Search

عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کے حوالے سے مفتی منیر شاکر کو جواب از واصل واسطی

پشاور کے ایک خطیب منیر شاکرصاحب نے ایک کلپ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے ساتھ نکاح پرچند اعتراضات اٹھائے ہیں:

(1)پہلا اعتراض یہ ہے کہ مولوی حضرات امام بخاری الجامع الصحیح کی بنیاد پر نبی علیہ الصلاة والسلام کے گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

(2) دوسرا اعتراض یہ کیاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدہ عائشہ کے ساتھ (۹) سال کے عمر میں شادی کرنا قرانی آیت (حتی اذابلغواالنکاح) کے معارض اور مخالف ہے۔

(3) تیسرااعتراض یہ کیاہے کہ امام بخاری کی کتاب الجامع الصحیح میں دس من البغاة ہوا ہے یعنی لوگوں نے اس میں اضافے کیے ہیں۔

 گویا کتاب الجامع الصحیح محفوظ طور پر ہم تک نہیں پہنچی ہے ، یہ تینوں اعتراضات درحقیقت ان کے جہالت کا نمونہ ہے ، تعجب اس بات پر ہے کہ جہال متّبعین ایسے لوگوں کو بھی مفکّر اسلام مفسرِ قران وغیرہ کے ناموں سے پکارتے ہیں ، ہم بطورِ خلاصہ ان تین اعتراضات پر بات کرتے ہیں۔

(1)پہلے اعتراض کے جواب میں ہم پہلی بات یہ عرض کرتے ہیں ، کہ سب سے پہلے اس بات کی وضاحت ہونی چاہیے کہ آپ یعنی مفتی منیرشاکر اوراس کے ہمنوا لوگوں کے نزدیک “گستاخی اور بے عزتی” کی تعریف کیا ہے ،  اس لیے کہ آپ لوگ یعنی مفتی منیر شاکر ، مولوی عطاءاللہ بندیالوی ، مولوی خضرحیات بھکروی ، اور جناب مولوی چتروڑگڑی نے ایک بالکل نیا مسئلہ کھڑا کیاہے جو پہلے سے امت میں موجود نہیں تھا ، اگر آپ  لوگ ،، گستاخی اور بےعزتی ،، سے وہی مفہوم لیتے ہیں ، جو تمام اہل سنت کے نزدیک رائج ہے ، تو پھر ہم عرض کرنے کی جسارت کرتے ہیں ، کہ وہ توامام بخاری کی الجامع الصحیح میں موجود نہیں ہے ، ورنہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پوری امت کے محدثینِ کرام کو اس پر تنبّہ نہ ہو؟ کیا وہ گستاخی جس کے تم لوگ مدّعی ہو ، رموز واشارات میں کی گئی ہے؟   اگر نہیں تو پھر یقینا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یا تو پوری امت کے اکابر محدثین، گستاخی اوربے عزتی، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مفہوم سے جاہل ہیں ، اوریا پھر سب کے سب بزدل اوربے غیرت ہیں کہ عوام کے ڈر سے وہ امام بخاری کی کتاب کے ان احادیث پر تیشہ نہ چلاسکے جن میں نبی علیہ السلام کی گستاخی وبے عزتی ہوئی ہے ، اور یاپھر ان احادیث کا وہ مفہوم قطعا نہیں ہے ،جو تم لوگ ان احادیث سے کشید کرتے ہو ، پہلے دومفہوم تو قطعا لائقِ التفات نہیں ہیں ایک تو اس وجہ سے کہ پوری امت کے اکابر محدثین کا” گستاخی اور بےعزتئ” رسول کے مفہوم سے ناواقف ہونے کا تو مطلب یہ ہوا کہ امت ان سے ہاتھ دھو کربیٹھ جائیں ، اوردین کے اخذ کرنے کے معاملے کے لیے مفتی منیر شاکر خضرحیات ، بندیالوی اور چتروڑگڑی وغیرہ کو مرجع مانیں ،اور دین ان کے سپرد کردیں ، مگریہ کوئی آسان کام نہیں ہے ، اور اگر امت اس احتمال کو مانتی ہے تو اس وقت صرف امام بخاری کی کتاب سے نہیں بلکہ امت کے علماء کرام سے بھی فارغ ہوجائے گی ، وھذاعین المحال ، اور دوسرامفہوم اس وجہ سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ” گستاخی اوربے عزتی” موجبِ کفر ہے ،   جو علماء اور محدثین اتنے بزدل ہو کہ الجامع الصحیح کی ان احادیث کو بھی ردنہ کرسکے اور موضوع قرار نہ دے سکے جن سے نبی علیہ السلام جسی ذات کی ” گستاخی اوربے عزتی” ہو ، ان کے علم اور ایمان پرآخر بھروسا کون کرےگا ؟   ایک اور مفہوم بھی ہوسکتاہے ، لیکن اس کو ہم نے تیسرے اعتراض کے ضمن میں رد کیاہے ،اس ہمارے نزدیک تیسرا مفہوم درج بالامفاھیم میں سے معتبر ہے کہ ان احادیث میں نبی علیہ السلام کی ” گستاخی اور بےعزتی ” موجود نہیں ہے ، اس لیے ہم نے گزارش کی ہے ، کہ تم لوگ پہلے  گستاخی اور بے عزتی” کی اپنی متعین کردہ تعریف پیش کرو ، اس کے بعد پھر ہم اس حوالے سے اپنی گذارشات پیش کرینگے ان شاء اللہ تعالی ،  اسی پہلے اعتراض کے سلسلے میں دوسری بات ہم الزاما یہ عرض کرتے ہیں کہ اگر آپ لوگوں کے ذہنوں میں جو بات کسی نبی علیہ اسلام کی “گستاخی اور بے عزتی”کو مستلزم ہو ، تو اس کو رد کرنا اور اسے موضوع قراردینا ہی درست اورصحیح رویہ ہے ، تو پھر ہم کہتے ہیں کہ قران مجید کی آیات کا کیاکروگے ؟ ان کو بھی ترک کروگے؟ مثلا ہمارا سوال یہ ہے کہ کسی نبی علیہ الصلاة والسلام کو داڑھی اور سرکے بالوں سے کھینچنے کا شرعِ الہی میں کیاحکم ہے؟ اور منزل من اللہ کتاب کو پھینکنے کا شرعِ الہی میں کیاحکم ہے؟  حضرتِ موسی اور ھارون علہما السلام والصلاة کا قصہ تو تمھیں بھی یاد ہوگا نا ؟ میں نے صرف شرعِ الہی میں ان دوافعال کاحکم پوچھا ہے؟ یہ مطالبہ نہیں کیا ہے کہ اس “شرعی  حکم”کو پھر سیدنا موسی علیہ الصلاة والسلام پر منطبق بھی کرلو ، کیونکہ نفسِ مسئلہ کا حکم الگ ہوتاہے ، اور کسی شخصِ متعین پراس کو منطبق کرنا بالکل الگ مسئلہ  ہوتاہے ، انطباق کے لیے سب موجبات کاموجود ہونا اورموانع کامنتفی ہونا ضروری ہوتاہے ، دیکھیے کہ سیدنا عمربن الخطاب نے سیدناحاطب ابن ابی بلتعہ کو منافق قراردیا تھا 

(دعنی اضرب عنق ھذالمنافق)

 مگراس بات سے ان پر نبی علیہ السلام نے حکم ِ نفاق لاگو نہیں کیا ، اگرتم اس مسئلہ کا حکم بتانے سے گریز کرو ، تو یہ ناقابلِ قبول ہے ، تمھیں ضرور عقائد کے مسلمہ کتب سے یہ مسئلہ بتانا پڑے گا ، اور اگر تم اس کا حکم بتانے کے ساتھ اس کی تاویل کرو ، توہم عرض کرینگے کہ ‘ وھذہ حیدة عن المبحث ‘  اپنے اصول پر چل کر جواب دو ، اور اگر پھر بھی تم تاویل پر اصرار کرو ، توہم عرض کرینگے کہ جن متفق علیہ احادیث پر تمھیں اس قسم کے اشکالات پیداہوں تو پھر ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرو یعنی ان کی بھی تاویل کرو ، اور اگر تم اس لحاظ سے قران اور متفق علیہ احادیث میں کسی فرق کو روارکھتے ہو ، اور وہ کسی دینی یا عقلی اصول پرمبنی ہو توہمیں بھی اس سے آگاہ کرو ، تاکہ ہم بھی یاتو اسے قبول کریں ، یاپھر آپ پر اس اصول کی غلطی واضح کریں ، یہ پہلے اعتراض کے متعلق مختصرسی گذارش ہوگئی۔

(2)اب دوسرے اعتراض کو دیکھتے ہیں  مفتی منیرصاحب کا کہنا ہے کہ (۹) سال کی عمر میں نبی علیہ السلام کا سیدہ عائشہ سے شادی رچانا مندرجہ بالا آیتِ قرانی (حتی اذابلغوا النکاح) کے خلاف اورمعارض ہے  ہم نے   اس اعتراض پر بہت غور وفکر کیا ، لیکن سمجھ کچھ نہ سکے ، غالبا یہاں صورتِ حال مطلب الشعر فی بطن الشاعر والا معاملہ ہے ، آخر یہ دونوں آپس میں کس طرح متعارض اور متصادم ہیں ؟ مفتی صاحب ہماری مددفرمائے ، کیا آیتِ قرانی میں کسی خاص سن وعمر کی بات ہے ، اور  حدیثِ نکاح میں اس کے بالکل خلاف موجود ہے ، اگر ایساہے توہمیں بتایا جائے ، کیونکہ درج بالا آیتِ قرانی میں تو کسی سن وعمرکی بات موجود نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ بلوغت کے وقت کو متعین کرنے میں یہ آیت بطورِ استدلال کسی امام ِمکتب نے بھی پیش نہیں کی ہے ، کیونکہ اس میں تو صرف بالغ ہونے کی بات وارد ہوئی ہے ، جبکہ عمرِبلوغت ،  قدوقامت ، گرم وسرد علاقوں کے تفاوت ، اور ماحول کے اختلاف سے مختلف ہوجاتی ہے ، میرے قریب اس وقت کتاب الام للشافعی نہیں ہے ، کہ اس کاحوالہ پیش کرسکوں ، اس میں موجود ہے کہ یمن میں بہت ساری لڑکیوں کی ماہواری (۹) سال میں آجاتی ہے ، اور یہ تو معلوم ہے کہ حیض کا آنا لڑکیوں میں بلوغت  کی علامت ہے جیسا کہ حدیث (لایقبل اللہ صلاة حائض الابخمار) سے مفہوم ہوتاہے ، بلوغت بالسن  للغلام والانثی میں اگرچہ اہل علم کا اختلاف ہے ، مگر ادنی سن لڑکی کے لیے  احناف ، حنابلہ ، اورشوافع کے مشہور قول کے مطابق (۹) سال ہی ہے ، کیونکہ امام بیھقی نے عائشہ اماں کا قول نقل کیا ہے کہ (اذابلغت الجاریة تسع سنین فھی امرأة)اگر چہ امام بیھقی نے اس حدیث کی سند پیش نہیں کی ہے ، مگر اس سے اتنا تو بھرحال پتہ چلتاہے کہ آیمہُ مذاھب کے ھاں (۹) سال میں شادی قرانی آیت کے خلاف اور متعارض بالکل نہیں ہے ، کیونکہ سن بلوغت ہی شادی کاوقت اس درجِ بالا آیتِ قرانی میں قرار دیاگیاہے ، اصحابِ موسوعہ لکھتے ہیں کہ 

والسن الادنی للبلوغ فی الانثی تسع سنین قمریة عند الحنفیةوالشافعیة علی الاظھرعندہم وکذاالحنابلة لانہ اقلّ سن تحیض لہ المرأة (الموسوعة الکویتیہ ج۸ ص ۱۹۳)

 ممکن ہے کہ مفتی منیر صاحب نبی علیہ السلام کے لیے اس سن کی لڑکی کو درست نہ مانتے ہوں ، اگر یہ مراد ہو تو وہ پہلے اپنی اس بات کی بنیاد واضح کریں ، تاکہ اس پرآگے بات ہوسکے ، ہمیں تو قران وسنت میں کسی ایسے اصول کا پتہ نہیں چلتا ، یہ اس دوسرے اعتراض کے متعلق مختصر سی گذارش ہوگئی۔

(3)تیسرے اعتراض کے جواب میں ہم عرض کرتے ہیں ، کہ امام بخاری سے الجامع الصحیح محققین کے نزدیک بتواتر ثابت ہے ، اس لیے اس میں دس من البغاة کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پھر دس من البغاة کو ثابت کرنے کا طریقہ محض دعوی ثابت نہیں ہوتا ہے جیساکہ مفتی منیر صاحب نے اس کو سمجھا ہے ، اس کے ثبوت کے لیے چند اصول درکار ہیں: 

(۱) پہلا اصول یہ ہے کہ اس کے لیے موردِ اعتراض کتاب کے مختلف نسخے جمع کیے جائیں

(۲) پھر وہ نسخے سارے کے سارے مقروّ علی المصنف ہوں۔

(۳)پھر ان نسخوں میں تاریخ کاتعین صراحتا یا بالقرائن موجود ہوں ۔

(۴) پھر ان سب سے مقدم نسخے سے لیکر سب سے متاخر نسخے تک میں وہ روایات موجود نہ ہوں ، جن کے وضعی اور اضافی ہونے کا دعوی کیاجاتاہو۔

 اس لیے کہ جس طرح کسی مصنف کے متعلق اس بات کا احتمال ہے کہ وہ بعد میں اپنے نسخے سے احادیث کم کرتے رہے ہوں ، تو یہ بھی احتمال ہے کہ اس نے پختہ عمر میں مزید احادیث کو مزید اساتذہ سے حاصل کیاہو اور پھر ان کو اس نسخہ میں شامل کیاہو ، اس بنا پر سب نسخوں میں ان کے عدم کو ثابت کرنا ہوگا ، اگران شرائط کے بغیر کوئی شخص امام بخاری کی الجامع الصحیح کے متعلق دس من البغاة کا دعوی کرتاہے ، تو ممکن ہے جہال ان کی اس بات کو قبول کرلیں اورخوش بھی ہوں ، مگر محققین کے ہاں گوزِ شتر سے زیادہ اس کی کوئی قیمت نہیں ہے ، یہ جو ہم نے پہلے لکھا ہے کہ الجامع الصحیح امام بخاری سے بتواتر ثابت ہے تو یہ بات بہت سارے محققین نے کی ہے ، ہم اختصار کی خاطرصرف حکیم الہند کا حوالہ دینگے جنہوں نے محدثین کا قول نقل کیاہے ، وہ الحجہ میں فرماتے ہیں کہ 

"امّا الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی ان جمیع مافیہما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع وانہما متواتران الی مصنفیہما وانہ کل من یہون امرہما فہو مبتدع متّبع غیرسبیل المؤمنین” (حجة البالغہ ج۱ ص ۴۴۴)

 ممکن ہے اب مفتی منیر شاکرصاحب سمجھ گئے ہونگے کہ وہ اوران کے ہمنوا مولوی حضرات بقولِ شاہ ولی اللہ مبتدعین اورمتبع غیرسبیل المؤمنین   بھی ہیں……. والسلام

شیخ واصل واسطی

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں