Search

سلسلہ دفاع سنت قسط 1 – سنت  تعریف اقسام اور حجیت

درحقیقت سنت کی حجیت ہے کیونکہ اس کے بغیر ہم قرآن مجید کے کئی احکامات جیسے (سورة التحریم  میں ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی بیویوں میں سے ایک کے سامنے ایک راز بیان کیا )- اس راز کے مطلق قرآن نے  اشارہ تو کر دیا  ( شہد کھانے والا واقع) اب یہ راز کیا ہے۔

قرآن میں بیان تو ہوا مگر تفصیل نہیں ہے تو یہ حدیث سے پتہ چلے گا – قرآن کریم ارشاد کرتا ہے اور حدیث وضاحت بیان کرتی ہے یہ قرآن کریم میں بہت سی جگہوں سے واضح ہے کہ قرآن بھی حجت ہے اور حدیث بھی- اور بعض صحابہ کرام سے یہ بات بھی منقول ہے کہ جب جبرائیل علیہ السلام نبی ﷺ پر قرآن لےکر اترتے تھے ایسے ہی حدیث بھی لے کر اترتے تھے۔(سنن الدارمی1/474)

میزبان: احادیث کے اندر قرآن کریم کا کیا مقام اور رتبہ ہے ؟

مہمان : بہت سی احادیث نبی ﷺ سے ہمیں ملتی ہیں کہ احادیث حجت ہے جیسے قرآن کریم حجت ہے مثلاً جیسے نبی ﷺ نے فرمایا: (خذوا عنی خذوا عنی قد جعل اللہ لھن سبیلا) صحیح مسلم 1690

جب شادی شدہ زانی کے رجم کرنے اور غیر شادی شدہ زانی کو کوڑے مارنے کا حکم ابھی نہیں آیا تھا تو اس وقت اللہ تعالٰی کا حکم یہ تھا کہ اگر کوئی عورت (تمھاری بیویوں میں سے ) بد کاری کرے تو اسے گھر کے اندر بند کر دو لوگ اس انتظار میں تھے کہ اللہ تعالٰی کا کوئی نیا حکم آئے۔

نبی ﷺ پر اللہ نے وحی نازل کی اس کے اندر جو کنوارا تھا اس کے لیے کوڑےکا حکم اور جو شادی شدہ تھا اس کے لیے رجم کا حکم تھا۔

یہ رجم کا حکم قرآن کریم میں نہیں ہے یہ حدیث کے اندر ہے اور جو حدیث تھی (خذوا عنی ۔۔۔۔۔۔۔ مجھ سے لے لو ) یعنی اللہ نے وہ راستہ کھول دیا ہے۔

جو حکم تھا زانی کے بارے میں وہ آ گیا ہے اور وہ کیا ہے ( جو شادی شدہ ہے اس کو رجم کیا جائے اور جو کنوارا ہے اس کو کوڑے اور ملک بدر کیا جائے گا)  صحیح مسلم 1690

اسی طرح نبی ﷺ کا حج کے موقع پر اصحابہ کو مخاطب کر کہ فرمانا کہ لے لو مجھ سے اپنے حج کے طریقے کہ شائد میں اس سال کے بعد تم سے نہ مل سکوں لہذا مجھ سے حج کے طریقے سیکھ لو- السنن الکبری للنسائی161

یہ حجت ہے جو آپ ﷺ کہہ رہے ہیں کہ مجھ سے لے لو اگر حجت نہ ہوتی تو فرماتے جس نے لینا ہے لے اور جو نہیں لینا چاہتا وہ نہ لے۔

 ایک اور جگہ ارشاد فرمایا (جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نا فرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی)۔(صحیح البخاری 2957)دوسری حدیث میں آتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ (میری ساری کی ساری امت جنت میں جائے گی سوائے اس کے جس نے جنت میں جانے سے انکار کر دیا- صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ کون ہے جو جنت میں جانے سے انکار کرے گا۔

میں قرآن اور احادیث دونوں اسلام کی اصل ہیں – قرآن بھی ذکر ہے اور احادیث بھی ذکر ہے اور دونوں وحی ہیں۔

علماء کرام محدثین اور فقہاء اور دیگر علماء یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کا یہ فرمان کہ(بیشک ہم نے اس ذکر کو نازل کیا اور ہم ہی اسکی حفاظت کرنے والے ہیں۔

قرآن کریم قیامت تک محفوظ ہے اپنی اصل اور معنی دونوں اعتبار سے ہر وہ چیز جس کے بغیر قرآن کریم کی تفسیر ممکن نہیں وہ بھی محفوظ ہے۔

قرآن کریم میں اللہ کا فرمان ہے کہ:

وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا

(اور ذکر کرو جو تلاوت کیا جاتا ہے تمہارے گھروں میں اللہ کی آیات میں سے اور حکمت میں سے)(سورة الاحزاب :34) مفکرین کہتے ہیں کہ حکمت سے مراد نبی ﷺ کی سنت ہے ذکر تلاوتِ قرآن ہے۔

 ایسے احادیث بھی ذکر ہیں جب سنت بھی ذکر ہے تو جیسے قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا ہے اسی طرح سنت کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ نے لیا ہے۔ دونوں اسلام کی اصل ہیں۔

قرآن کے اندر مختلف جگہوں پر اللہ نے سنت رسول ﷺ کا مقام بیان کیا ہے اور آپ کی زندگی کے مقام و مرتبے کو بیان کیا ہے۔

یہ سنت کی حجیت ہے مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے جہاں اہل ایمان کو دعوت دی ہے اپنی اطاعت اور فرمانبرداری کی وہاں نبی ﷺ کی بھی فرمانبرداری کا حکم دیا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ

ترجمہ:(اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی)( سورة النساء: 59)

 صاف ظاہر ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت لازم ہے۔

اسی طرح قرآن کریم میں ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہےکہ نبی ﷺ اپنی مرضی سے نہیں بولتے:

إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ

ترجمہٖ:(اور نہیں بولتے اپنی مرضی سے مگر وہی جو وحی کیا گیا)(سورة النجم:4)

 تو جب آپ ﷺ کا بولنا سنت ہے تویہ ایک انداز ہے قرآن کے اندر سنت کے مقام کو بیان کرنے کا۔ جب آپ ﷺ کا بولنا وحی ہے تو آپ ﷺ کی سنت بھی وحی ہے آپ ﷺ ہمارے لئے نمونہ ہیں تو یہ تب ہی ہے جب آپ ﷺ کا ہر افعال حجت ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے البتہ تحقیق تمہارے لیے رسول ﷺ کی زندگی میں اسوہ اور نمونہ ہے۔

ہ نبی ﷺ کی اطاعت تھی کہ اگر کوئی مخالفت کرتا تو ان لوگوں کا سخت ردِعمل ہوتا تھا- اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ سے یہ سیکھا تھا کہ آپ ﷺ کی زندگی ایسے ہی ہمارے لیے حجت ہے کہ جیسے قرآن پاک کے احکامات ہمارے لیے قابل عمل اور قابلِ حجت ہیں۔

میزبان:یہ بتائیں کہ جس طرح قرآن کریم کی بعض آیات محکم ہیں اور بعض متشابہہ ہیں تو کیا احادیث بھی بعض محکم اور بعض متشابہہ ہیں اور اگر ہیں تو ان میں کیا حکمت ہے؟

مہمان:

قرآن کریم میں اللہ تعالٰی خود فرماتے ہیں کہ قرآن کی آیات دو طرح کی ہیں: 

  1. محکم 
  2. متشابہہ 

محکم آیات کے بارے میں علماء کی مختلف تشریحات ہیں بعض نے یہ کہا کہ محکم وہ ہیں کہ جن کے اندر کسی دوسری چیز کا احتمال نہ ہو یعنی جن کا معنی واضح ہوں کہ جب کوئی الفاظ بولا جائے تو اس کے اندر کسی دوسرے معنی کی گنجائش نہ ہو۔

متشابہہ سے مراد یہ ہے کہ ان کو دوسری آیات سے ملائے بغیر آپ معنی سمجھ نہ سکیں۔

یہ اصل میں اللہ تعالٰی نے امتحان کے لیے آیات اتاری ہیں اہلِ ایمان اور اہل نفاق کے امتحان کے لیے کہ  جن لوگوں کے اندر کج روی اور ٹیڑھاپن ہوتاہے وہ ہمیشہ متشابہہ کی تلاش میں رہتے ہیں – جو محکم آیات ہیں وہ واضح ہوتی ہیں ان کے اندر وہ اپنی مرضی کی تفسیر نہیں کر سکتے۔

