کتاب: ایمان کے بیان میں
.(THE BOOK OF BELIEF (FAITH
14- بَابُ مَنْ كَرِهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ مِنَ الإِيمَانِ:
باب: جو آدمی کفر کی طرف واپسی کو آگ میں گرنے کے برابر سمجھے، تو اس کی یہ روش بھی ایمان میں داخل ہے۔
[quote arrow=”yes”]
1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر21:
حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
21 ـ حدثنا سلیمان بن حرب، قال حدثنا شعبۃ، عن قتادۃ، عن انس ـ رضى اللہ عنہ ـ عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم قال ” ثلاث من کن فیہ وجد حلاوۃ الایمان من کان اللہ ورسولہ احب الیہ مما سواہما، ومن احب عبدا لا یحبہ الا للہ، ومن یکرہ ان یعود فی الکفر بعد اذ انقذہ اللہ، کما یکرہ ان یلقى فی النار ”.
حدیث کا اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
اس حدیث کو ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، وہ قتادہ سے روایت کرتے ہیں، وہ انس رضی اللہ عنہ سے، اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص میں یہ تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کا مزہ پالے گا، ایک یہ کہ وہ شخص جسے اللہ اور اس کا رسول ان کے ماسوا سے زیادہ عزیز ہوں اور دوسرے یہ کہ جو کسی بندے سے محض اللہ ہی کے لیے محبت کرے اور تیسری بات یہ کہ جسے اللہ نے کفر سے نجات دی ہو، پھر دوبارہ کفر اختیار کرنے کو وہ ایسا برا سمجھے جیسا آگ میں گر جانے کو برا جانتا ہے۔
حدیث کی اردو تشریح: ⇪ [sta_anchor id=”urdtashree”]
حضرات نواب صدیق حسن خاں رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وہذا الحدیث بمعنی حدیث ذاق طعم الایمان من رضی باللہ ربا وبالاسلام دینا وبمحمدصلی اللہ علیہ وسلم رسولاوذلک انہ لایصح المحبۃ للہ ورسولہ حقیقۃ وحب الادمی فی اللہ ورسولہ وکراہۃ الرجوع الی الکفر لایکون الالمن قوی الایمان یقینہ واطمانت بہ نفسہ وانشرح لہ صدرہ وخالط لحمہ ودمہ وہذا ہوالذی وجد حلاوتہ والحب فی اللہ من ثمرات حب اللہ ( سراج الوھاج، ص: 36 ) یعنی یہ حدیث دوسری حدیث ذاق طعم الایمان الخ ہی کے معنی میں ہے جس میں وارد ہے کہ ایمان کا مزہ اس نے چکھ لیا جو اللہ سے ازروئے رب ہونے کے راضی ہوگیا اور یہ نعمت اسی خوش نصیب انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ جس کے ایمان نے اس کے یقین کو طاقت ور کردیا ہو اور اس سے اس کا نفس مطمئن ہوگیا اور اس کا سینہ کھل گیا اور ایمان ویقین اس کے گوشت پوست اور خون میں داخل ہوگیا۔ یہی وہ خوش نصیب ہے جس نے ایمان کی حلاوت پائی اور اللہ کے لیے اس کے نیک بندوں کی محبت اللہ ہی کی محبت کا پھل ہے۔ پھر آگے حضرت نواب صاحب مرحوم فرماتے ہیں کہ محبت دلی میلان کا نام ہے۔ کبھی یہ حسین وجمیل صورتوں کی طرف ہوتا ہے، کبھی اچھی آواز یا اچھے کھانے کی طرف، کبھی یہ لذت میلان باطنی معانی سے متعلق ہوتی ہے۔ جیسے صالحین وعلماءواہل فضل سے ان کے مراتب کمال کی بنا پر محبت رکھنا۔ کبھی محبت ایسے لوگوں سے پیدا ہوجاتی ہے جو صاحب احسان ہیں۔ جنھوں نے تکالیف اور مصائب کے وقت مدد کی ہے۔ ایسے لوگوں کی محبت بھی مستحسن ہے اور اس قسم کی جملہ خوبیاں اللہ کے نبی حضرت محمد مصطفی اکی ذات گرامی میں جمع ہیں۔ آپ کا جمال ظاہر وباطن اور آپ کے خصال حمیدہ اور فضائل اور جمیع المسلمین پر آپ کے احسانات ظاہر ہیں۔ اس لیے آپ کی محبت عین تقاضائے ایمان ہے۔
آگے حضرت نواب مرحوم نے عشق مجازی پر ایک طویل تبصرہ فرماتے ہوئے بتلایا ہے کہ ومن اعظم مکائد الشیطان مافتن بہ عشاق صور المرد والنسوان وتلک لعمراللہ فتنۃ کبریٰ وبلیۃ عظمیٰ الخ۔ یعنی شیطان کے عظیم ترجالوں میں سے ایک یہ جال ہے جس میں بہت سے عشاق مبتلا رہتے چلے آئے ہیں اور اس وقت بھی موجودہیں جولڑکوں اور عورتوں کی صورتوں پر عاشق ہوکر اپنی دنیاو آخرت تباہ کرلیتے ہیں اور قسم اللہ کی یہ بہت ہی بڑا فتنہ اور بہت ہی بڑی مصیبت ہے۔ اللہ ہر مردمسلمان کواس سے محفوظ رکھے۔ آمین
حضرت امام المفسرین ناصرالمحدثین نواب صاحب مرحوم دوسری جگہ اپنے مشہور مقالہ تحریم الخمر میں فرماتے ہیں:
“ مرض عشق کو شراب وزنا کے ساتھ مثل غنا کے ایک مناسبت خاص ہے۔ یہ مرض شہوت فرج سے پیدا ہوتا ہے۔ جس کسی مزاج پر شہوت غالب آجاتی ہے تو یہ بیماری اس شہوت پرست کو پکڑلیتی ہے جب وصال معشوق محال ہوتا ہے یامیسر نہیں آتا تو عشق سے حرکات بے عقلی ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ لہٰذا کتب دین میں عشق کی مذمت آئی ہے اور اس کا انجام شرک ٹھہرایا ہے۔ قرآن و حدیث میں کسی جگہ اس منحوس لفظ کا استعمال نہیں ہوا۔ قصہ زلیخا میں افراط محبت کو بلفظ “ شغف حب ”تعبیر کیا ہے۔ یہ حرکت زلیخا سے حالت کفر میں صادر ہوئی تھی۔ ہنود میں بھی ظہورعشق عورتوں کی طرف سے ہوتا ہے۔ بخلاف عرب کے کہ وہاں مرد عشاق زن ہوتے ہیں۔ جس طرح کہ قیس لیلیٰ پر فریفتہ تھا۔ اس سے بدتر عشق اہل فرس کا ہے کہ وہ امرد پر شیفتہ ہوتے ہیں۔ یہ ایک قسم لواط اور اغلام کی ہے۔ جس طرح کہ عورت کی طرف سے عشق کا ظہور ایک مقدمہ زنا ہے۔ جو کوئی اس مرض کا مریض ہوتا ہے وہ شرابی زانی ہو جاتا ہے۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ عشق بندے کو توحید سے روک کرگرفتار شرک و بت پر ستی کردیتا ہے۔ اس لیے کہ عاشق معشوق کا بندہ ہو جاتا ہے اس کی رضامندی کو خالق کی رضامندی پر مقدم رکھتا ہے۔ یہی اس کی صنم پر ستی ہے۔ کتاب اغاثۃ اللھفان وکتاب الدواءالکافی اور دیگر رسائل میں آفات ومصائب کو تفصیل وار لکھا ہے اللہ تعالیٰ ہرمسلمان کو اس شرک شیرین وکفر نمکین سے بچاکر اپنی محبت بخشے اور مجاز سے حقیقت کی طرف لائے۔ حدیث میں آیا ہے حبک الشی یعمی ویصم یعنی کسی چیز کی محبت تجھ کو اندھا بہرا بنادیتی ہے۔
راقم الحروف کہتا ہے کہ یہی حال مقلدین جامدین کا ہے جن کا طور طریقہ بالکل ان لوگوں کے مطابق ہے۔ جن کا حال اللہ پاک نے یوں بیان فرمایا ہے : اتخذوا احبارہم و رہبانہم اربابا من دون اللہ ( التوبہ: 31 ) انھوں نے اپنے علماءومشائخ کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا ہے۔ ائمہ مجتہدین کا احترام اپنی جگہ پر ہے مگر ان کے ہرفتویٰ ہرارشاد کو وحی آسمانی کا درجہ دینا کسی طرح بھی مناسب نہیں کہا جاسکتا۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو افراط وتفریط سے بچائے۔ آمین
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪
Narrated Anas: The Prophet said, "Whoever possesses the following three qualities will taste the sweetness of faith: 1. The one to whom Allah and His Apostle become dearer than anything else. 2. Who loves a person and he loves him only for Allah’s sake. 3. Who hates to revert to disbelief (Atheism) after Allah has brought (saved) him out from it, as he hates to be thrown in fire.”