مہمان :مشکل الحدیث سے کیا مراد ہے اور اس کے اسباب کیا ہیں ؟
میزبان:حدیث کی دو اقسام ہیں ایک مشکل الحدیث اور دوسری مختلف الحدیث۔
مختلف الحدیث سے مراد ایک حدیث کا دوسری حدیث کے ساتھ ظاہری تعارض ہے۔
مشکل الحدیث سے مراد ایک حدیث کا کسی دوسری چیز کے ساتھ ظاہری تعارض ہے۔
حقیقت میں تو یہ تعارض نہیں ہے لیکن لوگ سمجھتے ہیں۔
مثلاً کسی حدیث کا قرآن کی کسی آیت کے ساتھ، کسی حدیث کا عقل کے ساتھ،سائنس ،مشاہدے،اور تجربے کے ساتھ یعنی اس سے مراد حدیث کا تعارض کسی دوسری چیز کے ساتھ ہے۔جیسا کہ ابن کتیبہ نے کتاب لکھی ہے کتاب کا نام ہے -"تحویل المختلف الحدیث "اسی طرح مشکل الآثار ہے اور کئی اور کتابیں ہیں جو علماء نے لکھی ہیں اور اس کا مقصد یہ ہے کہ ان احادیث کا جوصیح معنیٰ ہے وہ لوگوں تک پہنچایا جائےتاکہ لوگوں کو یہ نہ لگے کہ اس میں تعارض ہے۔
اس کے کئی ایک اسباب ہیں۔اصل میں حدیث کے اندر یہ مشکل نہیں ہے۔
پہلا سبب:( قلت علم )یعنی جس کو کسی حدیث کے بارے میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ مشکل ہے یا عقل کے خلاف ہے۔
یا پھر یہ حدیث سائنس مشاہدے اور تجربے کے خلاف ہے۔اصل میں یہ اسکے قلت علم کی دلیل ہے۔
قلت علم ،قلت معرفت اور سوچ وسمجھ کے بیمار ہونے کی دلیل ہے کیونکہ اسکی سوچ اس حدیث کے اصل معنی تک نہیں پہنچ رہی۔اس میں علم کی کمی ہو سکتی ہےیا پھر اس بندے نے باقاعدہ طور پر علماء کے سامنے بیٹھ کر علم کو نہیں پڑھا-احادیث کو نہیں پڑھا ہو گا۔اس نے ذاتی طور پر ہی مطالعہ کیا ہو گا یا پھر کسی سے سن کر اس کو دوسروں تک منتقل کرتا ہے۔
عربی زبان سے ناواقف ہونا:
اگر ایک بندہ عربی زبان سے ناواقف ہے اسکو سرے سے عربی زبان آتی نہیں تو وہ نبی ﷺ کی احادیث پر اعتراض کرتا ہےکہ وہ عقل کے خلاف ہے سائنس کے خلاف ہے یا پھر قرآن کی آیات کے خلاف ہے اسے چاہیے کہ وہ نبیﷺ کی حدیث پر الزام لگانے سے بہتر ہے کہ اپنی عقل پر الزام لگائے۔
یعنی حدیث کو تہمت دینے کی بجائے اسے اپنی سوچ کو صیح کرنا چاہیے۔ میرے سمجھنے کے اندر بھی غلطی ہو سکتی ہے۔انسان کی سوچ ہر وقت صیح نہیں ہوسکتی۔
اسے چاہیے کہ اپنے علم کو پختہ کرے اور علماء کے پاس بیٹھ کر شرعی مسائل اور علوم کو سمجھے۔جو لوگ نبی ﷺ کی حدیث پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ عقل ، قرآن اور سائنس کے خلاف ہے۔وہ اصل میں فرد جاہل ہوتے ہیں وہ دینی علوم سے بلکل نا واقف ہوتے ہیں-یہ پہلا سبب ہے–
دوسرا سبب:مشکل الحدیث کا تعارض کرنے والے جو اسلام اور سنت کے دشمن ہیں وہ اپنی ناقص سوچ کے معروف اور علم کے مطابق شبہ گڑھتے ہیں اور شبہ گڑھنے کے بعد وہ لوگوں تک پھیلا دیتے ہیں-اور اس طرح یہ اعتراضات پھر مسلمانوں میں اٹھاتے ہیں۔اصل میں ان کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ اس شبہ کے ساتھ ہم ایک حدیث کو لے کر تمام سنت اور حدیث کو رد کر دیں یا پھر ان کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ ایک حدیث کو لے کر کوئی ایک خاص کتاب جس پرمسلمانوں کا زیادہ اعتماد ہے یعنی مشترکین اور جو اسلام اور سنت کے دشمن ہیں وہ اپنے بیان اور شبہات کو گڑھتے ہیں اور دوسروں تک پہنچاتے ہیںاور پھر دوسرے آ گے منتقل کرتے ہیں اس انداز سے ہمیں یہ لگتا ہے کہ یہ حدیث مشکل ہے مگر حقیقت میں وہ مشکل نہیں ہوتی اور نہ ہی اس میں تعارض ہوتا ہے۔
