کیا قتل عثمان رضی اللہ عنہ میں صحابہ کا کردار تھا ؟
ازقلم : ابوبکر قدوسی
..(پرانی تحریر ، نشر مکرر ۔۔۔یہ مضمون گو ابوظہبی کے ایک امام مسجد کے سرقه شدہ مضمون کے جواب میں لکھا گیا تھا ، لیکن چند روز قبل مولوی اسحاق کی گفتگو سیدنا عثمان کے بارے میں ایک انتہائی بد بودار اور گھٹیا گفتگو سامنے آئی ۔۔۔اس میں بھی الزام تھا کہ صحابہ قتل عثمان میں شریک تھے )
گزشتہ ہفتے کسی ویب سائٹ سے ہمارے ابوظہبی کے امام مسجد نے ایک مضمون چرایا – اس کے آغاز اور آخر میں کچھ اضافے کیے اور پوسٹ کر دیے – مجھے میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر ابوالحسن نے وٹس اپ کیا – پڑھ کے افسوس ہوا کہ بندہ اپنے ذہنی تعصب میں کس درجہ نا انصاف ہو جاتا ہے کہ دیانت داری سے بھی محروم جاتا ہے – اس پوسٹ میں لکھنے والے کے اور چرانے والے کے "مبلغ علم ” کے جو پول کھل رہے ہیں ان سے بھی ہم آپ کو آگاہ کریں گے اور ساتھ میں صحابہ کرام کے بارے میں جس بغض کا اظہار کیا گیا ہے اس کا بھی ذکر ہو گا – لیکن باوجود اس کے کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ تحریر موصوف کی نہیں بلکہ سرقه ہے ، ہم مگر اس کو انہی کی تصور کرتے ہوے جواب دیں گے –
"مولوی ” صاحب لکھتے ہیں
پھر جب پڑھا کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت میں کچھ جید صحابہؓ نے بھی اھم رول ادا کیا جو السابقون الاولون میں سے بھی تھے ، انصار مدینہ کا بھی رول تھا یوں اس سوال کا جواب ملتا ھے کہ بلوائی اتنے دن تک بے روک وٹوک مدینے میں دندناتے کیوں رھے ـ
مولوی صاحب نے کاپی پیسٹ نہ کیا ہوتا تو آپ ایسا لکھنے سے پہلے ہزار بار سوچتے ، تحقیق کرتے ، کتابیں کھنگالتے اور تب "علم ” کے یہ ” موتی ” رولتے – انصار مدینہ کے حوالے سے امام الخلال کی مشھور زمانہ کتاب السنہ (جو کہ عقائد سلف پر بہت عمدہ کتاب ہے ،امام نسائی کے معاصر قدیم عالم ہیں ) میں امام روایت کرتے ہیں کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سیدنا عثمان کے پاس جاتے ہیں اور جا کر کے انصار کا پیغام دیتے ہیں کہ ہم دوبارہ ” انصار اللہ ” بننے کے لیے تیار ہیں بس ایک بار اجازت دیجئے "… سیدنا عثمان نے اپنا وہی جواب دیا جو حسن و حسین کے بابا علی رضی اللہ عنہ کو دیا تھا کہ قتال کسی صورت نہیں ( السنہ ، حدیث ٤٣١ )
اور اس کی سند صحیح ہے جس میں ابن سیرین اور احمد بن حنبل جیسے کبار محدثین ہیں – مولوی صاحب نظر آیا انصار کا رول ؟
اصل میں خبث باطن بندے کا اندر ہی کالا کر دیتا ہے …آپ کو چند جھوٹی راویات ملی بس آپ کا کام ہو گیا کہ "اوہ ان سے تو صحابہ بدنام ہوتے ہیں” ..بس آپ لے بھاگے –
تمام زمانے کو معلوم ہے کہ بلوائی کیوں کر مدینے میں بنا روک ٹوک پھرتے رہے ..اور وہ وجہ سیدنا عثمان کا اصرار تھا کہ
"میری ذات کی خاطر قتال کسی بھی صورت منظور نہیں – "
مولوی صاحب آپ کی عقل نارسا تو سیدنا عثمان کی جوتوں سے اڑنے والی خاک کو بھی نہیں پا سکتی ، آپ صحابہ کا مقام کیا جانیں – سنیے :
عظیم محدث اور امام محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ
"اگر سیدنا عثمان انہیں (اہل مدینہ ) قتال کا حکم دیتے تو وہ ان شا اللہ باغیوں کو ضرور مدینے سے نکال باھر کرتے – اہل مدینہ کہ جو سیدنا عثمان کے ساتھ تھے ، وہ تقریبا سات سو افراد تھے ، جن میں صحابہ اور ان کی اولادیں بھی تھیں – لیکن معامله یہ تھا کہ ان لوگوں میں عبد اللہ بن عمر بھی تھے حسن بن علی بھی تھے اور ابن زبیر بھی تھے ٠جو کہ سیدنا عثمان کو بہت عزیز تھے یعنی جان سے )
"(السنہ حدیث ٤٣٢ ، صحیح )
اور العواصم من القواصم کی تعلیقات میں محب الدین خطیب دو روایات بیان کرتے ہیں جن سے باغیوں کے چار گروہ ثابت ہوتے ہیں اور ہر گروہ چھ سو افراد پر مشتمل تھا – اب سیدنا عثمان ان دو ہزار سے زیادہ باغیوں کے مقابل اپنی ذات کے لیے سات سو صحابہ اور ان کی اولادوں کو لڑا دیتے ؟؟ اور باغی ہار بھی جاتے تو کتنا خون بہتا ؟
سو مظلوم امام نے شہادت قبول کی لیکن خون نہ بہنے دیا …ان کی اس قربانی پر یہ کہنا کہ
"انصار باغیوں سے ملے تھے ، جید صحابہ کا بھی اہم رول تھا ”
بے حمیتی کی انتہا ہے ..اور اس پر کمال یہ ہے کہ کسی ایک بھی جید صحابی کا نام پورے مضمون میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا –
مولوی صاحب آپ جھوٹے راویوں کی بات تو لے اڑے میں آپ کو ایک سچے اور عینی شاہد سے ملواتا ہوں …جی ہاں احباب آپ بھی ان کو جانتے ہوں گے آپ کی عقیدت کا رشتہ بہت ہے نا سیدنا حسن بصری سے ..لیکن سنیے جناب حسن بصری قتل عثمان کے وقت مدینے میں موجود تھے اور عینی شاہد کا تو مقدمہ قتل میں مقام ہی اور ہوتا ہے ، اس کی شہادت مقدمے کا رخ ہی بدل دیتی ہے – حسن بصری سے پوچھا گیا کہ کیا سیدنا عثمان کے قتل میں مہاجرین اور انصار کا کوئی ایک بندہ بھی شریک تھا تو فرماتے ہیں :
” لا کانو علاجا من اہل مصر "
(تاریخ خلیفہ بن خیاط ، سند صحیح ہے ، یہ امام تیسری صدی ہجری کے تھے اور امام بخاری سے متقدم تھے )
نہیں تو ، وہ تو مصر کے بدمعاش تھے –
( واضح رہے کہ مصر سے سب سے بڑا دستہ باغیوں کا آیا تھا )
اب مولوی صاحب آپ سے سوال ہے کہ ماضی میں ، پچھلے برسوں میں آپ نے اپنی بدزبانی سے اس فیس بک پر کتنے ہی اہل ایمان کا دل دکھائے رکھا جب آپ اپنی تربیت کے جوہر دکھاتے تھے اور ائمہ حدیث کے بارے بدزبانی کرتے تھے – آپ صحیح اور ثقہ رویوں کی احادیث کا انکار کرتے اور ساتھ میں بدتھذیبی بھی کرتے ..خیر بدتہذیبی آپ کی فطرت ، سوال تو یہ ہے کہ آج مطلب براری کے لیے جھوٹی روایات کو بھی کس منہ سے سینے سے لگا رہے ہیں -؟ کہ جن کے راوی واقدی جیسے کذاب اور متروک ہیں –
سنیے صحیح روایت کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ سیدنا عثمان رض کے پاس آئے اور کہا :”
امیر المومنین ، اللہ نے تو اس سے بھی کم افراد کی جماعت کی مدد کی ہے آپ ہمیں قتال کی اجازت کیوں نہیں دیتے "
امام مظلوم عثمان کا جواب وہی تھا کہ” اللہ کے واسطے میرے لیے خون نہ بہانا –
( السنہ حدیث ٤٤٣ صحیح ، طبقات ابن سعد )
احباب یہ وجہ تھی کہ جس کو مولوی صاحب نے کہا کہ مدینے میں باغی دندناتے پھر رہے تھے ، کیونکہ صحابہ اور ان کی اولاد کے ہاتھ بندھے تھے – دوسرا یہ باغی بھی تمام کے تمام کلمہ گو تھے بھلے فاسق ہی کیوں نہ تھے ، اور دوسری طرف اہل مدینہ –
اور امام عادل کہ جو سید کونین سے تربیت یافتہ بھی تھے کیسے اپنی ذات کے لیے امت کو قتل و غارت میں مبتلا کرتے -جانتے ہیں کہ امام عادل امت کے لیے باپ سے بھی شفیق ہوتا ہے ؟-
اہل مدینہ کی تعداد کی قلت کا سبب بھی بتاتا چلوں کہ حج کا موسم تھا ، صحابہ کی اکثریت حج کے لیے مکے کو گئی ہوئی تھی – خلفائے اسلام نے مدینے کو جدیدیت کا شکار نہ ہونے دیا ، نہ مدینہ کسی تجارتی شاہرہ پر واقع تھا ، اس لیے اس کی آبادی بڑھنے کی بجائے کم ہی رہی – کبار صحابہ یا تو جہاد کے لیے باہر ہوتے یا تمام عالم اسلام میں حکومتی ذمے داریوں کے سبب پھیل گئے تھے – اس وجہ سے مدینے کی آبادی ایک حد سے زیادہ نہ بڑھ سکی ، آج بھی مدینہ عالم اسلام کے بہت بڑے بڑے شہروں کی نسبت کم آبادی والا شہر ہے –
یہ تو تھا سلف صالحین اور ائمہ محدثین کا موقف ، اب ہم مولوی صاحب کی دی گئی فہرست کی طرف آتے ہیں اور ان سات افراد پر بات کرتے ہیں کہ جن کو صحابہ بنا کے پیش کیا گیا ، اور اپنی دانست میں کمال کیا گیا ..مگر افسوس جھوٹ کی بنیاد پر بنی اس عمارت کی قسمت کہ فیس بک پر ایک ہفتہ بھی چل نہیں پائی-
دوست بھی بہت سادہ ہیں ، قران میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی فاسق جھوٹ لیے آپ کے پاس آئے تو تحقیق کر لیا کریں ، مگر آپ ہیں کہ ایسے ہی پریشان ہو جاتے ہیں – مولوی صاحب نے ایک پوسٹ چوری کر کے کیا لگائی آپ احباب پریشان ہو گئے – حالانکہ یہ اللہ کی رحمت ہوئی کہ آپ کو مولوی صاحب کا معلوم ہو گیا کہ ان کے پاس کتنا علم ہے …اب جب بھی ان کی نام نہاد "متھ بریکر ” مووی دیکھیں تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ، پہلے ہنڈیا کی جانچ کیجئے کہ دال جلی ہوئی تو نہیں میرا مطلب ہے کہ "چوری” کی تو نہیں –
آگے بڑھنے سے پیشتر ایک بات سمجھ لیجئے کہ ہمارے مسلمانوں کے ہاں اعمال اور احکام میں بھی کسی ضعیف راوی کی روایت حجت اور قابل قبول نہیں چہ جائیکہ ہم صحابہ کی عظمت کے معاملے میں کذاب اور متروک راویوں کو سینے سے لگا لیں یا بے سند باتوں کو قبول کر لیں –
عظیم محدث عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں :
"اگر اسناد نہ ہوتیں ، تو جو کوئی جو کچھ چاہتا کہہ دیتا "
مولوی صاحب نے سات افراد کو صحابہ بنا کے پیش کیا ہے ، لیجئے ان کا معلوم کرتے ہیں کہ یہ کون سے صحابہ تھے جن کو مولوی جی نے "جید ” بھی کہا اور زمانے کو خبر ہی نہیں ، اور کون سے صحابہ تھے ہی نہیں – مولوی صاحب پہلے صحابی کے باب میں لکھتے ہیں :
1. فروہ بن عمرو الانصاری جو بیعت عقبہ میں بھی موجود تھے اور السابقون الاولون کے رضی اللہ عنھم میں سے ہیں ـ ﴿استیعاب ۳: ۵۲۳ ][ اسد الغابہ ۴/۷۵۳]
الاستیعاب میں امام ابن عبد البر نے ان کے قتل عثمان رضی اللہ عنہ میں شریک ہونے کا انکار کیا ہے اور ہمارے مولوی صاحب امام کی کتاب کا نام لکھ کے ہی انہیں قتل عثمان میں شامل کیے دے رہے ہیں -پہلے اس روایت کا قصہ پڑھئے :
امام مالک نے ایک حدیث سیدنا فروہ انصاری سے نقل کی لیکن فروہ رضی اللہ کا نام مکمل نہ لیا اور صرف نسبت کا ذکر کر دیا تو بعض لوگوں نے اس نام نہ لینے کو کہا کہ امام مالک نے قتل عثمان میں ملوث ہونے کے شبے میں کراہتا نام نہیں لیا اس شبے کا رد کرتے ہووے امام ابن عبد البر نے الاستیعاب میں کہا – اب اصل عبارت دیکھے :