اہلِ ایمان کا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ وہ متشابہہ آیات کو محکم کی طرف لوٹاتے ہیں اور اس کی تفسیر اللہ تعالٰی کو معلوم ہے یا پھر 

وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ

(جو علم میں  راسخ ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ سب اللہ تعالٰی کی طرف سے ہیں محکم ہو یا متشابہہ ہم ایمان لانے والے ہیں۔) (سورة آل عمران :7)

جو اہل ایمان ہیں وہ محکم آیات کو متشابہہ کی طرف لوٹاتے ہیں مثلاً قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ:

لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ

(اس اللہ کی ذات کو آنکھیں نہیں پا سکتی جبکہ وہ آنکھوں کا ادراک کرنے والا ہے۔( سورةالانعام:7)

 اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی کو دیکھا نہیں جا سکتا اور اس وجہ سے بعض متکلمین نے یہ ظاہر کیا ہے کہ اللہ تعالٰی کو نہ دنیا میں دیکھا جا سکتا ہے اور نہ آخرت میں دیکھ سکتے ہیں کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ (اسے آنکھیں نہیں پا سکتی) جن کے اندر متشابہہ کی پیروی کرنے کی عادت ہے وہی اس کو لیں گے اور جو اہل ایمان ہیں انھوں نے اس آیت کو محکم کی طرف لوٹایا۔

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ

(اس دن کچھ چہرے ایسے ہونگے جو تروتازہ ہونگے اپنے رب کے چہرے کو دیکھیں گے) ( سورة القیامة:22-23)

سنت  تعریف اقسام اور حجیت

میزبان :موجودہ دور میں منکرین حدیث کس طرح احادیث کو قابل حجت نہیں مانتے اور یہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید ہی حجت ہے۔ احکام مسائل کے اندر ہمارے لیے یا پھر یہ کہتے ہیں کہ جو احادیث تواتر کے ساتھ بیان ہوئی ہیں وہی صحیح ہیں۔

 باقی جو احادیث ہیں ان کو حجت نہیں مانتے اور بعض لوگ تو سرے سے احادیث کو مانتے ہی نہیں کیونکہ احادیث اور قرآن کی محکم آیات کے اندر تعارض پایا جاتا ہے۔

تو اس لیے ہم احادیث کو نہیں تسلیم کرتے کیا یہ حقیقت ہے کہ قرآن اور احادیث کے اندر تعارض پایا جاتا ہے ؟ کیا قرآن کے ساتھ ساتھ احادیث بھی وحی کا درجہ رکھتی ہیں ؟ سنت کیا ہے ؟ اور اس کی اقسام کتنی ہیں ؟

مہمان :

سنت سے مراد عربی میں (معنی) ہے اور اس کی نسبت اگر نبی ﷺ سے کی جائے تو اس سے مراد آ پ ﷺ کے افعال و اقوال اور تقریرات ہیں۔ یعنی وہ کام کہ جو آپ ﷺ کے سامنے ہوا اور آپ ﷺ نے اس پر خاموشی اختیار کی ہو۔محدثین اور علماء نے اس کی تین اقسام بیان کی ہیں۔

  1. اقوال: اس سے مراد جو بات آپ ﷺ نے بیان کی ہو جیسے ایک حدیث ہے کہ (اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے)(صحیح البخاری:1)
  2. افعال: اس سے مراد وہ کام ہیں جو اصحابہ اجمعین نے بیان کیے ہیں جیسے آپ ﷺ کے نماز پڑھنے کا طریقہ، صبح جاگنے اور رات سونے کا طریقہ وغیرہ۔
  3. تقریری: احادیث سے مراد یہ ہے کہ مثلاً حضرت خالد بن ولید کا واقع معروف ہے کہ انہوں نے دسترخوان پر سانڈ کا گوشت کھایا نبی ﷺ نے فرمایا کہ ہمارے ہاں یہ نہیں کھایا جاتا اور خاموشی کا اظہار کیا۔(صحیح البخاری :5400)

اس کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث ہیں کہ صحابہ نے آپ ﷺ کے سامنے کوئی کام کیا اور آپ ﷺ نے خاموشی کا اظہار کیا۔

کیونکہ آپ ﷺ امت کو سکھانے کے لیے آ ئے تو اگر اصحابہ کے وہ کام غلط ہوتے تو آپ ﷺ تنبیہ کرتے اور منع فرماتے۔ یہ تینوں چیزیں سنت میں شامل ہیں اقوال افعال اور تقریری۔

بعض علماء توآپ ﷺ کے ظاہری اور باطنی خوبیوں کو بھی سنت میں شامل کرتے ہیں – آپ ﷺ کے چلنے کا طریقہ وغیرہ 

میزبان: قرآن کریم کے اندر سنت کا مقام اور مرتبہ کیاہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ صرف قرآن ہی ہمارے لیے حجت ہے۔ توکیا قرآن خود یہ بتائے گا کہ سنت بھی حجت ہے اس کے کیا دلائل ہیں ؟

مہمان: یہ بہت اچھا سوال ہے کہ قرآن مجید کے اندر احادیث کا درجہ اور مقام کیا ہے یہ خصوصاً ان لوگوں کے لیے جو یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم ہی ہمارے لیے کافی ہے اور ہمیں احادیث کی حاجت نہیں ہے۔

أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ

(اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو )(سورة النساء: 59)

جو اطاعت کرتا ہے اس کے لیے انعامات بھی ہیں (یہ اللہ کی حدود ہیں اور جو کوئی اطاعت کرے گا اللہ کی اور اس کے رسول کی تو اس کو داخل کیا جائے گا ایسے باغوں میں ان کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی)

اس کے ساتھ ہی آ گے بیان کیا گیا:

(اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور حد سے تجاوز کرے گا وہ آ گ میں داخل کیا جائے گا اور ہمیشہ اس میں رہے گا۔)

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا کہ:

فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

(ڈر جانا چاہیے اس شخص کو جو اللہ کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اس کے حکم کی عدولی کرتا ہے کہ ایسا کرنے سے ان پر فتنہ نہ آ جائے اور انھیں کوئی بڑا عذاب نہ آ ن لے )(سورة النور :63)

یہ تنبیہ ہے کہ  آپ ﷺ کی اطاعت واجب ہے جب آپ ﷺ کی سنت حجت نہیں ہے تو پھر وعید کس بات کی۔

قرآن کریم کے اندر اللہ تعالٰی نبی ﷺ کی نافرمانی کرنے والے کی سزا کیوں بیان کر رہے ہیں۔

اسی طرح قرآن میں اللہ تعالٰی نے نبی ﷺ کو قرآن کا مفسر اور بیان کرنے والا قرار دیا ہے۔

اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں: 

وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ

(اور ہم نے آپ ﷺ کی طرف ذکر ( قرآن) نازل کیا تاکہ آپ ﷺ بیان کریں لوگوں کو جو ہم نے ان کے لیے نازل کیا)(سورة النحل 44)

 صاف ظاہر ہے کہ آپ ﷺ کا وضاحت کرنا وحی کا حصہ ہو گا۔کوئی بھی انسان قرآن کے احکامات کو کس طرح سمجھے گا جبکہ قرآن کے اکثر احکامات مجمل ہیں مطلب ان کو اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ان کی تفصیل آپ کو احادیث سے ملے گی۔

آپ ﷺ کی زندگی قرآن کا عملی نمونہ ہے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے:

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ

(اور نماز قائم کرو )(سورةالبقرہ:43)

اب نماز کیسے پڑھو یہ حدیث سے پتہ چلے گا اسی طرح زکوٰۃ دو کیسے دو اور کتنا دو کس کو دو یہ سب بھی حدیث سے معلوم ہو گا۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے :

وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ

(تاکہ آپ بیان کریں لوگوں کے لیے اس چیز کو جو ان کی طرف اتارا گیا ہے ۔)(سورة النحل:44)

نبی ﷺ قرآن کے مفسر اور بیان کرنے والے ہیں جب بیان کرنے والے ہیں- تو آپ ﷺ کی ہر ہر بات حجت ہو گی۔ یہ مختلف انداز ہیں قرآن کریم کے اندر جس میں اللہ تعالٰی نے آپ ﷺ کے مرتبے اور مقام کو بیان کیا ہے۔

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا (جس نے میری اطاعت کی اس نے درحقیقت اللہ کی اطاعت کی۔)( صحیح البخاری 2957) اصحابہ اجمعین کی زندگیوں کے واقعات دیکھ کر ہمیں بہت سی مثالیں ملتی ہیں – جب کوئی نبی ﷺ کی نافرمانی کرتا تھا تو اس کا سخت ردِعمل ہوتا تھا۔مثال کے طور پر ایک صحابی نے دیکھا کہ ایک بندہ کنکری پھینک رہا ہے تو انھوں نے اس کو حدیث سنائی کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ کوئی بھی شخص کنکر نہ پھینکے ہاتھ میں کنکر رکھ کر پھینکنے سے نہ آپ شکار کر سکتے ہیں اور نہ دشمن کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اس سے یہی ہو سکتا ہے کہ آپ کسی کی آنکھ پھوڑ دو گے۔

اس نے جواب میں کہا کہ میں تو پھینکو گا- وہ صحابی غصے میں آ گئے انہوں نے کہا کہ میں تمہیں نبی ﷺ کی حدیث بیان کر رہا ہوں کہ نبی ﷺ نے بات سے منع کیا ہے کہ ایسا نہ کرو اور تم مجھے کہہ رہے ہو کہ میں ایسا کروں گا آج کے بعد میں تجھ سے کلام نہیں کروں گا۔

اور دوسرا واقع جس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جن صحابہ نے نبی ﷺ کے ساتھ زندگی گزاری ہے ان کو بھی یہ بات پتہ تھی کہ نبی ﷺ کی ہر ہر بات حجت ہے اور آپ کی سنت ایسے ہی ہے جیسے قرآن کریم کا مقام ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا واقع معروف ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو یہ حدیث بیان کی کہ(نبی ﷺ نے فرمایا کہ اپنی عورتوں کو مسجد میں جانے سے نہ روکو۔)( مسند احمد 4933)تو اس نے کہا کہ میں روکو گا۔

راوی یہ کہتے ہیں کہ جب عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے یہ کہا کہ میں روکو گا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  غصے میں آ گئے اور فرمانے لگے کہ میں تمہیں نبی ﷺ کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تم کہہ رہے ہو کہ میں روکوں گا ۔حدیث میں آتا ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو ایسے سخت الفاظ کہے جو زندگی میں نہ کہے ہوں اور کہا کہ آج کے بعد میں تم سے کلام نہ کروں گا یعنی اتنا سخت ردِعمل ہوتا تھا صحابہ کا۔

ایک تیسرا واقع

خلیفہ ہارون الرشید کے سامنے امام اور محدث نے حدیث بیان کی اور حدیث یہ تھی کہ(آدم علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اگر آپ دانہ نہ کھاتے تو ہمیں جنت سے نہ نکالا جاتا تو آدم علیہ السلام نے کہا کہ بیٹا یہ مقدر میں لکھا گیا تھا اور اس سے میں توبہ بھی کر چکا ہوں اور یہ ہونا تھا۔)(صحیح البخاری 4738)

یہ حدیث جب خلیفہ کے سامنے بیان کی جا رہی تھی تو ایک بندے نے اعتراض کیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے- موسیٰ علیہ السلام اور آدم علیہ السلام کے درمیان تو ہزاروں سال کا فاصلہ ہے یہ بحث کیسے ہو سکتی ہے خلیفہ ہارون الرشید اتنا غصے میں آ گئے کہ بار بار یہ کہتے جا رہے تھے کہ تجھے رسول ﷺ کی حدیث بیان کر رہے ہیں اور تو کہہ رہا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اگر نبی ﷺ بیان کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ جھوٹ نہیں ہو سکتا۔

