۔۔إلخ ۱: یہ قول سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے۔ وللّٰہ الحمد لیکن بطور الزام عرض ہے کہ شیعہ کی کتاب تنقیع المقال میں سعد بن ابی وقاصرضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے: ’’ضعیف‘‘ (ص 62) نعوذ باللّٰہ من ذلک. ۲: سعید بن المسیب رحمہ اللہ جو ؟؟ پڑھا ہے تو یہ اختلاف القرأۃ کی وجہ سے پڑا ہے ، اس کی تفصیل در منثور (104/1) میں موجود ہے اور اسی طرح ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ کی کتاب الناسخ والمنسوخ میں بھی موجود ہے۔ ’’الإمام شیخ الإسلام فقیہ المدینۃ أبو محمد المخذومي اجلّ التابعین. (تذکرۃ الحفاظ 54/1) وقال : ثقۃ دجّۃ فقیہ رفیع الذکر، رأس فی العلم و العمل. (الکاشف 436/1) ۲: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’أحد العلماء الأثبات الفقہا الکبار.‘‘ (تقریب التہذیب : ت 2396) ۳: المامقانی شیعہ: سعید بن المسیب بن حزن أبو محمد المخذومي ثقۃ علی الأقوی. (تنقیح المقال 64/1) ابن شہاب زہری: معترض نے امام زہری رحمہ اللہ کو مجروح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، معترض کی عبارتیں اور ان کے جواب سے پہلے محدثین سے امام زہری کی توثیق و تعریف ملاحظہ ہو: ’’ما أدرکت بالمدینۃ فقیھًا محدّثًا غیر واحد قلت : من ھو ؟ قال ابن شھاب الزہري.‘‘ (طبقات الکبریٰ لابن سعد 157/1طبع مکتبۃ العلوم والحکم) ۲: ابن سعد رحمہ اللہ : ’’قال : کان الزھري ثقۃ کثیر الحدیث والعلم والروایۃ فقیھا جامعًا.‘‘ (طبقات الکبریٰ لابن سعد 186/1) ۳: امام ابو عثمان اسماعیل بن عبد الرحمن الصابونی رحمہ اللہ: ’’قال: امام الأئمۃ في عصرہ و عین علماء الأمۃ في وقتہ.‘‘ (عقیدۃ السلف و أصحاب الحدیث ص 249) ۴: امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے عثمان بن سعید الدارمی رحمہ اللہ سوال کرتے ہیں: ’’فالزھري أحبّ إلیک في سعید بن المسیب أو قتادۃ؟ فقال کلاھما: قلت فھما أحبّ إلیہ أیحیی بن سعید ؟ فقال : کل ثقۃ.‘‘ (تاریخ عثمان بن سعید الدارمي ص 46-47رقم 16و17) ۵: امام یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ : ’’ما بقي عند أحد من العلم ما بقي عند ابن شھاب.‘‘ (المعروفۃ والتاریخ للفسوي631/1) ۶: امام لیث بن سعد رحمہ اللہ: ’’ما رأیت عالمًا قط أجمع من ابن شھاب، ولا أکثر علمًا منہ .‘‘ (المعروفۃ والتاریخ للفسوي 623/1) ۷: امام علی بن المدینی رحمہ اللہ: ’’قال : کان ھولاء الستۃ معن اعتمد علیھم الناس فی الحدیث الزہري لاھل المدینۃ و عمرو بن دینار لاھل مکۃ و أبو إسحاق والأعمش لأھل الکوفۃ یحییٰ بن أبي کثیر و قتادۃ لأھل البصرۃ.‘‘ (المعروفۃ والتاریخ للفسوي 621/1) ۸: امام سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’مات الزھري یوم مات و لیس أحد أعلم بالسنۃ منہ .‘‘ (المعروفۃ والتریخ 635/1) ۹: عبید اللہ بن عمر رحمہ اللہ: ’’قال : نشأت فأردت أن اطلب العلم جعلت أتي أشیاخ آل عمر رجلاً رجلا فأقول : ما سمعت من سالم کلما أتیت رجلا منھم قال: علیک بابن شھاب فان ابن شھاب کان یلزمہ قال و ابن شھاب بالشام حیئذ ، فلزمت نافعآ فجعل اللّٰہ في ذلک خیر کثیرًا. ‘‘ (التاریخ لابن أبي خیثمۃ 145/3، المعرفۃ 638/1) ۱۰: امام ایوب السختیارنی رحمہ اللہ: ’’ قال: ما رأیت أحدًا أعلم من الزھري . فقال لہ صخر بن جویریۃ ولا الحسن ؟ قال: ما رأیت أحدًا أعلم من الزھري. ‘‘ (العلل و معرفۃ الرجال 171/1رقم: 107) ۱۱: امام ابو زرعہ الرازی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: الزھری و عمرو بن دینار کے متعلق توانھوں نے کہا: الزھري احفظ الرجلین. (الجرح والتعدیل 74/8) ۱۲: امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ: الزھري احب لی من الأعمش ، یحتج بحدیثہ و اثبت اصحاب انس الزھري. (الجرح والتعدیل 74/8) ۱۳: امام الحافظ احمد بن عبد اللہ بن صالح ابی الحسن العجلی رحمہ اللہ: قال: تابعي، ثقۃ. (تاریخ الثقات للعجلي ص 412ت1500) ۱۴: امام ابن حبان رحمہ اللہ: ذکرہ في کتابہ : الثقات و قال: و کان من أحفظ أھل مانہ و أحسنھم سیاقالمتون الأخبار و کان فقیھا فاضلًا. (الثقات 346/5) ۱۵: امام دارقطنی رحمہ اللہ: ’’ قال : لا أعلم أحدًا أنبل رجالاً ۔۔۔ من أھل المدینۃ : الزھري. ‘‘ (سوالات السلمي للدارقطني : 313) ۱۶: امام ابن عساکر رحمہ اللہ: ’’ قال : أحد الأعلام ، من أئمۃ الإسلام .‘‘ (تاریخ مدینۃ دمشق ، الزھري: 3) ۱۷: علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’و مناقبہ والثناء علیہ و علي حفظہ أکثر من أن یحصر .‘‘ (تہذیب الأسما واللغات 91/1) ۱۸: علامہ انب خلکان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’أحد الفقھاء والمحدثین والأعلام التابعین بالمدینۃ .‘‘ (وفیات الأعیان 177/4) ۱۹: حافظ ذہبی رحمہ اللہ: ’’ قال: الإمام العلم ، حافظ زمانہ .‘‘ (سیر أعلام النبلاء 327/5) ۲۰: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ: ’’ قال : الفقیہ الحافظ ، متفق علی جلالتہ وإتقانہ.‘‘ (تقریب التہذیب ص 716ت6297) یہ صرف بطور مثال کے چند ائمہ و محدثین رحمہم اللہ علیہم اجمعین کی تعریفات و توثیقات نقل کی گئی ہیں، امام زہری رحمہ اللہ کی جلالت شان پر اور بھی بہت حوالے موجود ہیں۔ ’’وقال الجماھیر ھو کعن محمول علی السماع بالشرط المقدم و ھذا ھوالصحیح.‘‘ (مقدمہ شرح صحیح مسلم 32/1) اور یہاں یہ بھ یاد رہے کہ اصول حدیث کا مسئلہ ہے ’’المعنعن‘‘ جس کے بارے میں نووی رحمہ اللہ خود لکھتے ہیں: الصحیح الذي علیہ العمل و قالہ الجماھیر من أصحاب الحدیث والفقہ والأصول انہ متصل بشرط أن یکون المعنعن غیر مدلس. (حوالہ سابقہ) اور صحیح بخاری(1360) میں تو امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: أخبرني سعید ن المسیب. لہٰذا آپ کا یہ اعتراض بھی تارعنکبوت ہوا۔ (وللہ الحمد) واعلم أن ما کان فی الصحیحین عن المدلسین بعن و نحوھا فمحصول علی ثبوت السماع من جھۃ اخری. (مقدمۃ شرح صحیح مسلم ص33) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ امام زہری رحمہ اللہ کی تو یوں تعریف کرتے ہیں: سألتہ عن : ابن أبي ذئب والزہري ، أیّما أحب الیک قال: جمیعًا واحد فی الثبت. (مسائل الإمام احمد بن حنبل روایۃ اسحاق بن ابراہیم ابن ھاني 221/2رقم :2212) ۲۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے زہری و شعبی کے بارے میں پوچھا گیا کہ جب دونوں کا اختلاف ہو جائے تو آپ کو ان میں سے کون زیادہ پسند ہے اور کون زیادہ اعلم ہے؟ تو آپ نے جواب دیا: کلاھما عالم فیکون الزہري قد سمع عن النبيﷺ الحدیث فیذھب الیہ فھو اعجب الینا ویکون الشعبي قد سمع الحدیث ولم سیمعہ الزہري فھو اعجب الینا. (المعرفۃ والتاریخ 176/2) ۳۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اذا اجتمع رأي الزہري وقتادۃ أیھما أحب الیک؟ قال رأ الزھري اعحب الي. (المعرفۃ والتاریخ 165/2) ۴۔ امام مالک رحمہ اللہ امام زہری رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: جالستہ عشر سنین کیوم واحد . (تہذیب الکمال للمزي 511/6) معترض: نوٹ: علاوہ ازیں سعید بن مسیب نے بھی رسول اللہ کی مرفوع حدیث روایت نہیں کی۔ معمر بن راشد احد اعلام الثقات لہ اوھام۔۔۔إلخ جواب: معمر بن راشد رحمہ اللہ کو جمہور محدثین نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے اور بخاری اور مسلم رحمہما اللہ نے صحیحین کے اصول میں ان سے حدیثیں بیان کیں ہیں۔ معمر عن ثابت ضعیف. یہ روایت یعنی صحیح بخاری والی تو امام معمر بن راشد امام زہری سے بیان کررہے ہیں تاکہ ثابت سے اور امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ معمر عن الزہری کے بارے میں فرماتے ہیں: ھو من أثبتھم فی الزہري. (میزان الاعتدال 154/4) معترض کی اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ علوم الحدیث اور اسماء الرجال سے بالکل ناواقف ہیں۔ ذکرہ فی کتابہ الثقات. (ص435رقم:1611) ۲: امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ: قال:صالح الحدیث. (الجرح والتعدیل 257/8) ۳: امام ابن حبان رحمہ اللہ: قال: کان فقیھا متقنا حافظا ورعا. (الثقات 484/7) ۴: امام یعقوب بن شیبہ: قال: معمر ثقۃ و صالح الحدیث عن الزہري. (تہذیب الکمال للمزي 182/7) ۵: امام نسائی رحمہ اللہ: قال: لم یود ھذا الحدیث أحدٌ من الثقات الا معمر. (السنن الکبریٰ للنساءي 340/1ح 669) وقال: معمر بن راشد الثقۃ المأمون . (تہذیب الکمال 182/7) ۶: امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ: قال: أثبت الناس فی الزہري مالک بن أنس و معمر و یونس و عقیل و شعیب بن أبي حمزہ، و ابن عیینۃ. (تہذیب الکمال 182/7) ۷: امام الخلیلی رحمہ اللہ : کچھ رواۃ کا ذکر کیا اور اُن میں امام معمر بن راشد کا بھی ذکر کیا اور فرمایا: وھو لاء ثقات. (الارشاد للخلیلي 500/2) ۸: امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ (السنن الدارقطني 143/1ح480) ۹: امام ذہبی رحمہ اللہ: الإمام، الحافظ، شیخ الإسلام. (سیر أعلام النبلاء 5/7) وقال : أحد الاعلام الثقات. (میزان الاعتدال 154/4) ۱۰: حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ: ثقۃ ثبت فاضل. (تقریب التہذیب ص 767ت 6809) ۱۱: علامہ نووی رحمہ اللہ: قال: واتفقوا علی توثیقہ و جلالتہ. (تہذیب الاسماء والصفات 107/2) امام معمر بن راشد رحمہ اللہ کی توثیق کے اور بھی بہت حوالے ہیں لیکن یہاں انہی پر اکتفاء ہے۔ اتنی بری زبردست توثیق کے بعد بھی اگر کوئی امام معمر کو مجروح ثابت کرنے کی کوشش کرے تو وہ خود ہی مجروح قرار پائے گا۔ واللّٰہ المستعان محمود بن غیلانمعترض لکھتے ہیں: میزان الاعتدال میں اس نام کا کوئی شخص نہیں صرف ابن غیلان ہے اور وہ بھی صرف ایک ہی راوی ہے اس کے متعلق لکھا ہے: ابن غیلان روی عن عبد اللّٰہ بن مسعود فی الوضوء بالنبیذ روی عنہ أبو سلام سالت أبا زرعۃ عن ابن غیلان ھذا فقال: مجہول. جس سے صاف ظاہر ہے کہ محمود بن غیلان رحمہ اللہ پر یہ جرح سرے سے ہے ہی نہیں اور محمود بن غیلان رحمہ اللہ جو کہ صحیح بخاری ، مسلم، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ کے راوی ثقہ ہیں بلکہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے خود ان کو الامام الحافظ الحجۃ قرار دیا ہے۔ ان کی توثیق کے چند ایک حوالے پیش خدمت ہیں: قال ثقۃ أعرفہ بالحدیث، صاحب سنۃ و قد حبس بسبب القرآن. (تاریخ بغداد 89/13و موسوعۃ اقوال الامام احمد بن حنبل 331/3) ۲: ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ: فقال: ثقۃ. (الجرح والتعدیل 291/8) ۳: امام نسائی رحمہ اللہ: قال: ثقۃ. (تسمیۃ مشایخ ت 150) ۴: امام ابن حبان رحمہ اللہ: ذکرہ في کتابہ الثقات. (202/9) ۵: حافظ ذہبی رحمہ اللہ: قال: الامام الحافظ الحجۃ، ابو أحمد العدوي مولاھم المروزي من ائمۃ الأثر. (سیر أعلام النبلاء 223/12) ۶: حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ: ثقۃ. (تقریب التہذیب ص736ت 6515) اس زبردست توثیق کے بعد بھی محمود بن غیلان کو ’’مجہول‘‘ قرار دینے والا خود مجہول ہے۔ مثل إسحاق یسال عنہ، و إسحاق یسال عنہ، إسحاق عندنا من ائمۃ المسلمین. (الجرح والتعدیل 209-210/2) ۲: ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ: قال: إسحاق بن راہویۃ إمام من أئمۃ المسلمین. (الجرح والتعدیل 210/2) ۳: امام ابن حبان رحمہ اللہ: قال: وکان إسحاق بن سادات زماہ فقھا و علما و حفظا و نظرا، معن صنف الکتب و فرع السنن و ذب عنھا و قمع من خالفھا. (الثقات لابن حبان 116/8) ۴: امام نسائی رحمہ: قال: أحد الأیعۃ. (تسمیۃ مشایغ ص62ت 100) ۵: الخطیب بغدادی رحمہ اللہ: قال: کان أحد ائمۃ المسلمین ، و علما من اعلام الدین، اجتمع لہ الحدیث وانعقہء والحفظ والصدق والورع والزہد. (تاریخ بغداد 345/6) ۶: حافظ ذہبی رحمہ اللہ: قال: ھو الإمام الکبیر، شیخ المشرق . سید الحفاظ. (سیر أعلام النبلاء 358/11) وقال: أحد الالاعقالا علام،ثقۃ حجۃ. (میزان الاعتدال 183-182/1) ۷: ؟؟رحمہ اللہ: قال: أحد الاعلام المتبوعین. (الوافي بالوفیات 251/8) ۸: سبکی: قال: أحد ائمۃ الدین و أعلام المسلمین و ھداۃ المؤمنین الجامع بین الفقۃ والحدیث والورع و التقویٰ. (طبقات الشافعیۃ الکبرٰی 83/2) ۹: برکات بن احمد بن محمد الخطیب رحمہ اللہ: إمام من أعلام الأئمۃ . (الکواکب النیرات 81/1ت4) ۱۰: ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ: قال: ثقۃ حافظ مجتھد. (تقریب ص76ت 332) عبد الرزاق: معترض لکھتا ہے: پہلی اور دوسری روایت میں معمر کے بعد عبد الرزاق کا کام ہے اور یہ عبد الرزاق ابن ہمام ہیں حفاظ حدیث میں آپ کا مقام نہایت ارفع ہے، لیکن ان کی روایات بھی اغلاط سے مبرا نہیں۔ وقال النساءي: فیہ نظر لمن کتب عنہ بأخرۃ روی عنہ أحادیث مناکیر اس کا ترجمہ معترض نے یہ لکھا ہے کہ چنانچہ امام نسائی فرماتے ہیں کہ وہ منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں اور ان کا آخر پر لکھا ہوا کلام محل نظر ہے۔! (دیکھئے نہایۃ الاغتباط ص219) اور نمبر 2 ایسا راوی جو اختلاط کا شکار ہوا ہو اور اُس کی روایات صحیحین میں بھی ہوں تو اصول حدیث میں یہ مقرر ہے کہ وہ اختلاط سے قبل کی ہیں، ابن صلاح فرماتے ہیں: وأعلم أن من کان من ھذا القبیل معتجًا بروایتہ فی الصحیحین أو أحدہما فإنا نعرف علی الجملۃ أن ذلک مما تمیز و کان ماخوذًا عنہ قبل الاختلاط. (معرفۃ انواع علم الحدیث:499) آگے ابن عدی کی بات نقل کی ہے تو عرض ہے کہ کیا یہ روایت فضائل سے ہے اور کیا جو شخص شیعہ ہو تو اُس کی روایت بھی تمہارے نزدیک مردود ہے۔ ثقۃ، یخطئ علی معمر في أحادیث لم تکن فی الکتاب. کہ ثقہ ہیں معمر کی اُن احادیث میں غلطی کرتا ہے جو کہ کتاب میں نہ ہو اور یہ حدیث کو اُن کی کتاب تفسیر عبد الرزاق (167/2رقم :1132) طب: دارالکتب المعلمیۃ بیروت میں موجود ہے۔ کان عبد الرزاق یحفظ حدیث معمر قال: نعم. (تاریخ أبي زرعۃ الدمشقي ص457) اور اگر آپ میزان الاعتدال کے صفحہ 609کو دیکھتے تو ایسی جسارت نہ کرتے کیونکہ یہ حوالہ میزان 609میں بھی موجود ہے۔ معترض: اسحق:تیسری روایت میں آخری راوی اسحق ہیں جنھیں اسماء الرجال میں اسحق بن راہویہ بتایا گیا ہے۔ اہل سنت کی معتبر کتاب میزان الاعتدال جلد 1ص183، قال أبو عبید الآجري، سمعت أبو داود و یقول إسحق بن راہویۃ تغیر قبل ان یموت بخمسۃ اشھر۔۔۔ إلخ جواب: جناب آپ کو اہل سنت اہل حدیث کی اسماء الرجال کی کتب سے ہی ناواقف ہیں، آپ کو صرف میزان الاعتدال کتاب ہی ملی ہے اور اُس کے طرز سے بھی آپ ناواقف ہیں، پہلے اُس کے مقدمہ کو بار بار پڑھو۔ پھر صحیح بخاری پر حملہ کرنے کی کوشش کرنا، تاکہ آپ کوئی علمی انداز میں لکھنے کے قابل ہو سکیں۔! قولہ (إسحق) ھو اما ابن راہویۃ وإما ابن منصور ولا فرح فی الأستاذ بھذا ابلس لأن کلا منھما بشرط البخاري. (الکواکب الدراری في شرح صحیح البخاري لکرماني 135/7) ۲: بدر الدین عینی رحمہ اللہ نے بھی کرمانی سے یہی گزشتہ عبارت نقل کی ہے اور کوئی رد نہیں کیا۔ دیکھئے عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري (180/8) إسحاق أي ابن منصور، ا۷و ابن راہویۃ ولا قدح لذلک لأن کلا منھما بشرطہ. (اللامع الصحیح 274/5) ۴: ذکریا الانصاری رحمہ اللہ: إسحق أي ابن راہویۃ أو ابن منصور. (صفحۃ الباري : شرح صحیح البخاري السعي [تحفۃ الباري] 435/3) آگے ابو عبید الامبری کے حوالے سے لکھا ہے: قال أبو عبید الآجري سمعت أبو داود ۔۔۔ إلخ عرض ہے کہ اصل کتاب سے دیکھ کر لکھتے تو یہ غلطی سمعت أبو داود نہ کرتے کیونکہ اصل کتاب میں توصحیح عبارت لکھی ہوئی ہے کہ سمعت أبا داود ۔ وذکر لشیخنا أبی الحجاج حدیث فقال قیل إسحاق اختلط في آخر عمرہ. اس کا ترجمہ معترض نے یہاں بھی غلط لکھا ہے اور پورا ترجمہ لکھا بھی نہیں، معترض کا ترجمہ یہ ہے ابن حجاج کہتے ہیں کہ آخری عمر میں اُن سے روایات خلط ملط ہو جاتی تھیں۔ قیل إسحاق اختلط في آخر عمرہ. کہ کہا گیا ہے کہ اسحاق اپنی آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔ اب قیل کا ترجمہ چھوڑ کر حافظ ابن الحجاج مزی رحمہ اللہ کو اس قول کا قائل بنا رہے ہیں۔ یہ ہے آپ کی عربی دانی۔ قلت: الحدیث مارواہ عن ابن عیینۃ عن الزھري عن عبید اللّٰۃ عن ابن عباس عن میمونۃ فی النارۃ، فزاد فیہ إسحاق من دون أصحاب سفیان. و ان کان ذائبا فلا تقربوہ، فیعوذ أن یکون الخطأ ممن بعد إسحاق. (میزان الاعتدال 183/1) اسحاق بن راہویہ ثقہ امام الائمہ ہیں جیسا کہ صفحہ 25 اور 26 پر گزر چکا ہے۔ ثقۃ. (شیخۃ النساءي ت 102) ۲: امام ابن حبان رحمہ اللہ: ذکرہ في الثقات. (الثقات 118/8) ۳: امام مسلم رحمہ اللہ: ثقۃ مأمون، أحد الأئمۃ من أصحاب الحدیث. (تہذیب الکمال 476/2) ۴: الخطیب بغدادی رحمہ اللہ: کان فقیھا عالمًا. (تاریخ بغداد 364/6) ۵: حافظ ذہبی رحمہ اللہ: قال: الإمام الفقیہ الحافظ، الحجۃ. (میزان اعلام النبلاء 259/12) ۶: حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ: ثقۃ ثبت . (تقریب ص82ت 384) ابو الیمان : معترض لکھتا ہے چوتھی روایت کے آخری راوی ابو الیمان جن کا نام الحکم بن نافع ہے ۔ ثقہ ہیں۔ الخ سمع صفوان بن عمرو وشعیب بن أبي حمزۃ. (التاریخ الکبیر 344/2) امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سمع صفوان بن عمرو و شعیب بن أبي حمزۃ و حریز بن عثمان. (الکنی والأسماء 924/2) حافظ ذہبی رحمہ اللہ خود بھی فرماتے ہیں: سمع حریز بن عثمان۔۔۔ وشعیب بن أبي حمزۃ و أمثالھم . (تذکرۃ الحفاظ 301/1) جب یہ ثابت ہو گیا کہ انھوں نے شعیب بن ابی حمزہ سے سنا ہے اور ان کا سماع بھی ممکن ہے تو پھر یہ اعتراض کہ ایک شخص کسی آدمی کو ملے بغیر یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے اُس سے یہ بات سنی ہے، باطل ہے اور اپنے باپ سے کچھ نہیں سنا ۔ (دیکھئے میزان الاعتدال 138/1) قلت: مات سنۃ إحدی و عشرین و مائتین وھو ثبت في شعیب عالم بہ. اور یہ جو قول آپ نے لکھا ہے یہ باسند صحیح امام احمد بن حنبل سے ثابت تو کریں۔ قال سعید البردعي: سمعت أبا زرعۃ یقول: لم یسمع أبو الیمان من شعیب الاحدیثا واحدا، والباقي إجازۃ. (میزان 581/1) والباقی اجازۃ کے الفاظ کو ترک کر دیا، کیونکہ اس میں معترض کا جواب موجود تھا اس لیے۔ ان صح ذلک فھو حجۃ في صحۃ الروایۃ بالاجازۃ الا أنہ کان یقول في جمیع ذلک أخبرنا ولا شاححۃ في ذلک ان کان اصطلاحًا لہ. اگر آپ اصول حدیث سے تھوڑی سی واقفیت بھی رکھتے تو یہ اعتراض نہ کرتے۔ آپ کا یہ کہنا: تو اُس کا روایات بیان کرنے میں کیا مقام ہو گا یہ خود اندازہ لگا لیں۔ وروی لہ الشیخان فی المتابعات ما اظن أنّ واحدًا منھما جعلہ حجّۃً. (سیر اعلام النبلاء 508/6) معترض میزان الاعتدال (525/3) سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے: محمد بن أبي حفصۃ البصري عن الزھري فیہ شۂ ولھذ وثقہ ابن معین مرۃ. إلخ جواب: معترض نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے اس قول کو ذکر نہیں کیا: وقال أحمد: صالح الحدیث. عرض ہے کہ امام ابن معین رحمہ اللہ کے اقوال متعارض ہونے کی وجہ سے ساقط ہیں۔ (دیکھئے دیوان الضعفاء ص348) ۳: حافظ ذہبی نے تو ان کے بارے میں اپنی کتاب الکاشف میں فرمایا ہے: وثقہ غیر واحد. ۴: امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی ان کو صالح قرار دیا ہے۔ (سوالات البرقاني ص125ت437) ۵: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کو صدوق قرار دیا ہے۔ (تقریب: 5826) ۶: امام ابن شاہین نے بھی انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ (تاریخ الثقات ص201) لہٰذا یہ بھی جمہور کے نزدیک موثق ہی ہیں۔ وقال أبو حاتم: صدوق الا انہ من ۔۔۔إلخ جواب: جناب آپ سے پھر یہی عرج ہے کہ پہلے میزان کا مقدمہ بار بار پڑھیں تاکہ صرف میزان کے حوالوں پر ہی اکتفا نہ کریں اور خیانت اور دھوکہ بازی کو چھوڑیں، جو چیز نقل کرتیہیں اُسے پوری طرح دیکھ لیا کریں۔ قلت: بلی واللّٰہ ، کان یمیّز و یدری ھذا الشأن. آگے معترض نے امام دارقطنی کی عبارت نقل کی کہ قال الدارقطني ثقۃ عندہ مناکیر عن الضعفاء. اور ترجمہ لکھا یوں لکھا: دارقطنی کہتے ہیں کہ اُن کے نزدیک منکر اور ضعی فروایات بھی ثقہ ہیں۔ قلت: لولم یذکرہ العقیلي في کتاب الضعفاء لما ذکرتہ، فانہ ثقۃ مطلقًا. آگے امام ابو داود کی جو عبارت نقل کی ہے اس سے بھی اُن پر جرح ثابت نہیں ہو رہی کیونکہ وہ جمہور محدثین کے نزدیک ثقل و صدوق ہیں۔ فإنہ ثقۃ مطلقًا. مزید دیکھئے تہذیب الکمال (290/3) یونس:معترض: چھٹی روایت میں ابن شھاب زہری کے بعد یونس ہیں، شذ ابن سعد في قولہ لیس بحجۃ و شذ وکیع فقال سأ الحفظ الخ ترجمہ یوں لکھا ہے کہ ابن سعد کہتے ہیں کہ اس کی بات حجت نہیں ، وکیع کہتے ہیں کہ حافظہ کمزور تھا۔ قال الفضل بن زیاد، قال أحمد یونس أکثر حدیثًا عن الزھري من عقیل وھما ثقتان. (التکمیل فی الجرح والتعدیل 493/2) ۱: وقال ابن معین رحمہ اللّٰہ: اثبت الناس فی الزھري ، مال و معمر و یونس و عقیل و شعی وابن عیینۃ. (تاریخ ابن معین بروایۃ الدوري 116/3) ۲: امام عجلی رحمہ اللہ نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے۔ (الثقات ص488ت1886) ۳: قال أبو زرعۃ رحمہ اللّٰہ: لا بأس بہ. (الجرح والتعدیل 247/9) ۴: وقال الذہبي رحمہ اللّٰہ: أحد الاثبات عن الزھري. (الکاشف 404/2) ۵: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی ثقہ قرار دیا ہے۔ (تقریب ص825ت 7919) معترض: بخاری شریف کی دوسری روایات جو حدیث ؟؟ کے متعلق ہیں ، کے راوی حسب ذیل ہیں: پہلی روایت میں مسدد، یحییٰ ، سفیان، عبد الملک بن عمیر، عبد اللہ بن حارث، عباس بن عبد المطلب۔ اللخمی الکوفی الثقۃ۔۔۔ الخ جواب: عبد الملک بن عمیر، ثقہ راوی ہیں محدثین نے اُن کی توثیق کر رکھی ہے۔ ثقۃ . (تھذیب التہذیب 412/6) ۲: عجلی رحمہ اللہ : ثقۃ . (الثقات: ت 1035) ۳: ابن نمیر رحمہ اللہ : کان ثقۃ ثبتا فی الحدیث. (تہذیب 412/6) ۴: امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ان سے روایات لے کر توثیق کر رکھی ہے۔ بتصحیح حدیثہ. (سنن الترمذي: 326) ۶: ابن کزیمہ رحمہ اللہ: بتصحیح حدیثہ. (صحیح ابن خزیمۃ: 508) ۷: ابو عوانہ: بتصحیح حدیثہ. (مستخرج أبي عوانۃ: 153) ۸: الدارقطنی: بتصحیح حدیثہ. (سنن دارقطني:483) ۹: حاکم : بتصحیح حدیثہ. (مستدرک للحاکم: 1155) ۱۰: ابن حبان رحمہ اللہ : ذکرہ فی الثقات. (116/5) ۱۱: امام نسائی رحمہ اللہ : لیس بہ بأس . (الکاشف 667/1) ۱۲: حافظ ذہبی رحمہ اللہ: الثقۃ . (میزان 660/2) ۱۳: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ: ثقۃ فصیح عالم . (تقریب : 4200) اما ابو حاتم رحمہ اللہ نے تو ان کو صالح بھی قرار دیا ہے۔ (دیکھئے الجرح والتعدیل 361/5) ان کے توثیق اور بھی محدثین نے کر رکھی ہے۔ یہاں صرف چند حوالے ہی ذکر کر دیے گئے ہیں۔ عن ابن معین صالح و قال أبو حاتم لیس بقوی. ترجمہ ۔۔۔ الخ جواب: معترض کی علمی حدیثیت تو یہ ہے کہ ایک راوی کا تعین نہیں کر سکے۔ جس راوی پر جرح کرنے کی کوشش کی ہے وہ تو صحیح بخاری کی اس روایت میں ہے ہی نہیں، صحیح بخاری کی اس روایت میں جو ابن الہاد ہیں اُن کا پورا نام یزید بن عبد اللہ بن اسامہ بن الھاد اللیثی ہے جو کہ پانچویں طبقے کے ہیں جن کی تاریخ وفات 139ھ ہے۔ وقال یحیی بن معین کان یتساھل فی الشیوخ والسماع ۔۔۔إلخ جواب: امام اللیث بن سعد کے بارے میں میزان ہی میں لکھا ہے : أحد أعلام والائمۃ الأثبات، ثقۃ حجۃ بلا نزاع. معترض نے یحییٰ بن معین کی جو عبارت نقل کی ہے : ۱: وہ کوئی جرح نہیں ہے کہ اس سے ان کی روایات کو رد کر دیا جائے۔ (دیکھئے تاریخ عثمان بن سعید الدارمي عن یحیی بن معین ت 7) امام ابن معین رحمہ اللہ کو اللیث زیادہ محبوب تھے۔ قال عثمان قلت فاللیث.. أعنی ابن سعد، أحبّ إلیک أو یحیی بن أیوب؟ فقال: اللیث أحبّ اليّ و یحیی ثقۃ. (تاریخ عثمان بن سعید الدارمي : 719) ۴: حافظ ذہبی خود فرماتے ہیں: لولا أنّ النباتي ذکر اللیث في ؟؟ علی الکامل لما ذکرتہ، لانہ ما ھو بدون مالک ولا سفیان وما تساھل فیہ اللیث فھو دلیل علی الجوان لأنہ قدوۃ. (میزان 432/3) معترض صاحب آپ کے اعتراض کا جواب حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے خود علی بھی دے دیا ہے، ذرا آنکھیں تو کھو لو اور دیکھو۔ عبد اللہ بن یوسف عن اللیث لیس بمعتمد . لیث بن سعد سے روایت کرنے والے جو عبد اللہ بن یوسف ہیں وہ لائق اعتماد نہیں ہیں۔ عبد اللہ بن یوسف (خ، د، ت، س) التنسیی الثقۃ شیخ البخاري، أساء ابن عدي بذکرہ فی الکاملپر نظر نہیں پڑی کیا؟پھر ذرا میزان کھول کر دیکھیں تم کسے دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہو۔ ترمذی کی اکلوتی روایت:معترض نے درج بالا عنوان قائم کیا ہے۔ معترض کی یہ علمی حیثیت ہے کہ اکلوتی روایت کہہ رہے ہیں، حالانکہ یہ روایت صرف ترمذی میں ہی نہیں بلکہ حدیث کی اور بہت سی کتابوں میں موجود ہے، یہی روایت صحیح مسلم میں بھی موجود ہے۔ ھذا حدیث حسن غریب لا نعرفہ إلا من حدیث یزید بن کیسان کا ترجمہ نہیں کر سکے۔یہ تو اُن کی جاھل ؟؟ ہونے کی بہت بڑی نشانی ہے، اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے ہم اس (حدیث کو) صرف یزید بن کیسا کی حدیث سے ہی جانتے ہیں۔ قال أبو حاتم لا یحتج بہ وقال سعید القطان ھو صالح وسط لیس ممن یعتمد علیہ.ترجمہ ۔۔۔الخ جواب: جب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ یزید بن کیسان کو جانتے بھی ہیں اور ان کی احادیث کو حسن صحیح بھی کہتے ہیں تو آپ کا ’’تاہم‘‘ لکھنا بھی غلط، باطل، ردی ٹھہرا۔ ثقۃ. (الجرح والتعدیل 285/9سندہ صحیح) ۲: دارقطنی رحمہ اللہ: ثقۃ. (موسۃ اقوال أبی الحسن الداقطني 723/2) ۳: نسائی رحمہ اللہ: ثقۃ. (میزان 439/4) ۴: ابن حبان رحمہ اللہ: ذکرہ في کتابہ الثقات. ۵: یعقوب بن سفیان رحمہ اللہ: وثقہ (دیکھئے تحریر تقریب ص860) ۶: امام مسلم رحمہ اللہ: بتصحیح حدیثہ. (مسلم: 25) ۷: حاکم رحمہ اللہ: بتصحیح حدیثہ. (مستدرک 366/2) ۸: ابو عوانہ رحمہ اللہ: بتصحیح حدیثہ. (مستخرج أبي عوانۃ :24) ۹: حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: غیر واحد ثقۃ. (من تکلم فیہ ھو موثق 200/1) ۱۰: یحییٰ بن سعید بھی ان کو ھو صالح وسط کہہ کر توثیق ہی کر رہے ہیں۔ (دیکھئے الجرح والتعدیل 285/9) معترض: ۱۔ اہل سنت کی معتبر کتاب میزان الاعتدال ج1صفحہ 353 ’’ھذا حدیث صحیح علٰی صحتہ‘‘ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث میں : قال قال رسول اللّٰہ ﷺ کہہ کر بتا رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ لہٰذا یہ روایت قطعاً منقطع بھی نہیں ہے اور اس کے راویوں میں کوئی ایک راوی بھی کذاب وغیر معتمد نہیں ہیں، جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ قال ابو احمد الحاکم، لیس بالمتین عندھم وقال ابو بکر بن داؤد ضعیف. ترجمہ : حاکم لکھتے ہیں ان مین سے متابنت نہیں تھی، ابوبکر بن داود کے مطابق ضعیف تھا۔ |
یونیکوڈ مضامین کی مکمل لسٹ دیکھیں |