قل ابو عمر : هذا لا یعرف ،ولا وجہ لما قالاہ فی ذلک ، و لم یکن لقائل هذا علم بمع کان من الانصاری یوم الدار
” یعنی یہ بات غیر معروف ہے اور ان دونوں نے جو الزام لگایا ہے اس کی کوئی دلیل نہیں ، اور اس قول کے قائل کو انصار کا اس فتنے میں جو طرز عمل تھا اس کی کوئی خبر نہیں –”
اندازہ کیجئے کہ امام ابن عبد البر تو ان صحابی کو قتل عثمان سے بری کہہ رہے ہیں اور ہمارے مولوی صاحب ان کی کتاب کی عبارت پیش کیے بنا ہی ان کے حوالے سی ہی صحابی رسول پر جھوٹا الزام لگا رہے ہیں – یار حد ہی ہے اگر جھوٹ ہی گھڑنا تھا تو کم از کم اس کا نام تو نہ لیتے جو صفائی پیش کر رہا ہے -اور کمال یہ ہے کہ جس کتاب کا حوالہ ہے صاحب کتاب اس میں انصار مدینہ کے طرز عمل کو محبت عثمان کی دلیل بنا کے پیش کر رہے ہیں –
یہی عبارت اسد الغابہ میں ہے اور یہی واقعہ کہ ابن اثیر بھی فروہ کی صفائی پیش کر رہے ہیں اور الٹا انہی کا نام لے کے کھلا دھوکہ دیا جا رہا ہے
………..
اگلے صاحب کی طرف آئیے ، لکھتے ہیں :
2۔محمد بن عمرو بن حزم انصاریؓ .یہ وہ صحابی رسول ﷺ ہیں جن کا نام بھی خود رسول اللہ ﷺ نے رکھا تھا .﴿استیعاب۳: ۲۳۴﴾
………..
آئیے اس امر کا جائزہ لیتے ہیں – محمد بن عمرو کی تاریخ ولادت دس ہجری ہے حوالہ ہے (طبقات ابن سعد ، الاستیعاب ،الاصابہ ابن ہجر ) طبقات ابن سعد میں انہیں تابعین میں شمار کیا گیا ، جب یہ پیدا ہوے ان کے والے نجران کے عامل تھے ، یہ پیدا ہووے تو ان کے والد نے خط لکھ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ بچے کا کیا نام رکھوں تو آپ نے ” محمد ” تجویز کیا – ان کی نبی کریم سے اس شیر خوارگی میں بھی ملاقات ثابت نہیں – اب دو چار ماہ کا بچہ مولوی صاحب کی نظر میں صحابی قرار پا گیا ، جانتے ہیں کیوں ؟ اس لیے کہ آج مولوی صاحب کو ضرورت تھی –
اب ان کے قتل عثمان میں شرکت کا فسانہ دیکھتے ہیں – مولوی صاحب نے استیعاب کا حوالہ دیا جس میں قتل عثمان میں شرکت کا ذکر ہی نہیں ہے ، صرف اتنی سی بات ہے کہ وہ سیدنا عثمان کے شدید ناقد تھے – امام کی اصل عبارت ملاحظہ کیجئے
"یقال انہ کان اشد الناس علی عثمان المحمدون ، …….. محمد بن عمر بن حزم "
اب ذرا پہلے لفظ کو دیکھئے ” یقال ” جی اس کا مطلب ہے "کہا جاتا تھا” …. جی کون کہتا تھا ، کس نے کہا ، کب کہا ، کس جگہ کہا …کچھ معلوم نہیں اور کہا بھی کیا صرف یہ کہ
” فلاں فلاں محمد نامی افراد عثمان کے شدید ترین ناقد تھے –”
یعنی ناقد ہونے کا مطلب قاتل ہونا ہو گیا
وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلی نظر آتا ہے
سو ثابت ہوا کہ موصوف صحابی ہی نہ تھے ، اور قتل عثمان کا آج تک کوئی الزام بھی ان پر نہیں ، رہی مخالفت کا دعوی اس پر بھی امام کی عبارت کہ "یقال ” یعنی کہا جاتا ہے …اب دیکھئے کیسی بد دیانتی ہے ، ہے کوئی ان سے پوچھنے والا ؟
اب آئیے تیسرے صاحب جبلہ بن عمرو ساعدی کی طرف
لکھتے ہیں:
3. ۔جبلہ بن عمرو ساعدی انصاریؓ بدری .یہ وہ صحابی تھے جنہوں نے حضرت عثمانؓ کے جنازہ کو بقیع میں دفن نہیں ہونے دیا تھا.
[تاریخ المدینۃ ۱: ۲۱۱]
تاریخ مدینہ میں عمرو بن شبہ نے بلاشبہ یہ روایت ذکر کی ہے۔ لیکن ذرا سند کی طرف نظر تو کیجیے۔ سند کا آغاز ہے ’’بعض اہل المدینۃ‘‘۔ یعنی اہل مدینہ میں سے کسی نے کہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس نے کہا ہے۔ کب کہا ہے – حیرت کی بات ہے صحابی رسول کی عزت کہاں گئی ؟
کہ اس حد تک کمزور بات کی بنا پر اتنا بڑا الزام لگا دینا قرین انصاف ہے؟
اور الزام بھی یہ کہ مظلوم امام کی میت کو بقیع میں دفن تک ہونے نہیں دیا – اب میں بتاتا ہوں کہ اس فسانے کی جڑ میں کیا ہے۔ امام ابن جریر نے واقدی کی سند سے محض یہ ذکر کیا ہے
"جب سیدنا عثمان پر اعتراضات ہوئے ان اعتراض کرنے والوں میں حضرت جبلہ بھی تھے۔”
واقدی ایک کذاب راوی شمار کیے جاتے ہیں – لیکن رعایتی نمبر دیتے ہوئے اگر اس کذاب راوی کی روایت کو مان بھی لیا جائے تو محض سیدنا عثمان رض پر کسی معاملے میں اعتراض کرنے پر ایک بدری صحابی کو قتل عثمان میں شریک ٹھہرانا کہاں کا انصاف ہے ؟-
یہ ہیں چوتھے صاحب یعنی عبداللہ بن بدیل بن ورقہ۔ ان کے بارے میں مولوی صاحب لکھتے ہیں:
4۔ عبدا للہ بن بُدیل بن ورقاء خزاعؓی .یہ فتح مکہ سے پہلے اسلام لاچکے تھے امام بخاری کے بقول یہ وہی صحابی ہیں جنہوں نے حضرت عثمان ؓ کا گلا کاٹا تھا .
﴿تاریخ الاسلام از بخاریؒ ﴿ الخلفاء﴾: ۷۶۵﴾
لیجیے شاید تاریخ اسلام وہ کتاب ہے کہ امام بخاری نے فوت ہونے کے بارہ سو برس بعد لکھ کر ابوظہبی بجھوائی ہے –
احباب ! امام بخاری نے تاریخ اسلام کے نام سے کوئی کتاب لکھی ہی نہیں – البتہ امام ذہبی نے ایک کتاب لکھی ہے جو تاریخ اسلام کے نام سے معنون ہے۔ اس سے ہمارے ان محقق صاحب کے مبلغ علم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے- ممکن ہے آپ کہیں کہ لکھنے میں غلطی ہو گئی میں نے بات ہی پکڑ لی ، لیکن ستم یہ ہے کہ آگے مزید تین بار اسی فرضی "تاریخ الاسلام للبخاری ” کا ذکر آپ دیکھیں گے ۔ اصل میں خرابی نقل کی ہے جس کے لیے درکار عقل رخصت پر تھی سو یہ موصوف نے غلطی کی –
اب تاریخ اسلام للذہبی میں امام ذہبی نے ضرور ذکر کیا ہے کہ امام بخاری نے اپنی تاریخ کی کتاب میں اس واقعہ کو روایت کیا ہے – جس کی سند میں ’’حصین بن نمیر‘‘ راوی ہے جو کہ ناصبی تھا اور یہ اصول کہ صحابہ کی عزت کے معاملے میں کسی رافضی یا ناصبی راوی کی بات قبول نہیں کی جائے گی۔ (بحوالہ تقریب التہذیب)
اور اسی حصین بن نمیر کا استاد حصین بن عبدالرحمان ہیں جن کو دماغی اختلاط ہو گیا تھا اور آپ کو یاد ہو گا کہ عمرعائشہ کی روایت میں قاری صاحب نے ہشام بن عروہ کے اختلاط کو کیسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا – لیکن اب ضرورت آن پڑی تو مختلط راوی کی کمزور روایت کو سینے سے لگا لیا اور قاتل عثمان بنا دیا۔ (حوالہ تہذیب الکمال)
ایک بات اور بھی پیش نظر رہے کہ گو امام بخاری کے حوالے سے امام ذھبی نے یہ بات ذکر کی ، لیکن امام نے اپنی تاریخ کی کتاب میں روایات کی صحت کا وہ معیار نہیں رکھا تھا جس پر بخاری لکھی گئی –
………….
۵۔ آگے آتے ہیں محمد بن ابی بکر:
۔5۔۔ محمد بن ابو بکرؓ : یہ حجۃ الوداع کے سال میں پیدا ہوئے اور امام ذہبی کے بقول انہوں نے حضرت عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کیا اور ان کی ڈاڑھی کو پکڑ کر کہا : اے یہودی ! خدا تمہیں ذلیل و رسوا کرے .﴿تاریخ الاسلام از بخاری :
………….
اندازہ کیجیے اعتراض میں ہے بقول امام ذہبی اور حوالہ ہے تاریخ اسلام للبخاری۔ اس کو کہتے ہیں:
کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا۔ قاری حنیف نے کنبہ جوڑا – خیر ہم آگے بڑھتے ہیں
صحیح مسلم کے مطابق محمد بن ابی بکر حجۃ الوداع کے سفر میں پیدا ہوئے۔ یعنی وفات نبی سے چند ماہ قبل – ان کو تین ماہ کی عمر میں صحابی بنا دیا جب کہ محدثین کے ہاں یہ صحابی شمار ہی نہیں ہوتے۔ البتہ یہ معاملہ تحقیق طلب ہے کہ یہ قتل عثمان میں شریک تھے – اوپر ذکر کردہ روایت کو اگر مان لیا جائے تو کیا وجہ ہے اس کو مکمل ذکر نہیں کیا گیا – واقعہ یوں ہے کہ جب محمد بن ابی بکر نے سیدنا عثمان کی داڑھی پکڑی تو سیدنا عثمان نے ان کو شرم دلائی کہ تمہارے والد ہوتے تو اس کو کام کو ناپسند کرتے۔ یہ سن کر محمد پیچھے ہٹے اور شرمندگی کے مارے زمین میں گڑ گئے اور بولے
’’انی تائب الی اللّٰہ‘‘
میں اللہ سے توبہ کرتا ہوں اور وہاں سے نکل گئے اور یہ ان کو صحابی بنا کر قاتل بناتے پھرتے ہیں – کاش اتنی ہمت ہوتی کہ روایت مکمل پیش کی جاتی –
……………
۶۔اب ہم چھٹے صاحب یعنی عمر بن حمق کی طرف چلتے ہیں ، مولوی صاحب لکھتے ہیں:
6:عمروبن حمقؓ : یہ بھی صحابی رسولؐ تھے جنہوں نے امام مزی کے بقول حجۃ الوداع کے موقع پر محمد رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی تھی اور امام ذہبی کے بقول یہ وہی صحابی ہیں جنہوں نے حضرت عثمانؓ پرخنجر کے پے در پے نو وار کرتے ہوئے کہا: تین خنجر خداکے لئے مار رہا ہوں اور چھ اس چیز کے بارے میں جو تیرے بارے میں میرے دل میں ہے !