حدیث میں حج الوداع کے موقع پر (نبی ﷺ نے ایک صحابی جس کو ابو شاہ کہا جاتا تھا- اس نے کہا کہ میں اپنے قبیلے کی طرف جانا چاہتا ہوں تو مجھے کچھ احادیث لکھ کر دیں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابو شاہ کو احادیث لکھ کر دو۔)(صحیح البخاری:6880) اس کے اعلاوہ ایسی احادیث ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس ایک صحیفہ تھاتو لوگ سمجھتے تھے کہ نبی ﷺ نے کوئی خاص نصیحتیں کی ہیں اہلِ بیت کو تو علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ یہ صحیفہ جو تمہارے گلے میں لٹکا ہوا ہےاس کے اندر کیا ہے انہوں نے کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کے اندر کوئی خاص وصیت ہےاس کے اندر حدیثوں کا ذکر ہے۔

اگر کوئی قتل کرتا ہے تو قتل کے بدلے قتل ہےاور انگلی کی دیت اور ہاتھ کی دیت ہے- یعنی اس کے اندر احکامات ہیں- نبی ﷺ نے مختلف لوگوں کو زکوٰۃ کے مسائل لکھ کہ بھیجے تو یہ ساری اس بات کی دلیل ہےکہ آپ ﷺ نے خود اجازت دی لکھنے کی۔

اب رہی بات اس حدیث کی کہ اگر وہ صیح ثابت ہو جاتی ہے جو صحیح مسلم میں ہے   اکثر علماء کی رائے ہےکہ یہ حدیث صیح ہےاور اجازت دینی راسخ ہےنبی کریم ﷺ نے آغاز میں قبرستان جانے سے منع فرمایا دیا تھا- کہ آغاز میں کچھ لوگوں کے اندر بت پرستی کے آثار تھے۔

ابھی شرک سے نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے- تو آپ ﷺ ان کے ایمان کو پختہ کرنا چاہتے تھے- تو آپ ﷺ نے قبرستان میں جانے سے روک دیا اور پھر فرمایا کہ میں تمہیں قبر کی زیارت سے منع کرتا تھا۔

اب تمہیں حکم دیتا ہوں کہ جایا کرو قبر کی زیارت کیا کرو کہ اس سے آخرت کی یاد آتی ہے- اس سے آپ ﷺ کا روکنا منسوخ ہو گیا – قبرستان میں جانے کا مقصد یہ ہو کہ دعا کرو اور آخرت کی یاد اور فکر کرو- بعض علماء نے یہ بھی کہا کہ قرآن کریم کے ساتھ لکھنے سے منع فرمایا یعنی حدیث کو الگ لکھو اور قرآن کریم کو الگ لکھو۔

اور بعض علماء نے یہ کہا کہ صرف نزول وحی تک تھا کہ جب تک وحی جاری ہے نہ لکھو کہ کہیں دونوں اکٹھی نہ ہو جائے -اس کے بعد صحابہ نے حدیث لکھی بھی ہیں اور بیان بھی کی ہیں اگر آپ ﷺ نے منع فرمایا ہوتا تو آپ ﷺ ابو شاہ کو احادیث لکھ کر دینے کو نہ کہتے۔

لہذا اس سے پتہ چلتا ہےکہ حدیث حجت ہے اور یہ کہنا کہ میں اس لیے نہیں ایمان لاتا کہ نبی ﷺ نے خود منع فرمایا تو اگر حجت ہوتی تو آپ حدیث لکھواتے اس بات کی کوئی حیثیت نہیں کہ آپ ﷺ نے  روک دیا تھا۔قرآن کریم کے دلائل عقلی بھی ہیں اور نقلی بھی مطلب کہ عقل بھی ان کی تائید کرتی ہے اور شریعت بھی تو پھر وہ متعارض کیسے ہو سکتے ہیں۔

احکامات کے اندر اللہ تعالٰی نے پاگل کو مکلف نہیں بنایا اگر شریعت میں ایسے الفاظ ہیں جو عقل کو سمجھ آ نے والے نہیں تو پاگل کو مستثنیٰ کیوں کیا جا رہا ہے پھر سب کو اللہ تعالٰی مکلف بنا دیتا۔ کبھی بھی صحیح وحی جو قرآن و سنت ہےوہ عقل کے خلاف نہیں ہو سکتی یعنی انسان کو ایسی تکلیف دی جا رہی ہو یا بند بنایا جا رہا ہو جو عقل کے خلاف ہے۔

پھر کیا فائدہ کہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ یہ کام کرو اور وہ سمجھ نہ آ رہا ہو۔