تیسری وجہ:
جو حدیث میں ہمیں لگتا ہے کہ اس میں تعارض ہےوہ اصل میں ان کا وہم ہوتا ہے اور علماء نے باقاعدہ کتابیں لکھی ہیں ان احادیث کے بارے میں کہ جن میں شبہ ہوتا ہے کہ یہ عقل تجربے اور سائنس کے خلاف ہیں۔
میزبان: مشکل الحدیث یا لوگوں کو جو وہم ہے کہ احادیث میں تعارض ہے-اس کی کچھ مثالیں دیں تاکہ لوگوں کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے؟
مہمان:
ان احادیث کے بارے میں بہت سی مثالیں ہیں جن کے بارے میں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان میں تعارض ہے- مثلاً سائنس تجربے اور عقل سے ٹکراتی ہیں-ان میں چند ایک مثالیں:
نبی ﷺ نے فرمایا کہ جب سورج غروب ہوتا ہے تو وہ عرش کے نیچے سجدہ ریز ہوتا ہے-(صحیح البخاری 3199)
مشترکین کا اعتراض ہےکہ ایک طرف تم یہ کہتے ہو کہ قرآن کے اندر ہے کہ سورج اپنے مقررہ مدار میں اس کے اندر گردش کرتا ہے (سورة یاسین :38)
ایک طرف یہ بات کہہ رہے ہو اور دوسری طرف یہ بات کہہ رہے ہو کہ وہ غروب ہونے کے بعد سجدہ کرتا ہے۔
اسی طرح پہلے بھی بات ہو چکی ہے کہ (صحیح البخاری 5782) میں ہے کہ جب تم میں سے کسی ایک کے مشروب میں مکھی گر جائے تو اسے چاہیے کہ اسکو مکمل ڈبو دے اور پھر نکال کر پھینک دے اور بیشک اس کے ایک پر کے اندر بیماری اور دوسرے کے اندر شفا ہے۔
یہ بات سائنس نے بھی ثابت کر دی کہ جب مکھی گرتی ہے تو اپنا دایاں پر گراتی ہے جس کے اندر جراثیم ہوتے ہیں اب یہ دیکھیں کہ جو دودھ بیچنے والے ہوتے ہیں وہ اپنا دودھ تو نہیں گرا سکتے اگر مکھی گر جائے اس طرح ان کا کتنا نقصان ہو گا۔
اس کا علاج بتا دیا گیا ہے کہ جب تم مکھی کو مکمل طور پر مشروب کے اندر غوطہ دو گے اور نکال کر پھینک دو گے جو جراثیم اس مکھی نے اپنے ایک پر سے اس مشروب کے اندر ڈالے ہیں مکمل ڈبونے سے دوسرے پر میں جو جراثیم ہیں وہ ان کو کنٹرول کر لیں گےاور مشروب صاف ہو جائے گا۔
اگر آپ کی طبیعت نہیں چا رہی تو نہ پیئیں اور اگر آپ استعمال کرنا چاہتے ہیں تو یہ حل بتا دیا گیا ہےاس طرح جن احادیث کے بارے میں لوگوں کو وہم ہوتا ہے کہ ان میں تعارض ہے نبیﷺ کی حدیث ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی صبح جاگتا ہے تو سات عجوہ کھجوریں کھا لیتا ہے اس دن اس کو دو چیزیں نقصان نہیں پہنچا سکتی ایک زہر اور دوسرا جادو -(صحیح مسلم:2047)
اس حدیث کے بارے میں بھی کئی لوگوں نے اعتراض کیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک بندہ کھجور کھا لے اس کے بعد اس کو کیا زہر پلا دیں تو کیا بندہ نہیں مرے گا۔اب اگر کوئی مر جائے تو کیا حدیث نعوذباللہ غلط ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تجربہ اس کے خلاف ہے جبکہ یہ توکل اور یقین کی بات ہے ایک انسان کو توکل ہی نہیں تو شفا کہاں سے آئے گی۔جیسے ایک مریض کو آپ دوا دیتے ہیں مگر وہ دوا اثر نہیں کرتی اور مریض ٹھیک نہیں ہوتا جبکہ ایک دوسرا بندہ اس دوا سے ٹھیک ہو جاتا ہے یقین اور توکل کا بھی اس پر گہرا اثر ہوتا ہے۔
اس طرح صحیح البخاری اور مسلم کے اندر حدیث ہے- نبی ﷺنے فرمایا کہ جو بخار ہے یہ جہنم کی سانس میں سے ہے اسے پانی کے ساتھ ٹھنڈا کرو -(صحیح مسلم:2209)
اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ ہم نے دیکھا ہے مثلاً جب آدمی کو بخار ہوتا ہو تو وہ نہائے تو بخار تیز ہو جاتا ہے اور کہتے ہیں کہ یہ توتجربے اور طب کے خلاف ہے اور اس میں تعارض ہے۔جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ علماء نے باقاعدہ ایسی احادیث کا جواب دیا ہے اور ان کا صیح معنیٰ بتانے کے لئے علماء نے کتابیں لکھی ہیں۔
جس پرمسلمانوں کا زیادہ اعتماد ہے جیسے بخاری یا مسلم ہے ایک حدیث کو لے کر ساری کی ساری کتاب کو رد کر دیں اور لوگوں کے اندر ایسے شکوک وشبہات پیدا کر دیں کہ لوگوں کا ان کتابوں پر سے اعتماد ختم ہو جائے۔
اکثر ہمارے مسلمان جو خود کو مسلمان مانتے ہیں وہ اصل میں مسلمان نہیں ہیں صرف نام کے مسلمان ہیں اصل میں یہ شبہات مشترکین سے لیتے ہیں اور مشترکین وہ لوگ ہیں جو کہ ہمارے علوم کو پڑھتے ہیں ہمارے علوم کو رد کرنے کے لیے۔اس میں سے کمزوریاں اور عیوب تلاش کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو ہمارے عقائد اور اسلام سےدور کیا جا سکے۔
اب ان کے پاس اور کوئی حیلا نہیں وہ یہ کرتے ہیں کہ جو ان کے سامنے کمزوریاں ہوتی ہیں وہ کمزوریاں ہوتی نہیں وہ یہ سمجھتے ہیں وہ یہ کمزوریاں لے کر عوام الناس کے سامنے پیش کرتے ہیں،میڈیا پر پھیلاتے ہیں۔اس طرح لوگوں کا احترام محبت اور اعتماد احادیث سے اٹھ جاتا ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ صحیح البخاری کے اندر یہ حدیث ہےاور صحیح البخاری قرآن کے بعد سب سے اعلیٰ کتاب ہے۔
میزبان:وہ احادیث جن میں لگتا ہے کہ ان میں تعارض ہےیہ عقل تجربے اور سائنس کے خلاف ہیں ان کے اوپر کس طرح عمل کیا جائے گا؟
مہمان:
جن احادیث کے اندر باقاعدہ لگتا ہے کہ تعارض ہےیا لوگ یہ کہتے ہیں تو علماء نے ان کے بارے میں باقاعدہ اصول تعین کیے ہیں۔کچھ اصول ایسے ہیں جو عموماً اس ٹاپک سے تعلق رکھتا ہے اور کچھ ایسے ہیں کہ جن کا تعلق تعارض اور ترجیح سے ہے–
یعنی کچھ عمومی قواعد ہیں اور کچھ تعارض کے بارے میں خاص قواعد ہیں کہ ایسی احادیث کہ جن کا معنی ہمیں سمجھ نہیں آ رہا ان کے بارے میں ہمارا تعامل کیا ہونا چاہئےاور کچھ احادیث ایسی ہیں کہ واقع ان کے اندر کوئی ایسا تعارض پایا جاتا ہے-اس کے بارے میں کیا اصول و قواعد ہیں ؟
پہلا قاعدہ:وہ احادیث جو کہ محدثین کے ہاں حجت ہیں اور قابلِ احتجاج ہیں اور صیح اسناد کے ساتھ ثابت ہیں ان کے اندر تعارض نہیں ہے۔