﴿﴿ وثب علیہ عمرو بن الحمق وبہ عثمان رمق وطعنہ، تسع طعنات وقال : ثلاث للہ وستّ لمّا فی نفسی علیہ.﴾
﴿تہذیب الکمال۴۱:۴۰۲؛ تہذیب التہذیب ۸:۲۲ ﴾
دیکھیے کیسے فنکار ہیں کہ امام ذہبی کے بقول – حالانکہ امام نے محض روایت نقل کی ہے یہ ان کا اپنا قول یا موقف نہیں ہے روایت نقل کرنے کا مطلب یہ کب سے ہو گیا کہ امام ذھبی کے بقول ؟- یہ مولوی صاحب کی کذب بیانی ہے اور ہم ان کی ہدایت کے لیے دعاگو ہیں – عرض ہے اس روایت کا راوی محمد بن عمر الواقدی ہے جو کہ محدثین کے ہاں کذاب ہے۔ اب جھوٹے کی روایت ان کو مبارک ہم بری ہیں۔
اسی طرح اس روایت میں عبدالرحمان بن عبد ہیں جو کہ مجہول ہے یعنی اس کا اتا پتا ہی نہیں۔ اسی روایت کے تیسرے راوی عبدالرحمان بن عبدالعزیز غلطی کرنے والے راوی
ائمہ رجال کے ہاں (مخطی ) شمار ہوتے ہیں – (تقریب التہذیب)
اندازہ کیجیے کہ ایسی روایت جس میں مسلسل تین راوی غیر ثقہ ہیں اس کی بنا پر ایک صحابی پر کیسا گھنائونا الزام ہے –
………….
اب ساتویں صاحب کی طرف چلیے ، مولوی صاحب لکھتے ہیں :
7۔ عبدالرحمن بن عدیسؓ : یہ اصحاب بیعت شجرہ میں سے ہیں اور قرطبی کے بقول مصر میں حضرت عثمان ؓکے خلاف بغاوت کرنے والو ں کے لیڈر تھے یہاں تک کہ حضرت عثمانؓ کو قتل کر ڈالا .﴿استیعاب ۲: ۳۸۳؛ تاریخ الاسلام از بخاری﴿ الخلفاء﴾: ۴۵۶﴾
………………..
لیجیے ’’تاریخ الاسلام بخاری‘‘ سے نیا چاند چڑھا ہے۔ خیر تاریخ اسلام ذہبی ہی شمار کر کے ہم جواب دیتے ہیں – تاریخ اسلام واقعہ قتل عثمان سے سات سو سال بعد لکھی گئی – جب کہ ہمارے یہ حضرت دوسری صدی میں لکھی گئی بخاری کو صبح و شام دیوار پر مارتے ہیں اور ایک کذاب راوی واقدی کے حوالے سے سات سو برس بعد کی بے سروپا روایات کو سینے سے لگاتے ہیں۔
اب آتے ہیں عبدالرحمان بن عدیس کی طرف – تاریخ اسلام میں ان سے منسوب روایت کی کوئی سند ہی نہیں ہے۔ محض ایک سنی سنائی بات جو سات سو برس بعد نقل کر دی گئی اس کو بنیاد پر کسی کو کیسے قاتل کہا جا سکتا ہے –
مکرر عرض ہے کہ عبدالرحمان بن عدیس کے بارے میں مصر سے لشکر لانے کا الزام استیعاب اور تاریخ اسلام ذہبی میں بنا کسی سند کے ہے- ہاں اگر سند ہوتی ، کہا جاتا کہ فلاں نے سنا فلاں نے کہا تو کوئی بات تھی – امام ذھبی بلا شبہ رجال کے ماہر امام ہیں ، لیکن ان کی ذکر کردہ ایسی بات کب حجت ہو سکتی ہے کہ جب اس کی کوئی سند ہی ذکر نہیں کی گئی –
یہ تو تھا سات صحابہ کا قصہ ، اس کے بعد پوسٹ میں تین افراد کا مزید ذکر ہے ،لیکن ان کے بارے میں صحابی ہونے کا دعوی نہیں کیا گیا اس لیے اس طرف ہم نے نظر نہیں کی –
مولوی صاحب نے الاستیعاب کے بہت حوالے دیے ہیں لیکن یہ جانتے ہی نہیں کہ الاستیعاب کی محدثین کے ہاں کیا حیثیت ہے۔ صحابہ کے تعارف کے لحاظ سے تو یہ اچھی کتاب ہے لیکن اس کی روایات کی خامی ہے کہ یہ تاریخ دانوں پر انحصار کر کے چلتی ہے نہ کہ محدثین کے سلسلہ روایات پر۔ اس وجہ سے ہی اس میں بہت سی بے اصل باتیں موجود ہیں۔ (مقدمہ ابن صلاح، تدریب الراوی)