دوسری طرف جس کو عقل نہیں اس کو اللہ تعالٰی نے پابند ہی نہیں کر رہے۔ پھر ایسے احکامات ہوتےکہ جس کو سمجھ آ جائے وہ کرے جس کو نہ آئے وہ نہ کرے- لہذا یہ نہیں ہو سکتا کہ ٹکراؤ ہو- اس لیے وحی کو صاحب وحی ہی بہتر جانتا ہے ہم یہ کہیں کہ ہم وحی کو عقل سے سمجھیں گے یا مشاہدے سے سمجھیں گے یہ نہیں ہو سکتا صاحب وحی اللہ تعالٰی کی ذات ہےاور اس نے ہی یہ سیکھایا کہ قرآن کریم کی تفسیر یہ ہے۔

اس کی وضاحت یہ ہے اس لیے قرآن کی تفسیر احادیث کی روشنی میں ہی ہو گی یہ لازم و ملزوم ہیں۔

میزبان:بعض لوگ یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے حدیث لکھنے سے منع فرما دیا تھا لہذا یہ حدیث تاریخ کا حصہ نہیں اور نہ ہی یہ حجت ہے کیونکہ حدیث تو لکھی ہی نہیں گئی یہ اپنے پاس سے لکھی گئی ہیں – تو کیا ایسا ممکن ہے ؟ کیا رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا تھا ؟ 

مہمان:

پہلی بات تو منکرین کے ہتھکنڈوں میں سے ہےکہ وہ حدیث کو حجت بھی نہیں مانتے اور حدیث کو حجت مانتے بھی ہیں ایک طرف کہتے ہیں کہ احادیث من گھڑت ہیں اور  دوسری طرف حدیث سے ہی استدلال کرتے ہیں کہ حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے۔

یہ بلکل ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی کہے کہ فلاں بندہ سچا ہے آپ کہیں کیوں سچا ہے-کیونکہ وہ کہہ رہا ہے کہ وہ سچا ہے یعنی ایک بات کا آپ خود انکار کر رہے ہو اگر آپ اس سے پوچھو کہ آپ حدیث پر کیوں ایمان نہیں لاتے یا قرآن کریم کو ہی کیوں مانتے ہو وہ کہے گا چونکہ نبی ﷺ نے حدیث لکھنے سے منع فرمایا تھا تو یہ بھی تو حدیث میں ہی ہے تو اگر تمہارے نزدیک حدیث حجت نہیں ہے تم ایمان بھی لا رہے ہو یعنی ایک طرف کہتے ہیں کہ ہم حدیث کو مانتے ہی نہیں کیوں نہیں مانتے کہ حدیث لکھنے سے نبی ﷺ نے خود منع فرمایا حجت ہوتی تو آپ لکھنے کا حکم دیتے تو لہذا میں اس لیے ایمان نہیں لاتا- اگر وہ یہ کہے کہ میں حدیث کو نہیں مانتا مگر دلیل اس لیے دے رہا ہوں کہ تم اسکو مانتے ہو-

اور دوسری آیت جو واضح ہے کہ:

لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ فِيهَا وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ

(ان کے اندر جنت میں جو ہو گا وہ ملے گا اور اضافی بھی  )(سورة ق 35) 

اضافی یعنی اللہ کا دیداراہل نفاق کا انداز کیا ہے جیسے بعض عیسائی ہیں مثلاً جہاں اللہ تعالٰی نے کہا: 

(بیشک ہم نے نازل کیا ذکر سورۃ الحجر 9) کہ جہاں پر ( انا اور نحن) یعنی جمع کے صیغے استعمال ہوئے ہیں اللہ کی ذات کے حوالے سے اسکو لے کر وہ کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ تثلیث ہے نعوذ باللہ

جو اہل ایمان ہیں اور سنہ ہیں نے ان کو محکم کی طرف لوٹایا۔

محکم آیات ہیں:

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ

(اللہ ایک ہے اللہ بے نیاز ہے وہ نہ کسی کا باپ ہے نہ بیٹا اور وہ اکیلا ہے۔)(سورة الاخلاص:1-3)

اللہ تعالٰی نے خود فرمایا کہ:

فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ

(جن کے اندر کج روی ہوتی ہے وہ متشابہہ کی پیروی کرتے ہیں۔) (سورة آل عمران: 7)

