صحیح بخاری پر اعتراضات کاعلمی جائزہ

اعتراض 2:
موسی علیہ السلام کا ملک الموت کی پٹائی کر دینا (جلد دوم صفحہ نمبر 292 روایت نمبر 631)
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی روایت کرتے ہیں کہ ملک الموت کو موسی کے پاس بھیجا گیا جب وہ موسی علیہ السلام کے پاس آئے تو موسی علیہ السلام نے ان کو مکہ مارا تو وہ اللہ تعالی کے پاس چلے گئے اور کہنے لگے تو نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیجا ہے جو موت نہیں چاہتا ۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ تم واپس جا کر اس سے کہو کہ تم کسی بیل کی پیٹھ پر اپنا ہاتھ رکھو پس جتنے بال ان کے ہاتھ کے نیچے آجائیں گے ہر بال کے بدلے ایک سال کی عمر ملے گی موسی علیہ السلام نے کہا اللہ پھر کیا ہو گا اللہ تعالی نے فرمایا پھر موت آئے گی تو موسی نے کہا :ابھی آ جائے ۔ ابو ہریرہ نے کہا موسی علیہ السلام نے درخواست کی کہ انھیں ارض مقدس سے ایک پتھر پھینکنے کے فاصلہ تک قریب کردے ۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں اگروہاں ہوتا تو تمہیں ان کی قبر راستہ کے کنارے سے ٹیلہ کے نیچے دکھا دیتا۔
تبصرہ:
موسی علیہ السلام کا اللہ تعالی کے حکم بردار فرشتہ کے ساتھ یہ سلوک اور اس آمدورفت اور گفتگو میں موسی کی موت میں کتنی ساعتیں تاخیر ہوئی جبکہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ : ” ( ولن یؤخر االله نفسا إذا جآء أجلها )”اللہ تعالی ہرگز تاخیر نہیں کرتا جب کسی کی اجل آجائے (المنافقون :11)
الجواب:
یہ روایت صحیح بخاری میں دو مقامات پر ہے.(3407٫1339)
امام بخاری رحمہ اللہ کے علاوہ درج ذیل محدثین نے بھی اسے روایت کیا ہے.
مسلم النیسابوری (صحیح مسلم:2372 و ترقیم دارالسلام: 6148 ،6149) النسائی (سنن النسائی 4/118,119 ح2091) ابن حبان(صحیح ابن حبان، الاحسان38/8،ح 6223 پرانا نسخہ : ح 6190) ابن ابی عاصم (السنة:599) البیھقی فی الأسماء والصفات (ص492) البغوی فی شرح السنة (265/5، 266ح 1451 وقال ھذا حدیث متفق علی صحته) الطبري في التاريخ ( 434/1 دوسررا نسخہ 1/ 505) الحاکم فی المستدرک (578/2 ح4107 وقال ھذا حدیث صحیح علی شرط مسلم ولم یخرجاہ) وابو عوانة في مسنده ( التحاف المهرة 15/104)
امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے درج ذیل محدثین نے اسے روایت کیا ہے.
احمد بن حنبل (المسند: 2/269،315،533) عبدالرزاق فی المصنف ( 11/274,375ح20531,20530) ہمام بن منبہ (الصحیفة:60)
اس حدیث کو سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے درج ذیل تابعین نے بھی روایت کیا ہے:
1. ہمام بن منبہ ( البخاری: 3407مختصرا، مسلم : 2372 ترقیم دارالسلام:6249)
2. طاؤس ( البخاری: 1339،3407 ومسلم :2372 وترقیم دار السلام:6148)
3. عمار بن ابی عمار ( احمد2/533ح10917 وسندہ صحیح وصححہ الحاکم علی شرط مسلم 2/578)
اس روایت کی دوسری سند کے لئے دیکھئے مسند احمد (2/351)
معلوم ہوا کہ یہ روایت بالکل صحیح ہے ، اسے بخاری، مسلم ، ابن حبان ، حاکم اور بغوی نے صحیح قرار دیا ہے۔
سیدنا موسی علیہ السلام کے پاس ملک الموت ایسی انسانی شکل میں آئے تھے جسے موسی علیہ السلام نہیں پہچانتے تھے۔
حافظ ابن حبان فرماتے ہیں:
” وکان موسی غیورًا، فرأى في داره رجلًا لم يعرفه، فشال يده فلطمه، فأتت لطمته على فقأ عينه التي في الصورة التي يتصور بها ،لا الصورة التي خلقه الله عليها”
٫٫ اور موسی علیہ السلام غیور تھے ۔ پس انھوں نےاپنے گھر میں ایسا آدمی دیکھا جسے وہ پہچان نہ سکے تو ہاتھ بڑھا کر مکا ماردیا۔ یہ مکا اس ( فرشتے ) کی ( انسانی صورت والی ) اس آنکھ پر لگا جو اس نے اختیار کی تھی۔ جس ( اصلی) صورت پر اللہ نے اسے پیدا کیا اس پر یہ مکا نہیں لگا۔۔۔ الخ ( الاحسان ، نسخہ محققہ 14/115)
امام بغوی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر تفصیلی بحث کی ہے جس سے حافظ ابن حبان کی تائید ہوتی ہے۔ ( دیکھئے شرح السنہ 5/266,268)
اور فرمایا: یہ مفہوم ابو سلیمان الخطابی نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے تاکہ ان بدعتی اور ملحد لوگوں پر رد ہو جو اس حدیث اور اس جیسی دوسری احادیث پر طعن کرتے ہیں ، اللہ ان ( گمراہوں ) کو ھلاک کرے اور مسلمانوں کو ان کے شر سے بچائے۔(شرح السنہ 5/268)
مختصر یہ کہ موسی علیہ السلام کو پتا نہیں تھا کہ یہ فرشتہ ہے اور ان کی روح قبض کرنے کے لئے آیا ہے لہذا انھوں نے اسے غیر آدمی سمجھ کر مارا۔ جب معلوم ہوگیا کہ یہ فرشتہ ہے اور روح قبض کرنا چاھتا ہے تو لبیک کہا اور سر تسلیم خم کیا۔ پس یہ حدیث” اللہ تعالی ہرگز تاخیر نہیں کرتا جب کسی کی اجل آجائے” ( المنافقون : 11) کے خلاف نہیں ہے۔
والحمدللہ

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں