اس تحریر کا پہلا حصہ یہاں ملاحظہ کیجیے
اس تحریر کا دوسرا حصہ یہاں ملاحظہ کیجیے
دلیل نمبر ۱۶
ہیثم بن عدی کہتے ہیں کہ بنو عامر نے بصرہ میں اپنے جانور کھیتی میں چرائے۔ انہیں طلب کرنے کے لیے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بھیجے گئے۔ بنو عامر نے بلند آواز سے اپنی قوم آلِ عامر کو بلایا تو نابغہ جعدی اپنے رشتہ داروں کی ایک جماعت کے ساتھ نکلے۔ انہیں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا۔ انہوں نے پوچھا : تم کیوں نکلے ہو؟ انہوں نے کہا : میں نے اپنی قوم کی پکار سنی تھی۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے انہیں تازیانے لگائے۔ اس پر نابغہ جعدی نے کہا :
فان تك لابن عفان أمينا ….. فلم يبعث بك البر الأمينا
وياقبر النبي وصاحبيه ….. ألا ياغوثنا لو تسمعونا
”اگر تو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا امین ہے تو انہوں نے تجھے احسان کرنے والا امین بنا کر نہیں بھیجا۔ اے نبی اور آپ کے دو صاحبوں کی قبر ! اے ہمارے فریاد رس ! کاش آپ ہماری فریاد سن لیں۔“ (الاستيعاب :586/3)
تبصرہ: یہ روایت موضوع (جھوٹ کا پلندا) ہے۔ اس کا راوی ہیثم بن عدی بالاتفاق ’’کذاب“ اور ’’متروک الحدیث“ ہے۔
دلیل نمبر ۱۷
عبدالرحمٰن بن سعد بیان کرتے ہیں :
كنت عند ابن عمر رضي الله عنهما، مخدرت رجله، فقلت : يا أبا عبدالرحمن ! مالرجلك؟ قال : اجتمع عصبھا من ھاھنا، فقلت : ادع أحب الناس إليك، فقال : يامحمد ! فانبسطت
”میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا۔ آپ کا پاؤں سن ہو گیا۔ میں نے عرض کی : اے ابوعبدالرحمٰن ! آپ کے پاؤں کو کیا ہو گیا ہے؟ فرمایا : یہاں سے میرے پٹھے کھنچ گئے ہیں۔ میں نے عرض کی : تمام لوگوں میں سے جو ہستی آپ کو زیادہ محبوب ہے، اسے یاد کریں۔ آپ نے یامحمد ! کہا۔ اسی وقت ان کے پٹھے کھل گئے۔“ (الأدب المفرد للبخاري : 924، مسند علي بن الجعد : 2539، عمل اليوم والليلة لابن السني : 173، طبقات ابن سعد : 154/4، تاريخ ابن معين : 2953)
تبصره : اس کی سند ’’ضعیف“ ہے۔
اس کی سند کا دارومدار ابواسحاق سبیعی پر ہے۔ جو کہ ’’مدلس“ اور ’’مختلط“ ہیں۔
اصول ہے کہ ثقہ مدلس جب بخاری و مسلم کے علاوہ ” عن “ یا ” قال “ سے بیان کرے تو راویت ’’ضعیف“ ہوتی ہے، تاآنکہ وہ سماع کی تصریح نہ کرے۔ اس روایت کی صحت کے مدعی پر سماع کی تصریح پیش کرنا لازم ہے۔
الادب المفرد کی سند میں سفیان ثوری ’’مدلس“ ہیں، جو کہ ” عن “ سے بیان کر رہے ہیں۔ عمل الیوم واللیلۃ (169) میں سفیان ثوری کی ابوبکر بن عیاش (171) ، اسرائیل بن یونس اور زہیر بن معاویہ نے متابت کر رکھی ہے۔ لیکن کسی روایت میں ابواسحاق نے سماع کی تصریح نہیں کی۔ لہٰذا یہ روایت ابواسحاق سبیعی کی تدلیس کی وجہ سے ’’ضعیف“ ہے۔ نہ معلوم عقیدہ میں خبر واحد کو حجت نہ ماننے والے اسے سینے سے کیوں لگائے بیٹھے ہیں ؟
فائدہ : امام بریلویت احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں :
”حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پاک لے کر ندا کرنی ہمارے نزدیک بھی صحیح نہیں ہے۔“ ( روحوں کی دنیا از احمد رضا خان، ص : 245 ) نیز دیکھیں : (جاء الحق از احمد یار خان نعیمی بریلوی : 173/1، شان حبیب الرحمن از نعیمی : 136)
یوں یہ روایت بریلوی بھائیوں کے لیے چنداں مفید نہیں، کیونکہ اس سے صحیح ماننے سے لازم آئے گا کہ ( معاذاللہ ) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ایک غلط کام کر رہے تھے ! ! !
دلیل نمبر ۱۸
مجاہد رحمہ اللہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں :
خدرت رجل رجل عند ابن عباس، فقال ابن عباس : اذكر أحب الناس إليك، فقال: محمد صلی الله عليه وسلم، فذھب خدره
” سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھے کسی شخص کی ٹانگ سن ہو گئی تو انہوں نے اس سے فرمایا : لوگوں میں سے جو تمہیں زیادہ محبوب ہے، اسے یاد کرو۔ اس شخص نے کہا : محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ یہ کہنا تھا کہ اس کے پاؤں کا سن ہو جانا جاتا رہا۔“ (عمل اليوم والليلة لابن السني:173)
تبصره : یہ موضوع (من گھڑت ) روایت ہے۔
اس کی سند میں غیاث بن ابراہیم نخعی بالاتفاق کذاب (پرلے درجے کا جھوٹا) ، خبیث اور وضاع (جھوٹی حدیثیں گھڑنے والا) ہے۔
دلیل نمبر ۱۹
”سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو اپنے گھر سے نماز کے لیے نکلے اور یہ دعا پڑھے تو اللہ تعالیٰ اپنے چہرے کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس کے لیے ستر ہزار فرشتے دعائے مغفرت کرتے ہیں :
اللھم! إني أسألك بحق السائلين عليك، وأسألك بحق ممشاي ھذا.
’’اے اللہ ! میں دعا کرنے والوں کا جو آپ پر حق ہے، اس کے طفیل اور اپنے اس چلنے کے طفیل سوال کرتا ہوں۔“ (مسند احمد 21/3، سنن ابن ماجه:778)
تبصره : اس کی سند سخت ترین ’’ضعیف“ ہے۔
حافظ منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
بإسناد فيه مقال. ’’اس کی سند میں کلام ہے۔“ (الترغيب والترھيب:2487)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (۶۶۱۔ ۷۲۸ ھ ) فرماتے ہیں :
وھذا الحديث ھو من رواية عطية العوفي عن أبي سعيد، وھو ضعيف بإجماع أھل العلم، وقد روي من طريق آخر، وھو ضعيف أيضا
”یہ حدیث عطیہ عوفی نے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے اور عطیہ باتفاق اہل علم ضعیف ہے۔ اس کی ایک اور سند بھی موجود ہے لیکن وہ بھی ضعیف ہے۔“ (قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة،ص:215)
علامہ مغلطائی حنفی کہتے ہیں :
ھذا حديث إسناده ضعيف. ’’اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔“ (شرح ابن ماجه:1294/1)
بوصیری کہتے ہیں :
ھذا إسناده ضعيف. ”اس کی سند ضعیف ہے۔“ (اتحاف الخيره المھرة:32/2،ح:979)
لہٰذا حافظ عراقی کا (تخريج أحاديث الإحياء:384/1) میں اس کی سند کو ’’حسن“ کہنا اور بعض کا اس حدیث کو ’’حسن“ قرار دینا صحیح نہیں۔ اس کا راوی عطیہ بن سعد عوفی جمہور کے نزدیک ’’ضعیف“ ہے، نیز ’’مدلس“ بھی ہے۔
حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ضعيف عند الجمھور. ’’جمہور کے نزدیک یہ راوی ضعیف ہے۔“ (تھذيب الأسماء واللغات:48/1)
حافظ عراقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ضعفه الجمھور. ’’اسے جمہور محدثین کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ (طرح التثريب لابن العراقي:42/3)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
والأكثر علي تضعيفه. ’’اکثر محدثین کرام اسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔“ (مجمع الزوائد:412/10)
حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ اسے ’’ضعیف“ قرار دے کر لکھتے ہیں :
والجمھور علي تضعيفه. ’’جمہور اسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔“ (البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعة في الشرح الكبير:463/7)
علامہ عینی حنفی (۷۶۲۔۸۵۵ھ) لکھتے ہیں :
ضعفه الجمھور. ’’اسے جمہور محدثین کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ (عمدة القاري :250/6)
علامہ شرف الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ (م : ۱۳۱۰ھ) لکھتے ہیں :
عطية، ضعفه الجمھور. ’’عطیہ کو جمہور نے ضعیف کہا ہے۔“ (عون المعبود علي سنن أبي داود:336/3)
امام ہشیم بن بشیر واسطی کے بارے میں ہے :
وكان ھشيم يتكلم فيه. ’’آپ عطیہ پر جرح کرتے تھے۔“ (التاريخ الصغير للبخاري:303/1، وسنده صحيح)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف الحديث. ’’اس کی بیان کردہ حدیث ضعیف ہوتی ہے۔“ (كتاب العلل ومعرفة الرجال:1306)
امام ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ نے اسے ’’ لیں “ کہا ہے۔
اور امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف الحديث، يكتب حديثه. ’’ضعیف الحدیث ہے۔ اس کی حدیث (متابعات وشواہد میں ) لکھی جائے گی۔“ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:383/6)
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف“ قرار دیا ہے۔ (سنن الدارقطني:39/4)
نیز فرماتے ہیں کہ یہ ’’مضطرب الحدیث“ ہے۔ (العلل للدارقطني:291/4)
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان يحيٰی يتكلم في عطيه. ’’امام یحییٰ عطیہ پر جرح کرتے تھے۔“ (التاريخ الكبير للامام لابخاري:83/4)
نیز فرماتے ہیں :
كان يحيٰی لا يروي عن عطيه. ’’امام یحییٰ عطیہ بن سعد عوفی سے روایت نہیں کرتے تھے۔“ (التاريخ الكبير للامام لابخاري:122/5)
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف، إلا أنه يكتب حديثه. ’’یہ راوی ضعیف ہے، البتہ اس کی روایت (متابعات وشواہد) لکھی جائے گی۔“ (الكامل لابن عدي:369/5، وسنده حسن)
اس قول کے خلاف امام صاحب سے یہ بھی مروی ہے :
ليس به بأس. ’’اس میں کوئی حرج نہیں۔“ (التاريخ لابن طھمان:256)
جمہور کے موافق قول تضعیف والا ہے، لہٰذا اسے ہی قبول کیا جائے گا۔
امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی عطیہ کو ’’ضعیف“ کہا ہے۔ (كتاب الضعفاء والمتروكين:481)
حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے ان الفاظ کے ساتھ جرح کی ہے :
لا يحل الاحتجاج به، ولا كتابة حديثه، إلا علي جھة التعجب.
’’اس کی حدیث سے حجت لینا جائز نہیں، اسے صرف تعجب کے طور پر لکھنا درست ہے۔“ (كتاب المجروحين:176/2)
حافظ جوزجانی نے اسے ’’مائل“ قرار دیا ہے۔ (أحوال الرجال:42)
یعنی ان کے نزدیک عطیہ غالی رافضی تھا۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وھو مع ضعفه يكتب حديثه، وكان يعد من شيعة الكوفة.
’’ضعیف ہونے کے باوجود اس کی حدیث (متابعات و شواہد) میں لکھی جائے گی۔ اس کا شمار کوفہ کے شیعوں میں ہوتا ہے۔“(الكامل في ضعفاء الرجال:370/5)
حافظ بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ضعیف“ کہا ہے۔ (السنن الكبريٰ :369/7)
حافظ ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ضعيف جدًا ”سخت ضعیف ہے۔“ (المحلی لابن حزم:86/11)
حافظ نووی رحمہ اللہ نے بھی ’’ضعیف“ کہا ہے۔ (خلاصة الأحكام:572/1)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں :
ضعيف الحديث، مشھور بالتدليس القبيح.
’’یہ راوی ضعیف الحدیث اور بہت بری تدلیس کے ساتھ مشہور ہے۔“ (طبقات المدلسين:50)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف“ لکھا ہے۔ (ميزان الاعتدال في نقد الرجال:80/3)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ بھی ’’ضعیف“ قرار دیتے ہیں۔ (تفسير القران العظيم:89/6، بتحقيق عبدالرزاق المھدي)
لہٰذا امام ابن سعد کا (طبقات المدلسين:304/6) میں اسے ’’ثقہ“ کہنا جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل التفات ہے۔
پہلے اکثر محدثین ’’ضعیف“ کہتے تھے، بعد میں عطیہ بن سعد عوفی کے ’’ضعیف“ ہونے پر اجماع ہو گیا تھا،
جیسا کہ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
متفق علي ضعفه. ’’اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق و اجماع ہے۔“ (المحلی :309/10)
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أما عطية، فاجتمعو اعلي تضعيفه.
’’عطیہ کے ضعیف ہونے پر محدثین کرام کا اجماع ہو گیا ہے۔“ (الموضوعات:386/1)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وھو ضعيف بإجماع أھل العلم.
’’اس کے ضعیف ہونے پر اہل علم کا اجماع ہے۔“ (قاعدة جليلة في التوسل،ص:233)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مجمع علي ضعفه. ’’اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے۔“ (المغني في الضعفاء:62/2)
حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وھو ضعيف بإجماعھم. ’’عطیہ باجماعِ اہل علم ضعیف ہے۔“ (البدرالمنير:313/5)
نوٹ: عطیہ عوفی ’’مدلس“ بھی تھا، بلکہ ’’تدلیس“ کی بری قسم میں ملوث تھا۔ یہ اپنے استاذ محمد بن سائب کلبی (متہم بالکذب ) کا نام ذکر نہیں کرتا تھا اور اس کی کنیت ابوسعید ذکر کر کے باور کرانے کی کوشش کرتا تھا کہ اس سے مراد صحابی رسول ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ہیں۔
اس کے بارے میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :
ضعيف الحفظ، مشھور بالتدليس القبيح.
’’اس کا حافظہ کمزور تھا اور یہ بری تدلیس کرنے میں معروف تھا۔“ (طبقات المدلسين،ص:50 )
تنبیہ :
محمد زاہد کوثری حنفی جہمی (م : ۱۳۷۱ ھ) نے لکھا ہے :
ولم ينفرد عطية عن الخدري، بل تابعه أبو الصديق عنه في رواية عبد الحكم بن ذكوان، وھو ثقة عند ابن حبان، وإن أعله ابن الفرج في علله.
عطیہ عوفی، سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے بیان کرنے میں اکیلا نہیں بلکہ اس کی متابعت ابوالصدیق نے عبدالحکم بن ذکوان کی روایت میں کی ہے اور وہ ثقہ راوی ہے۔ اسے امام ابن حبان نے ثقہ کہا ہے، اگرچہ ابن الفرج نے اسے اپنی علل میں ذکر کیا ہے۔“ (مقالات الكوثري:394)
لیکن :
(1) کوثری کی نقل کا کوئی اعتبار نہیں۔
(2) کوثری نے کوئی سند ذکر نہیں کی۔ ہمیں کہیں باسند یہ متابعت نہیں ملی۔
(3) راوی عبدالحکم بن ذکوان نہیں بلکہ عبدالحکم بن عبداللہ قسملی ہے کیونکہ ابوالصدیق ناجی کے شاگردوں میں قسملی ہی ہے، ابن ذکوان نہیں۔ اگر ابن ذکوان بھی ہو تو وہ ’’مجہول“ ہے۔
امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں :
لا أعرفه. ”میں اسے نہیں جانتا“۔ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:36/6)
اگرچہ امام ابن حبان نے اسے اپنی کتاب الثقات (131/5) میں ذکر کیا ہے، لیکن یہ ان کے تساہل پرمبنی ہے۔ ان کی منفرد توثیق قابل قبول نہیں ہوتی۔
یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر نے امام یحییٰ بن معین کے قول پر اعتماد کرتے ہوئے اسے مقبول (مجہول الحال ) ہی لکھا ہے۔(تقريب التھذيب:3748)
جہاں تک عبدالحکم بن عبداللہ قسملی کا تعلق ہے، تو وہ بھی جمہور کے نزدیک ’’ضعیف“ ہے۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لايحتج به. یہ قابل حجت نہیں۔ (سنن الدارقطني:104/1)
امام بخاری نے اسے ’’ منکرالحدیث “ قرار دیا ہے۔ (التاريخ اكبير:168/2)
امام ابن عدی فرماتے ہیں :
وعامة أحاديثه مما لا يتابع عليه، وبعض متون ما يرويه مشاھير، إلا أنه بالإسناد الذي يذكره عبدالحكم لعله لا يروي ذاك.
’’اس کی عام احادیث پرمتابعت نہیں کی جاتی۔ اس کی روایت کردہ احادیث کے بعض متون مشہور ہیں، لیکن وہ ان سندوں کے ساتھ ہیں، جنہیں عبدالحکم ذکر کرتا ہے۔ شاید اس نے وہ روایت نہیں کیے۔“ (الكامل:334/5)
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان من يروي عن أنس ما ليس من حديثه، ولا أعلم له عه مشافھة، لا يحل كتابة حديثه إلا علی جھة التعجب.
یہ ان لوگوں میں سے تھا جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے منسوب کر کے جھوٹی روایات بیان کرتے تھے۔ اس کی سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے بالمشافہ ملاقات مجھے معلوم نہیں۔ اس کی حدیث کو لکھنا جائز نہیں، ہاں بطور تعجب (ونقد) لکھا جا سکتا ہے۔“ (المجروحين:143/2)
امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ھو منكر الحديث، ضعيف الحديث، قلت (الوائل ھو ابن أبي حاتم) : يكتب حديثه؟ قال: زحفا.
”وہ منکر الحدیث اور ضعیف الحدیث ہے“۔
ابن ابی حاتم کہتے ہیں : ”میں نے ان سے پوچھا : کیا اس کی حدیث کو لکھا جائے؟ انہوں نے فرمایا : بطور مجبوری اس کی روایت پر تعجب کرتے ہوئے اسے لکھا جا سکتا ہے“۔ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:63/6)
نیز امام ابوحاتم رازی سے پوچھا گیا کہ آپ کوعبدالحکم بن ذکوان بہتر لگتا ہے یا عبدالحکم قسملی ؟ تو انہوں نے فرمایا : ھذا أسترمنه. ’’ابن ذکوان کے مقابلے میں اس کا ضعف و عیب اتنا واضح نہیں۔“ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:36/6)
امام ابونعیم اصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
روي عن أنس نسخة منكرة، لا شيء.
’’اس نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ایک منکر نسخہ روایت کیا ہے، یہ بالکل ناقابل اعتبار راوی ہے۔“ (الضعفاء:34)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ضعیف“ قرار دیا ہے۔ (تقريب التھذيب:3749)
لہٰذا عطیہ بن سعد عوفی کی کوئی معتبر متابعت ثابت نہیں۔ وہ اس کو بیان کرنے میں منفرد ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ زاہد الکوثری نے عطیہ کے استاذ ابوسعید کو صحابی سول سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ قرار دیا ہے، حالانکہ یہ صریح جہالت یا تدلیس ہے۔ ہم بیان کر چکے ہیں کہ عطیہ اپنے استاذ محمد بن سائب کلبی کذاب کو ابوسعید کے الفاظ سے ذکر کرتا تھا۔
تنبیہ : عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی (85) میں جو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ روایت ہے، اس کی سند سخت ترین ’’ضعیف“ ہے۔ اس میں وازع بن نافع عقیلی راوی ’’متروک، کذاب و وضاع“ ہے۔
حافظ نووی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
وھو متفق علي ضعفه، وأنه منكر الحديث.
’’اس کے ضعیف ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے اور یہ منکرالحدیث راوی ہے۔“ (الأذكار النافعة:85)
علامہ محمد بن عبدالہادی سندھی حنفی کہتے ہیں :
قوله بحق السائلين عليك، أي متوسلا إليك في قضاء الحاجة، وإمضاء المسألة، بما للسائلين عندك من الفضل الذي يستحقونه عليك بمقتضى فضلك ووعدك وجودك وإحسانك، ولا يلزم منه الوجوب المتنازع فيه عليه تعالى لكن لإيهامه الوجوب بالنظر إلى الأفهام القاصرة، يحترز عنه علماؤنا الحنفية، ويرون إطلاقه لا يخلو عن كراهة.
’’اس روایت میں جو سوالیوں کے حق کا وسیلہ دینے کا ذکر ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ! میں اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے تجھے تیرے اس فضل کا واسطہ دیتا ہوں جس کا تو نے انہیں اپنے رحم و کرم اور احسان و وعدہ کے پیش نظر مستحق بنایا ہے۔ ان الفاظ سے اقسام علی اللہ کی متنازع صورت لازم نہیں آتی۔ البتہ کند ذہن لوگوں کو ان الفاظ میں اقسام علی اللہ بخلقہ کا وہم ہوتا ہے۔ اسی لیے علمائے احناف اس سے احتراز کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ان الفاظ کا مطلق استعمال کراہت (تحریمی ) سے خالی نہیں۔“ (حاشية السندي علي سنن ابن ماجه: 261،262/1، تحت الحديث:778)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں :
فإن كان هذا كلام النبي صلى الله عليه وسلم، فهو من هذا الباب لوجهين : أحدهما: لأن فيه السؤال لله بحق السائلين عليه، وبحق الماشين في طاعته، وحق السائلين أن يجيبهم، وحق الماشين أن يثيبهم، وهذا حق أو جبه الله تعالى، وليس للمخلوق أن يوجب على الخالق تعالى شيئاً.
’’اگر یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ ہو تو اس سے مشروع وسیلہ ہی مراد ہے۔ ایک تو اس طرح کہ اس میں اللہ تعالیٰ سے اس کے سوالیوں اور اس کی اطاعت میں چلنے والوں کے حق کے وسیلے سے سوال کرنے کا ذکر ہے۔ سوالیوں کا حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے مطالبات پورے کرے اور چلنے والوں کا حق یہ ہے کہ اللہ انہیں اجر و ثواب سے نوازے۔ یہ حق اللہ تعالیٰ نے خود اپنے اوپر لازم کیا ہے۔ مخلوق اپنے خالق پر کوئی چیز لازم نہیں کر سکتی۔۔۔“
یعنی اس ’’ضعیف“ روایت میں مذکور وسیلہ اپنے نیک اعمال اور اللہ تعالیٰ کے فضل کا وسیلہ ہے، جو کہ اہل سنت و الجماعت کے نزدیک بھی مشروع اور جائز ہے۔ اس میں وسیلہ بالذوات و الاموات کا کوئی ذکر نہیں۔
دلیل نمبر ۲۰
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت اسد کی قبر پر یوں دعا کی : بحق نبيك ولأنبياء من قبلي. ’’تیرے نبی (مجھ) اور مجھ سے پہلے انبیاء کے طفیل۔ “ (المعجم الكبير للطبراني : 351/24، المعجم الأوسط : 191، حلية الأولياء لأبي نعيم : 121/3)
تبصرہ : یہ ’’ضعیف“ اور ’’منکر“ روایت ہے، کیونکہ :
(1) اس کا راوی روح بن صلاح جمہور کے نزدیک ’’ضعیف“ ہے۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف“ کہا ہے۔ (الكامل في ضعفاء الرجال : 146/3)
امام دارقطنی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
كان ضعيفا في الحديث. ’’حدیث میں کمزور تھا۔ “ (المئوتلف والمختلف : 1377/3)
ابن ماکولا رحمہ اللہ کہتے ہیں :
ضعفوه. ’’ (جمہور) محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ “ ( الإكمال : 15/5)
ابن یونس رحمہ اللہ کہتے ہیں :
رويت عنه مناكير. ’’اس سے منکر روایات بیان کی گئی ہیں۔ “ (لسان الميزان لابن حجر : 467/2)
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف و متروک“ راویوں میں ذکر کیا ہے۔ (كتاب الضعفاء والمتروكين : 282/1)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
وفيه ضعف. ’’ اس میں ضعف ہے۔ “ (مجمع الزوائد : 257/9)
لہٰذا امام ابن حبان (الثقات : 244/8) اور امام حاکم (سوالات السجزی : 98) کی توثیق تساہل پر محمول ہے۔
علامہ محمد بشیر سہسوانی ہندی رحمہ اللہ (م : ۱۲۵۲ھ) اس راوی کے بارے میں فرماتے ہیں :
فقد علم بذلك أن في سنده روح بن صلاح المصري، وهو ضعيف ضعفه ابن عدي، وهو داخل في القسم المعتدل من أقسام من تكلم في الرجال، كما في فتح المغيث للسخاوي، ولا اعتداد بذكر ابن حبان له في الثقات، فإن قاعدته معروفة من الاحتجاج بمن لا يعرف كما في الميزان، وقد تقدم، وكذلك لا اعتداد بتوثيق الحاكم وتصحيحه، فإنه داخل في القسم المتسمح.
’’معلوم ہوا کہ اس کی سند میں رَوح بن صلاح مصری راوی ہے جو کہ ضعیف ہے۔ اس کو امام ابن عدی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ علامہ سخاوی کی فتح المغیث کے مطابق یہ درمیانے درجے کا مجروح راوی ہے۔ امام ابن حبان کے اسے ثقات میں ذکر کرنے کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ ان کا غیر معروف راویوں کی توثیق کرنے کا قاعدہ معروف ہے جیسا کہ میزان الاعتدال کے حوالے سے ذکر کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح امام حاکم کی (منفرد) توثیق و تصحیح بھی قابل اعتبار نہیں ہوتی۔ ان کا شمار متساہلین میں ہوتا ہے۔ “ (صيانة الإنسان عن وسوسة الشيخ دحلان، ص : 132)
(2) اس میں سفیان ثوری ’’مدلس“ ہیں جو ’’ عن “ سے روایت کر رہے ہیں۔
بھلا منکر اور مدلس روایات سے عقیدے کے مسائل ثابت کرنا اہل سنت و الجماعت کا طریقہ و مسلک ہے؟
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولم يذكر أحد من العلماء أنه يشرع التوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم ولا بالرجل الصالح بعد موته ولا في مغيبه، ولا استحبوا ذلك في الأستسقاء ولا في الاستنصار ولا غير ذلك من الأدعية، والدعاء مخ العبادة، والعبادة مبناها على السنة والاتباع، لا على الهوى والابتداع.
’’کسی ایک عالم نے بھی وفات کے بعد یا غیر موجودگی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی نیک شخص کے وسیلے کو مشروع قرار نہیں دیا، نہ اہل علم نے بارش و نصرت طلبی وغیرہ کی دعاؤں میں ایسا کرنا مستحب سمجھا۔ دُعا عبادات کا مغز ہے اور عبادت کی اساس سنت رسول اور اتباعِ شریعت پر ہوتی ہے، خواہشات نفس اور بدعت پر نہیں۔۔۔ “ (مختصر الفتاوي المصرية، ص : 196، 197