 جو اہل ایمان ہوتے ہیں وہ اس کو محکم کی طرف لوٹاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ہمیں اس کی سمجھ آ گئی تو ٹھیک ہے ورنہ اہل علم اسکو جانتے ہیں۔

اور اس میں دوسری حکمت یہ ہے کہ اہل علم کی قدر معلوم ہوتی ہے۔جو علم میں پختہ ہیں وہ جانتے ہیں ان کی قدر و منزلت اور انہی سے معلوم بھی کرنا چاہیے۔

اب بات کریں احادیث کے محکم اور متشابہہ ہونے کی۔حدیث میں متشابہہ اور محکم کی اصطلاح نہیں کر سکتے لیکن اس کی دوسری اصطلاح استعمال ہوتی ہے وہ ہے:

  1. مختلف الحدیث 
  2. مشکل الحدیث

 یہ دو اصطلاح علماء نے بیان کی ہیں

  1. مختلف احادیث یہ ہے کہ ایسی احادیث جن کا ظاہری تعارض ہے۔یعنی جب ہم دو احادیث کو پڑھتے ہیں تو لگتا ہے کہ ان کا آپس میں ٹکراؤ ہے یہ بعض لوگوں کے نزدیک ہے – مگر جو علماء ہیں ان کو پتہ ہے کہ یہ ظاہری تعارض نہیں ہے اسکو مختلف الحدیث کہتے ہیں مثلاً نبی ﷺ کی ایک حدیث ہے – فرمایا ( کوئی بیماری متعددی نہیں ہے۔) (صحیح البخاری :5707)

اور دوسری جگہ فرمایا ( کہ کوڑی سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو) (مسند احمد 9722) یعنی ایک طرف تو یہ کہا کہ کوئی بیماری متعددی نہیں ہے اور دوسری طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ کوڑی سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے اب جن کے پاس علم نہیں ہے وہ یہ سمجھیں گے کہ اس میں تعارض ہے۔

(2 مشکل الحدیث سے مراد یہ ہے کہ ظاہری طور پر لوگوں کو یہ لگ رہا ہو کہ ان میں ٹکراؤ ہے یا احادیث کچھ ایسی ہیں جو عقل کے خلاف ہیں یا پھر یہ احادیث علم و معرفت کے مسادر کے خلاف ہیں عقل کے خلاف ہیں حس کے خلاف ہے سائنس کے خلاف ہے مشاہدے اور تجربے کے خلاف ہے۔

جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا جیسے مکھی والی حدیث ہے- نبی ﷺ نے فرمایا کہ (جب تم میں سے کسی کے مشروب کے اندر مکھی گر جائے تو اسکو مزید ڈبوئے اور پھر نکال دے کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور دوسرے پر میں شفا)(صحیح البخاری 5782)

تو یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نعوذ باللہ اگر خود بھی آ جائیں اور حکم دیں تب بھی نہیں مانوں گا- کیونکہ قرآن کی اہمیت ہے نبی ﷺ کی کوئی اہمیت نہیں نعوذ باللہ اور تمام کتب احادیث میں سے بھی کسی حدیث کو نہیں تسلیم کیا جائے گا- کیونکہ پتہ نہیں صیح ہیں کہ نہیں۔ اصل میں یہ بھی پہلو کی طرح ہیں جو کہتے ہیں کہ نبی ﷺ بھی حکم دیں تب بھی نہیں مانے گے۔

یہ لوگ حیلے بہانوں سے کام لے رہے ہیں کہ ہمیں عمل نہ کرنا پڑے۔صرف قرآن کریم کا دعویٰ کرنے والا کہ میں صرف قرآن کو مانتا ہوں تو قرآن حدیث کے بغیر نا مکمل ہے- نماز کے احکام ہیں۔کہ نماز قائم کرو کیسے کرو حدیث کے بغیر نہیں پتہ چلتا بیشمار ایسے احکامات ہیں۔

جو احادیث کے بغیر ناممکن ہیں ۔ ان تمام احادیث اور آیات سے احادیث کی حجیت کا پتہ چلتا ہے -اس لیے قرآن کریم اور احادیث دونوں اسلام کی اصل ہیں۔

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں