محدثین ضعیف روایات کیوں بیان کرتے تھے؟

 

سوال: محدثینِ کرام نے کتب صحیحہ کے علاوہ دوسری کتابوں میں ضعیف اور مردود روایات کیوں لکھی ہیں؟ برائے مہربانی اس کی وضاحت فرمائیں۔ (محمد قاسم برزہ زئی)

الجواب:

حافظ ابن حجر نے فرمایا: ’’ بل اکثر المحدثین فی الاعصار الماضیۃ من سنۃ مائتین وھلم جراً اذا ساقوا الحدیث باسنادہ اعتقدوا انھم برؤا من عھدتہ ، واللہ اعلم‘‘

’’بلکہ سن دو سو ہجری سے لے کر بعد کے گذشتہ زمانوں میں محدثین جب سند کے ساتھ حدیث بیان کر دیتے تو یہ سمجھتے تھے کہ وہ اس کی مسئولیت سے بری ہوچکے ہیں ۔ واللہ اعلم‘‘

(لسان المیزان ج۳ ص۷۵ ترجمۃ سلیمان بن احمد بن ایوب الطبرانی ، دوسرا نسخہ ج۳ ص ۳۵۳ ،اللالی المصنوعی للسیوطی ج۱ ص ۱۹ ، دوسرا نسخہ ص۲۵، تذکرۃ الموضوعات للفتنی ص۷)

حافظ ابن تیمیہ نے فرمایا: لیکن (ابو نعیم الاصبہانی نے ) روایات بیان کیں جیسا کہ اُن جیسے محدثین کسی خاص موضوع کے بارے میں تمام روایتیں بیان کر دیتے تھے تاکہ (لوگوں کو) علم ہوجائے۔ اگرچہ ان میں سے بعض کے ساتھ حجت نہیں پکڑی جاتی تھی۔ (منھاج السنۃ ج۴ ص۱۵)

سخاوی نے کہا: اکثر محدثین خصوصاً طبرانی ، ابو نعیم اور ابن مندہ جب سند کے ساتھ حدیث بیان کرتے تو وہ یہ عقیدہ رکھتے یعنی سمجھتے تھے کہ وہ اس کہ مسئولیت سے بری ہو چکے ہیں۔ (فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث ج۱ ص۲۵۴، الموضوع)

ان تحقیقات سے معلوم ہوا کہ صحیحین کے علاوہ کتب ِحدیث مثلاً الادب المفرد للبخاری اور مسند احمد وغیرہما میں ضعیف حدیثیں بھی ہیں ، جنھیں سند کے ساتھ روایت کرکے محدثین کرام بری الذمہ ہو چکے ہیں ۔ یہ روایات انھوں نے بطورِ حجت و استدلال نہیں بلکہ بطور معرفت و روایت بیان کر دی تھیں لہٰذا اصولِ حدیث اور اسماء الرجال کو مدنطر رکھنے کے بغیر صحیحین کے علاوہ دیگر کتبِ حدیث کی روایات سےاستدلال یا حجت پکڑنا اور انھیں بطورِ جزم بیان کرنا جائز نہیں ہے۔

وما علینا الا البلاغ ۔ (6دسمبر2009)

(فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام ج۲ ص ۲۹۸، تالیف: حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ)

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں