سیدہ عائشہ رضی اللہ عنها کادو صاع پانی سے عملاً غسل کا طریقہ بتلانا

حدیث   کا  انکار شوق  سے کیجئے لیکن …….؟؟؟

 

جی حضور   جیسے چاہے شوق پورے کیجئے کسی نے آپ کا ہاتھ تو نہیں روکا … 

 لیکن   ذرا  اس  شوق  کے پورا کرنے سے پہلے یہ بھی سوچ لیجئے کہ

 انکار حدیث کا مطلب انکار قران ہے ، انکار رسول ہے ، انکار  اسلام ہے اور انکار عقل ہے ”

اب کچھ دن بات چلتی رہے گی  ان  شا اللہ …

مدت گزری ایک منکر  صاحب سے بات چلتی رہی؛انہوں نے ایک کتابچہ  لا کر دیا جس   میں کچھ احادیث پر اعتراض تھا. ایک اعتراض نے پاؤں تھام لیے ، کچھ طبیعت الجھ سی گئی. حدیث مسلم شریف کی تھی کہ جس   میں سیدہ عائشہ  کے پاس  ایک نوجوان   آتے ہیں اور رسول کے غسل کا پوچھتے ہیں ، جب آپ بتاتی ہیں کہ آپ محض  دو صاع   پانی سے بھی غسل کر لیتے تھے تو حیرانی میں سوال ہوتا  ہے  کہ کیسے ممکن  ؟- تو سیدہ کہتی ہیں لو میں ابھی  کر رہی ہوں –قصہ مختصر انہوں نے غسل کیا  – اور  کتابچے   کے مصنف  نے لکھا  کہ اس   غسل کے بیچ  ان میں اور نوجوان میں باریک پردہ حائل تھا. میں نے  جب  اصل متن دیکھا تو "منکر ” کی کاریگری  سامنے آ گئی  جو کسی   بھی صاف  دل والے کا دماغ خراب کرنے کے لیے کافی تھی. 

وہ   نوجوان  سیدہ کے محرم تھے جس رشتے  کا حدیث میں ذکر نہ تھا مگر  جس  کے دماغ میں گند ہو وہ سوچے گا نہیں اعتراض   ضرور جڑ دے گا. 

دوسرا   حدیث میں لفظ  حجاب کا تھا، اب غسل خانے  کی   دیوار کہیں ، یا کپڑے کی اوٹ میں بنا حمام ، جو بھی کہیں ، لیکن  حجاب   کا ترجمہ پردہ ہو گا. 

اور ” منکر ” صاحب ترجمہ فرما رہے ہیں "باریک پردہ ” 

بس   جی  سمجھ گیا  کہ جو   محض اپنا نقطہ نظر ثابت کرنے کے لیے ام المومنین  کی  بھی شرم نہ  کریں ان کا اسلام  سے   کیا  علاقہ  اور   قران  سے کیا تعلق ؟

عقل منفی ہی کیوں سوچتی ہے یہ کیوں نہ سوچا کہ:

  • چلو میں دیکھوں وہ نوجوان سیدہ کا بھانجا یا  بھتیجا نہ ہو ، اگر یوں ہو تو بیٹا ہی کہا جائے  گا ناں ؟؟
  • یہ کیوں نہ سوچا کہ سیدہ غسل کرنے جا رہی تھیں ، بیٹا آیا  تو موضوع کی مطابقت سے سوال  پوچھ لیا   اور جواب میں آپ نے کہا کہ "لو میں ابھی کر کے دکھا دیتی ہوں "-
  • حدیث میں حجاب کا لفظ تھا اس کے معانی  اوٹ ، موٹا پردہ ، دیوار کیوں نہ ذہن میں آئے ؟؟ 

لیکن گند   تو دماغ میں بھرا تھا مثبت سوچ کہاں سے   آتی؟ 

 ناک کے نتھنے  میں گوبر کا ٹکڑا رکھ کے عطار کی دکان میں چلے جائیے  اور خوشبو نہ  آئے تو   کیا کیجئے ؟

یہ ایک   مثال  میں  نے   صرف  اپنے  ان   بھائیوں  کے لیے دی ہے جو ان کے دام  ہم   رنگ زمین  کا  شکار ہو جاتے ہیں  اور   اپنا  ایمان  اور   عقیدہ  کھو  بیٹھتے ہیں. 

جان   لیجئے   یہ  جو  منکرین   حدیث  ہوتے  ہیں   ان  میں  سے   اکثر  جھوٹ  بول   رہے ہوتے  ہیں اور  اگر   کوئی  جھوٹ  نہ   بھی  بول  رہا   ہو  تو  اس   کا  علم  محض   اردو  کتب  اور  ان  کے   تراجم  تک محدود  ہوتا    ہے. اور  جابجا ٹھوکریں کھاتا ہے  اور   دوسروں  کو بھی  گمراہ کرتا   ہے

 

آپ  نے   اگر  ان  کے   جھوٹ  پر  اعتماد   کر  کے  انکار حدیث   ہی  کرنا  ہے   تو  یہ  سوچ لیجئے   کہ :

  1. آپ  کی زندگی میں   نماز  سے  مستقل محرومی ہو گی؛ کہ نماز  حدیث    کو مانے بنا  آپ پڑھ ہی نہیں سکتے. 
  2. آپ کے ابّا حضور   مریں  گے تو ہم تو شاید  آ   کے  جنازہ  پڑھ لیں ، آپ   ایک  طرف ہو کے منہ  میں   گھنگنیاں   ڈال  کے   تماشا  دیکھیں  گے  کہ جنازے کا کوئی  طریقہ  قرآن میں   نہیں ملتا. 
  3. اگر  ہم کبھی آپ کی دعوت کریں  گے  تو   آپ  کے  لیے   "اصلی  کتا ” پکائیں گے  کیونکہ  کتا   ،  اور  بہت   کچھ   کے  حرام   ہونے  کا  ذکر   صرف  آپ  کو   حدیث میں ملے گا. 
  4. اور   ہاں  اگرآپ  شادی   شدہ  ہیں تو غسل  سے  بھی  جان   چھوٹ جائے گی  بیوی کے پاس جائیے  اور واپسی پر  بھلے مسجد چلے جائیں یا  تلاوت فرمائیں   آپ کا   ضمیر ہی مر  چکا ہو گا  ، کیا کر لیں گے!؟ 
  5. مچھلی  آپ پرحرام ہو گی کہ قران میں حکم  ہے  مردار   حرام ہے اور مچھلی کیا آپ  کے لیے ابو ظہبی سے ذبح ہو کے  آئے گی ؟

اور … اور …   اور بہت کچھ ایسا ہے کہ آپ کا  دماغ "روشن ” ہو جائے گا …اب   آپ  بھی  یہ   فراڈ  نہ کیجئے گا :

” نہیں جی میں احکام  کی  حدیثوں  کو مانتا   ہوں "

سوال یہ ہے کہ کس پیمانے سے ، کس اصول کے تحت ؟

اگر شرم دل کے دامن سے بالکل ہی رخصت ہو گئی ، حیاء کو دماغ  کے گھروندے سے دیس نکالا دے چکے تو اس  کے لیے ہی کہا گیا  ہے کہ ” جب حیاء  نہ ہوتو جی چاہے کرو "

تو جناب آپ   راویان  حدیث کو سانپ کہیں،  اژدھے   لکھیں ، سیدنا  ابو  ہریرہ   کو جھوٹی حدیث  لکھنے والا  کہیں اور اس   کے  بعد انہی  راویان   کی  کچھ احادیث  کو   مان  لیں  کہ   "جی یہ احکام کی حدیثیں ہیں” …تو  میں   مکرر کہوں  گا  کہ شرم   اور حیاء  کو  آپ تیاگ چکے ورنہ کچھ تو خیال ہوتا کہ ایک بندے کو میں جھوٹا کہہ رہا ہوں ، اس  کے بارے میں بد  زبانی  کر رہا ہوں اور اسی کی بیان کردہ  ایک حدیث   کو  مان رہا ہوں اور دوسری کو جھوٹ کہہ رہا ہوں. 

 

تحریر:ابوبکر قدوسی

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں