[quote arrow=”yes”]
1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر377:
حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
377 ـ حدثنا علی بن عبد اللہ، قال حدثنا سفیان، قال حدثنا ابو حازم، قال سالوا سہل بن سعد من اى شىء المنبر فقال ما بقی بالناس اعلم منی ہو من اثل الغابۃ، عملہ فلان مولى فلانۃ لرسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، وقام علیہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم حین عمل، ووضع، فاستقبل القبلۃ کبر وقام الناس خلفہ، فقرا ورکع ورکع الناس خلفہ، ثم رفع راسہ، ثم رجع القہقرى، فسجد على الارض، ثم عاد الى المنبر، ثم قرا ثم رکع، ثم رفع راسہ، ثم رجع القہقرى حتى سجد بالارض، فہذا شانہ. قال ابو عبد اللہ قال علی بن عبد اللہ سالنی احمد بن حنبل ـ رحمہ اللہ ـ عن ہذا الحدیث، قال فانما اردت ان النبی صلى اللہ علیہ وسلم کان اعلى من الناس، فلا باس ان یکون الامام اعلى من الناس بہذا الحدیث. قال فقلت ان سفیان بن عیینۃ کان یسال عن ہذا کثیرا فلم تسمعہ منہ قال لا.
اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
حدیث کی اردو تشریح: ⇪ [sta_anchor id=”urdtashree”]
تشریح : غابہ مدینہ کے قریب ایک گاؤں تھا۔ جہاں جھاؤ کے درخت بہت عمدہ ہوا کرتے تھے۔ اسی سے آپ کے لیے منبر بنایا گیا تھا۔ حدیث سے ثابت ہوا کہ امام مقتدیوں سے اونچی جگہ پر کھڑا ہو سکتا ہے۔ اور یہ بھی نکلا کہ اتنا ہٹنا یا آگے بڑھنا نماز کو نہیں توڑتا۔ خطابی نے کہا کہ آپ کا منبرتین سیڑھیوں کا تھا۔ آپ دوسری سیڑھی پر کھڑے ہوں گے تواترنے چڑھنے میں صرف دوقدم ہوئے۔ امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے جب یہ حدیث علی بن مدینی سے سنی تواپنا مسلک یہی قرار دیا کہ امام مقتدیوں سے بلند کھڑا ہو تواس میں کچھ قباحت نہیں۔ سننے کی نفی سے مراد یہ کہ پوری روایت نہیں سنی۔ امام احمدنے اپنی سندسے سفیان سے یہ حدیث نقل کی ہے اس میں صرف اتنا ہی ذکر ہے کہ منبر غابہ کے جھاؤ کا بنایاگیا تھا۔
حنفیہ کے ہاں بھی اس صورت میں اقتدا صحیح ہے بشرطیکہ مقتدی اپنے امام کے رکوع اور سجدہ کو کسی ذریعہ سے جان سکے اس کے لیے اس کی بھی ضرورت نہیں کہ چھت میں کوئی سوراخ ہو۔ ( تفہیم الباری، جلددوم، ص: 77 )