قران کے ہوتے حدیث کی آخر ” ضرورت” ہی کیا تھی ؟
ابوبکر قدوسی
انسان کو زمین پر اتارا گیا، لیکن کچھ ہی دن میں حضرت انسان نے وہی من مانی شروع کر دی جو جنت میں کر کے نکلا تھا – اب کی بار مگر یہ بغاوت تھی اور عقائد کے باب میں تھی – انسان نے اپنے خالق کو بھول کے نت نیے معبود بنا لیے ..کمال یہ ہوا کہ ایسے تمام معبود وہ تھے جن پر اللہ نے انسان کو قدرت اور فوقیت دی تھی –
دیکھیے نا شجر ، ہجر ، جانور ، پانی ، آگ اور ہوا ، اللہ نے انسان کی سہولت کے لیے پیدا کیں …ظاہر سی بات ہے جو شے انسان کے استعمال کے لیے ہو گی وہ اس کے مطیع ہی ہو گی ..لیکن انسان نے ہمیشہ "کمال ” کیا سو اس بار بھی ان اشیاء کو اپنا معبود بنا لیا ، ذرا مزاج میں تلون آیا اور جی چاہا کوئی تبدیلی ہو ، معبود بھی نیا ہو تو اپنے مردہ بزرگوں کو خدا ٹہرا لیا – اللہ کہ انسان سے بے پناہ محبت کرتا تھا سو اس نے ان کی ہدایت کے لیے جابجا اور مسلسل انبیاء معبوث کیے –
انبیاء آتے رہے ، انسان کبھی سنبھلتے رہے اور کبھی بگڑتے رہے – حتی کہ اللہ نے فیصلہ کر لیا کہ اب یہ سلسلہ موقوف کرنا ہے – اب کوئی نبی نہیں آئے گا – لیکن ضروری تھا کہ انسان پر اتمام حجت کر دیا جاتا – ایسا نہ ہو کہ روز قیامت کوئی انسان چہرے پر ہزار عذر سجائے کہہ اٹھے کہ ماضی کی امتوں کے لیے ہزاروں انبیاء آتے رہے ، لیکن ہم محروم رہے – جب محروم رہے تو سزاء کیونکر ہو ؟
سو اس سلسلے کو موقوف کرنے سے پہلے اللہ رب العزت نے آخری نبی بھیجے کہ جن کا نام نامی اسم گرامی محمد تھا -(صلی اللہ علیه وسلم )
اب جب نبی آخری تھا ، اور یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ ان کے بعد کوئی نہیں آئے گا – اب آسمانوں سے جبرائیل کا آنا ختم ہوا تو لازمی تھا کہ پیغام ہدایت اور کتاب رشد بھی تمام تر اہتمام اور حفاظت کے ساتھ اترتی –
سو جب قران نازل ہوا تو اس کی حفاظت کا وعدہ بھی ساتھ شامل ہوا -اللہ نے فرمایا :
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
ہم نے اس ذکر کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں – یہ تو تھا حفاظت کا وعدہ اور اس کا سبب ہم نے بیان کر دیا کہ اب جبرائیل نے آسمانوں سے زمین کا سفر نہیں کرنا تھا – اس وعدے کے ساتھ انسانوں کو بھی کچھ ہدایات جاری کیں گئیں –
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
اپنے عذاب کی خبر دیتے ہووے ، اور محتاط رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے اللہ نے انسان کو حکم دیا کہ رسول جو تم کو دیں لے لو ،اور جس شے سے منع کریں ان سے رک جاؤ –
"اتاکم” کے مفھوم میں جو جامعیت ہے اس نے نبی کریم صلی اللہ علیه وسلم کے افعال ، اقوال سب کو سمیٹ لیا ہے –
اس حکم کے ساتھ ساتھ نہایت محبت سے نصیحت بھی کر دی کہ
لَّـقَدْ كَانَ لَكُمْ فِىْ رَسُوْلِ اللّـٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
دیکھئے ! اللہ کی انسان کے لیے کیسی کھلی محبت اس آیت میں جھلک رہی ہے –
اب جب تسلسل سے ان آیات کو دیکھتے ہیں تو سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ جب اسوہ رسول ہمارے لیے کامل ترین نمونہ ہے تو اسے محفوظ تو رکھا ہو گا ؟
اور جب محفوظ رکھا ہو گا تب ہی ہم اسے لے سکیں گے ، اختیار کر سکیں گے ، اپنا سکیں گے –
یہ تو نہیں کہ عذاب کی وعید تو سنا دی کہ "جو نبی دے لے لو …ورنہ عذاب شدید ہے ” اور جب لینے نکلیں توپھر آواز آئے کہ نبی کا اسوہ ہی لینا ، کہ بہترین ہے ..لیکن میدان تحقیق میں نکلیں تو خبر ملے کہ کچھ محفوظ ہی نہیں ، میاں کیا ڈھونڈتے ہو …..وہ جو ذکر نازل کیا ، جس کی حفاظت کا وعدہ کیا ، اس کی کوئی تشریح بھی محفوظ نہیں ….
انسان الجھ تو جائے گا –
دوستو ! نبی کے یہ افعال ، الفاظ ، ہی ہیں جن کو اللہ نے قران میں اپنا لینے کا حکم دیا ہے – جو ایک ایک پل ، ہر ہر صورت میں محفوظ ہے …اس کو ہی حدیث کہتے ہیں –
جب اللہ نے ہم کو حکم دے دیا کہ
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا
نبی جو دیتے ہیں لے لو ، جس شے سے روکتے ہیں رک جاؤ – تو لازم تھا کہ اپنے رسول کو بھی حکم دیا جاتا کہ ہم مسلمانوں کی ہر دم رہنمائی کریں کہ کس سے قبول کریں اور کس سے رک جائیں –
سو یہ قدم قدم پر رہنمائی کبھی اقوال کی صورت میں ہوئی اور کبھی افعال کی صورت میں – کبھی تحریر بھی کروایا اور کبھی محض تقریر کی صورت –
سمجھنے کی بات ہے کہ نماز کے احکام ہوں یا زندگی گذارنے کے طریقے ، بچے کی پیدائش سے لے کر شاہدہ بیاہ اور کاروبار سے موت تک ، امور حکومت ہوں یا آپس میں معاشرتی برتاؤ ، ہر ہر معاملے میں قران میں اجمالی اور مختصر احکام دے دئیے گئے – اس کے بعد ہمیں حکم دیا کہ نبی جو دیتے ہیں لے لو …اب کم ترین عقل کے مالک کے لیے بھی یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ اس سے مراد کوئی مادی شے نہیں کہ پیالہ ، گنگھی ، سواری لے لو ..اس جملے سے مراد قران ان اجمالی اور مختصر احکام کی تشریح ہی ہے – اور جب قرانی احکام قیامت تک ہیں تو اس قران کی اس آیت کا یہ مفھوم محتاج بیان ہی نہیں رہتا
بلکہ بہت واضح ہے کہ اس سے مراد قران کی نبوی شرح ہی ہے –
میں ایک دو مثالوں سے بات مزید واضح کر دوں – قران میں ان خواتین کا ذکر ہے کہ جن سے نکاح جائز نہیں – جیسا کہ خالہ ، پھوپھی ، ماں ، بہن بیٹی وغیرہ ..لیکن کیا آپ اپنی بیوی کی سگی بھانجی سے ساتھ اس کی موجودگی میں نکاح کر سکتے ہیں ؟
یعنی خالہ اور بھانجی کو بیک وقت نکاح میں لا سکتے ہیں ؟
ظاہر ہے ایسا کرنا حرام ہے – لیکن قران میں اس حرام کا کوئی ذکر نہیں ، اس کے لیے آپ کو پلٹ کر واپس ادھر ہی آنا ہو گا کہ جہاں قران نے آپ کو کھڑا کیا تھا اور حکم دیا تھا کہ "نبی جو دیتے ہیں لے لو ” ..نماز کا حکم قران میں جابجا ہے ، لیکن طریقہ آپ کو کہیں نہیں ملے گا ، نہ رکعات کی تعداد ، سجود کا ذکر ملے کا مگر کب کہاں کتنا ، کچھ خبر نہیں ..رکوع کا حکم ہے ، مگر کیفییت نہیں ملے گی – میت کی تدفین کس طرح کرنی ہے جلانا ہے دبانا ہے ، پھینکنا ہے …
آج کی بات کرتا ہوں کہ کھانے کے حرام اور حلال کے حوالے سے قران میں رہنماء اصول دے دیے گئے ہیں لیکن تفصیلات کے لیے آپ کو اسی قرانی حکم کے تحت کہ : ” نبی جو دیتے ہیں لے لو ” حدیث کی طرف آنا پڑے گا – پچھلے دنوں ایک صاحب ، کہ منکر حدیث ہیں ، سے ہمارے ایک دوست ابو یحیی نور پوری صاحب کی تحریر بحث چل نکلی — حدیث کے مکمل انکار نے آخر ان صاحب کو اس حد تک لا کھڑا کیا کہ کہنے لگے کہ :
"ہاں کتا کھانا حلال ہے ، کہ قران میں کہیں حرام قرار نہیں دیا گیا ”
مجبوری تھی کیا کرتے ؟ –
جب ہم کہتے ہیں کہ حدیث ایک مکمل قانونی حیثیت بھی رکھتی ہے تو دوست خاصے جز بز ہوتیہ ہیں – لیکن جب ہم ان کے آگے اپنے سوال دھرتے ہیں تو راہ فرار کے سوا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہوتا ، یا پھر آئمہ حدیث کے بارے میں دشنام ترازی اور جذباتی جملے بول کے عوام الناس کو گمراہ کرتے ہیں – دیکھیے ذرا اس قرانی حکم کی طرف آ جائیے
اَلسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْآ اَیْدِیَہُمَا جَزَائً بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللہِ وَاللہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمo(مائدہ۔ع:6)
مسلمانو! مرد چوری کرے یا عورت چوری کرے تو ان دونوں کے ہاتھ کاٹ ڈالو یہ حد اللہ کی جانب سے مقرر ہے اور اللہ زبردست واقف ہے –
قران نے صاف اور سیدھا حکم دے دیا – حاکم وقت تک اگر کوئی ایسا مقدمہ پہنچے گا تو اس پر لازم ہے کہ اس قرانی حکم پر عمل کرے – اب حدیث ہی ہے کہ جو اس حکم کی حد بندی بھی کرتی ہے ، وضاحت بھی کرتی ہے ، اور واضح قسم کی قانون سازی بھی کرتی ہے – بخاری کی حدیث ہے کہ ایک چوتھائی دینار کی چوری پر یہ حد لاگو ہو گی – اگر یہ حدیث نہ ہوتی تو محض ایک روپے کی چوری پر بھی ہاتھ کاٹ ڈالنا لازم ہو جاتا –
یہاں ہم نے محض چند مثالیں درج کیں ہے ورنہ حدیث کے بغیر قدم قدم پر آپ کو ٹھوکریں لگیں گی – آپ کے لیے چلنا مشکل ہو جائے گا – پھر آپ جب اندھیرے میں گھر جائیں گے تو ٹامک ٹوئیاں ماریں گے مگر بے کار –
بطور لطیفہ سنیے – کراچی کے ایک نئے "مجتہد ” محمد شیخ صاحب نے قران میں سے نماز کا مکمل طریقہ ڈھونڈا ہے – فرماتے ہیں کہ اللہ نے قران میں کہا ہے
وَ اتَّخِذُوۡا مِنۡ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی ؕ.
اورابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔
اس سے استدلال کرتے ہووے فرماتے ہیں کہ لیجئے یہ نماز کا طریقہ مل گیا کہ قران میں حکم دیا گیا کہ مقام ابراہیم میں جو امام ( کعبہ ) کھڑا ہوتا ہے اس کو مصلی بنانے کا جو حکم ہے ، اس کے طریقے کو فالو کرو اور نماز پڑھو ….(مفھوم )
حدیث سے انکار بندے کو کن کن مشکل راہوں کی راہروی کی مشقت میں ڈال دیتا ہے – بس حدیث کا انکار کرنا ہے بھلے اس کے لیے کتنا خود کو توڑنا پڑے – ان سے پوچھئے آج کے امام کا جو طریقہ ہے ، گزرے برسوں کے ائمہ کا تو وہ طریق نہ تھا ؟ آنے والے کل کی بھی کیا خبر — پھر ماضی میں یہاں چار امام بھی رہے باری باری نماز پڑھی جاتی ، کس کا طریقہ درست رہا ہو گا —
حدیث کا انکار بسا اوقات اچھی خاصی مضحکہ خیز صورت بنا دیتا ہے مگر احباب مانتے نہیں –
قصہ مختصر ! قرانی احکام کی تشریح و توضیح یہ سب صورتیں اور تفصیلات آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیه وسلم ہی بتلائیں گے – کبھی الفاظ کی اور کبھی افعال کی صورت میں – اس رہنمائی کے بیان کو ہی حدیث کہتے ہیں –
صرف ان چند مثالوں سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اگر حدیث نہ ہوتی تو قران کے احکام پر عمل قریب قریب ناممکن ہوتا –