یہ ناممکن ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ قرآن کے بیان کرنے والے ہیں اور آپ کا تفسیر کرنا وحی کے ساتھ ہےاور یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ وحی عقل کے خلاف ہو۔لہذا وہ احادیث جو محدثین کے ہاں صیح ہیں – اس کی دو قسمیں ہیں یا تو وہ صیح ہوتی ہیں یا حسن ہوتی ہیں۔یہ دونوں قابلِ حجت ہیں محدثین کے نزدیک ان کے اندر تعارض محال ہے۔
دوسرا قاعدہ کہ کسی بھی حدیث کا دعویٰ کرنے سے پہلے اور اس کا جواب دینے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ حدیث صیح سند کے ساتھ ثابت ہے۔اگر ثابت ہےتو اس کا صیح معنیٰ بیان کیا جائے اس کا صیح حل بتایا جائے جس کے اندر یہ تعارض لگ رہا ہے۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض دفعہ تعارض نہیں ہوتا یا جو معنیٰ آپ سمجھ رہے ہیں صحابہ کرام یا نبیﷺنے وہ معنی مراد نہیں لیا یا عربی زبان میں وہ معنی نہیں ہے تو بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو عربی زبان کو اردو میں لیتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ جیسے اردو ہے ویسے ہی جیسے مرضی ہم ان کے معنی بدل لیں۔عربی سے ناواقف ہوتے ہیں تو پہلے حدیث کا ثابت ہونا معلوم ہو۔
بہت سے لوگ جن احادیث کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ عقل قرآن اور تجربے کے خلاف ہیں وہ ضعیف احادیث ہوتی ہیں وہ ثابت ہی نہیں ہوتی جب وہ صیح ثابت ہی نہیں تو پھر ان کا جواب کیوں دیں وہ قابل حجت ہی نہیں تو اس کا پابند بھی نہیں ہونا۔یہ بھی سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر حجت نہیں ہیں تو علماء اور محدثین نے انھیں کتابوں میں کیوں ذکر کیا۔اس کا پہلے بھی جواب دے چکے ہیں کہ ذکر کرنے کا مقصد ہی ان کو بیان کرنا ہےکہ یہ قابل حجت نہیں یا یہ ضعیف ہیں۔
تا کہ اس کی کمزوری کو بیان کیا جا سکے اور جن کتابوں کے اندر ضعیف احادیث ہیں انھوں نے صحیح کی شرط نہیں رکھی کہ اس کتاب کے اندر ساری احادیث صحیح ذکر کریں گے- جیسے بخاری اور مسلم نےشرط لگائی ہے۔
تو جب صاحب کتاب خود ہی اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ میری کتاب میں ساری کی ساری احادیث صیح ہیں تو آپ اس کو کیوں اس چیز کا پابند کر رہے ہیں کہ تمہاری کتاب کے اندر ضعیف احادیث کیوں ہیں یا عقل کے خلاف کیوں ہیں وہ حدیث قابل حجت نہیں ہیں تو ہمیں پابند نہ کرو ہمیں صرف اس چیز پر پابند کر رہے ہو کہ جو ہمارے نزدیک قابل حجت ہےاور قابلِ اعتبار ہے۔
اور پھر ہم جواب دیں گے اس کا اور اس انداز میں کہ جس انداز میں نبیﷺنے مراد لی ہے۔وہ مراد لیں گے کہ جب نبی ﷺ کی زبان سے الفاظ نکلے تھے تو صحابہ نے مراد لی تھی وہ نہیں جو آپ مراد لے رہے ہیں۔
ایک اور بات اور وہ یہ ہے کہ یہ دعویٰ کر کہ حدیث پر عمل کرنے سے جان چھڑانا اور حدیث سے بچنے کی کوشش کرنا کہ یہ مشکل ہے – اس میں تعارض ہے لہذا یہ قابل عمل ہی نہیں ہے یا ایک ایسی حدیث کو لے کر کہ جس میں تعارض نظر آتا ہو دوسری کو رد کر دینااور جان چھڑانا ایسے جان چھوٹے گی نہیں
قرآن کریم کے اندر اشارہ ملتا ہے کہ:
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ۚ فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَإِنَّمَا عَلَىٰ رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم پھرگئےتو ہمارے رسول کے زمہ صرف پہنچا دینا ہے ۔(سورة التغابن:12)
نبی ﷺ نے اپنا کام پورا کردیا تم تک بات پہنچا دی کوئی کمی کوتاہی نہیں کی اور صحابہ کہتے ہیں کہ جب نبی ﷺ ہمیں وعظ کرتے تو ایک ایک کلمہ کو تین تین بار دہراتے تھےاور آپ ﷺ کا اصل مقصد یہی تھا کہ حجت تمام ہو جائے۔ حجتہ الوداع کے موقع پر تمام صحابہ کو جو اس وقت حاضر ہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا –
کیا میں نے تمہیں پہنچا دیا ہے کیا میں نے حق ادا کر دیا ہے ان سب نے کہا کہ اللہ کے رسول آپ ﷺ نے حق ادا کر دیا ہے۔(صیح مسلم: 1218)
آپ ﷺ نے نصحیت بھی کی خیرخواہی بھی کی اور ابلاغ بھی کر دیا اب ایک بندہ جو یہ کہے کہ یہ عقل کے خلاف ہے تو کیا حجت چلے گی اللہ تعالٰی کے سامنے ، نہیں یہ کافی نہیں کیونکہ رسول نے حق ادا کر دیا۔
تیسرا قاعدہ :
رسول ﷺ کو اللہ تعالٰی نے جوامع الکلم دیے ہیں کہ میں بھیجا گیا ہوں جوامع الکلم کے ساتھ (صیح البخاری 2977)۔
جوامع الکلم کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ الفاظ کم ہو اور معنی کے اندر اتنی وسعت ہو کہ الفاظ کم ہوں اور معنی زیادہ ہوں۔
نبی ﷺ سے ایک بندے نے آ کر پوچھا آپ ﷺ نے فرمایا "لا تغصب” غصہ نہ کرو (صیح البخاری: 6116) اس کے اندر اتنی جامعیت ہے کہ اس کی وضاحت میں علماء کرام نے کتنی لمبی لمبی تشریح اور مسائل لکھے۔
اسی طرح ایک دو جملے آپ ﷺ اپنی زبان سے ادا کرتے تھے اور ان کے اندر وسعت ہوتی تھی- صحیح البخاری پر علماء نے بہت سے کام کیے ابھی بھی اس کے اندر کام کی ضرورت ہے۔
ایک حدیث سے علماء کرام کہیں کہیں قواعد اور مسائل اخذ کرتے ہیں – اس سے ایک اور بات میں بھی ہمارے سامنے آئی ہے کہ نبی ﷺ چونکہ جوامع الکلم دیے گئے ہیں انکو جاننے کے لیے عربی زبان کا آنا ضروری ہے –
ایک بندہ عربی زبان کو جانتا ہی نہیں ہے تو وہ کیسے یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ یہ متعارض ہیں۔اس وجہ سے آپ ﷺ کو اللہ تعالٰی نے جوامع الکلم دیے ہیں – یعنی کم الفاظ اور زیادہ معنی رکھنے والے الفاظ ان کو جاننے کے لیے شریعت اور کتاب وسنہ کی زبان کو جاننا بہت ضروری ہے۔لہذا بندہ اگر عربی زبان سے ناواقف ہے تو وہ آپ ﷺ کے زبان سے نکلے جوامع الکلم پر اعتراض نہیں کر سکتا۔
ہماری کم علمی ہوتی ہے جو ہم احادیث پر اعتراض کرتے ہیں اور اسی طرح کرتے کرتے ہم اسلام پر اعتراض کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔یہ علماء ہی بتا سکتے ہیں ہم اپنی ناقص عقل اور علم سے کوئی بھی اعتراض کرنے کے لائق نہیں۔