كتاب مواقيت الصلاة
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
THE BOOK OF THE TIMES OF AS-SALAT (THE PRAYERS) AND ITS SUPERIORITY.
40- بَابُ السَّمَرِ فِي الْفِقْهِ وَالْخَيْرِ بَعْدَ الْعِشَاءِ:
باب: اس بارے میں کہ مسئلے مسائل کی باتیں اور نیک باتیں عشاء کے بعد بھی کرنا درست ہے۔
1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر:601
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، وَأَبُو بَكْرٍ ابْنُ أَبِي حَثْمَةَ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ : صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْعِشَاءِ فِي آخِرِ حَيَاتِهِ ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : ” أَرَأَيْتَكُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ فَإِنَّ رَأْسَ مِائَةٍ لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ ، فَوَهِلَ النَّاسُ فِي مَقَالَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَا يَتَحَدَّثُونَ مِنْ هَذِهِ الْأَحَادِيثِ عَنْ مِائَةِ سَنَةٍ ، وَإِنَّمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ ، يُرِيدُ بِذَلِكَ أَنَّهَا تَخْرِمُ ذَلِكَ الْقَرْنَ ” .
حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
601 ـ حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال حدثني سالم بن عبد الله بن عمر، وأبو بكر بن أبي حثمة أن عبد الله بن عمر، قال صلى النبي صلى الله عليه وسلم صلاة العشاء في آخر حياته، فلما سلم قام النبي صلى الله عليه وسلم فقال ” أرأيتكم ليلتكم هذه فإن رأس مائة لا يبقى ممن هو اليوم على ظهر الأرض أحد ”. فوهل الناس في مقالة رسول الله ـ عليه السلام ـ إلى ما يتحدثون من هذه الأحاديث عن مائة سنة، وإنما قال النبي صلى الله عليه وسلم ” لا يبقى ممن هو اليوم على ظهر الأرض ” يريد بذلك أنها تخرم ذلك القرن.
الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
601 ـ حدثنا ابو الیمان، قال اخبرنا شعیب، عن الزہری، قال حدثنی سالم بن عبد اللہ بن عمر، وابو بکر بن ابی حثمۃ ان عبد اللہ بن عمر، قال صلى النبی صلى اللہ علیہ وسلم صلاۃ العشاء فی اخر حیاتہ، فلما سلم قام النبی صلى اللہ علیہ وسلم فقال ” ارایتکم لیلتکم ہذہ فان راس مایۃ لا یبقى ممن ہو الیوم على ظہر الارض احد ”. فوہل الناس فی مقالۃ رسول اللہ ـ علیہ السلام ـ الى ما یتحدثون من ہذہ الاحادیث عن مایۃ سنۃ، وانما قال النبی صلى اللہ علیہ وسلم ” لا یبقى ممن ہو الیوم على ظہر الارض ” یرید بذلک انہا تخرم ذلک القرن.
اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
601 ـ حدثنا ابو الیمان، قال اخبرنا شعیب، عن الزہری، قال حدثنی سالم بن عبد اللہ بن عمر، وابو بکر بن ابی حثمۃ ان عبد اللہ بن عمر، قال صلى النبی صلى اللہ علیہ وسلم صلاۃ العشاء فی اخر حیاتہ، فلما سلم قام النبی صلى اللہ علیہ وسلم فقال ” ارایتکم لیلتکم ہذہ فان راس مایۃ لا یبقى ممن ہو الیوم على ظہر الارض احد ”. فوہل الناس فی مقالۃ رسول اللہ ـ علیہ السلام ـ الى ما یتحدثون من ہذہ الاحادیث عن مایۃ سنۃ، وانما قال النبی صلى اللہ علیہ وسلم ” لا یبقى ممن ہو الیوم على ظہر الارض ” یرید بذلک انہا تخرم ذلک القرن.
اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
´ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھ سے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور ابوبکر بن ابی حثمہ نے حدیث بیان کی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھی اپنی زندگی کے آخری زمانے میں۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اس رات کے متعلق تمہیں کچھ معلوم ہے؟ آج اس روئے زمین پر جتنے انسان زندہ ہیں۔ سو سال بعد ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سمجھنے میں غلطی کی اور مختلف باتیں کرنے لگے۔ (ابومسعود رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا کہ سو برس بعد قیامت آئے گی) حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد صرف یہ تھا کہ جو لوگ آج (اس گفتگو کے وقت) زمین پر بستے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی آج سے ایک صدی بعد باقی نہیں رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ سو برس میں یہ قرن گزر جائے گا۔
حدیث کی اردو تشریح: ⇪ [sta_anchor id=”urdtashree”]
تشریح : سب سے آخر میں انتقال کرنے والے صحابی ابوالطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ اور ان کا انتقال 110ھ میں ہوا۔ یعنی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے ٹھیک سوسال بعد۔ کچھ لوگوں نے اس حدیث کو سن کر یہ سمجھ لیا تھا کہ سوسال بعد قیامت آجائے گی۔ حدیث نبوی کا منشاءیہ نہ تھا بلکہ صرف یہ تھا کہ سوبرس گزرنے پر ایک دوسری نسل وجود میں آگئی ہوگی۔ اورموجودہ نسل ختم ہوچکی ہوگی۔ حدیث اورباب میں مطابقت ظاہر ہے۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪
Narrated `Abdullah bin `Umar: The Prophet prayed one of the `Isha’ prayer in his last days and after finishing it with Taslim, he stood up and said, "Do you realize (the importance of) this night? Nobody present on the surface of the earth tonight would be living after the completion of one hundred years from this night.” The people made a mistake in grasping the meaning of this statement of Allah’s Apostle and they indulged in those things which are said about these narrators (i.e. some said that the Day of Resurrection will be established after 100 years etc.) But the Prophet said, "Nobody present on the surface of earth tonight would be living after the completion of 100 years from this night”; he meant "When that century (people of that century) would pass away.”