تدوین حدیث؛ انسانی کاوش؟
حافظ ابو یحیٰی نورپوری
بعض لوگ حدیث رسول کو انسانی کاوش کہہ کر رد کر رہے ہوتے ہیں، ان کا اشکال یہ ہوتا ہے کہ قرآن تو اللہ کا کلام ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں، جب کہ حدیث انسانوں نے جمع کی ہے. اس میں شبہ ہو سکتا ہے.
اس قبیل کے لوگ ادنی سا بھی شعور نہیں رکھتے، کیوں کہ جس طرح قرآن اللہ کا کلام اور لاریب ہے، اسی طرح حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وفعل وتقریر ہے اور لاریب ہے.
قرآن کیسے جمع ہوا؟ کیا تدوینِ قرآن انسانی کاوش نہیں؟
اور آپ کو بتاؤں کہ قرآن کریم کی سند غریب ہے. حیران نہ ہوں، سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کو موجودہ صورت میں لانے کے لیے، ایک صحابی سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو ذمہ دار بنایا. سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ قرآنِ کریم پر اعتماد کرنے کے لیے ہمارے سامنے واحد سورس ہیں.
البتہ حدیث کی تدوین کے لیے بہت سے صحابہ کرام نے زندگیاں وقف کیں.
ہر دور کی طرح آج بھی دنیا میں شاذ قراءات موجود ہیں، انہیں ہم کلام اللہ نہیں مانتے، بالکل اسی طرح ضعیف روایات کو ہم سنت نبوی تسلیم نہیں کرتے.
جس طرح قرآنِ کریم کی بعض آیات کسی کی سمجھ سے بالا ہو جاتی ہیں، بعینہ بعض احادیث بھی کسی کے فہم سے ورا ہو سکتی ہیں، ظاہری تعارض وتضاد کی وجہ سے نہ قرآن کی کسی آیت کو ٹھکرایا جا سکتا ہے، نہ کسی صحیح حدیث کو رد کیا جا سکتا ہے.
کبھی کسی مسلمان نے کہا ہے کہ جب تک میرے دماغ میں کوئی آیت فٹ نہ بیٹھے، میں اسے کلام اللہ نہیں مانوں گا؟ نہیں نا، تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو ناطق وحی تھے، ان کے فرمان کو تسلیم کرنے کے لیے یہ شرط کیوں کہ جب تک سمجھ میں نہ آئے اور جب تک اشکال ختم نہ ہوں، نہیں مانوں گا؟
"انسانی کاوش” والے پروپیگنڈے کا توڑ بالکل آسان ہے، تھوڑی دیر کے لیے تصور کیجیے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے چلے جانے کے فوری بعد مسلمان ہوتے ہیں، آپ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سناتے ہیں، کیا آپ یہ کہہ کر انہیں ٹھکرا دیں گے کہ چونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ انسان تھے، ان کا مجھے حدیث سنانا انسانی کاوش ہے، لہذا مشکوک ہے؟
پھر تصور کیجیے کہ آپ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد پیدا ہوتے ہیں، آپ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے شاگرد سید التابعين، سعید بن مسیب رحمہ اللہ اپنے استاذ گرامی کے واسطے سے فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سناتے ہیں، تو کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ دو انسانوں کا واسطہ آنے کی بنا پر حدیث رسول مشکوک ہو گئی؟
اسی طرح تھوڑی دیر کے لیے تصور کیجیے کہ آپ سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی وفات کے بعد پیدا ہوتے ہیں، ان کے ایک ہونہار شاگرد، جنہیں ان کے دور کے علماء وفقہاء نے علم وفضل، ورع وتقوی اور حافظہ وضبط کو چانچ پرکھ کر قابل اعتماد بتایا ہو، وہ بیان کریں، تو کیا آپ اسے انسانی کاوش کہہ کر ٹھوکر مار دیں گے؟
اگر اب بھی آپ کا جواب ہاں میں ہے، تو تف ہے آپ کی عقل پر، اللہ غارت کرے ایسی سوچ فکر کو.